دنیا میں سب امیر کیوں نہیں

اس دنیا میں کوئی امیر ہے تو کوئی غریب۔
پھر ان امیر اور غریب کے بھی مختلف طبقے ہیں۔
بعض کو تو اتنا غریب رکھا گیا کہ انہیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی
اور بعض سونے کے نوالہ کھاتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہوتا؟
سارے لوگوں کو برابر کی رزق کیوں نہیں دی گئی؟
جبکہ سب کا خالق ایک اللہ ہی ہے اور وہی سب کو رزق بھی دینے والا ہے، پھر اللہ تعالٰی نے سارے لوگوں کو ایک جیسا رزق کیوں نہیں دیا؟ جبکہ اللہ چاہتا تو سارے لوگوں کو ایک جیسا رزق دے سکتا تھا، پھر نہ کوئی غریب ہوتا اور نہ کوئی امیر بلکہ سب برابر ہوتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تو اس بارے میں ہمارے رب کی کیا حکمتیں ہیں اسے قرآن مجید سے جانتے ہیں:

1۔ ۔ تمام لوگوں کو امیر اس لئے نہیں بنایا گیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور فائدہ اٹھا سکیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

’’کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ ان کی روزی تو ہم نے ان کے درمیان دنیا کی زندگی میں تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں (32)‘‘ سورة الزخرف

2۔ ۔ دنیا کو سرکشی اور فساد سے بچانے کیلئے تمام لوگوں کی رزق وسیع نہیں کی گئی، فرمایا:

’’اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کا رزق وسیع کردیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے با خبر ہے اور اُن پر نگاہ رکھتا ہے (27)‘‘ سورة الشورى

3۔ ۔ اللہ تعالٰی نے بعض لوگوں کو آزمائش (فتنہ) میں ڈالنے کیلئے امیر بنایا ہے، لہذا فرمایا:

’’اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش (فتنہ) میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق (حلال) ہی بہتر اور دیرپا ہے (131)‘‘ سورة طه

4۔ ۔ جو صرف دنیا طلب کرتا ہے اسے دنیا دے دی جاتی ہے اور جو آخرت کا طالب ہو اور ہو بھی وہ مومن تو اسے آخرت اس کی کوشش کے مطابق دی جائے گی۔ آخرت طلب کرنے والے اپنا زیادہ تر وقت اپنی آخرت بنانے کیلئے صرف کرتے ہیں اور دنیا سے بہت تھوڑا سا حصہ لیتے ہیں اس لئے انکی اکثریت مالدار نہیں ہوتی جبکہ طالب دنیا اپنا سارا وقت دنیا جمع کرنے کے پیچھے لگا دیتا ہے اور خوب دنیا جمع کرتا ہے۔ جیسا کہ اس بارے قرآن واضح کرتا ہے کہ

’’جو شخص بھی (صرف) دنیا کا طلب گار ہو تو ہم اسے یہیں جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنمّ ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا (18) اورجو آخرت چاہتا ہے اوراس کے لیے مناسب کوشش بھی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی کوشش مقبول ہو گی (19) ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے (20) دیکھو ہم نے ایک کو دوسرے پر کیسی فضیلت دی ہے اور (دنیا کے مقابلے میں) آخرت کے تو بڑے درجے اوربڑی فضیلت ہے (21) سورة الإسراء

5۔ ۔ انسانی معاشرے کی بقا کیلئے ہر شخص کو امیر نہیں بنایا گیا کیونکہ امیر لوگ نافرمانی اور ظلم و زیادتی کرنے میں زیادہ بے باک ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تمام لوگوں کو امیر بنا دیا جاتا تو پورا معاشرہ ظلم و بربریت سے بھر جاتا اور انسانی معاشرہ تباہ ہوکر رہ جاتا۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ

’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانی کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں (16)‘‘ سورة الإسراء

لہذا مندرجہ بالا پانچ وجوہات کی بنا پر اللہ تعالٰی نے دنیا میں ہر شخص کو ایک جیسا رزق نہیں دیا، کسی کو امیر بنایا اور کسی کو غریب۔

اللہ تعالٰی ہم سبھوں کو طالب دنیا نہیں بلکہ طالب آخرت بنائے، آخرت کی فکر کرنے والا بنائے، قرآن و سنت کی باتیں سیکھنے والا اور ان پر عمل کرنے والا بنائے، اللہ تعالٰی اپنا محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے اور اپنے حبیب ﷺ کا محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ قرآن مجید کو ہمارے دل کا بہار اور ہماری آنکھوں کا تھنڈھک بنا دے۔ ہمارے اہل و عیال اور عزیز و اقارب پر رحم کرے، ہمارے مرحومین کی بخشش فرما دے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
Top