دل کا عالم عاشقی میں کیا کہوں کیا ہو گیا ٭ اوگھٹ شاہ وارثی

دل کا عالم عاشقی میں کیا کہوں کیا ہو گیا
رنج سہتے سہتے پتھر کا کلیجہ ہو گیا

چین ایک دن بھی نہ پایا میں فراق یار میں
وحشت دل کم ہوئی تھی کچھ کہ سودا ہو گیا

گر پڑے غش کھا کے عاشق اور مردے جی اٹھے
دو قدم جب وہ چلے یہ حشر برپا ہو گیا

ہو گئے ہم صورت دیوار اس کو دیکھ کر
کوچۂ جاناں میں کل اپنا یہ نقشہ ہو گیا

حال سن کے یار کا آئی تن بے جاں میں جاں
نامہ بر میرے لئے گویا مسیحا ہو گیا

سیر کرنے بام پر آیا جو وہ پردہ نشیں
سارا عالم دیکھ کر محو تماشہ ہو گیا

ذکر اپنا آج کل سنتے ہیں اوگھٹؔ ہر کہیں
اپنی بربادی کا بھی مشہور قصہ ہو گیا

اوگھٹ شاہ وارثی
 

الف عین

لائبریرین
صوفی نامہ سے تعارف کرانے کا شکریہ، ریختہ کی نقل کرنے والوں نے یہ کام اچھا کیا کہ ڈونیشن ریختہ فاؤنڈیشن کو ہی دیے جانے کا نظم قائم رکھا ہے
 
Top