محمد اجمل خان
محفلین
دل کے اندھے
ہماری آنکھیں دیکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتی۔ وہ جو بھی دیکھتی ہے، ٹھیک ٹھیک دیکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری آنکھوں نے گندم کو آٹا یا آٹا کو گندم دیکھا ہو۔
لیکن انسان اپنی آنکھوں سے سچ دیکھ کر بھی اسے جھٹلاتا ہے اور یہ سچ کو جھٹلانا انسان کے دل کا عمل ہے کیونکہ آنکھوں کا کام دیکھنا ہے، سوچنا اور سمجھنا نہیں ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں اور آنکھیں جو دیکھتی ہیں ہم دل و دماغ سے اس کے بارے میں سوچتے اور سمجھتے ہیں اور اس چیز کا اچھا یا برا ہونے کا تصور قائم کرتے ہیں پھر ہماری آنکھیں مجبور ہوتی ہیں ویسا ہی دیکھنے اور دکھانے میں یعنی اچھا یا برا دیکھنے اور دکھانے میں۔
لہذا جب کوئی شخص کسی کو اپنے دل میں برا سمجھنے لگتا ہے تو اس کی آنکھیں صرف اس کی برائیاں دیکھتی ہے اور جب کوئی شخص کسی کو اچھا سمجھنے لگتا ہے تو اس کی آنکھیں اس میں صرف اچھائیاں دیکھتی ہے حالانکہ ہر انسان میں اچھائی اور برائی دونوں ہیں۔
اسی طرح جب کوئی شخص گمراہی کی راہ پر چل پڑتا ہے اور اسی پر ڈٹا رہتا ہے تو دنیا میں عبرت کی داستانیں اپنی کانوں سے سنتا اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا ضرور ہے لیکن اس کا دل عبرت قبول نہیں کرتا۔ اسے ہدایت کی راہ دکھائی جاتی ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا بھی ہے لیکن اس کا دل اس ہدایت کو قبول نہیں کرتا۔ اسی کو اللہ تعالٰی نے دل کا اندھا ہونا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ۔ ۔‘‘(46) سورة الحج
لہذا اگرچہ انسان کی آنکھیں دیکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتی لیکن یہ دل ہے جو غلط تصور قائم کر لیتا ہے، گمراہی میں پڑ جاتا ہے اور اندھا ہو جاتا ہے۔
جو شخص آنکھوں سے اندھا یعنی نابینا ہوتا ہے وہ صرف دنیاوی نظاروں کو دیکھنے سے محروم رہتا ہے لیکن جو شخص دل کا اندھا ہوتا ہے وہ اپنی آنکھوں سے دنیا میں اچھے برے عبرت کا نظارہ کرتا ہے لیکن ان سے کوئی سبق نہیں لیتا، گناہ گاروں اور کرپٹ لوگوں کے انجام کو دیکھتا ہے لیکن خود گناہ اور کرپشن کرنے سے باز نہیں آتا، گمراہی میں پڑا رہتا ہے، ہدایت حاصل نہیں کرتا اور آخرت میں ہمشہ کی کامیابی کی فکر نہیں کرتا۔
دل کا اندھا شخص ہر طرح کی برائی اور گمراہی میں پڑ جاتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو لوگ کرپشن، بدعنوانی، رشوت خوری، منشیات فروشی، چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ میں ملوث ہیں یہ سارے ہی آنکھیں رکھنے والے اور آنکھوں سے دیکھنے والے ہیں لیکن دل کے اندھے ہیں۔ کاش یہ لوگ آنکھوں کے اندھے ہوتے اور دل ان کا بینا ہوتا تو دنیا میں کرپٹ اور گناہ گار لوگوں کے انجام سے عبرت پکڑتے اور اپنی آخرت کی فکر کرتے۔
یہ سب دل کے اندھے ہیں۔ دل کا اندھا ہو جانا سب سے زیادہ خطرناک ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں اور ملک میں فساد مچا رہے، کرپشن کر رہے، مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی زندگی عذاب بنا رہے ہیں لیکن یہ دل کے اندھے نہیں جانتے کہ یہ خود کس بھیانک عذاب عظیم کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں۔ یہ دل کے اندھے آج مال جمع کرنے میں مگن ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت انہیں آئے گی ہی نہیں۔ موت تو انہیں آئے گی اور عبرت ناک موت آئے گی۔ پھر اے دل کے اندھو! آج عوام کی زندگی کو عذاب بنانے والو! تمہیں جہنم کی عذاب عظیم کا مزا چکھایا جائے گا۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
ہماری آنکھیں دیکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتی۔ وہ جو بھی دیکھتی ہے، ٹھیک ٹھیک دیکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری آنکھوں نے گندم کو آٹا یا آٹا کو گندم دیکھا ہو۔
لیکن انسان اپنی آنکھوں سے سچ دیکھ کر بھی اسے جھٹلاتا ہے اور یہ سچ کو جھٹلانا انسان کے دل کا عمل ہے کیونکہ آنکھوں کا کام دیکھنا ہے، سوچنا اور سمجھنا نہیں ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں اور آنکھیں جو دیکھتی ہیں ہم دل و دماغ سے اس کے بارے میں سوچتے اور سمجھتے ہیں اور اس چیز کا اچھا یا برا ہونے کا تصور قائم کرتے ہیں پھر ہماری آنکھیں مجبور ہوتی ہیں ویسا ہی دیکھنے اور دکھانے میں یعنی اچھا یا برا دیکھنے اور دکھانے میں۔
لہذا جب کوئی شخص کسی کو اپنے دل میں برا سمجھنے لگتا ہے تو اس کی آنکھیں صرف اس کی برائیاں دیکھتی ہے اور جب کوئی شخص کسی کو اچھا سمجھنے لگتا ہے تو اس کی آنکھیں اس میں صرف اچھائیاں دیکھتی ہے حالانکہ ہر انسان میں اچھائی اور برائی دونوں ہیں۔
اسی طرح جب کوئی شخص گمراہی کی راہ پر چل پڑتا ہے اور اسی پر ڈٹا رہتا ہے تو دنیا میں عبرت کی داستانیں اپنی کانوں سے سنتا اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا ضرور ہے لیکن اس کا دل عبرت قبول نہیں کرتا۔ اسے ہدایت کی راہ دکھائی جاتی ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا بھی ہے لیکن اس کا دل اس ہدایت کو قبول نہیں کرتا۔ اسی کو اللہ تعالٰی نے دل کا اندھا ہونا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: "حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ۔ ۔‘‘(46) سورة الحج
لہذا اگرچہ انسان کی آنکھیں دیکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتی لیکن یہ دل ہے جو غلط تصور قائم کر لیتا ہے، گمراہی میں پڑ جاتا ہے اور اندھا ہو جاتا ہے۔
جو شخص آنکھوں سے اندھا یعنی نابینا ہوتا ہے وہ صرف دنیاوی نظاروں کو دیکھنے سے محروم رہتا ہے لیکن جو شخص دل کا اندھا ہوتا ہے وہ اپنی آنکھوں سے دنیا میں اچھے برے عبرت کا نظارہ کرتا ہے لیکن ان سے کوئی سبق نہیں لیتا، گناہ گاروں اور کرپٹ لوگوں کے انجام کو دیکھتا ہے لیکن خود گناہ اور کرپشن کرنے سے باز نہیں آتا، گمراہی میں پڑا رہتا ہے، ہدایت حاصل نہیں کرتا اور آخرت میں ہمشہ کی کامیابی کی فکر نہیں کرتا۔
دل کا اندھا شخص ہر طرح کی برائی اور گمراہی میں پڑ جاتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو لوگ کرپشن، بدعنوانی، رشوت خوری، منشیات فروشی، چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ میں ملوث ہیں یہ سارے ہی آنکھیں رکھنے والے اور آنکھوں سے دیکھنے والے ہیں لیکن دل کے اندھے ہیں۔ کاش یہ لوگ آنکھوں کے اندھے ہوتے اور دل ان کا بینا ہوتا تو دنیا میں کرپٹ اور گناہ گار لوگوں کے انجام سے عبرت پکڑتے اور اپنی آخرت کی فکر کرتے۔
یہ سب دل کے اندھے ہیں۔ دل کا اندھا ہو جانا سب سے زیادہ خطرناک ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں اور ملک میں فساد مچا رہے، کرپشن کر رہے، مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی زندگی عذاب بنا رہے ہیں لیکن یہ دل کے اندھے نہیں جانتے کہ یہ خود کس بھیانک عذاب عظیم کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں۔ یہ دل کے اندھے آج مال جمع کرنے میں مگن ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت انہیں آئے گی ہی نہیں۔ موت تو انہیں آئے گی اور عبرت ناک موت آئے گی۔ پھر اے دل کے اندھو! آج عوام کی زندگی کو عذاب بنانے والو! تمہیں جہنم کی عذاب عظیم کا مزا چکھایا جائے گا۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔