رفیع دل کی بات کہی نہیں جاتی

عاطف سعد 2

محفلین
محمد رفیع ہندوستانی میوزک انڈسٹری کے نامور پلے بیک سنگرز میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1940 سے 1980 کی دہائی تک بالی ووڈ موسیقی کے منظر پر غلبہ حاصل کیا اور ان کی ورسٹائل آواز نے انہیں مختلف انواع اور زبانوں میں آسانی سے گانے کی اجازت دی۔ رفیع کی روح پرور اور جذباتی پیشکشوں نے سامعین پر دیرپا اثر چھوڑا اور انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں متعدد ہٹ فلمیں دیں۔ ان کی سریلی آواز، بے عیب کنٹرول، اور گانے کے جذبات کو زندہ کرنے کی صلاحیت نے انہیں انڈسٹری میں ایک لیجنڈ بنا دیا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی، ان کے گانے دنیا بھر میں موسیقی سے محبت کرنے والوں کو متاثر اور محظوظ کرتے رہتے ہیں۔

 

سیما علی

لائبریرین
انڈیا کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو محمد رفیع کے بہت بڑے فین تھے۔ محمد رفیع نے مہاتما گاندھی کی یاد میں لکھا یہ گیت ’سنو سنو دنیا والوں، باپو کی یہ امر کہانی‘ گایا تھا۔
راجندر کرشن کا لکھا یہ گیت گانے پر انڈین وزیر اعظم نہرو نے محمد رفیع کو سرکاری ایوارڈ سے نوازا تھا۔
نہرو لگ بھگ 17سال تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے اور اس عرصہ کے دوران متعدد مرتبہ سرکاری اور نجی محفلوں میں محمد رفیع نے پنڈت نہرو کو اپنا مدھر سنگیت سنایا۔
ایک تقریب میں جب محمد رفیع اپنا یہ گیت گا رہے تھے ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ تو پنڈت نہرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔‘ اس کے علاوہ ’چودھویں کا چاند ہو‘ اور ’سہانی رات ڈھل چکی نجانے تم کب آؤ گے‘ نہرو فرمائش کر کے سنا کرتے تھے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو محمد رفیع پر بڑے مہربان تھے۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ ’رفیع صاحب! میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘ اس پر محمد رفیع نے کوئی مالی فائدہ اٹھانے کی بجائے انھیں صرف اتنا کہا کہ ’آل انڈیا ریڈیو سے میرا نام ’رفیع‘ اناؤنس کیا جاتا ہے، جبکہ میرا پورا نام محمد رفیع ہے۔ براہ کرام حکم صادر فرمائیں کہ آئندہ میرا پورا نام لکھا اور پکارا جائے۔‘
یہ واقعہ ماضی کے معروف فلمی جریدے 'شمع دھلی' میں شائع ہو چکا


محمد رفیع جو دھنوں سے کھلونوں کی طرح کھیلتے تھے - BBC News اردو
 
آخری تدوین:
Top