دل سے اتر گیا ہے دل میں اترنے والا---برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
دل سے اتر گیا ہے دل میں اترنے والا
یکتا ہے حسن اس کا دل کا مگر ہے کالا
--------------
رہتا تھا دل میں میرے جیسے یہ اس کا گھر ہے
کرتی تھی یاد اس کی دل میں مرے اجالا
-------------
لینا بھی نام اس کا ہے نا پسند مجھ کو
میں نے لگا لیا ہے اپنی زباں پہ تالا
---------------
الفت کی بات مجھ سے کرتا رہا وہ لیکن
نفرت کو اپنے دل میں میرے لئے تھا پالا
--------------
میری وفا کو چونکہ دھوکہ دیا ہے اس نے
اس بات پر ہی میں نے دل سے اسے نکالا
--------
کرتا تھا پیار ارشد اس کے تو ساتھ اتنا
اس کا بنا کے رکھا ہاتھوں کا جیسے چھالا
--------------یا
اس کو بنا کے رکھا تھا انگلی کا چھالا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
اس بار لگتا ہے کہ کچھ وقت گزارا گیا ہے!
ایک مشورہ یہ بھی دیتا چلوں کہ اب کوئی دوسری بحر میں بھی مشق کریں، اور یہ کہ غیر مردف بھی بہت ہو گئیں، اب کچھ ردیف والی کہو، کم از کم دو الفاظ کی ردیف کی، زیادہ طویک نہیں!

دل سے اتر گیا ہے دل میں اترنے والا
یکتا ہے حسن اس کا دل کا مگر ہے کالا
-------------- پہلا مصرع زبردست! دوسرا ساتھ نہیں دے رہا اس کا، ویسے درست

رہتا تھا دل میں میرے جیسے یہ اس کا گھر ہے
کرتی تھی یاد اس کی دل میں مرے اجالا
------------- 'گھر ہو' زیادہ درست ہو گا

لینا بھی نام اس کا ہے نا پسند مجھ کو
میں نے لگا لیا ہے اپنی زباں پہ تالا
--------------- غزل مسلسل ہے تو اس کے مطابق تمام صیغے اور واردات ہونی چاہیے، یہاں کہیں 'اب' کا اضافہ بہتر ہو گا، جیسے
اب اس کا نام لینا مجھ کو نہیں گوارا
اگر اا میں 'بھی' بھی آ سکے تو مزید بہتر ہو

الفت کی بات مجھ سے کرتا رہا وہ لیکن
نفرت کو اپنے دل میں میرے لئے تھا پالا
-------------- ٹھیک، اگرچہ روانی زیادہ بہتر نہیں

میری وفا کو چونکہ دھوکہ دیا ہے اس نے
اس بات پر ہی میں نے دل سے اسے نکالا
-------- یہ بھی روانی میں اچھا نہیں

کرتا تھا پیار ارشد اس کے تو ساتھ اتنا
اس کا بنا کے رکھا ہاتھوں کا جیسے چھالا
--------------یا
اس کو بنا کے رکھا تھا انگلی کا چھالا
--------- انگلی تو اس وزن میں نہیں، ن معلنہ نہیں اوع تقطیع میں نہیں آتا۔ محاورہ ہتھیلی کے چھالے کا ہے، ہاتھوں بھی علط لگتا ہے۔ پہلا مصرع بھی 'تو' کے باعث پسند نہیں آیا
 
مدیر کی آخری تدوین:
الف عین
(دوبارا )
دل سے اتر گیا ہے دل میں اترنے والا
مانا حسیں ہے لیکن من کا بہت ہے کالا
------------
رہتا تھا دل میں میرے جیسے اسی کا گھر ہو
کرتا تھا پیار اس کا دل میں مرے اجالا
-------------
لینے میں نام اس کا میرے لئے ہے سبکی
-------یا
اب اس کا نام لینا مجھ کو نہیں گوارا
میں نے لگا لیا ہے اپنی زباں پہ تالا
------------
چاہت زباں پہ لیکن دل میں چھپی تھی نفرت
اک بے وفا سے میرا ایسے پڑا تھا پالا
-----------
جھوٹی وفا دکھا کر دھوکہ دیا تھا مجھ کو
اس بات پر ہی میں نے دل سے اسے نکالا
----------
اس کے فریب کو بس میں ہی سمجھ نہ پایا
شائد مری سمجھ کو اب لگ گیا ہے جالا
-------------یا
اس وقت عقل کو میری ہی لگا تھا جالا
------------
ارشد تجھے تھا رہتا ہردم خیال اس کا
جیسے ہو وہ ہتھیلی کا تیری ایک چھالا
-----------
 

الف عین

لائبریرین
دل سے اتر گیا ہے دل میں اترنے والا
مانا حسیں ہے لیکن من کا بہت ہے کالا
------------ مطلع میں ربط کی کمی کی بات کی تھی میں نے، یہ مصرع بھی مختلف الفاظ میں وہء بات کہہ رہا ہے۔ یہ جملہ محض ایک بیان لگتا ہے، کیوں دل سے اتر گیا کی وضاحت نہیں کرتا

رہتا تھا دل میں میرے جیسے اسی کا گھر ہو
کرتا تھا پیار اس کا دل میں مرے اجالا
------------- درست
لینے میں نام اس کا میرے لئے ہے سبکی
-------یا
اب اس کا نام لینا مجھ کو نہیں گوارا
میں نے لگا لیا ہے اپنی زباں پہ تالا
------------ اب اس کا نام لوں میں. یہ بھی نہیں گوارا
بہتر گرہ ہو گی

چاہت زباں پہ لیکن دل میں چھپی تھی نفرت
اک بے وفا سے میرا ایسے پڑا تھا پالا
----------- 'ایسے' پالا کے لیے لگتا ہے جب لہ شاید 'ایسے بے وفا' کہنا تھا!

جھوٹی وفا دکھا کر دھوکہ دیا تھا مجھ کو
اس بات پر ہی میں نے دل سے اسے نکالا
---------- ٹھیک

اس کے فریب کو بس میں ہی سمجھ نہ پایا
شائد مری سمجھ کو اب لگ گیا ہے جالا
-------------یا
اس وقت عقل کو میری ہی لگا تھا جالا
------------ دوسرے متبادل میں تو لفظ ٹوٹ رہا ہے
شاید لگا ہوا تھا میری سمجھ کو جالا
بہتر ہو گا

ارشد تجھے تھا رہتا ہردم خیال اس کا
جیسے ہو وہ ہتھیلی کا تیری ایک چھالا
----------- دوسرے مصرعے میں بیان تقسیم ہو رہا ہے، تیری ہتھیلی ایک ہی ٹکڑے میں آئے تو بہتر ہے
 
Top