مشکل سے درست کہنا تو آسان ہے نا بھیا؟ یوں کہہ لیجیے۔
اگر آپ نے یہ تبصرہ اس عاجز کی بابت کیا ہے تو عرض گزار ہوں کہ آپ سے استدلال میں ذرا سی چوک ہو گئی شاید۔ زبان اور ادبیات کے معاملے میں ہمیشہ اساتذہ سے سند لی جاتی ہے۔ عروض بذاتِ خود خلیل بن احمد کے اسی استناد کا شہکار ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ غلط الفاظ اگر اساتذہ کی ایک معتدبہ جماعت کے استعمال میں آ جائیں تو فصیح ہو جاتے ہیں۔ "جو" "تو" وغیرہ تو بکثرت باکمال شعرا نے اشباعِ واو کے ساتھ برتے ہیں۔ خدا جانے کیوں پھر بھی عروضی ان کی دم کترنے پر مصر رہتے ہیں۔
باالفاظِ دیگر غالبؔ اپنی غلطی کی بدولت غالبؔ نہیں ہوئے بلکہ غلطی مذکور غالبؔ کے طفیل فصاحت کا رتبہ پا گئی۔
میں خود ایک زمانے میں اس قسم کے اصولوں کا قائل رہا ہوں جن کا ذکر الف عین صاحب نے کیا ہے۔ میری کتاب چھپی تھی 2010ء میں۔
زار۔ پوری پڑھ جائیے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے ان اصولوں کی کس قدر اندھی عقیدت سے پیروی کی ہے۔ عروض کی کوئی مستند کتاب اٹھائیے اور زار کا محاکمہ کیجیے۔ اور تو اور غالبؔ نے فرمایا تھا کہ الف گرتا ہے تو میرے دل پہ گویا ایک تیر لگتا ہے۔ اس فقیر نے استاد کے دل پہ ایک تیر نہیں مارا "کا" کی الف گرانے کے سوا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ پڑھ کے دیکھیے گا۔
بعد میں احساس ہوا کہ یہ سب غیر ضروری ہے۔خیال اہم ہے۔ اور آہنگ اہم ہے۔ پورا کر لیجیے جیسے تیسے۔ باقی سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ لینے جائیں گے تو کارواں نکل جائے گا۔
لیکن اگر آپ کی مراد اس تبصرے میں کچھ اور تھی تو میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی بصیرت سے مجھے بھی رشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
راحیل فاروق بھائی بہت شکریہ آپ نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار فرما یا ۔ اس حوالے سے چند گزارشات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے آپ اسے مثبت انداز میں دیکھیں گے ۔
1) سب سے پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ میرے خیال میں ( جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے) بلاشبہ سند اساتذہ سے ہی لی جاتی ہے ، الفاظ کو برتنے کی سند، محاورہ اور روز مرہ کی سند زبان و بیان کی سند ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ "خیال" کی سند اساتذہ سے نہیں لی جاتی ۔ خیال میں شاعر اپنی بھرپور آزادی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے ۔ یہاں جس شعر کو عامیانہ کہا گیا ہے وہ خیال کی بنیاد پر کہا گیا ہے نہ کہ عروض کی بنیاد پر۔ یہ بات بھی آپ جیسے اہلِ علم سے ہر گز مخفی نہیں ہے ، کہ شعر کا عامیانہ ہونا نہ کوئی عروضی غلطی ہے اور نہ ہی کوئی اس طرح کا عیب ہے جسے فنی اعتبار سے درست کیا جا سکے۔
2) اسی ذیل میں مزید یہ کہ اگر کسی استاد کے پاس کچھ عامیانہ اشعار ملتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نئے سیکھنے والے ان کمزور اشعار کو سامنے رکھ کر اپنی مشق کریں ۔ آپ جانتے ہیں کہ غالب ہوں یا میر ، عامیانہ اشعار کس کے دیوان میں نہیں ہیں۔ فن اور فن کار کے حوالے سے میرا تو عقیدہ "an artist is judged by his best" ہے ۔ فن کار کو اس کے اعلیٰ ترین فنی نمونے سے پہچانا جاتا ہے ۔ یا فنکار کا اعلیٰ ترین شہکار ہی اس کا معیار ہے ۔ اگر چہ اس کے پاس اس سے کم درجے کی چیزیں بھی ہوں گی مگر اس کا معیار وہی قرار دیا جائے گا جو اس کا سب سے بہترین کام ہے۔
3) اسی ذیل میں عرض ہے، کہ ناقدین نے میر کے اکثر اشعار کو عامیانہ کہا ہے ۔ یہاں بحث خیال سے بھی ہے اور بعض جگہ زبان سے بھی ، اور یہ بات آپ کے علم میں ضرور ہوگی کہ میر کے کلام کا بڑا حصہ اسے میر تقی میر نہیں بناتا ، بلکہ میری نظر سے تو میر پر شدید تنقید گزری ہے جو صرف خیال پر نہیں ہے ۔ ذیل میں میر کے یہ شعر دیکھیے۔
حالِ دل میر کا ، اے اہلِ وفا مت پوچھو
اس ستم کُشتہ پہ جو گزری جفا مت پو چھو
خواہ مارا انھیں نے میر کو، خواہ آپ موا
جانے دو یارو، جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ، گیا اب سو گیا
دلِ گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
اعلانِ مطلع کے بعد قافیے کی تبدیلی، لاکھ میر کی ہو مگر اس سند کو سامنے رکھ کر غزل کہنا کوئی استاد اپنے شاگرد کو نہیں سکھائے گا ۔ اگر کوئی نو آموز اپنی کسی غزل میں ایسا کرے اور آپ کے سامنے رکھی جائے کہ اصلاح کریں ، ایمانداری سے کہیں کیا آپ میر کی اس سند کے باوجود سے یہ نہیں سکھایں گے کہ یہ جائز نہیں ہے اور اس کی مشق نہ کی جائے ۔
5) جب شاگرد کوئی عامیانہ بات کہے، تو استاد اسے ضرور بتائے گا کہ یہ ایک عامیانہ بات ہے ، یہ نہیں کہے گا کہ عامیانہ باتیں تو غالب نے بھی کہی ہیں میر نے بھی لہذہ آپ انہیں پر اپنی مشق کی بنیاد رکھیں۔
6) یہ بیان کر دینا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ "اصلاحِ سخن" کی اس لڑی کا مقصد کیا ہے ۔ ویسے تو یہ میرا منصب نہیں مگر جو بات صاف صاف سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نئے کہنے والے جو اپنے کلام پر رہنمائی چاہتے ہوں اس دھاگے میں از خود اپنا کلام پیش کریں ۔ واضح رہے کہ جو شاعر یا شاعرہ یہاں کلام پیش کر رہا ہے یا رہی ہے ، وہ از خود یہ چاہتا ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے اسے کوئی اس کام کے لیے مجبور نہیں کرتا ۔ بہت سے لوگ اپنا کلام "آپ کی شاعری" میں رکھتے ہیں وہاں انھیں کوئی اصلاح نہیں دیتا ۔ اگر ہوا تو کسی شعر پر تنقید کر دی ، پسند آیا تو تعریف کر دی ، شاعر نے بھی کبھی تعریف کا شکریہ ادا کیا ، کبھی تنقید کو قبول کیا کبھی رد کر دیا۔
7) آپ کی بات درست ہے شعر میں خیال بہت اہمیت کا حامل ہے ، مگر عروضی بے راہ روی کی تعلیم اس شخص کو نہیں دی جا سکتی جو یہی کچھ سیکھنے آیا ہو ۔ ورنہ تو محض خیال کے لیے نثری نظم موجود ہے طبع آزمائی کیجیے کوئی پابندی تو نہیں ہے ۔ یہ کیا ضروری ہے کہ دیگر اصنافِ سخن کو بھی اسی میں ضم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کسی کو مسدس پسند ہے ، کہے۔ اسے یہ کیوں کہا جائے کہ بے مقصد پا بندی کیوں جھلتے ہو ، نطم کہہ لو، مثنوی میں مطلع در مطلع بات کیوں کرو ؟ سیدھی نثر ہی لکھ دو ۔ تو ہر ایک کا اپنا میلان ہے اسے اپنی مرضی سے نہ روکا جائے ۔
آپ کے چند جملے مجھے ایسے محسوس ہوے جن پر اپنی گزارشات پیش کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں ۔
عروضی ان کی دم کترنے پر مصر رہتے ہیں
میرا تعلق عرصہ دراز سے کمیونی کیشن سے رہا ہے ۔ یعنی یہی سیکھنا سیکھا نا کہ بات کیسے کی جائے ، یعنی اپنا مافی الضمیر بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مشق کرنا بھی اور کروانا بھی ۔ اسی حوالے سے لا تعداد ایسی چیزیں ہیں جو نظر سے گزرتی رہتی ہیں پھر یہ کہ لوگوں کی گفتگو کا تجزیہ کرنا ، کہ اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو اس کے امکانی محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس نے یہ کیوں کہا، اس نے یہ انداز کیوں اختیار کیا ، پھر یہ کے کس قسم کے لوگ کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں ، یہ لہجہ کس کا ہے وہ انداز کون اختیار کرتا ہے یا یہ کہ کیا بات کب اور کہاں کہنی ہے اور کیا بات کہے بغیر سمجھانے کی کوشش کرنی ہے ۔ ان تمام باتوں پر ایک سیر حاصل بحث کرنا ، اور اردو میں تو خاص طور پر اہلِ زبان ہونے کے ناطے الفاظ کی روح تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے ۔ امید ہے آپ میری ملفوف گزارشات کو انتہائی مثبت انداز میں شرفِ قبولیت بخشیں گے۔
باقی سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ لینے جائیں گے تو کارواں نکل جائے گا۔
جنابِ من، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اسی نوعیت کے چند جملے اس خیال کی مخالفت میں بھی کہے جا سکتے ہیں۔ مگر الفاظ کے لاٹھی چارج سے حقیقیت تک رسائی دشوار ہو جاتی ہے ۔ ابھی اچانک ایک شعر یاد آگیا ، اس شعر کی وجہ سے میں اس جملے کے باب میں بہت کچھ لکھتے لکھتے رہ گیا۔
تاریخ نے پوچھا ہے ہر اک چرب زباں سے
سچائی بدل جائے گی کیا زورِ بیاں سے
وضاحت: چرب زباں کی ضمیر میری اپنی طرف ہے ۔
اس لیے میں سنجیدہ اور پرخلوص بحث میں چرب زبانی سے خرابی پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔
آخر میں ، میں ہر اس بات کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں جو مزاجِ یار پر گراں گزرے ۔ یقین کیجیے ، میں نے انتہاِ خلوص سے اپنی گزارشات پیش کی ہیں ۔ اور میں آپ کی رائے سے بڑی معقول حد دتک متفق ہوں۔ بعض چیزوں پر اختلافی رائے رکھنے کی آزادی کی وجہ سے جن جن چیزوں میں اتفاق نہیں کیا آپ کے سامنے رکھ دیں اور جو چیزیں بیان نہیں کی ہیں ان میں مجھے اپنا معتقد سمجھیے۔