میر دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا، جانا ہے

اس کی نگاہِ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں
یعنی دل پہلو میں میرے تیرِستم کا نشانہ ہے

دل جو رہے تو پاؤں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں
صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے

سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے زرد کبھو ہے منھ میرا
کیا کیا رنگ محبت کے ہیں یہ بھی ایک زمانہ ہے

اس نومیدیِ بے غایت پر کس مقدار کڑھا کریے
دو دم جیتے رہنا ہے تو قیامت تک مر جانا ہے

فرصت کم ہے یاں رہنے کی بات نہیں کچھ کہنے کی
آنکھیں کھول کے کان جو کھولو بزمِ جہاں افسانہ ہے

فائدہ ہوگا کیا مترتب ناصح ہرزہ درائی سے
کس کی نصیحت کون سنے ہے عاشق تو دیوانہ ہے

تیغ تلے ہی اس کے کیوں نہ گردن ڈال کے جا بیٹھیں
سر تو آخرکار ہمیں بھی خاک کی اور جھکانا ہے

آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرزِ نگہ طراری ساری میرؔ تمھیں پہچانا ہے

(میر تقی میرؔ)

 
آخری تدوین:
Top