دنیا ہے چار دن کی ایسا سنا کئے ہیں

اساتذہ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب، جناب الف عین صاحب، جناب محمد وارث صاحب، اور دیگر صاحبانِ علم اور محفلین کے سامنے ایک غزل اصلاح کی غرض سے پیش ہے۔ اپنی قیمتی آرا سے نواز کر شکریہ کا موقع دیں۔

دل اضطَراب میں ہی کب تک بھلا رہے گا
افسانہِِ غم آخر کب تک کوئی سُنے گا

دنیا ہے چار دن کی ایسا سنا کئے ہیں
ان چار دن میں آخر کتنا کوئی جئے گا

اس جام کی تمھارے ہم کو نہیں ہے چاہت
آنکھوں سے جو پلاؤ تو پھر کوئی پئے گا

بے اعتنائی تیری اب جان لے گی میری
کچھ اعتنا جو برتو بے پر یہ جی اٹھے گا

ہے تار تار اب تو سارا وجود احمدؔ
اتنے ہیں زخم آخر کتنے کوئی سئے گا
 

loneliness4ever

محفلین
ان چار دن میں آخر کتنا کوئی جئے گا


بہت بہترین فاروق بھائی بہت بہترین
اور اس پر یاد آ گیا ساغر صدیقی کا شعر

دو چار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دو چار دن کے پیار کا قائل نہیں ہوں دوست

کامران و خوشحال رہیں
آمین
 
ارے لا جواب یار فاروق احمد بھٹی بھائی۔
بس ایک شعر مجھے سمجھ نہیں آسکا ۔
پسندیدگی کے لئے نوازش نزیر بھائی
بے پَر یہ جی اُڑے گا ۔ کہیں لکھنے میں تو غلطی نہیں ہوئی ؟
بے پر کچھ اجنبی سا ضرور معلوم ہوتا ہے مجھے بھی مطلب اسکا ہے
کٹے پروں والا۔
کمزور، ناتواں۔
مجبور نا چار محتاج۔
بے بس ،غریب، مفلس، بے سروسامان
 
بے پر کچھ اجنبی سا ضرور معلوم ہوتا ہے مجھے بھی مطلب اسکا ہے
کٹے پروں والا۔
کمزور، ناتواں۔
مجبور نا چار محتاج۔
بے بس ،غریب، مفلس، بے سروسامان
یعنی ، اگر محبوب کی توجہ حاصل ہو جائے تو یہ "بے پر" عاشق جی اُٹھے گا ؟
اگر ایسا ہی ہے جیسا میں نے بیان کیا ہے ؟
بے پَر: جس طرح آپ نے استعمال کیا ہے یہ میرے لیے بلکل نیا ہے ۔ یہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے اساتذہ سے پتہ چلے گا
بے اعتنائی تیری اب جان لے گی میری
کچھ اعتنا جو برتو بے پر یہ جی اٹھے گا
 
یعنی ، اگر محبوب کی توجہ حاصل ہو جائے تو یہ "بے پر" عاشق جی اُٹھے گا ؟
اگر ایسا ہی ہے جیسا میں نے بیان کیا ہے ؟
بے پَر: جس طرح آپ نے استعمال کیا ہے یہ میرے لیے بلکل نیا ہے ۔ یہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے اساتذہ سے پتہ چلے گا
ارے جناب ہم بھی سیکھنے کی غرض سے یہاں موجود ہیں کم علم ہیں جبھی نا اور آپ کی اردو زبان پہ گرفت مجھ سے تو بہت اچھی ہے اب دیکھئے ہماری بے پر کی بات پہ اساتذہ کیا رائے دیتے ہیں
اور آپ نے صحیح کہا ایسا ہی کچھ استعمال کیا ہے میں نے
 
ارے جناب ہم بھی سیکھنے کی غرض سے یہاں موجود ہیں کم علم ہیں جبھی نا اور آپ کی اردو زبان پہ گرفت مجھ سے تو بہت اچھی ہے اب دیکھئے ہماری بے پر کی بات پہ اساتذہ کیا رائے دیتے ہیں
اور آپ نے صحیح کہا ایسا ہی کچھ استعمال کیا ہے میں نے
یار فاروق بھائی مطلع بہت کمال ہے آپ کا ۔
دل اضطَراب میں ہی کب تک بھلا رہے گا
افسانہِِ غم آخر کب تک کوئی سُنے گا
 

الف عین

لائبریرین
بے اعتنائی تیری اب جان لے گی میری
کچھ اعتنا جو برتو بے پر یہ جی اٹھے گا
بے پری سے زیادہ تو یہ قابل اعتراض ہے!!
اور یہ
اس جام کی تمھارے ہم کو نہیں ہے چاہت
آنکھوں سے جو پلاؤ تو پھر کوئی پئے گا
عامیانہ ہونے کے علاوہ ’جو‘ اور ’تو‘ کا طویل کھنچنا بھی فصیح نہیں۔ کم از کم ایک جگہ واؤ کا گرانا بہتر تھا۔
 
بے اعتنائی تیری اب جان لے گی میری
کچھ اعتنا جو برتو بے پر یہ جی اٹھے گا
بے پری سے زیادہ تو یہ قابل اعتراض ہے!!
اور یہ
اس جام کی تمھارے ہم کو نہیں ہے چاہت
آنکھوں سے جو پلاؤ تو پھر کوئی پئے گا
عامیانہ ہونے کے علاوہ ’جو‘ اور ’تو‘ کا طویل کھنچنا بھی فصیح نہیں۔ کم از کم ایک جگہ واؤ کا گرانا بہتر تھا۔
استادِ محترم اگر کوئی اصلاح کی صورت بتلا دی جائےتو عنائیت ہو گی
اور باقی اشعار بارے بھی اگر رائے معلوم ہو جاتی تو عنائیت ہوتی
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اعتنا برت لے
کیا جا سکتا ہے مصرع کا اول نصف
باقی اشعار میں غلطی نہیں تو خوبی بھی نہیں۔ صرف مقطع پسند آیا۔ اس میں بھی ’کتنے‘ کی بجائے ’کیسے‘ زخم ہو تو بہتر ہو۔
 
عامیانہ ہونے کے علاوہ ’جو‘ اور ’تو‘ کا طویل کھنچنا بھی فصیح نہیں۔ کم از کم ایک جگہ واؤ کا گرانا بہتر تھا۔
جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے
---
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
 
آخری تدوین:
ایک امیر آدمی کے ہاتھ میں جلتا ہو سگار دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص سگار پینے کی وجہ سے ہی امیر ہو ا ہے ۔ میرا خیال ہے اسے آسانی سے درست کہنا مشکل کام ہے
 
ایک امیر آدمی کے ہاتھ میں جلتا ہو سگار دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص سگار پینے کی وجہ سے ہی امیر ہو ا ہے ۔ میرا خیال ہے اسے آسانی سے درست کہنا مشکل کام ہے
مشکل سے درست کہنا تو آسان ہے نا بھیا؟ یوں کہہ لیجیے۔
اگر آپ نے یہ تبصرہ اس عاجز کی بابت کیا ہے تو عرض گزار ہوں کہ آپ سے استدلال میں ذرا سی چوک ہو گئی شاید۔ زبان اور ادبیات کے معاملے میں ہمیشہ اساتذہ سے سند لی جاتی ہے۔ عروض بذاتِ خود خلیل بن احمد کے اسی استناد کا شہکار ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ غلط الفاظ اگر اساتذہ کی ایک معتدبہ جماعت کے استعمال میں آ جائیں تو فصیح ہو جاتے ہیں۔ "جو" "تو" وغیرہ تو بکثرت باکمال شعرا نے اشباعِ واو کے ساتھ برتے ہیں۔ خدا جانے کیوں پھر بھی عروضی ان کی دم کترنے پر مصر رہتے ہیں۔
باالفاظِ دیگر غالبؔ اپنی غلطی کی بدولت غالبؔ نہیں ہوئے بلکہ غلطی مذکور غالبؔ کے طفیل فصاحت کا رتبہ پا گئی۔
میں خود ایک زمانے میں اس قسم کے اصولوں کا قائل رہا ہوں جن کا ذکر الف عین صاحب نے کیا ہے۔ میری کتاب چھپی تھی 2010ء میں۔ زار۔ پوری پڑھ جائیے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے ان اصولوں کی کس قدر اندھی عقیدت سے پیروی کی ہے۔ عروض کی کوئی مستند کتاب اٹھائیے اور زار کا محاکمہ کیجیے۔ اور تو اور غالبؔ نے فرمایا تھا کہ الف گرتا ہے تو میرے دل پہ گویا ایک تیر لگتا ہے۔ اس فقیر نے استاد کے دل پہ ایک تیر نہیں مارا "کا" کی الف گرانے کے سوا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ پڑھ کے دیکھیے گا۔
بعد میں احساس ہوا کہ یہ سب غیر ضروری ہے۔خیال اہم ہے۔ اور آہنگ اہم ہے۔ پورا کر لیجیے جیسے تیسے۔ باقی سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ لینے جائیں گے تو کارواں نکل جائے گا۔
لیکن اگر آپ کی مراد اس تبصرے میں کچھ اور تھی تو میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی بصیرت سے مجھے بھی رشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 
مشکل سے درست کہنا تو آسان ہے نا بھیا؟ یوں کہہ لیجیے۔
اگر آپ نے یہ تبصرہ اس عاجز کی بابت کیا ہے تو عرض گزار ہوں کہ آپ سے استدلال میں ذرا سی چوک ہو گئی شاید۔ زبان اور ادبیات کے معاملے میں ہمیشہ اساتذہ سے سند لی جاتی ہے۔ عروض بذاتِ خود خلیل بن احمد کے اسی استناد کا شہکار ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ غلط الفاظ اگر اساتذہ کی ایک معتدبہ جماعت کے استعمال میں آ جائیں تو فصیح ہو جاتے ہیں۔ "جو" "تو" وغیرہ تو بکثرت باکمال شعرا نے اشباعِ واو کے ساتھ برتے ہیں۔ خدا جانے کیوں پھر بھی عروضی ان کی دم کترنے پر مصر رہتے ہیں۔
باالفاظِ دیگر غالبؔ اپنی غلطی کی بدولت غالبؔ نہیں ہوئے بلکہ غلطی مذکور غالبؔ کے طفیل فصاحت کا رتبہ پا گئی۔
میں خود ایک زمانے میں اس قسم کے اصولوں کا قائل رہا ہوں جن کا ذکر الف عین صاحب نے کیا ہے۔ میری کتاب چھپی تھی 2010ء میں۔ زار۔ پوری پڑھ جائیے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے ان اصولوں کی کس قدر اندھی عقیدت سے پیروی کی ہے۔ عروض کی کوئی مستند کتاب اٹھائیے اور زار کا محاکمہ کیجیے۔ اور تو اور غالبؔ نے فرمایا تھا کہ الف گرتا ہے تو میرے دل پہ گویا ایک تیر لگتا ہے۔ اس فقیر نے استاد کے دل پہ ایک تیر نہیں مارا "کا" کی الف گرانے کے سوا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ پڑھ کے دیکھیے گا۔
بعد میں احساس ہوا کہ یہ سب غیر ضروری ہے۔خیال اہم ہے۔ اور آہنگ اہم ہے۔ پورا کر لیجیے جیسے تیسے۔ باقی سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ لینے جائیں گے تو کارواں نکل جائے گا۔
لیکن اگر آپ کی مراد اس تبصرے میں کچھ اور تھی تو میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی بصیرت سے مجھے بھی رشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

راحیل فاروق بھائی بہت شکریہ آپ نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار فرما یا ۔ اس حوالے سے چند گزارشات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے آپ اسے مثبت انداز میں دیکھیں گے ۔

1) سب سے پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ میرے خیال میں ( جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے) بلاشبہ سند اساتذہ سے ہی لی جاتی ہے ، الفاظ کو برتنے کی سند، محاورہ اور روز مرہ کی سند زبان و بیان کی سند ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ "خیال" کی سند اساتذہ سے نہیں لی جاتی ۔ خیال میں شاعر اپنی بھرپور آزادی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے ۔ یہاں جس شعر کو عامیانہ کہا گیا ہے وہ خیال کی بنیاد پر کہا گیا ہے نہ کہ عروض کی بنیاد پر۔ یہ بات بھی آپ جیسے اہلِ علم سے ہر گز مخفی نہیں ہے ، کہ شعر کا عامیانہ ہونا نہ کوئی عروضی غلطی ہے اور نہ ہی کوئی اس طرح کا عیب ہے جسے فنی اعتبار سے درست کیا جا سکے۔
2) اسی ذیل میں مزید یہ کہ اگر کسی استاد کے پاس کچھ عامیانہ اشعار ملتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نئے سیکھنے والے ان کمزور اشعار کو سامنے رکھ کر اپنی مشق کریں ۔ آپ جانتے ہیں کہ غالب ہوں یا میر ، عامیانہ اشعار کس کے دیوان میں نہیں ہیں۔ فن اور فن کار کے حوالے سے میرا تو عقیدہ "an artist is judged by his best" ہے ۔ فن کار کو اس کے اعلیٰ ترین فنی نمونے سے پہچانا جاتا ہے ۔ یا فنکار کا اعلیٰ ترین شہکار ہی اس کا معیار ہے ۔ اگر چہ اس کے پاس اس سے کم درجے کی چیزیں بھی ہوں گی مگر اس کا معیار وہی قرار دیا جائے گا جو اس کا سب سے بہترین کام ہے۔
3) اسی ذیل میں عرض ہے، کہ ناقدین نے میر کے اکثر اشعار کو عامیانہ کہا ہے ۔ یہاں بحث خیال سے بھی ہے اور بعض جگہ زبان سے بھی ، اور یہ بات آپ کے علم میں ضرور ہوگی کہ میر کے کلام کا بڑا حصہ اسے میر تقی میر نہیں بناتا ، بلکہ میری نظر سے تو میر پر شدید تنقید گزری ہے جو صرف خیال پر نہیں ہے ۔ ذیل میں میر کے یہ شعر دیکھیے۔

حالِ دل میر کا ، اے اہلِ وفا مت پوچھو
اس ستم کُشتہ پہ جو گزری جفا مت پو چھو
خواہ مارا انھیں نے میر کو، خواہ آپ موا
جانے دو یارو، جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ، گیا اب سو گیا
دلِ گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
اعلانِ مطلع کے بعد قافیے کی تبدیلی، لاکھ میر کی ہو مگر اس سند کو سامنے رکھ کر غزل کہنا کوئی استاد اپنے شاگرد کو نہیں سکھائے گا ۔ اگر کوئی نو آموز اپنی کسی غزل میں ایسا کرے اور آپ کے سامنے رکھی جائے کہ اصلاح کریں ، ایمانداری سے کہیں کیا آپ میر کی اس سند کے باوجود سے یہ نہیں سکھایں گے کہ یہ جائز نہیں ہے اور اس کی مشق نہ کی جائے ۔

5) جب شاگرد کوئی عامیانہ بات کہے، تو استاد اسے ضرور بتائے گا کہ یہ ایک عامیانہ بات ہے ، یہ نہیں کہے گا کہ عامیانہ باتیں تو غالب نے بھی کہی ہیں میر نے بھی لہذہ آپ انہیں پر اپنی مشق کی بنیاد رکھیں۔

6) یہ بیان کر دینا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ "اصلاحِ سخن" کی اس لڑی کا مقصد کیا ہے ۔ ویسے تو یہ میرا منصب نہیں مگر جو بات صاف صاف سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نئے کہنے والے جو اپنے کلام پر رہنمائی چاہتے ہوں اس دھاگے میں از خود اپنا کلام پیش کریں ۔ واضح رہے کہ جو شاعر یا شاعرہ یہاں کلام پیش کر رہا ہے یا رہی ہے ، وہ از خود یہ چاہتا ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے اسے کوئی اس کام کے لیے مجبور نہیں کرتا ۔ بہت سے لوگ اپنا کلام "آپ کی شاعری" میں رکھتے ہیں وہاں انھیں کوئی اصلاح نہیں دیتا ۔ اگر ہوا تو کسی شعر پر تنقید کر دی ، پسند آیا تو تعریف کر دی ، شاعر نے بھی کبھی تعریف کا شکریہ ادا کیا ، کبھی تنقید کو قبول کیا کبھی رد کر دیا۔

7) آپ کی بات درست ہے شعر میں خیال بہت اہمیت کا حامل ہے ، مگر عروضی بے راہ روی کی تعلیم اس شخص کو نہیں دی جا سکتی جو یہی کچھ سیکھنے آیا ہو ۔ ورنہ تو محض خیال کے لیے نثری نظم موجود ہے طبع آزمائی کیجیے کوئی پابندی تو نہیں ہے ۔ یہ کیا ضروری ہے کہ دیگر اصنافِ سخن کو بھی اسی میں ضم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کسی کو مسدس پسند ہے ، کہے۔ اسے یہ کیوں کہا جائے کہ بے مقصد پا بندی کیوں جھلتے ہو ، نطم کہہ لو، مثنوی میں مطلع در مطلع بات کیوں کرو ؟ سیدھی نثر ہی لکھ دو ۔ تو ہر ایک کا اپنا میلان ہے اسے اپنی مرضی سے نہ روکا جائے ۔

8) آپ کے چند جملے مجھے ایسے محسوس ہوے جن پر اپنی گزارشات پیش کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں ۔
عروضی ان کی دم کترنے پر مصر رہتے ہیں
میرا تعلق عرصہ دراز سے کمیونی کیشن سے رہا ہے ۔ یعنی یہی سیکھنا سیکھا نا کہ بات کیسے کی جائے ، یعنی اپنا مافی الضمیر بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مشق کرنا بھی اور کروانا بھی ۔ اسی حوالے سے لا تعداد ایسی چیزیں ہیں جو نظر سے گزرتی رہتی ہیں پھر یہ کہ لوگوں کی گفتگو کا تجزیہ کرنا ، کہ اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو اس کے امکانی محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس نے یہ کیوں کہا، اس نے یہ انداز کیوں اختیار کیا ، پھر یہ کے کس قسم کے لوگ کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں ، یہ لہجہ کس کا ہے وہ انداز کون اختیار کرتا ہے یا یہ کہ کیا بات کب اور کہاں کہنی ہے اور کیا بات کہے بغیر سمجھانے کی کوشش کرنی ہے ۔ ان تمام باتوں پر ایک سیر حاصل بحث کرنا ، اور اردو میں تو خاص طور پر اہلِ زبان ہونے کے ناطے الفاظ کی روح تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے ۔ امید ہے آپ میری ملفوف گزارشات کو انتہائی مثبت انداز میں شرفِ قبولیت بخشیں گے۔
باقی سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ لینے جائیں گے تو کارواں نکل جائے گا۔

جنابِ من، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اسی نوعیت کے چند جملے اس خیال کی مخالفت میں بھی کہے جا سکتے ہیں۔ مگر الفاظ کے لاٹھی چارج سے حقیقیت تک رسائی دشوار ہو جاتی ہے ۔ ابھی اچانک ایک شعر یاد آگیا ، اس شعر کی وجہ سے میں اس جملے کے باب میں بہت کچھ لکھتے لکھتے رہ گیا۔
تاریخ نے پوچھا ہے ہر اک چرب زباں سے
سچائی بدل جائے گی کیا زورِ بیاں سے​
وضاحت: چرب زباں کی ضمیر میری اپنی طرف ہے ۔

اس لیے میں سنجیدہ اور پرخلوص بحث میں چرب زبانی سے خرابی پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔
آخر میں ، میں ہر اس بات کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں جو مزاجِ یار پر گراں گزرے ۔ یقین کیجیے ، میں نے انتہاِ خلوص سے اپنی گزارشات پیش کی ہیں ۔ اور میں آپ کی رائے سے بڑی معقول حد دتک متفق ہوں۔ بعض چیزوں پر اختلافی رائے رکھنے کی آزادی کی وجہ سے جن جن چیزوں میں اتفاق نہیں کیا آپ کے سامنے رکھ دیں اور جو چیزیں بیان نہیں کی ہیں ان میں مجھے اپنا معتقد سمجھیے۔
 
میرا خیال ہے کہ "خیال" کی سند اساتذہ سے نہیں لی جاتی ۔ خیال میں شاعر اپنی بھرپور آزادی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے ۔ یہاں جس شعر کو عامیانہ کہا گیا ہے وہ خیال کی بنیاد پر کہا گیا ہے نہ کہ عروض کی بنیاد پر۔
جنابِ من، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اسی نوعیت کے چند جملے اس خیال کی مخالفت میں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
مرشدی، ایک غلط فہمی ہو گئی۔ میری مراد شاعرِ موصوف کے خیال کی علویت ثابت کرنا ہرگز نہیں تھی۔ میں تو صرف "تو" "جو" وغیرہ میں واو کے اشباع سے متعلق بات کر رہا تھا۔ جو اسناد میں نے پیش کیں وہ انھی دونوں کے کھینچ کے پڑھے جانے سے متعلق تھیں۔ دوبارہ دیکھیے:
جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے
---
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

عروضیوں کی بابت بھی یہی مدعا تھا کہ "جو" "تو" وغیرہ کی دم کتر کے انھیں قصر کرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں۔ خیال سے تو مجھ کورسواد کو بحث ہی نہ تھی۔ ویسے بھی یہ خاصا موضوعی قسم کا معاملہ ہے جس میں آرا کا اختلاف عینِ فطرت ہے۔
اعلانِ مطلع کے بعد قافیے کی تبدیلی، لاکھ میر کی ہو مگر اس سند کو سامنے رکھ کر غزل کہنا کوئی استاد اپنے شاگرد کو نہیں سکھائے گا ۔
بے شک!
میری معروضات کا مدعا بس اس قدر تھا کہ ہمیں اوضاعِ ابنائے زماں کے برخلاف فن اور مذہب وغیرہ کو سائنس بنانے کی جدوجہد ترک کر دینی چاہیے۔ کیونکہ ہر دو کا تعلق ہمارے وجود کے کچھ ایسے دریچوں سے ہے جن سے روشنی تو چھنتی رہتی ہے مگر دریچوں کا سراغ نہیں ملتا۔شاعری کے دریچوں میں خیال اہم ہے۔ آہنگ ضروری ہے۔
صرف خیال فلسفہ ہے۔ صرف آہنگ لوری۔ شاعری ان دونوں کا انوکھا لاڈلا ہے۔
میں جب زندگی کے ہر پہلو کو ریاضی بنانے کے درپے تھا تو میں نے عروض کی وہ پابندیاں بھی نبھائیں جو واجب نہ تھیں۔ اس کا نقصان ہوا۔ شعر شعر نہ رہے۔ کچھ لسانی قے سی بن گئے۔ جب احساس ہوا تو میں ان پابندیوں کا مخالف ہوا۔ جی چاہا کہ کوئی اور اس دام میں نہ پھنسے۔ اسی لیے یہ بحث بھی چھیڑی۔
شاعر کا وظیفہ اب میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ عوام کو پیغام دے۔ بڑا پیغام۔ چھوٹا پیغام۔ اپنی اوقات، اپنے ظرف کے مطابق۔ مگر سیاستدان، مصور، افسانہ نگار، موسیقار، فلسفی وغیرہ سے ممتاز رہنے کے لیے اپنے سب سے بڑے ہتھیار یعنی آہنگ کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ آہنگ میں صرف وزن نہیں بلکہ صوتیات کا پورا جہیز شامل کیجیے۔عروض کو اس کی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہ دیجیے۔ مصاریع میں حرکات باہمدگر موافق ہوں اور بس۔ چاہے جیسے ہوں۔ ہاں اہلِ زبان کی سماعتوں پہ بار نہ ہوں۔
آخر میں ، میں ہر اس بات کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں جو مزاجِ یار پر گراں گزرے ۔
مزاجِ یار کو تو ہم آج تک نہیں سمجھے۔
خفا کس سے راحیلؔ صاحب نہیں
مزاجِ گرامی کی حد ہو گئی​
لیکن آپ کی باتیں بہت میٹھی ہیں۔ اور میں ٹھہرا لذت پرست۔ عاشق کر لیا آپ نے۔ لیجیے۔ بیٹھے بٹھائے مدتِ مدید کے بعد ایک شعر بھی موزوں ہو گیا آپ کی شان میں۔۔۔
کتنے شیریں بیاں ہیں آپ حضور
آپ سے اختلاف کون کرے؟
 
لیکن آپ کی باتیں بہت میٹھی ہیں۔ اور میں ٹھہرا لذت پرست۔ عاشق کر لیا آپ نے۔ لیجیے۔ بیٹھے بٹھائے مدتِ مدید کے بعد ایک شعر بھی موزوں ہو گیا آپ کی شان میں۔۔۔
کتنے شیریں بیاں ہیں آپ حضور
آپ سے اختلاف کون کرے؟

بہت شکریہ راحیل بھائی۔ :):)
آپ یہاں میرا تعارف دیکھ لیں ۔
مرا مزاج لڑکپن سے "دوستانہ" ہے
اور میری طرف سے حلقہِ یاراں میں شمولیت کی میری درخواست قبول کیجیے۔:)
 
میری طرف سے حلقہِ یاراں میں شمولیت کی میری درخواست قبول کیجیے۔
بھائی، عرصہ تین گھنٹے سے خوار ہو رہا ہوں۔ حلقہءَ یاراں میں شمولیت والی بات اپُن کے ناریل میں گھستی دکھائی نہ دیوے ہے۔ کوئی فرینڈ ریکوئسٹ کا سلسلہ بھی ہے محفل میں یا یونہی دونوں طرف آگ برابر لگانا مطلوب و مقصودِ مومن ہے؟
 
Top