دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے۔توصیف تبسم

دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے
اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے

شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجیے
آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے

ٹوٹ کر شاخ سے اک برگ خزاں آمادہ
سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے

کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں
میرے دامن میں لہو ہے تو مہکتا کیا ہے

دل پہ قابو ہو تو ہم بھی سر محفل دیکھیں
وہ خم زلف ہے کیا صورت زیبا کیا ہے

ٹھہرو اور ایک نظر وقت کی تحریر پڑھو
ریگ ساحل یہ رم موج نے لکھا کیا ہے

کوئی رہبر ہے نہ رستہ ہے نہ منزل توصیفؔ
ہم کہ گرد رہ صرصر ہیں ہمارا کیا ہے

توصیف تبسم
 
Top