دورہ صحیح البخاری از ڈاکٹر طاہرالقادری

صابرحسین

محفلین
صحیح البخاری کے حوالے سے عقائدِ اہلسنت اور فقہ حنفی سے متعلق اشکالات کا ازالہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
کا برمنگھم یو۔کے، جامع مسجد گھمگول شریف
میں دورہ صحیح البخاری شریف​


سند/ اسناد کی اہمیت

عَنْ ثابت ابنِ قَيْسٍ تَسْمَعُوْن وَيُسْمَعُ مِنْکُمْ وَيُسْمَعُ مِنَ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ مِنْکُمْ وَيُسْمَعُ مِنَ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْن مِنْکُمْ.

حضرت ثابت بن قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’تم مجھ سے سنو گے اور پھر آگے تم سے سنا جائے گا اور جنہوں نے تم سے سنی ہوں گی پھر آگے ان سے سنا جائے گا اور پھر ان سے میری حدیث سنی جائے گی جن لوگوں نے پہلے سنانے والوں سے سنا ہوگا‘‘۔

(مجمع الزوائد، جلد 1 ص 137)

اس حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روایت اور سماع حدیث کو بیان فرمایا۔ حدیث اور قرآن کے علم کو حاصل کرنا اور آگے پہنچانا اور نہ صرف پہنچانا بلکہ متصل، معتمد و معتبر اسناد کے ساتھ پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اور انبیاء ماسبق کی امت کو اسناد کے ساتھ ابلاغ دین کی نعمت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔

سند، دین ہے

امام مسلم نے امام محمد بن سیرین (امام تابعین) کا قول صحیح مسلم کے مقدمہ میں درج کیا ہے کہ

اِنَّ هٰذَا الْعِلْمَ دِيْنٌ (اَي عِلْمَ الْاِسْنَادِ)، فَانْظُرُوْا امَنْ تَاخذوا دِيْنَکُمْ.

’’بے شک یہ علم (یعنی اسناد کا علم) دین ہے، پس دیکھو کہ تم کس سے اپنے دین کو حاصل کرتے ہو‘‘

چند اہل علم جو اکابر علماء، مشائخ، آئمہ، محدثین کے حوالے اور ان پر اعتماد کرنے اور اپنے علم اور عقیدہ کی صحت کو ان کے حوالے سے قائم کرنے کو شخصیت پرستی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک دین صرف قرآن و سنت کے متن یعنی نص پر مشتمل ہے۔ ان حضرات کے اس تصور کی امام محمد بن سیرین نے نفی کی ہے۔ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

1۔ سند
2۔ متن

متن وہ حصہ حدیث ہے جس میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج ہوتا ہے۔ مثلاً

الصلاة عمادالدين

(نماز دین کا ستون ہے)

لا يومن احدکم حتي اکون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين.

یہ احادیث کے متن ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، فعل، عمل، تقریر حدیث کا متن ہیں اور سند یا اسناد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات مبارکہ میں سے ایک لفظ بھی شامل نہیں ہوتا۔ اسناد میں دین کی کوئی تعلیم نہیں ہوتی، دین کا کوئی مضمون نہیں ہوتا، احکام شریعت میں سے کوئی شے اسناد میں بیان نہیں ہوتی اور تعلیمات اسلام میں سے کوئی تعلیم اسناد کا حصہ نہیں ہوتی۔ اسناد شخصیتوں کے ناموں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان شخصیتوں کے ناموں کے سلسلہ کو امام مسلم اور امام ابن سیرین نے ’’ان ھذا العلم دین ای علم الاسناد‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

ان اللہ کے بندوں کے ناموں کی فہرست کو جاننا اور ان کے ناموں کو یاد کرنا اور ان کے ناموں کے سلسلے سے منسلک ہونا دین ہے۔ جبکہ ہمارے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق یہ ناموں کا سلسلہ جہاں ختم ہوتا ہے اور قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہ کے کلمات آتے ہیں اور بیان شروع ہوتا ہے وہاں سے دین شروع ہوتا ہے۔ امام مسلم و امام ابن سیرین نے اس تصور کی نفی کردی اور فرمایا کہ تم نے جسے دین سمجھا ہے اس تصور کا مدار ان شخصیتوں پر ہے جنہوں نے وہ تصور تم تک پہنچایا ہے، اگر وہ شخصیتیں معتبر نہ رہیں تو متن کہاں سے معتبر ہوگا۔ اگر وہ شخصیتیں خود قابل اعتماد نہ رہیں تو متن کہاں سے قابل اعتماد ہوگا۔ لہذا فرمایا بے شک متن میں تعلیم ہے مگر دین، تعلیم کے متن کا نہیں بلکہ تعلیم کی سند کا نام ہے۔

ناموں میں برکت

امام ابن ماجہ نے ایک حدیث مبارکہ اپنے مقدمہ میں درج کی ہے جس سے اسناد میں موجود ناموں کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں۔

عن عبدالسلام بن ابي صالح عن علي ابن موسي رضا عن ابيه اي موسيٰ الکاظم عن جعفر بن محمد الصادق عن ابيه اي الامام محمد الباقر عن ابيه اي علي بن حسين اي امام زين العابدين عن ابيه اي الامام حسين عن ابيه اي علي ابن ابي طالب قال قال رسول الله الايمان معرفة بالقلب وقول بلسان وعمل بالارکان.

(سنن ابن ماجه، جلد 1، ص 25، حديث 65) ( المنهاج السوي، ص 34)


اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابن ماجہ لکھتے ہیں۔

قال ابوالسلط الهروي لوقرء هذا الاسناد علي مجنون لبرء.

’’امام ابن ماجہ نے کہا کہ میرے شیخ امام ابوالسلط الھروی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی صرف سند (یعنی امام علی بن موسیٰ رضا، امام موسیٰ الکاظم، امام جعفر بن محمد الصادق، امام محمد الباقر، امام علی زین العابدین، امام حسین، سیدنا علی ابن طالب، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھ کر کسی دماغی مریض پر دم کر دیا جائے تو شفا یاب ہوجائے گا‘‘۔

اس حدیث مبارکہ کی سند میں موجود ناموں کی برکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ متن سے پہلے ناموں کا یہ سلسلہ بھی اسلام کے اندر اہمیت و عظمت کا حامل ہے۔

درج بالا گفتگو جو امام مسلم نے روایت کی اس سے ان کے عقیدہ کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم شخصیت پرست نہیں تھے مگر شخصیت پرست نہ ہو کر وہ فرماتے ہیں کہ ’’دین صرف اللہ والوں کے ناموں کا نام ہے‘‘ یعنی وہ اہل اللہ جن کے ذریعے دین پہنچا، ان کے اسناد کو دین کہتے ہیں۔

ان هذا العلم اي علم الاسناد دين.

یہ قول قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں اللہ نے فرمایا کہ۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.

(الفاتحه)


’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جس پر تو نے انعام فرمایا‘‘۔

اللہ رب العزت نے ’’الصراط المستقیم‘‘ نہ قرآن کو کہا اور نہ ہی حدیث و سنت کو کہا بلکہ ’’صراط المستقیم‘‘ نیک شخصیتوں اور اللہ والوں کے راستے کو کہا۔

’’ان ھذا العلم دین‘‘ پر اللہ کا ایک اور قول بھی سند ہے۔ جب اللہ نے اپنی توحید کو بیان کرنا چاہا تو سورۃ الاخلاص میں اپنی توحید کا اعلان فرمایا اور سورۃ اخلاص میں توحید کا مضمون ’’ھواللہ احد‘‘ سے شروع ہوتا ہے مگر سورۃ کا آغاز ’’قل‘‘ سے ہوتا ہے۔ ’’قل‘‘ میں نہ وحدانیت کا معنی ہے نہ توحید کا اور نہ ہی اس میں کوئی اثبات توحید ونفی شرک ہے۔ ’’قل‘‘ کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما دیں پس ’’قل‘‘ (آپ فرما دیں) یہ سند ہے اور اگلا حصہ ’’ھوا اللہ احد‘‘ (وہ اللہ ایک ہے) یہ متن ہے۔

گویا اللہ نے فرمادیا کہ گر توحید لینی ہے تو ’’قل‘‘ سے لو چونکہ ’’قل‘‘ میں اسناد ہے، یعنی عبارع تقدیری یہ ہے:

اَخْبَرَهُ اللّٰهُ تعاليٰ عَنْ وَحْدانيتِه وَقَالَ لَه قُلْ هُوَا اللّٰه احد.

’’اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحدانیت کی خبر دی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ آپ کہہ دیں میں ایک ہوں‘‘۔

پس وحدانیت کا مضمون آگے آیا اور ’’قل‘‘ بمنزلہ اسناد ہے۔

شخصیت پرستی میں ہم نے پرستی کا لفظ خود سے لگا دیا پرستش تو صرف اللہ کی ہے اگر پرستی کو نکال دیں تو دین سارا شخصیتوں کا نام ہے خواہ وہ شخصیتیں پیغمبر ہوں، صحابہ ہوں یا آئمہ ہوں۔ ارشاد فرمایا۔

عليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين.

’’تم پر میری اور خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے‘‘۔

(سنن ابن ماجہ جلد 1، ص 15 حدیث 42)

یہ سب شخصیتیں ہیں اس طرح ارشاد فرمایا۔

اِنِّيْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ اَمَرَيْنِ کِتَابُ اللّٰهِ وَعِطْرَتِيْ.

(سنن الترمذي، جلد 5، ص 662 ص 3786)


’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور ایک اہل بیت‘‘۔
پس اہل بیت شخصیتیں ہیں، صحابہ، خلفاء راشدین شخصیتیں ہیں۔ گویا 75 فیصد سے زائد حصہ دین کا شخصیتوں پر ہے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک کا قول

امام مسلم صحیح مسلم کے مقدمہ میں روایت کرتے ہیں۔

وَعَنْ عَبْدالله بن مبارک قَالَ الَاسْنَادُ مِنَ الديْنِ وَلَوْلَالْاِسْنَاد لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَاشَآءَ.

’’حضرت عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ اسناد دین میں سے ہیں (مِنْ بیانیہ بھی ہوتا ہے اس لئے الاسناد ھوالدین کہ اسناد ہی دین ہیں) اگر سند نہ ہوتی تو جس کے جو دل میں آتا کہتا‘‘۔

بعض لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا یہ دیکھو کہ کیا کہا، نہیں بلکہ امام مسلم اور امام عبداللہ بن مبارک امیرالمومنین الحدیث فرماتے ہیں کہ دونوں دیکھو، سب سے پہلے یہ دیکھو کہ کس نے کہا اور پھر دیکھو کیا کہا۔ ’’کیا کہا‘‘ یہ متن ہے اور ’’کس نے کہا‘‘ یہ سند ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن مبارک سے ہی روایت ہے کہ

بيننا وبين القوم القوائم يعني الاسناد

’’ہمارے اور قوم کے درمیان دین کے ستون اسناد ہیں‘‘۔

حضرت سفیان ثوری کا قول

حضرت سفیان ثوری امیرالمومنین فی الحدیث فرماتے ہیں۔

الاسناد سلاح المومنين فاذا لم يکن معه سلاح في اي شي يقاتل.

’’اسناد مومن کا اسلحہ ہے پس اگر اس کے پاس اسلحہ نہ ہو تو وہ کیسے جہاد کرے گا‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مبارک اور حضرت سفیان ثوری دونوں کو امیرالمومنین فی الحدیث کا درجہ حاصل ہے اور انہیں امام بخاری سے بہت پہلے یہ درجہ حاصل ہوا تھا۔ مصطلحات فن حدیث میں محدثین کے ہاں سب سے اونچا اور آخری درجہ امیرالمومنین فی الحدیث کا ہے اور اس سے اونچا درجہ نہیں ہے۔ امام بخاری امیرالمومنین فی الحدیث ہوئے مگر ان دونوں اصحاب سے بہت بعد میں آئے اور امام عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری دونوں اصحاب امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور امام عبداللہ بن مبارک کا فتویٰ فقہ حنفی پر ہوتا تھا۔ پس روایت حدیث، علم حدیث، علم تفسیر اور مکمل دین کا مدار اسناد پر ہے۔ سند کے بغیر کوئی چیز قبول نہ کی جاتی تھی۔

سندِ اہلِ السنۃ کی قبولیت و سندِ اہل البدعہ کی عدم قبولیت

امام مسلم نے مقدمہ صحیح مسلم میں یہ بھی بیان کیا کہ ’’جب تک فتنہ (یعنی فتنہ وضع حدیث و فتنہ بدعت) پیدا نہیں ہوا تھا وہ دور خیرالقرون کا دور تھا، صحابہ تھے، تابعین تھے اور پھر تبع تابعین تھے۔ یہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی کہ تم نے یہ بات کس سے سنی اور تمہاری سند کیا ہے کیونکہ ہر شخص صادق، عادل، ثقہ اور معتبر تھا اور ہر ایک کی بات مقبول تھی مگر جب فتنہ پیدا ہوگیا اس کے بعد اب ہم دین کی بات کسی سے قبول نہیں کرتے‘‘ آج یہ دور ہے کہ جس کو سند کے معنی کی بھی خبر نہیں وہ بھی دین منتقل کرتا ہے، دین بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو دین پر اتھارٹی سمجھتا ہے، ہر شخص مجتہد بنا بیٹھا ہے، دین کے ستون اور دیواروں کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے اگر ستون اور دیواریں گر جائیں تو چھت برقرار نہیں رہتی، میں اپنی بات کے حوالے کے طور پر ان لوگوں کا نام پیش کر رہا ہوں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے، معاشرے کے اندر نام ٹھیک لوگوں کے لئے جاتے ہیں مگر بات ان سے غلط منسوب کی جاتی ہے۔ امام مسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص بات کرتا، تفسیر کرتا، شرح کرتا، روایت کرتا تو ہم اس سے پوچھتے :

سَمُّوْا لَنَا رِجَالکم فَيُنْظَرُ اِلٰي اَهْلِ السنه فَيُوْخَذُ حَدِيْثُهُمْ. فَيُنْظَرُ اِلٰي اَهْلِ الْبِدْعَة فَلَا يُوْخَذُ حَدِيْثَهُمْ.

’’اپنے رجال (اپنی سند) بتاؤ جن سے تم نے یہ روایت لی ہے اگر اس کے رجال، اس کی سند اہل السنہ سے ہوتی پس اس کی حدیث قبول کی جاتی تھی۔ اگر اس کی سند اہل بدعت سے ہوتی تو ان کی حدیث قبول نہیں کی جاتی تھی‘‘۔

پس وہ بات پر دھیان نہ دیتے بلکہ شخصیتوں پر دھیان دیتے کہ کس سے لی ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میلاد شریف، عرس شریف، حلقات ذکر کا انعقاد، بزرگوں کے طور طریقوں کی پیروی اور وظائف کرنا پر بدعت کا فتویٰ لگانے والوں نے بدعت کا مفہوم نہیں سمجھا کیونکہ امام مسلم کے قول سے معلوم ہو رہا ہے کہ بدعت تو کوئی ایسی شے تھی جو امام مسلم سے بھی پہلے تھی اور بہت پرانی ہے۔

دورہ صحیح البخاری کا مقصد

درج بالا گفتگو دورہ صحیح البخاری کے خطبہ مع شرح کے طور پر آپ کے سامنے پیش کی۔ دورہ صحیح البخاری کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس دورہ میں امام بخاری کے عقیدہ کا مطالعہ کریں گے، امام بخاری کا نام لینا اور رعب کے لئے کثرت سے ان کا نام استعمال کرنا آسان ہے مگر امام بخاری کو جاننا مشکل ہے۔ ہم اس دورہ میں امام بخاری کو جانیں گے۔

اب دورہ صحیح البخاری کے ابتدائیہ اور افتتاحیہ میں، آپ کے سامنے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے احوال کے حوالے سے گفتگو ہوگی، اس میں بعض نکات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جن کے ذریعے عقائد اور فقہ حنفی کے حوالے سے بہت سارے مغالطے رفع کرنے کی کوشش کروں گا۔ گفتگو سے قبل یہ ذہن میں رہے کہ روایت حدیث میں امام بخاری سے بڑھ کر کوئی امام نہیں ہوا اور درایت حدیث میں امام ابوحنیفہ سے بڑھ کر کوئی امام نہیں ہوا۔

امام بخاری کا خاندانی علمی پس منظر اور امام اعظم ابوحنیفہ

امام بخاری کا اسم گرامی امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ ہے۔ 194ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے۔ 256ھ میں وفات ہوئی۔ ثمر قند کے قریب ایک گاؤں خرطنکہ میں آپ کا مزار مبارک ہے۔

امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی امام اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بھی اکابر آئمہ حدیث میں سے تھے، متعدد محدثین اور شیوخ سے علمی استفادہ کیا جن میں امام حماد بن زید، امام عبداللہ بن مبارک اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ قابل ذکر ہیں۔ امام حماد بن زید، امام اعظم ابوحنیفہ کے معروف شاگرد ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک بھی امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد اور فقہ حنفی کے امام ہیں۔ امام حماد بن زید اور امام عبداللہ بن مبارک دونوں احباب کا امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد ہونے کو امام بخاری نے خود اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح امام ابن عبدالبراندلسی اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم فضلہ‘‘ جلد دوم ص 289 پر امام علی ابن المدینی سے روایت کرتے ہیں کہ امام اعظم سے امام سفیان ثوری امیرالمومنین فی الحدیث، امام عبداللہ بن مبارک اور امام حماد بن زید نے روایت کیا۔ امام علی ابن المدینی اپنے وقت کے حدیث میں حجت اور امام تھے۔ فنِ حدیث، فن اسماء الرجال اور فن اسانید کے آئمہ محدثین ان سے تصحیح لیتے تھے اور یہ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ یہ اس علمی ماحول کا تعارف ہے جس میں امام بخاری نے پرورش پائی۔ اس طرح امام مالک، امام اعظم کے ہم مجلس تھے اور امام اعظم کے مداحین میں سے تھے۔

خواب میں بشارت اور امام بخاری کی بینائی کا لوٹ آنا

امام بخاری کے والد گرامی آپ کے بچپن میں وفات پاگئے۔ والدہ نے پرورش کی۔ امام بخاری چھوٹی عمر میں نابینا ہوگئے۔ آپ کی والدہ کے بارے میں امام حجر عسقلانی سے لے کر جملہ شارحین بخاری نے بغیر کسی اختلاف کے لکھا ہے کہ آپ ولیہ کاملہ تھیں اور صاحبہ کرامات تھیں۔ صحیح البخاری جیسی عظیم کتاب کا لکھا جانا اولیاء سے یا اولیاء کی اولاد ہی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ امام بخاری کی بینائی چلے جانے پر آپ کی والدہ نے اللہ سے دعا مانگی، بعد ازاں آپ کی والدہ ماجدہ کو خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور انہوں نے خواب میں امام بخاری کی بینائی لوٹ آنے کی بشارت دی۔ صبح بیدار ہوئیں تو امام بخاری کی آنکھیں بینا ہوچکی تھیں۔

گویا امام بخاری کی عملی زندگی کی ابتداء خواب کی برکت اور کرامت سے ہوئی۔ کرامات اور رؤیا صالحہ، اچھے نیک خوابوں کا انکار کرنا امام بخاری کی پوری زندگی کا ہی انکار ہے۔

روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صحیح البخاری کی تکمیل اور عقیدۂ امام بخاری
صحیح البخاری کے لکھنے کا سبب بھی امام بخاری کا ایک خواب ہے۔ پس جو لوگ صالحین کے خوابوں کا انکار کرتے ہیں یا مذاق اڑاتے ہیں انہیں صحیح البخاری کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہئے۔ امام بخاری کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی، اس خواب کی تعبیر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے صحیح اور سقیم احادیث کو جدا جدا کرنا تھی، پس اس خواب سے Motivate ہوکر آپ نے صحیح البخاری کی تالیف کا آغاز کر دیا۔ یہ چیز امام بخاری کا عقیدہ ظاہر ہو رہا ہے۔

صحیح البخاری کی تالیف میں 16 برس لگے۔ آپ نے عمر بھر اپنے لباس کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک سئے رکھا۔ (جس طرح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کو اپنی ٹوپی میں سی کر رکھا ہوا تھا) اس بات کی تصریح امام حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری میں کی ہے۔ اس طرح امام بخاری نے صحیح البخاری کے مسودہ کی تیاری کی ابتداء حرم مکہ میں کی اور تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر کی۔ پس قبر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو ناپسندیدہ، مکروہ یا ناجائز جاننے والوں کا کم از کم صحیح البخاری سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

امام بخاری نے خود بیان فرمایا کہ میں نے اپنے ابواب لکھنے کے بعد جب ان کو حتمی شکل دینے کی باری آئی تو قبر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ کر حتمی شکل دی یہ نہیں فرمایا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھ کر لکھا بلکہ فرمایا قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ کر لکھا۔ ابتداء کے لئے فرمایا کہ آغاز مسجد حرام سے کیا، اختتام کے لئے مسجد نبوی نہیں کہا بلکہ فرمایا قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تکمیل کی۔

امام بخاری اور کتب آئمہ احناف سے استفادہ

امام بخاری نے 10 سال کی عمر میں حدیث کی کتابت و سماع شروع کیا۔ امام حجر عسقلانی اور دیگر آئمہ نے روایت کیا کہ امام بخاری خود فرماتے ہیں جب میں سولہویں سال میں پہنچا تو اس وقت میں نے امام عبداللہ بن مبارک، امام وکیع بن جراح اور تمام اہل الرائے کی تمام کتب نہ صرف پڑھ لیں بلکہ حفظ کرلیں۔

(مقدمہ فتح الباری ص 640)

یہاں سے بھی امام بخاری کا امام اعظم سے تعلق ثابت ہوتا ہے۔ امام بخاری، امام عبداللہ بن مبارک سے نہیں ملے کیونکہ امام عبداللہ بن مبارک کی وفات پہلے ہوگئی تھی، وکیع بن جراح بھی 192ھ میں وفات پاگئے تھے۔ ان اصحاب کی کتابیں امام بخاری کے پاس کہاں سے آئیں؟ لامحالہ ان کے تلامذہ سے لی ہوں گی اور انکے تلامذہ میں امام بخاری کے والد گرامی بھی شامل تھے۔ لہذا والد گرامی کی وفات کے بعد کتب کا عظیم ذخیرہ امام بخاری کو حاصل ہوا اور انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک اور اہل الرائے کی کتب کو حفظ کیا۔ صحیح البخاری اور امام بخاری کی دیگر کتب میں جہاں اہل الرائے کا ذکر آئے گا ان سے مراد ان کے ہاں امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ہیں۔ اہل علم میں سے کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا۔ وکیع بن الجراح کے بارے خطیب بغدادی نے تاریخ البغداد میں، جامع بیان العلم میں امام ابن عبدالبر نے، امام جلال الدین سیوطی، تبییض الصحیفہ میں اور امام ابن حجر مکی، الخیرات الاحسان میں لکھتے ہیں کہ امام وکیع بن الجراح بھی امام اعظم کے مذہب پر تھے۔ امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں۔(جن کے بارے آئمہ حدیث نے متفقہ طور پر لکھا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کوئی شخض ایسا نہیں جس کو اپنے اپنے وقت کی احادیث یحییٰ بن معین سے زیادہ یاد ہوں)۔

کان يفتي بقول ابي حنيفة وکان سمع منه شيئا کثيرا.

’’امام وکیع بن الجراح مذہب ابو حنیفہ پر فتویٰ دیتے تھے اور انہوں نے بہت احادیث امام اعظم سے سماع کی تھیں‘‘۔

یاد رکھ لیں کہ اگر یہ الفاظ آئیں کہ ’’تلمذ الیہ او اخذ عنہ‘‘ تو اس سے مراد فقہ بھی ہوسکتی ہے اور حدیث بھی ہوسکتی ہے۔ اصول حدیث، علم المصطلحات کا قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اگر فقیہ لکھے اخذ عنہ تو مراد فقہ ہوگی، اگر لکھنے والا محدث ہو اور وہ لکھے ’’سمع منہ‘‘ تو اس سے مراد کبھی علم الفقہ نہیں ہوگا بلکہ علم الحدیث ہوگا۔

گویا امام بخاری نے جب صحیح البخاری لکھنا شروع کی اس سے قبل ان کے علم کی بنیادیں، علم امام ابی حنیفہ پر استوار تھیں۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا علم، امام بخاری کے خمیر میں شامل تھا۔ امام حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری ص 654 پر امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ

قال البخاري ماجلست لتحديث حتي عرفت الصحيح من السقيم وحتي نظرت في کتب اهل لراء.

’’میں اس وقت تک بطور محدث مسند پر نہیں بیٹھا جب تک میں اہل الرائے کی تمام کتب کا مطالعہ نہیں کرچکا اور جب تک میں اہل الرائے کی تمام کتب کا مطالعہ نہ کرچکا حدیث میں صحیح اور غیر صحیح کا فرق میری سمجھ میں نہ آسکا‘‘۔

گویا امام بخاری فرما رہے ہیں کہ میں نے روایت حدیث کو درایت حدیث سے پختہ کیا۔ روایت مجھے آئمہ حدیث کے طریق پر ملی اور حدیث میں صحیح اور سقیم کا فرق سمجھنے کے لئے درایت اور فہم الحدیث مجھے اہل الرائے، امام اعظم اور ان کے تلامذہ کے طریق سے ملی۔

امام بخاری کا اخذِ حدیث کے لئے لاتعداد مرتبہ کوفہ و بغداد کے سفر کی وجہ
امام بخاری نے اخذ حدیث کے لئے دنیا بھر کے سفر کئے اور سب سے زیادہ امام بخاری نے جن ملکوں کا سفر کیا ان میں مکہ مکرمہ، مدینۃ المنورہ، شام، بخارا، مروہ، بلخ، ھرات، نیشاپور، ری، بغداد، واسط، کوفہ، مصر، جزیرہ شامل ہیں۔

اس ضمن میں امام عسقلانی، امام قسطلانی اور جمیع شارحین بخاری نے امام بخاری کا قول بیان کیا ہے۔

دخلت الي الشام والمصر والجزيره مرتين والي البصره اربعة مرات واقمت بالحجاز ستة اعوام ولا احصي کم دخلت الي الکوفه والبغداد

’’میں شام، بلاد، مصر اور الجزیرہ (دجلہ اور فرات کے درمیان علاقے، اس وقت شام اور عراق اور ترک کے درمیان کے خطے اس وقت کے الجزیرہ تھے) دو دو مرتبہ گیا اور بصرہ 4 مرتبہ گیا اور حجاز (حرمین شریفین) چھ سال قیام کیا اور کوفہ اور بغداد میں اتنی مرتبہ گیا ہوں کہ وہ عدد شمار بھی نہیں کرسکتا‘‘۔

کوفہ اور بغداد امام اعظم کا شہر ہے، مکہ و مدینہ سے بھی زیادہ امام بخاری کوفہ و بغداد گئے۔ ان میں سے ایک امام اعظم کا وطن ہے اور دوسرا آپ کا مسکن ہے اور ان دو شہروں میں جانے کی وجہ یہ تھی کہ حدیث کا سب سے زیادہ ذخیرہ ان دو شہروں میں تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتداء مکہ ومدینہ سے ہوئی تو علم حدیث کا زیادہ ذخیرہ کوفہ و بغداد میں کیوں ہے؟ اس کا سبب یہ تھا کہ کوفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دارالخلافہ بن گیا تھا اور آپ کوفہ منتقل ہوگئے تھے اور ان سے قبل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کوفہ کو چھاؤنی کا درجہ دے کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور بے شمار صحابہ کرام کو بھیج کر بہت بڑا مرکز اسلام بنا دیا تھا اور 1500 صحابہ کوفہ میں مقیم ہوگئے تھے۔ آئمہ حدیث فرماتے ہیں کہ میں کوفہ گیا تو دیکھا کہ 4000 ہزار تابعین علم حدیث کو بیان کرنے میں مصروف تھے۔ گویا اس وقت بلاد اسلامیہ میں علم کا سب سے بڑا مرکز کوفہ بغداد بن چکا تھا اور یہ بات کتنی تعجب پر مبنی ہوگی کہ امام بخاری بخارا سے کوفہ میں آ کر علم حدیث لیں اور امام اعظم جن کی ساری زندگی کوفہ و بغداد علم کے منبع میں گزری ان کے بارے میں تصور یہ ہو کہ ان کے پاس علم حدیث کا ذخیرہ کم تھا یہ بات عقل، قیاس اور کسی بھی اعتبار سے دانش کے پیمانے پر درست ثابت نہیں ہوتی۔

صحیح البخاری میں احادیث کی تعداد

صحیح البخاری کے مطبوعہ کتب میں احادیث کی تعداد شیخ فواد عبدالباقی کی تحقیق کے مطابق 7563 ہے۔ مقدمہ ابن الصلاح میں ہے کہ صحیح البخاری میں موجود احادیث کی تعداد 7275 ہے یہ تعداد مکررات سمیت ہے۔ صحیح البخاری میں بعض احادیث 20 مرتبہ، 15 مرتبہ اور 10 مرتبہ، 7مرتبہ اور 5 مرتبہ بھی آئی ہیں۔ تکرار کی وجہ سے تعداد یہ ہے۔ امام عسقلانی نے تمام مکررات (تکرار) اور اقسام حدیث معلقات، متابعات، مراسیل، مقطوعات، موقوفات کو شامل کرکے صحیح البخاری کی احادیث کی تعداد 9080 بیان کی ہے۔ شمار کرنے کے طریقے مختلف ہونے کی وجہ سے تعداد میں فرق ہے۔ اگر احادیث میں سے مکررات کو نکال دیا جائے تو کل تعدادِ احادیثِ بخاری 2513 ہے۔

صحیح البخاری کے روات اور آئمہ حنفی

پوری دنیا میں صحیح البخاری کا جو نسخہ پڑھا جاتا ہے وہ نسخہ امام بخاری کے شاگرد امام محمد بن یوسف اَلْفَرَبْرِيْ سے روایت ہے۔ امام فَرَبْرِيْ کے قول کے مطابق 90 ہزار افراد نے امام بخاری سے صحیح البخاری کا سماع کیا۔ 90 ہزار افراد میں سے صحیح البخاری کی روایت آپ کے 5 شاگرد آئمہ سے آگے چلی، ان شاگرد آئمہ میں امام ابو طلحہ منصور البزدوی، امام حماد بن شاکر، امام ابراہیم بن معقل بن الحجاج النسفی، امام القاضی حسین بن اسماعیل اور امام محمد بن یوسف الفربری شامل ہیں۔ ان پانچ تلامذہ میں پہلے دو امام ابوطلحہ منصور 329ھ اور امام حماد بن شاکر حنفی المذہب ہیں گویا صحیح البخاری کے دنیا میں فروغ میں حنفی آئمہ کا عمل دخل ہے۔ امام فَرَبْرِيْ سے 12 اشخاص نے روایت لی اور ان 12 افراد سے صحیح البخاری کی روایت کا سلسلہ مختلف ممالک میں آگے بڑھا۔

کتابتِ احادیث بارے ایک مغالطے کا ازالہ

انکار حدیث اور انکار حجیت حدیث کرنے والے احباب یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں 200 سال بعد پہلی کتاب صحیح البخاری سامنے آئی، یہ ایک مغالطہ ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حدیث میں صحیح البخاری پہلی کتاب نہیں ہے۔ صحیح البخاری سے قبل تقریباً 100 کتب حدیث مدون ہوچکی تھیں اور یہ کتب امام بخاری کے شیوخ نے لکھیں۔ امام بخاری سے قبل امام اعظم ابوحنیفہ کے 150 تلامذہ آئمہ حدیث کے مقام پر فائز ہوچکے تھے۔ امام جلال الدین سیوطی تبییض الصحیفہ میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے علم حدیث مدون کرنے والے امام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔

اول من دوّن العلم ای علم الحدیث ھو امام ابوحنیفہ اسی طرح امام مالک، الموطا لکھ چکے تھے، امام شافعی اپنی مسند لکھ چکے تھے، امام احمد بن حنبل 40 ہزار احادیث کا ذخیرہ مسند احمد بن حنبل تیار کر چکے تھے، امام عبدالرزاق، مصنف عبدالرزاق لکھ چکے تھے۔ امام دارمی، مسند دارمی لکھ چکے تھے، امام زہری، امام شعبی، امام عبداللہ بن مبارک، سفیان ثوری، وکیع بن الجراح اور دیگر آئمہ حدیث اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے شہر میں کتب حدیث مدون کرچکے تھے اور یہ سب جن کا شمار امام بخاری کے شیوخ میں ہوتا ہے طبقہ صوفیا سے تعلق رکھتے تھے۔ امام بخاری کو ماننے والے اور امام بخاری کا کثرت سے نام لینے والے اگر تصوف اور آئمہ تصوف کا انکار کر دیں تو یہ بات بڑی عجیب اور متضاد لگتی ہے کہ جن پر امام بخاری نے اعتماد کیا اور جن کو امام بخاری نے امیرالمومنین فی الحدیث سمجھا وہ تو امام فی التصوف بھی ہیں اور انہی کی کتب تصوف میں امہات الکتب ہیں جن پر بعد کی کتابوں کا مدار ہے۔

امام بخاری کا مذہب فقہی

امام بخاری کے فقہی مذہب پر تین اقوال ہیں۔

1۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ شافعی المذہب تھے۔ امام تاج الدین السبکی نے انہیں شافعی المذہب کہا اور ان کا نام طبقات الشافعیہ میں لکھا ہے۔

2۔ امام ابن القیم نے اعلام الموقعین میں اور دیگر آئمہ نے امام بخاری کو حنبلی المذہب بھی لکھا ہے۔

3۔ شیخ طاہر الجزائری، امام ابن الحجر مکی اور دیگر آئمہ نے امام بخاری کو مجتہد مطلق کہا ہے یعنی مقلد شافعی یا مقلد حنبلی نہ تھے بلکہ خود مستقل مجتہد تھے۔
میں نے ان تمام اقوال کو بھی دیکھا اور صحیح البخاری کو بھی متعدد مرتبہ از اول تا آخر حرف بحرف پڑھا اور اس کے تراجم الابواب، شروح اور ابحاث بھی دیکھیں اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر تو وہ خود مجتہد مطلق تھے تو ان کے مذہب فقہی کو آگے مقلدین نہیں مل سکے اس لئے ان کا مذہب رواج نہیں پاسکا اور دیگر مذاہب کی طرح مقبول نہیں ہوا اور مذہب بخاری کی صورت میں سامنے نہ آسکا۔ جیسے مذہب ظاہری، امام داؤد ظاہری کا تھا، کچھ عرصہ کے لئے چلا اور پھر متروک ہوگیا مگر امام بخاری کا مذہب چلا نہیں نیز اس کے تراجم الابواب جس طرح سے فقہ بخاری کے اندر درج ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکمل مذہب بننے کے قابل نہ تھا۔ لہذا درست ہے کہ وہ امیرالمومنین فی الحدیث ہی رہیں۔ بعض لوگ فقہ بھی ان سے لینا چاہتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ وہ درجہ اجتہاد پر تھے، مجتہد تھے اگرچہ مستقل نہ ہوں اور رجحان زیادہ تر مذہب شافعیہ اور حنبلیہ کی طرف تھا اور بہت سارے مسائل میں انہوں نے نام لئے بغیر امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب کی بھی تائید کی ہے۔ گویا وہ صاحب المذہب نہ تھے ان کا رجحان شافعیت اور حنبلیت کی طرف تھا، نیز صاحب اجتہاد تھے۔

صحیح البخاری کے تراجم الابواب کی حقیقت

بخاری شریف کے اندر دو چیزیں ملیں گی۔ ایک احادیث اور دوسرا تراجم الابواب۔ ہر مقام پر کتاب کے عنوان کے تحت کئی ابواب قائم کئے اور باب کے عنوان کے ساتھ کبھی آیات کریمہ کے جز، کہیں صحابہ یا تابعین کے اقوال اور کہیں سند کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا ایک جز بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد آپ روایت حدیث کی طرف آتے ہیں۔ پس احادیث لانے سے قبل جو آیت یا حدیث، یا قول صحابہ نقل کرتے ہیں وہ امام بخاری کا فقہی مذہب اور فقہی نقطہ نظر ہوتا ہے۔

حدیث الباب اور ترجمۃ الباب میں فرق

حدیث الباب اور ترجمۃ الباب میں فرق ہے۔ جن لوگوں نے یہ فرق ملحوظ نہ رکھا وہ ٹھوکر کھاگئے، انہیں مغالطہ لگا۔

حدیث الباب سے مراد اس باب میں مذکور احادیثِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی وہ احادیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین و اعمال و تقاریر ہیں۔
ترجمۃ الباب، حدیث نبوی نہیں بلکہ امام بخاری کا فقہی مذہب ہے اور ان کے فقہی رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دراصل فقہ البخاری ہے۔

صحیح البخاری درجہ صحت میں سب سے بلند

صحیح البخاری میں جو احادیث بیان ہوئی ہیں وہ اصح ہیں اورصحت میں اعلیٰ درجہ کی ہیں اور کل کتب حدیث میں باعتبار صحت سب سے بلند رتبہ صحیح البخاری کی احادیث کا ہے اور اس صحت سے مراد متن حدیث نہیں بلکہ اسناد حدیث ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے مراد اگر متن لیا جائے تو وہ تو کبھی بھی کمزور نہیں ہوسکتیں۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کبھی کمزور ہوسکتی ہیں اور نہ کبھی ضعیف جب اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیا تو وہ غلط ہو ہی نہیں سکتی۔

جب ہم احادیث میں صحیح، ضعیف، غیر صحیح کی بات کرتے ہیں تو اس کا اشارہ متن حدیث کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اس کا اشارہ سند حدیث کی طرف ہوتا ہے۔ جب ہم کسی حدیث کو صحیح کا درجہ دیتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور شرائط صحت پر پورا اترتی ہے اور جب ہم کسی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں تو اس سے مراد اس کی سند ہے۔ پس صحیح البخاری کے اسناد درجہ صحت میں سب سے اونچے ہیں۔ بعض نے صحیح مسلم کو صحیح البخاری سے اونچا درجہ دیا ہے اور اس پر اہل علم کی ابحاث موجود ہیں۔ اس حوالے سے بھی جان لیں کہ حق یہ ہے کہ نظم و ترتیب میں صحیح مسلم، صحیح البخاری سے اعلیٰ ہے مثلاً امام بخاری اگر ایک حدیث کو لیتے ہیں تو اس کو 20 مختلف ابواب میں ذکر کرتے ہیں کیونکہ وہ ہر جگہ احکام ثابت کرنا چاہتے ہیں، امام مسلم مختلف طرف سے آنے والی ایک ہی حدیث کو ایک جگہ پر یکجا کر دیتے ہیں۔ مسلم شریف اخذ کرنے کے لئے سہل ہے اور نظم و ترتیب میں اعلیٰ ہے جبکہ صحیح البخاری درجہ صحت میں اعلیٰ ہے۔

صرف صحیح البخاری کی احادیث ہی کو صحیح سمجھنا علم الحدیث سے عدمِ واقفیت ہے

پس اسی ضمن میں یہ چیز بھی ذہن نشین رہے کہ صحیح البخاری درجہ صحت میں سب سے اعلیٰ ہے، اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ جو کچھ بخاری میں نہیں وہ صحیح نہیں۔ جو یہ سمجھتا ہے اس کا دماغ صحیح نہیں۔ اگر کوئی ہر بات پر بخاری کا حوالہ طلب کرے اور دیگر حوالوں کو ماننے سے انکار کر دے وہ جاہل ہے اس کے جاہل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ صرف بخاری ہی کے حوالے کو درست تسلیم کرتا ہے اور اصول حدیث کے متعلق کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ پس یہ سمجھنا کہ جو حدیث بخاری میں نہیں ہے وہ حدیث صحیح نہیں ہے، یہ ساری بات ہی صحیح نہیں۔ بخاری سے باہر بھی صحیح احادیث موجود ہیں اور بخاری سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ امام ابن حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری ص 254 میں امام بخاری کا قول نقل کیا کہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں اور دو لاکھ غیر صحیح حدیث یاد ہیں۔

غیر صحیح سے مراد موضوع احادیث نہیں ہے بلکہ غیر صحیح سے مراد یہ ہے کہ جو انہوں نے بخاری شریف کے لئے معیار مقرر کیا اس پر پوری نہیں اترتیں، دوسروں کے نزدیک وہ بھی صحیح ہوسکتی ہیں۔ گویا بخاری شریف میں صرف 2513 صحیح احادیث مذکور ہیں بقول امام بخاری ایک لاکھ صحیح احادیث مجھے یاد ہیں تو باقی صحیح احادیث کہاں گئیں، لازمی بات ہے کہ وہ احادیث دیگر آئمہ نے اپنی اپنی کتب میں درج کی ہیں۔ پس صحیح البخاری کے علاوہ کسی دوسری حدیث کو صحیح نہ ماننا یہ دراصل امام بخاری کو رد کرنا ہے۔

نیز یہ بھی کہ امام بخاری کو صرف ایک لاکھ احادیث صحیحہ یاد تھیں تو کیا کل احادیث صحیحہ صرف وہی ہیں جو امام بخاری کو یاد تھیں، نہ جانے ان کے شیوخ و اساتذہ کے پاس کتنی احادیث صحیحہ تھیں اور انہیں یاد تھیں۔ امام احمد بن حنبل جو امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں کہ مجھے 7 لاکھ احادیث یاد ہیں تو کیا انہیں یہ ساری غیر صحیح احادیث یاد تھیں۔ حالانکہ امام بخاری خود 8 مرتبہ بغداد شریف میں امام احمد بن حنبل کے پاس گئے، ان کی خدمت کرتے، ان کے گھر رہتے اور ان سے سماع کرتے رہے۔

اجتہاد امام بخاری

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ترجمۃ الباب اصل میں اجتہاد بخاری ہے جس بناء پر انہیں مجتہد کہتے ہیں۔ لہذا ترجمۃ الباب سے اختلاف کرسکتے ہیں کیونکہ وہ حدیث رسول نہیں ہے۔ اس سے امام مسلم، امام ترمذی اور ان کے شاگردوں نے بھی اختلاف کیا۔ ترجمۃ الباب کو فقہ البخاری بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کی فقہ کو ماننے والے اگر فقہ امام اعظم سے اختلاف کرتے ہیں تو فقہ بخاری سے اختلاف کیوں نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ہاں یہ زمانہ آگیا ہے کہ علم رخصت ہوگیا ہے، علم کم ہے اور غصہ زیادہ ہے۔ علم کی کمی ہم غصہ، جوش و خروش، فتویٰ اور تیز زبان سے پوری کرتے ہیں۔ اگر غصہ نکال کر علم سے بات کی جائے تو بات بگڑتی نہیں بلکہ سنور جاتی ہے۔

علمی و فقہی اختلاف گستاخی نہیں

تمام آئمہ نے فقہ، احادیث سے ہی لی ہیں تو اگر ان آئمہ کی فقہ سے اختلاف جائز ہے تو امام بخاری کے ترجمۃ الباب جو کہ اصل میں فقہ البخاری ہے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تو اس سے اختلاف کیونکر جائز نہیں ہوسکتا اور یہ اختلاف گستاخی نہیں ہے۔ ہمارے احباب نے گستاخی کا بھی وسیع مفہوم گھڑ رکھا ہے۔ اگر گستاخی کے مفہوم کو اتنی وسعت دے دی جاتی تو علم 14 صدیوں میں اتنا آگے نہ چل سکتا۔ امام اعظم کے پوتے شاگرد امام شافعی ہیں، اگر امام شافعی امام اعظم کی فقہ سے اختلاف کو گستاخی سمجھتے تو مذہب شافعی کبھی وجود میں نہ آتا کہ استاد صاحب نے جب فرما دیا تو وہی حرف آخر ہے۔ اس طرح امام شافعی، امام مالک کے شاگرد ہیں، اگر اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی تو مذہب مالکیہ کی موجودگی میں مذہب شافعی پیدا ہی نہ ہوتا۔ اگر علمی اختلاف گستاخی ہوتا تو امام احمد بن حنبل جو امام شافعی کے شاگرد تھے تو مذہب حنبلی وجود میں نہ آتا بلکہ مذہب شافعی ہی رہتا۔ نیز اگر علمی اختلاف گستاخی ہوتا تو کوئی مذہب نہ بنتا صرف دو مذہب رہتے۔

1۔ حنفی
2۔ مالکی

کیونکہ باقی تو سب ان کے شاگرد ہیں۔ اگر علمی اختلاف گستاخی ہوتا تو امام ابو یوسف، امام محمد، امام زُفر، امام اعظم سے اختلاف نہ کرتے۔

پس علمی اختلاف سے ہی علم کا ارتقاء ہوتا ہے حتی کہ اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی نے فتاویٰ رضویہ اور اپنی دیگر کتب میں 4 ہزار مقامات پر اپنے سے پہلے آئمہ اور فقہاء احناف کے ساتھ فروعات پر علمی اختلاف کیا وہ پھر بھی سنی رہے بلکہ امام اہل سنت رہے، جن آئمہ سے اختلاف کیا ان میں امام طحطاوی، امام شامی، صاحب درمختار، صاحب ردالمختار، صاحب قاضی خان، صاحب عالمگیری شامل ہیں۔ اگر ہم سے کوئی معمولی سا علمی اختلاف آئمہ سے ہوجائے تو کیا ہم اہل سنت کے ایک فرد کی حیثیت سے بھی نہ رہیں گے۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ اعلیٰ حضرت میرے دادا استاد ہیں۔ میرے اور اعلیٰ حضرت کے درمیان تین طرق ایسے ہیں کہ میں ان کا صرف ایک واسطے کے ساتھ شاگرد ہوں اوران واسطوں میں حضرت ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا ابوالبرکات سید احمد قادری حزب الاحناف والے۔ میں نے 4 سال ان سے درس حدیث لیا) اور حضرت مولانا سید عبدالمعبود جیلانی، ان کی وفات 165 برس کی عمر میں ہوئی اور وہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے اور ان کی ولادت مدینہ میں ہوئی تھی۔ یہ بھی اعلیٰ حضرت کے براہ راست شاگرد تھے۔ علاوہ ازیں یہ علامہ فضل حق خیر آبادی، حضرت پیر پٹھان، حضرت شاہ سلیمان تونسوی اور میرے شیخ سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کے دادا اور پردادا حضرت سید علی النقیب اور سید عبدالرحمٰن النقیب کے بھی براہ راست شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں زیادہ واسطوں والے طرق بھی موجود ہیں جن کے ذریعے مجھے اعلیٰ حضرت کے شاگرد ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ ان میں علامہ کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور محدث اعظم سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں اور یہاں دو دو واسطے درمیان میں ہیں۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ جب تک تعصب کے کلچر سے باہر نہیں نکلیں گے، تنگ نظری کے کلچر سے باہر نہیں نکلیں گے اور علم و تحقیق کا دروازہ کھلا نہیں رکھیں گے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ادب اور شے ہے۔ علمی اختلاف اور شے ہے۔ امام احمد بن حنبل کا اختلاف تو یہ تھا کہ مذہب شافعی کے ہوتے ہوئے ایک مستقل فقہی مذہب الگ بنا دیا اور ادب کا درجہ یہ تھا کہ جب بغداد میں امام شافعی کے پاس تھے تو امام شافعی گھوڑے پر سوار ہوتے اور آپ گھوڑے کے پائیدان کو پکڑ کر تیز چلتے چلتے ان کے فرمودات کو نقل کرتے۔ یہ ادب تھا اور الگ فقہی مذہب کا قیام اختلاف تھا۔ اس صورت علم فروغ پاتا ہے۔ نئے راستے بیان کرنا اگر ادب کے خلاف ہوتا تو حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی طرف سے طریقت بیان ہوجانے کے بعد نہ کہیں چشتیت وجود میں آتی اور نہ ہی سہر وردیت اور نقشبندیت وجود میں آتی۔ یہ سب حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے اکتساب فیض کرنے والے ہیں مگر انہوں نے الگ اصول و فروع طریقت کے وضع فرمائے اور مذاہب طریقت کے بانی ہیں۔

امام مسلم، امام بخاری کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے امام بخاری سے اختلاف کیا۔ الغرض ہر امام اپنے شیخ و استاد سے علمی سطح پر رائے مختلف رکھتا تھا مگر ادب اپنی جگہ تھا۔ ادب اور علمی تحقیق کے اختلاف کا کبھی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ ہمارے مسلک کو نقصان اس تنگ نظری نے پہنچایا، ہم نے تحقیق کے دروازے بند کردیئے اور اگر کوئی تحقیق کرے اور نئی تحقیق کے ساتھ کوئی نئی بات سامنے رکھے تو ہم فوری اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا تم ان سے بڑے ہو، ان سے مختلف بات کر دی حالانکہ 1400 سال کی تاریخ اس سے مملو ہے کہ اصاغرو اکابر اختلاف کرتے آئے ہیں مگر حق انہی کا ہے جو حق دار ہے ایسا نہیں کہ ہر جاہل قلم اٹھالے اور اختلاف کرتا پھرے۔ پس اگر امام اعظم کی فقہ سے اختلاف جائز ہے تو امام بخاری کے ترجمۃ الباب/ فقہ البخاری سے اختلاف خلاف ادب نہیں ہوگا۔

امام بخاری کے قائم کردہ تراجم الابواب اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

امام بخاری نے تراجم الابواب میں اپنا موقف بیان کیا۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر اپنے رجحان علمی، مذہب فقہی، رجحان طبع اور اپنی تحقیق کو پوری امانت، دیانت اور عدل وانصاف کے ساتھ ترجمۃ الباب میں روایت حدیث سے پہلے درج کرتے ہیں اور بعد میں احادیث صرف وہ لاتے ہیں جو ترجمۃ الباب میں مذکور ان کے موقف کے مطابق ہوتی ہیں۔ بخاری شریف صرف احادیث کی کتاب نہیں بلکہ تراجم الابواب کی صورت میں امام بخاری کے اپنے فقہی رجحان اور فقہی اجتہاد کی کتاب بھی ہے جنہوں نے یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا انہیں کثرت سے مغالطے لگے اور یہ فرق میرا پیدا کردہ نہیں بلکہ محقّق، مسلّم اور متفق علیہ فرق ہے۔ اہل علم اس کا انکار ہی نہیں کرسکتے۔ جو یہ فرق ملحوظ رکھیں گے وہ ٹھوکر نہیں کھائیں گے۔ (جاری ہے)
 

نوید

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

صابر بھائی بہت بہت شکریہ اتنا معلوماتی مضمون شئیر کرنے کا

خوش رہیں
 
Top