دنیا کو ملا چین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرقا مفتی

محفلین
اہلِ بزم
تسلیمات
ایک غزل پیش کر رہی ہوں
آپ کی آرا اور تنقید کا انتظار رہے گا
والسلام
زرقا مفتی

غزل
دُنیا کو ملا چین ، مجھے رنج ملا ہے
ہر اشکِ تمنا کا لہو رنگ ہوا ہے
آلام کی کثرت کا گلہ جب بھی کیا ہے
اعمال کے نامے میں ہوئی درج خطا ہے
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
یہ لوگ کسی حال میں خوش ہو نہیں سکتے
بے فیض زمانے سے کنارا ہی بھلا ہے
یاجوج و ماجوج ہیں یا کوئی بلا ہے
دُنیا میں کیا پھیلی یہ قیامت کی وبا ہے
ابلیس کی مانند تکبّر میں رہا ہے
انسان تو ہر دور میں فرعون بنا ہے
یہ ظلم یہ بےداد نئی بات نہیں ہے
ان اہلِ حشم کا تو وطیرہ یہ رہا ہے
کیا فرض نیابت کا نبھائے گا خُدایا
تشکیل کو آدم کی یہ انسان چلا ہے
ایمان کو چھوڑا ہے وسواس میں گھِر کر
اوہام کی دُنیا میں یوں غرقاب ہوا ہے
ق
معمور ترے نور سے یہ کون و مکاں ہیں
ان چاند ستاروں میں تری ہی تو ضیا ہے
عرفان کی ضو دے کے مجھے شمس بنا دے
پتھر کو ضیا دے کے قمر تو نے کیا ہے
ق
زرقا مفتی
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب اور لا جواب غزل ہے، سبحان اللہ۔

آپ کی چند پچھلی غزلوں اور اس غزل میں جو بات مجھے بہت اچھی لگی وہ خیالات کا تنوع ہے، خیال آفرینی میں بعض دفعہ تغزل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ قربانی بری نہیں ہے کہ بقول غالب شاعری خیال آفرینی کا ہی نام ہے اور آپ کی شاعری میں بہت اچھے خیالات پائے جاتے ہیں، ماشاءاللہ۔

اس غزل کے یہ اشعار خاص طور پر مجھے بہت اچھے لگے۔


آلام کی کثرت کا گلہ جب بھی کیا ہے
اعمال کے نامے میں ہوئی درج خطا ہے​

فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے​



اور آخر میں ایک چھوٹی سی گزارش، اس شعر کے متعلق

یاجوج و ماجوج ہیں یا کوئی بلا ہے
دُنیا میں کیا پھیلی یہ قیامت کی وبا ہے​


اس شعر کا دوسرا مصرع 'کیا' کی وجہ سے وزن سے گر رہا ہے کہ یہاں آپ نے 'کیا' کا الف اور یا دونوں گرا کر وزن پورا کیا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے، اگر ہو سکے تو اس پر نظرِ ثانی کیجیئے۔

والسلام

۔
 

الف عین

لائبریرین
زرقا۔ ابتدائی اشعار واقعی اچھے ہیں، لیکن بعد کے اشعار میں کچھ مسلسل غزل والی بات آ گئی ہے، ان اشعار میں مزید کچھ مطلعے آ گئے ہیں۔ بہتر ہو کہ ان کو دو غزلیں کر دیں۔
دو باتیں:
وارث نے درست نشان دہی کی ہے، لیکن مجھے اس کا پہلا مصرعہ بھی کھٹکا ہے۔ یاجوج و ماجوج کا حرف عطف جو واؤ ہے، وہ متحرک تقطئع میں آ رہا ہے، بالفتح۔ ہندوستا میں ہندی والے غزلوں میں اس طرح باندھتے ہیں لیکن اردو میں یہ تلفظ غلط ہے۔ اردو میں ’یا جو جو ما جو ج‘ بولا جاتا ہے اور تقطیع کی جائے گی۔
ایک چھوٹی سی اصلاح بھی۔
اس شعر میں:
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
اگر دوسرے مصرعے میں کچھ اور حق کا مقام ادل بدل کر دیں تو تاثر بڑھ جاتا ہے
یعنی
امروز کی راحت پہ بھی حق کچھ تو مرا ہے
اس میں ’کچھ تو ہے‘ میں تاثر بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ اصحاب قاف اور کاف ۔۔یعنی قاف پر ختم ہونے والے لفظ کے فوراً بعد کاف کا لفظ بھی غلط سمجھتے ہیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
بہت خوب اور لا جواب غزل ہے، سبحان اللہ۔

آپ کی چند پچھلی غزلوں اور اس غزل میں جو بات مجھے بہت اچھی لگی وہ خیالات کا تنوع ہے، خیال آفرینی میں بعض دفعہ تغزل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ قربانی بری نہیں ہے کہ بقول غالب شاعری خیال آفرینی کا ہی نام ہے اور آپ کی شاعری میں بہت اچھے خیالات پائے جاتے ہیں، ماشاءاللہ۔

اس غزل کے یہ اشعار خاص طور پر مجھے بہت اچھے لگے۔






اور آخر میں ایک چھوٹی سی گزارش، اس شعر کے متعلق




اس شعر کا دوسرا مصرع 'کیا' کی وجہ سے وزن سے گر رہا ہے کہ یہاں آپ نے 'کیا' کا الف اور یا دونوں گرا کر وزن پورا کیا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے، اگر ہو سکے تو اس پر نظرِ ثانی کیجیئے۔

والسلام

۔

وارث صاحب
غزل کی پزیرائی اور اس پر آپ کے تبصرے کے لئے بے حد ممنون ہوں۔عروض میں اب تک کمزور ہوں اس لئے کہیں نہ کہیں غلطی کر جاتی ہوں۔غلطی کی نشاندہی کے لئے شکریہ۔
والسلام
زرقا
 
اہلِ بزم
تسلیمات
ایک غزل پیش کر رہی ہوں
آپ کی آرا اور تنقید کا انتظار رہے گا
والسلام
زرقا مفتی

غزل
دُنیا کو ملا چین ، مجھے رنج ملا ہے
ہر اشکِ تمنا کا لہو رنگ ہوا ہے
آلام کی کثرت کا گلہ جب بھی کیا ہے
اعمال کے نامے میں ہوئی درج خطا ہے
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
یہ لوگ کسی حال میں خوش ہو نہیں سکتے
بے فیض زمانے سے کنارا ہی بھلا ہے
یاجوج و ماجوج ہیں یا کوئی بلا ہے
دُنیا میں کیا پھیلی یہ قیامت کی وبا ہے
ابلیس کی مانند تکبّر میں رہا ہے
انسان تو ہر دور میں فرعون بنا ہے
یہ ظلم یہ بےداد نئی بات نہیں ہے
ان اہلِ حشم کا تو وطیرہ یہ رہا ہے
کیا فرض نیابت کا نبھائے گا خُدایا
تشکیل کو آدم کی یہ انسان چلا ہے
ایمان کو چھوڑا ہے وسواس میں گھِر کر
اوہام کی دُنیا میں یوں غرقاب ہوا ہے
ق
معمور ترے نور سے یہ کون و مکاں ہیں
ان چاند ستاروں میں تری ہی تو ضیا ہے
عرفان کی ضو دے کے مجھے شمس بنا دے
پتھر کو ضیا دے کے قمر تو نے کیا ہے
ق
زرقا مفتی

آخری مصرعہ :
پتھر کو ضیا دے کےجو قمر تونے کیا ہے

"جو " کا اضافہ میرے نردیک ضروری تھا !
 

زرقا مفتی

محفلین
زرقا۔ ابتدائی اشعار واقعی اچھے ہیں، لیکن بعد کے اشعار میں کچھ مسلسل غزل والی بات آ گئی ہے، ان اشعار میں مزید کچھ مطلعے آ گئے ہیں۔ بہتر ہو کہ ان کو دو غزلیں کر دیں۔
دو باتیں:
وارث نے درست نشان دہی کی ہے، لیکن مجھے اس کا پہلا مصرعہ بھی کھٹکا ہے۔ یاجوج و ماجوج کا حرف عطف جو واؤ ہے، وہ متحرک تقطئع میں آ رہا ہے، بالفتح۔ ہندوستا میں ہندی والے غزلوں میں اس طرح باندھتے ہیں لیکن اردو میں یہ تلفظ غلط ہے۔ اردو میں ’یا جو جو ما جو ج‘ بولا جاتا ہے اور تقطیع کی جائے گی۔
ایک چھوٹی سی اصلاح بھی۔
اس شعر میں:
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
اگر دوسرے مصرعے میں کچھ اور حق کا مقام ادل بدل کر دیں تو تاثر بڑھ جاتا ہے
یعنی
امروز کی راحت پہ بھی حق کچھ تو مرا ہے
اس میں ’کچھ تو ہے‘ میں تاثر بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ اصحاب قاف اور کاف ۔۔یعنی قاف پر ختم ہونے والے لفظ کے فوراً بعد کاف کا لفظ بھی غلط سمجھتے ہیں۔

اعجاز صاحب
غزل پر تبصرے اور اصلاح کے لئے آپ کی ممنون ہوں
آپ کے اور وارث صاحب کے تبصرے کے بعد "یاجوج " والے شعر کو غزل سے نکالنا ہی بہتر ہے
امروز کی راحت پہ بھی حق کچھ تو مرا ہے
پر غور کرتی ہوں
والسلام
زرقا
 
Top