دلائل کہ موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و سنت کے مخالف ہے

مہوش علی

لائبریرین
وکیپیڈیا پر یہ مضمون اس لنک پر موجود ہے (یونیکوڈ شکل میں)۔ اگر کسی کو مزید بحث کے لئے اقتباس لینا ہے تو وہاں سے لے سکتا ہے۔
ذیل میں میں اسکو تصویری شکل میں پیش کر رہی ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں نے اسے تصویری شکل میں مانگا ہے تاکہ وہ اسے آگے دوسرے لوگوں تک پہنچا سکیں۔
ابتک اس مضمون کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
مسیحی جوڑے کو آگ مین زندہ جلا دینے کا واقعہ بہت تکلیف دہ ہے۔ انسانیت کی تذلیل دیکھی نہیں جاتی۔

تصویر کا لنک
image.png
 

مہوش علی

لائبریرین


شکریہ۔
آپ کے پیشکردہ ان دونوں لنکز میں جتنے دلائل دیے گئے ہیں، انکے جوابات پہلے سے میرے آرٹیکل میں موجود ہیں۔
کیا آپکے لیے ممکن ہے کہ آپ انکا براہ راست جواب دے سکیں۔

یہ مضمون وکیپیڈیا پر یونیکوڈ اردو میں بھی موجود ہے (لنک

مثلا یہ پہلی روایت جس سے ہمارے علماء حضرات الرجک نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے توہین رسالت پر ہزاروں آرٹیکلز لکھے مگر اس سلسلے کی سب سے اہم اور براہ راست روایت کو آج تک وہ چھو بھی نہ سکے بلکہ عوام سے مسلسل چھپائے جا رہے ہیں اور اسکی بجائے قرآن کی "تفسیر بالرائے" کر کر کے عوام کو بہکا رہے ہیں۔

جناب ابو ہریرہ کی والدہ کا توہین رسالت کا واقعہ[ترمیم]
حضرت ابو ہریرہ کی والدہ نے جب رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو اس پر حضرت ابو ہریرہ نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ ہی رسول اللہ (ص) نے اسکا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ رسول اللہ (ص) نے انکی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔[2]

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی
تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور اچھا فرمایا ۔ ( صحیح مسلم )۔

رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں توہین رسالت پر قتل کی سزا نہیں ہے بلکہ اس پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے، اس پر اللہ تعالی سے ایسے لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کرنا ہے۔
 
کسی موضوع پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے حق اور سچائی کو پانے یا کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اگر مندرجہ ذیل نقاط پرغور کر لیں تو بعض اوقات ہم بہت جلد کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں
سچائی کا فیصلہ کیسے ہوگا، ہو سکتا ہے ایک فریق کے لیے ایک فرد کا قول حجت ہو اور دوسرے فریق کے لیے نہ ہو
ایک فریق صرف قرآن و حدیث پر اصرار کرے اور دوسرا فریق قیاس ،اجماع اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اقوال اور افعال پر بھی اپنے عقاید کی بنیاد رکھے
ایک فریق مسئلہ کے اثبات کے لیے پیش کی گئی فریق ثانی کی حدیث کو ضعیف یا اس کے حکم کو منسوخ قرار دے دے یا حدیث کی تفہیم میں ہی اختلاف رائے ہو -
اس طرز پر اگر اصولوں کو اخذ کرنے کے بنیادی امور میں ہی اختلاف ہو تو عقاید یا اصولوں میں اختلاف لازم ہوگا اور ایک کا سچ دوسرا کے سچ سے مختلف ہوگا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کسی موضوع پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے حق اور سچائی کو پانے یا کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اگر مندرجہ ذیل نقاط پرغور کر لیں تو بعض اوقات ہم بہت جلد کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں
سچائی کا فیصلہ کیسے ہوگا، ہو سکتا ہے ایک فریق کے لیے ایک فرد کا قول حجت ہو اور دوسرے فریق کے لیے نہ ہو
ایک فریق صرف قرآن و حدیث پر اصرار کرے اور دوسرا فریق قیاس ،اجماع اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اقوال اور افعال پر بھی اپنے عقاید کی بنیاد رکھے
ایک فریق مسئلہ کے اثبات کے لیے پیش کی گئی فریق ثانی کی حدیث کو ضعیف یا اس کے حکم کو منسوخ قرار دے دے یا حدیث کی تفہیم میں ہی اختلاف رائے ہو -
اس طرز پر اگر اصولوں کو اخذ کرنے کے بنیادی امور میں ہی اختلاف ہو تو عقاید یا اصولوں میں اختلاف لازم ہوگا اور ایک کا سچ دوسرا کے سچ سے مختلف ہوگا۔

آپکا یہ عذر خامخواہ میں ہی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ آپ کو یہ پرابلمز فقط "توہینِ رسالت"کے مسئلے میں ہی نظر کیوں آ رہے ہیں۔ اگر یہ ایسے ہی بڑے اختلافات اور مسائل ہیں تو پھر پوری شریعت کو اٹھا کر ہی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دینا چاہیے۔

ابھی تک آپ لوگوں کی طرف سے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ سٹینڈرڈز بنائے گئے تھے:۔

1۔ پہلی فوقیت ہے قرآن و حدیث
2۔ اجماع یا قیاس یا صحابی کی رائے وغیرہ کا دخل صرف وہاں آ سکتا ہے جہاں قرآن و حدیث موجود نہ ہوں۔ لیکن جہاں احکامات قرآن و حدیث میں موجود ہوں، وہاں نہ کوئی اجماع ہو گا، نہ قیاس اور نہ کسی صحابی کی رائے۔
3۔ حدیث میں کچھ متفق علیہ ہیں۔ تو انہیں پھر متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟

اگر اپ اپنے بنائے ہوئے ان سٹینڈرڈز کی ہی پیروی نہ کریں، تو یہ چیز "ڈبل سٹینڈرڈز" یا پھر "منافقانہ رویہ" کہلوائے گی۔

1۔ جناب ابو ہریرہ والی روایت اس موضوع پر سب سے "براہ راست" روایت ہے۔۔۔ یہ روایت سب کے نزدیک "صحیح" ہے ۔۔۔ اس روایت کے مقابلے میں کسی صحابی، یا اجماع یا قیاس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔۔۔
مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آجکے علماء حضرات کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے توہین رسالت پر کئی ہزار آرٹیکلز لکھے، مگر اس موضوع پر موجود اس سب سے اہم روایت کو مسلسل وہ عوام کی نظروں سے "چھپاتے" رہے۔ کیا آپ کو یہ افسوسناک پہلو نظر آ رہا ہے؟

2۔ پھر یہ علماء حضرات اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے اندھے صحابی، یہودیہ عورت، کنیز باندی وغیرہ کی 3 روایات پیش کرتے ہیں۔
اگر یہ تینوں روایات "صحیح" مان بھی لی جائیں تب بھی یہ روایات آج کے "توہین رسالت" قانون اور علماء حضرات کے مؤقف کے بذاتِ خود خلاف جا رہی ہیں۔

مثلاً علماء حضرات کا مؤقف اور موجودہ توہین رسالت قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی "ایک مرتبہ" بھی ذرا سا بھی توہین رسالت کرتا ہے، تو اسے ہر صورت فی الفور قتل کر دیا جائے گا اور اسے کوئی توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
جبکہ یہ تینوں روایات اسکا الٹا ثابت کر رہی ہیں اور وہ یہ کہ یہ یہودی عورت، اور کنیز باندی "مسلسل" رسول (ص) کی شان میں گستاخی کرتی تھیں اور صحابہ یہ دیکھتے تھے، مگر ہر مرتبہ انہیں فی الفور قتل کر دینے کی بجائے انہیں اچھی نصیحت کرتے تھے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔ مگر بار بار کی نصیحٹ کے بعد بھی جب وہ باز نہ آئیں تو اس پر انہیں قتل کیا گیا۔
چنانچہ حیرت کی انتہا ہے کہ کئی ہزار بار یہ روایات پیش کرنے کے باوجود علماء حضرات کو یہ صاف صاف پہلو نظر کیوں نہیں آیا کہ یہ تینوں روایات کو بذاتِ خود موجودہ توہین رسالت قانون کو باطل ثابت کر رہی ہیں؟

مجھے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں، مگر کسی عالم یا کسی ادارے کی طرف سے اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔
چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ "اجماع، قیاس یا صحابی کی رائے" وغیرہ کا مسئلہ ہی نہیں رہا ہے، بلکہ سیدھا سادھا "ڈبل سٹینڈرڈز" یعنی منافقانہ رویوں کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس میں علماء حضرات کی طرف سے پیشکردہ روایات بذاتِ خود انکے مؤقف کا گلا گھونٹ رہی ہیں اور موجودہ توہین رسالت قانون کو باطل ثابت کر رہی ہیں۔


کیا ماورائے عدالت قتل کو روکا جا سکتا ہے؟
یہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ جن روایات سے یہ لوگ دلیل پکڑ رہے ہیں، وہ تو بذاتِ خود ماورائے عدالت قتل کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں:
  1. عصماء بنت عمیس کا واقعہ جو کہ علماء حضرات بڑھ چڑھ کر معصوم عوام الناس کو سنا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں صحابی عمیر بن عدی کے نام پر یہ سنت بیان کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے فیصلہ کر کے اس عورت کو "ماورائے عدالت" قتل کر دیا۔ اور جب بعد میں رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس ماورائے عدالت فعل سے خوش ہوئے۔
  2. ابن عباس والی روایت جہاں نابینا صحابی نے اپنے دو بچوں کی ماں کنیز کو ایک دن غصے میں آ کر ماورائے عدالت قتل کر دیا، اور جب رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس فعل پر راضی ہوئے۔
  3. ام مکتوم والی روایت جہاں پھر سے ماورائے عدالت قتل پر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔
  4. علی ابن ابی طالب سے مروی یہودیہ عورت کا ماورائے عدالت قتل جس پر پھر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔
اگرچہ کہ بذات خود ان حضرات کی اکثریت ماورائے عدالت قتل کو ناجائز بتاتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، مگر انتہا پسند حضرات کے پیش کردہ ان دلائل کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور جلد یا بدیر انتہا پسند حضرات اس امر میں اِن پر غالب آنےوالے ہیں۔

مثال کے طور پر انٹرنیٹ پرسعودیہ کے مفتی، ناصر الدین البانی صاحب کے حوالے یہ تحریر لنک) جہاں ایک طرف وہ ماورائے عدالت قتل کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں، مگر دوسری طرف ہی انہیں خود ماننا پڑ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے ماورائے عدالت قتل کر بھی دے تو بھی اس کا کوئی مواخذہ ہو گا اور نہ کوئی سزا۔

عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے کچھ سوال جواب یوں ہوئے ہیں :
سوال :
کیا اہانتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مرتکب کو کوئی بھی عام مسلمان قتل کر سکتا ہے؟
جواب :
یہ بات صحیح ہے کہ اہانت رسول کرنے والے کی سزا موت ہےلیکن اس کا حق صرف حکمران کو یا اس کے نائب کو ہے ہر کسی کو نہیں
سوال :
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ایک صحابی نے بغیر حکومت کے بھی خود سے اپنی لونڈی کو قتل کر دیا کہ جب اس نے اہانت رسول کی
جواب :
یہ تو ایک واقعہ ہے کہ جب کوئی جذبات میں مغلوب ہوکر ایسا اقدام کرلے تو قدراللہ وماشاء فعل دلائل سے ثابت ہونے کے بعد اس کا مواخذہ پھر نہیں ہونا چاہیے مگر عمومی قاعدہ یہ نہیں کہ ہر کوئی خود سے قتل کر دے
سوال:
مرنے والے پر اظہار افسوس ؟؟
جواب :
نہیں افسوس تو نہیں ہوسکتا۔

اس سوال جواب میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر شیخ ناصر الدین البانی صاحب کی کوشش ہے کہ چیزوں کو اعتدال میں لیا جائےکہ یہ صرف حکومت یا عدالت کا حق ہےکہ سزا دے۔ مگر دوسری طرف جن روایات کو وہ خود بغیر درایت کے اصولوں پر پرکھے توہین رسالت کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور جہاں نہ کسی گواہ کی ضرورت ہے اور نہ عدالت کی، اسی کو بنیاد بنا کر انتہا پسند انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ مانیں کہ اگر کوئی شخص ماورائے عدالت بھی قتل کر دے تو بھی اسکا مواخذہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی سزا۔
 

شاکر

محفلین
ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردے۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر مقتول کے وارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔

بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزائے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزائے موت نہیں ہوگی۔

اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حصلی نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔

ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کو حاصل ہوگا۔

اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔

نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزائے موت کو نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھا اور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔

لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی الللہ عنہ کی والدہ پر اعتراض بھی باطل ہے۔ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں کو درست نیت کے ساتھ راعنا کہہ کر بلانے سے بھی منع کرتی ہے، کیونکر ایسا خلا چھوڑ سکتی ہے کہ اس عظیم نبی کی توہین اس سے کہیں بڑے درجے میں ہوتی رہے اور قانون کے ہاتھ بندھے ہوں۔ علمائے امت نے اس موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ طلب نہیں چھوڑا کہ اس کے لئے فورمز پر بحث کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہو۔ الصارم المسلول کا مطالعہ ہی کر لیں تو کافی ہے۔

ماورائے عدالت والی بات کا بہترین جواب عثمانی صاحب دے چکے ہیں۔
http://deeneislam.com/ur/horiz/halate_hazra/685/article.php?CID=685
 
آپکا یہ عذر خامخواہ میں ہی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ آپ کو یہ پرابلمز فقط "توہینِ رسالت"کے مسئلے میں ہی نظر کیوں آ رہے ہیں۔ اگر یہ ایسے ہی بڑے اختلافات اور مسائل ہیں تو پھر پوری شریعت کو اٹھا کر ہی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دینا چاہیے۔
ابھی تک آپ لوگوں کی طرف سے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ سٹینڈرڈز بنائے گئے تھے:۔
1۔ پہلی فوقیت ہے قرآن و حدیث
معذرت کہ اپنا مدعا پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا
چلیں دوسرے الفاظ میں بات کر لیتے ہیں،

اپنے مراسلے کا مقصد مثال دے کر واضح کرتا ہوں اگر کسی مسلم کی ایک کافر سے بحث ہو رہی ہو تو مسلم اس کو قرآن و حدیث سے دلائل نہیں دے گا کہ وہ ان کو مانتا ہی نہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلم بھی نہیں مانتا - تو اس طرز پر مخاطب کی سچائی کی کسوٹی معلوم کرنا مقصود تھا صرف

وہ تو معلوم نہیں ہو سکا تو پھر عمومی تصور سے کام چلانا پڑے گا

بطور مسلم آپ کی نظر میں سچائی کی دلیل لازما قرآن و سنت( حدیث
) تو ہوگی ہی

تو ایک آسان سا سوال ہے؟

-قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرتے وقت آپ اس کی کونسی تفہیم لیں گے، کیا وہ تفسیر اور تفہیم جو اہل زبان کرتے ہیں یا وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنے صحابہ کو تعلیم دی اور جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عمل کیا ( امت کا کوئی فرد صحابہ سے زیادہ قرآن و سنت کو سمجھنے کا دعویدار نہیں ہو سکتا اور پھر تابعین، تبع تابعین اور علماء اسلام کا درجہ آتا ہے)

اگر تو وہ تفسیر لیں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سمجھی اور اس پر عمل کیا تو آپ میرے دیے گئے لنک میں دیکھ لیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اس مسئلہ پر کیا عمل تھا اور بات ختم ہو جاتی ہے

اگر کسی کو وہ تفہیم قبول نہیں تو پھر بات کرنا فضول ہے کہ اسلام کی ساری عمارت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی روایت کردہ احادیث مبارکہ پر کھڑی ہے

۔ اجماع یا قیاس یا صحابی کی رائے وغیرہ کا دخل صرف وہاں آ سکتا ہے جہاں قرآن و حدیث موجود نہ ہوں۔ لیکن جہاں احکامات قرآن و حدیث میں موجود ہوں، وہاں نہ کوئی اجماع ہو گا، نہ قیاس اور نہ کسی صحابی کی رائے۔
جی جہاں واضح احکام موجود ہوں اور یہ واضح اس طرح ہوں کہ ان احکام کی عملی صورت صحابہ کے عمل کی صورت موجود رہی ہو وہاں کوئی اجماع یا قیاس نہیں کیا جاتا ہے ، ہاں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی رائے اور عمل تو ضرور دیکھا جائے گا۔

مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آجکے علماء حضرات کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے توہین رسالت پر کئی ہزار آرٹیکلز لکھے، مگر اس موضوع پر موجود اس سب سے اہم روایت کو مسلسل وہ عوام کی نظروں سے "چھپاتے" رہے۔ کیا آپ کو یہ افسوسناک پہلو نظر آ رہا ہے؟
چلیں آج کے علماء سے خطاء ہو گئی تو کیا صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قروں اولی کے علماء کرام نے بھی اس قدر " واضح روایت" کے ہونے کے باوجود گستاخ کی موت کا موقف اختیار کر کے نعوذ باللہ غلطی کی اور آج کل کے کچھ " افراد" کو زیادہ تفہیم ہو گئی ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب واضح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردے۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر مقتول کے وارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔

بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزائے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزائے موت نہیں ہوگی۔

اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حصلی نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔

ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کو حاصل ہوگا۔

اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔

نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزائے موت کو نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھا اور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔

لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی الللہ عنہ کی والدہ پر اعتراض بھی باطل ہے۔ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں کو درست نیت کے ساتھ راعنا کہہ کر بلانے سے بھی منع کرتی ہے، کیونکر ایسا خلا چھوڑ سکتی ہے کہ اس عظیم نبی کی توہین اس سے کہیں بڑے درجے میں ہوتی رہے اور قانون کے ہاتھ بندھے ہوں۔ علمائے امت نے اس موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ طلب نہیں چھوڑا کہ اس کے لئے

اس بہانے کا جواب اوپر آرٹیکل میں پہلے سے موجود تھا۔

عذر: رسول (ص) کے علاوہ کوئی معافی نہیں دے سکتا[ترمیم]
رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ آپ نے اپنی توہین کرنے والوں کو معاف کیا اور خیبر، مکہ و طائف وغیرہ فتح ہو جانے کے باوجود ان تمام لوگوں کو قتل نہیں کیا جو آپ (ص) کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔
اس پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کو حق حاصل تھا کہ جو انکی شان میں گستاخی کرے اُسے معاف کر دیں، مگر ہمارے پاس آج یہ حق نہیں ، چنانچہ کسی بھی چھوٹے بڑے توہین کے واقعے کے بعد قتل کی سزا ہر حال میں پوری کی جائے گی۔ مگر یہ عذر بھی لغو ہے کیونکہ :
  1. رسول (ص) سے براہ راست کوئی ایسی بات بیان نہیں ہوئی ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کو اس لیے معاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ انکا حق ہے، بلکہ یہ موجودہ توہین رسالت قانون کے حمایتیوں کی "اپنی طرف" سے گھڑا گیا ایک "نیا بدعتی قیاس" ہے جسکی حیثیت ایک بہانے سے زیادہ نہیں۔
    مثلاً ہزاروں اہل مکہ کو رسول (ص) نے فتح مکہ کے وقت معاف کیا۔ اس پر بہانہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ رسول (ص) کا حق تھا کیونکہ وہ رسول (ص) کی توہین کرتے تھے۔۔۔۔ مگر یہ بہانہ نہیں چل سکتا کیونکہ اہل مکہ فقط رسول (ص) کی ہی توہین نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اپنے بتوں کے مقابلے میں اللہ کی بھی توہین کرتے تھے، وہ اپنے دین کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بھی توہین کیا کرتے تھے۔
  2. اللہ نے سورۃ آل عمران ، آیت 186 میں صرف رسول (ص) کو ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صبر وتحمل کرنے کا حکم دیا ہے۔۔
  3. اور جب حضرت ابوہریرہ کی والدہ نے رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابو ہریرہ اس پر شدید رنجیدہ ہوئے، مگر آپ نے انکی اس گستاخی پر عفو و درگذر سے کام لیا، نہ کہ فوراً انکو قتل کر ڈالا۔معاف کرنے کا حق فقط رسول (ص) کا تھا اور ابو ہریرہ کے پاس یہ حق نہیں تھا تو پھر تو جناب ابو ہریرہ کو فی الفور اپنی والدہ کو قتل کر دینا چاہیے تھا ۔ مگر نہیں، وہ یہ حق نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی والدہ کو قتل نہیں کرتے، اور پھر رسول (ص) کے پاس حاضر ہو کر بھی قتل کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اللہ کے رسول (ص) سے اپنی والدہ کی ہدایت کی دعا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
  4. بلکہ موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کی اپنی پیش کردہ نابینا صحابی اور یہودیہ عورت والی روایات کو بھی صحیح مان لیا جائے تب بھی ان سب سے "الٹا" یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلا قدم عفو و درگذر اور صبر و تحمل اور نیک نصیحت کا ہے، اور یہ عفو و درگذر فقط رسول (ص) تک محدود نہیں بلکہ وہ نابینا صحابی پہلے قدم میں عفو و درگذر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس روایت میں صاف صاف، بہت صاف طور پر موجود ہے کہ وہ کنیز باندی مسلسل اور بار بار رسول (ص) کی توہین کیا کرتی تھی۔۔۔ اور وہ صحابی معاف کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود اس کنیز باندی کو قتل نہیں کرتے تھے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ فقط نیک نصیحت کرتے تھے۔ چنانچہ بذات خود یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ یہ رسول (ص) کے حق کا عذر بنانا ایک "نیا بدعتی" اپنی طرف سے گھڑا گیا بہانہ ہے جسکا ذکر نہ رسول (ص) نے کبھی کیا اور نہ صحابہ کو علم تھا۔

ماورائے عدالت والی بات کا بہترین جواب عثمانی صاحب دے چکے ہیں۔
http://deeneislam.com/ur/horiz/halate_hazra/685/article.php?CID=685
عثمانی صاحب نے البانی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ دونوں حضرات ہی ماورائے عدالت قتل کو تشہیر کر رہے ہیں، اور اسے ایک بہانے یا دوسرے بہانے حلال بنا رہے ہیں۔

البانی صاحب کے فتویٰ کا مطلب:
ماورائے عدالت قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی نے توہین رسالت پر "ماورائے عدالت" قتل کر دیا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں اور اس پر کوئی سزا نہیں کیونکہ صحابہ نے جب اپنی کنیز باندی یا پھر یہودیہ عورت وغیرہ کو قتل کیا تو انہیں اسکے لیے کسی گواہ وغیرہ کی ضرورت نہ تھی۔

عثمانی صاحب کے فتویٰ کا مطلب:
ماورائے عدالت قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر ثبوت نہیں بھی ہے تب بھی اللہ کے ہاں یہ کام بہت پسندیدہ ہے۔ جاؤ اور قتل کرو کیونکہ صحابہ نے پہلے کنیز باندی اور یہودیہ عورت وغیرہ کو قتل کیا تھا، اور پھر یہ بات عدالت تک پہنچی تھی۔

عثمانی صاحب سے پھر پوچھنا چاہیے کہ موجودہ قانون میں پھر وہ ترمیم کر دیں اور قانون یہ بنا دیں کہ توہین رسالت دیکھتے ہی صحابہ کی طرح قتل کر ڈالو اور پھر کوئی ثبوت ہے تو عدالت میں پیش کر دو، وگرنہ اللہ کے ہاں تو مقبول ہو ہی جاؤ گے۔۔۔۔۔ بلکہ صرف ایک توہین رسالت ہی کیا، بقیہ جرائم پر بھی پھر فتویٰ دے ڈالیے کہ دیکھتے ہی قتل کر ڈالو، اور بعد میں ضرورت پڑے تو عدالت میں ثبوت دے دینا، وگرنہ اللہ کے ہاں تو مقبول ہو ہی جاؤ گے۔

حقیقت یہ ہے کہ عثمانی صاحب "اللہ کے ہاں مقبول" ہو جانے کے احمقانہ فتوے کے نتائج نہیں جانتے۔ یہ سب سے بڑی ناانصافی ہے کہ جس شخص پر الزام لگایا جا رہا ہے، اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جا رہا ہے جو کہ انصاف کا قتل ہے۔ اور پاکستان جیسا انتہا پسند ملا انفیکٹڈ معاشرہ کہ جہاں توہین رسالت پر ایک شخص کو سزا نہیں ہوتی بلکہ پورا خاندان ہی اسکی نظر ہو جاتا ہے، جس کی مثال حالیہ کیس میں سامنے آئی جہاں صرف ماں بننے والی عورت کو ہی موقع پر نہیں قتل کیا گیا، بلکہ اسکے شوہر کو بھی ساتھ میں آگ میں جلا دیا گیا۔ یہ ہے عثمانی صاحب کا انصاف جہاں یہ بچہ بھی پیدا ہونے سے پہلے مارا جائے گا اور ہر وہ شخص جو قریبی رشتے دار ہو گا یا پھر لوگوں کو اس پاگل پن سے روکنے کی کوشش کرے گا۔

بلکہ شاید اس بچے اور اسکی ماں کے قتل کرنے کا سبق بھی عثمانی صاحب نے اس روایت سے لیا ہے:

سنن ابو داؤد کی روایت:

ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں۔


علماء حضرات اس روایت پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اس روایت کے صحیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو انہیں مزید ان سوالات کا جواب دینا پڑے گا:

  1. اس روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل رسول (ص) کو بُرا بھلا کہتی تھی۔
  2. اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگذر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے۔
    موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کے سامنے جب اوپر کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جہاں رسول اللہ (ص) نے صبر اور عفو و درگذر سے کام لیا (مثلا حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کا واقعہ)، تو وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ صرف رسول اللہ (ص) کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی ذات پر گستاخی کرنے والے کو معاف کر دیں۔ اور چونکہ آج رسول اللہ (ص) دنیا میں موجود نہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی گستاخی پر قتل کی سزا ہر صورت جاری ہو جائے گی۔
    مگر انکی اپنی پیش کردہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نابینا صحابی پہلی مرتبہ میں ہیں فوراً اپنی باندی کو قتل نہیں کر رہے ہیں بلکہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہوئے اُسے مستقل نیک نصیحت کر رہے ہیں اور اسے ادب سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس روایت کی روشنی میں انکے اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی اور عفو و درگذر اور معافی کے راستے ہرگز بند نہیں ہیں۔

فورمز پر بحث کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہو۔ الصارم المسلول کا مطالعہ ہی کر لیں تو کافی ہے۔
کیا آپ کو علم ہے کہ الصارم المسلول میں ابن تیمیہ صاحب نے بہت سی ضعیف حدیثوں سے قتل جیسی سزا کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ بہت سی روایات ایسی ہیں جنکا ابن تیمیہ صاحب نے صحیح حوالہ تک نہیں دیا ہے اور وہ فقط الصارم المسلول میں ہی پائی جاتی ہیں؟

کیا آپ کو ابن تیمیہ صاحب کی اس بددیانتی کا علم ہے جب انہوں نے جناب عمر کے حوالے سے "صحیح روایت" کو نظر انداز کر کے ضعیف روایت کو آگے پیش کیا اور ایسی ہی بددیانتی کی وجہ سے ممتاز قادری جیسے لوگ آج سلمان تاثیر کو شہید کر رہے ہوتے ہیں۔

حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا[ترمیم]
یہ لوگ حضرت عمر ابن الخطاب کی اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:

اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”
اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریم(ص) کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔


حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:

  1. یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
  2. یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
  3. یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
  4. اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص) کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔


سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کالنک یہ ہے۔

حضرت عمر والی یہ روایت علم درایت کی کسوٹی پر[ترمیم]
عقل اللہ کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر یوں آنکھیں بند کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روایات پیش کرنے کی بجائے کچھ عقل سے کام لے لیا جائے تو بہت سی ایسی ناگوار باتوں سے بچا جا سکتا ہے۔

اس روایت کے مطابق ایک شخص کو رسول اللہ (ص) کےدنیاوی معاملے کے صرف ایک فیصلے پر اعتراض ہوا تو حضرت عمر نے فوراً بغیر کسی توبہ کا موقع دیے، بغیر کوئی وارننگ دیے فی الفور اسے قتل کر دیا۔

مگر ذرا سوچئے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے، وہ رسول (ص) کا دنیاوی معاملات میں ایک فیصلہ تو کیا بلکہ پوری کی پوری شریعت کو پامال کر کے اسکا انکار کر رہا ہوتا ہے، اللہ اور اسکے رسول کا مکمل انکار کر رہا ہوتا ہے، مگر اسکے باوجود اسے فی الفور قتل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اُسے تین دن کی مہلت دینا کا حکم ہے تاکہ اُسے موقع مل سکے کہ وہ توبہ کر سکے۔

عقل رکھنے اور اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اس بات میں مکمل سبق موجود ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔

سلمان تاثیر کا قتل اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے[ترمیم]
جتنے بھی حضرات (علماء) نے ممتاز قادری کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی حضرت عمر والی ضعیف اور منکر روایت کو استعمال کیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔


اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔​
 
آخری تدوین:

منصور مکرم

محفلین
جہاں تک میں نے یہ بحث دیکھی ،تو اگر اس میں سے یہ معمولی تلخی کم کردی جائے تو یہ بحث بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے ،بلکہ آگے چل کر شائد کوئی مثبت پہلو نکل آئے۔

لیکن شرط وہی کہ مقصد دلائل پر گفتگو ہی ہو، بحث برائے بحث نہ ہو۔
 

منصور مکرم

محفلین
میرے خیال سے تو اس موضوع پر ایک غیر جانب دار مقالے یا تحقیق کی ضرورت ہے۔تاکہ اس موضوع کی باریکیوں کو مدنظر رکھ کر کوئی حل نکل سکے۔
 
موضوع ۔ گستاخ رسول ہر حال میں واجب القتل ہے خواہ توبہ کرے یا نہ کرے

1- احادیث کہ بعض گستاخ کو معاف کر دیا گیا

1-مہوش علی صاحبہ
خلاصہ
احادیث سے ثابت ہے کہ گستاخ رسول کو نصیحت کی جاتی تھی اور اس کو توبہ کا موقع دیا جاتا تھا ہاں اگر وہ اپنی روش پر قائم رہے تو وہ واجب قتل ہے

2-شاکر صاحب
خلاصہ
۱-نبی کی عزت کو گستاخ نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کو حاصل ہوگا۔ اور اس بنا پر کسی حکمت کے پیش نظر کچھ گستاخان رسول کومعاف کیا گیا۔
۲-شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں کو درست نیت کے ساتھ راعنا کہہ کر بلانے سے بھی منع کرتی ہے، کیونکر ایسا خلا چھوڑ سکتی ہے کہ اس عظیم نبی کی توہین اس سے کہیں بڑے درجے میں ہوتی رہے اور قانون کے ہاتھ بندھے ہوں۔
۳-صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
3-مہوش علی صاحبہ
خلاصہ
۱-رسول (ص) سے براہ راست کوئی ایسی بات بیان نہیں ہوئی ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کو اس لیے معاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ انکا حق ہے، بلکہ یہ موجودہ توہین رسالت قانون کے حمایتیوں کی "اپنی طرف" سے گھڑا گیا ایک "نیا بدعتی قیاس" ہے جسکی حیثیت ایک بہانے سے زیادہ نہیں۔
۲-یہ بہانہ نہیں چل سکتا کیونکہ اہل مکہ فقط رسول (ص) کی ہی توہین نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اپنے بتوں کے مقابلے میں اللہ کی بھی توہین کرتے تھے، وہ اپنے دین کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بھی توہین کیا کرتے تھے۔
3-۔معاف کرنے کا حق فقط رسول (ص) کا تھا اور ابو ہریرہ کے پاس یہ حق نہیں تھا تو پھر تو جناب ابو ہریرہ کو فی الفور اپنی والدہ کو قتل کر دینا چاہیے تھا

2- روایات کہ صحابہ اکرام نے بعض گستاخان کو ہر حال میں واجب القتل قرار دیا اور امت کے جید علماء کا موقف

4-شاکر صاحب
-صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں

5-مہوش علی صاحبہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضور اکرم کا فیصلہ نہ ماننے پر ایک منافق کو توبہ اور معافی کا موقع دیے بغیر فی الفور قتل کرنے کی روایت ضعیف ،غریب اور منکر ہے اور ضمرة بن حبيب والی رویت لائق اعتماد نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کا زمانہ نہیں پایا –
پھر عقلی اعتبار سے بھی اس روایت پر اعتراضات ہیں

---------------------------------------------------------------------------
اب ہم (فدوی یا دیگر احباب) ایسی دیگر روایات پیش کریں گے جن سے واضح ہے کہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعیں اور تبع تابعیں نے قرآں و حدیث کی تفہیم سے ( زیر بحث موضوع ) کیا اخذ کیا تھا
مہوش صاحبہ یا دیگر احباب سے درخواست ہے کہ یہ واضح کریں اور مسلم امہ میں ایسے کونسے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین،تابعین، تبع تابعیں، محدثین، فقھا تھے جن کا موقف مہوش صٓاحبہ نے اختیار کیا ہوا ہے یا پھر کیا یہ اسلامی تاریخ میں کوئی نیا موقف ہے؟
 
آخری تدوین:
مسلہ ناموس رسالت " صل الله علیہ وسلم " اور امت وسط !
ناموس رسالت براہ راست مسلمانوں کے عقیدہ کا معاملہ ہے یہ اس ہستی کا معاملہ ہے جس کی شان میں گستاخی تو کجا ادنی سی کمی چاہے وہ غیر ارادی ہی کیوں نہ ہو خالق حقیقی کو برداشت نہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اونچی آواز میں کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں اورتمہیں خبر بھی نہ ہو !
بے شک یہ ادب کی جا ہے یہ سنبھلنے کا مقام ہے یہ وہ پل صراط ہے جسکی ایک جانب جنت تو دوسری جانب جہنم ہے ..
ایک جانب تو وہ طبقہ ہے جن کے نزدیک چاہے نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی شان میں کتنی ہی گستاخی کیوں نہ ہو جاوے آپ اپنے اعلی ترین اخلاق پر قائم رہیں زیادہ سے زیادہ مسکرا دیجئے چند دعوتی کلمات ادا کر دیجئے یا سر جھکائے کان دبائے وہاں سے چلے آئیں ....
اس طبقے سے سوال یہ کرنا ہے کہ اگر بھری محفل میں کوئی انکی مستورات یا مکشوفات سے دست درازی شروع کر دے تو ان کا رد عمل کیا ہو گا
ہاتھ جوڑ دینگے سامنے والے کی منت سماجت کریں گے اسکے قدموں میں گر جاوینگے اور ناک سے لکیریں نکالینگے یا مسکرا کر منہ دوسری جانب پھیر لینگے ........؟
حقیقت تو یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک نبی علیہ سلام کی حیثیت صرف ایک پیغمبر اور وہ بھی انگریزی کے پوسٹمین کی ہے ان کو محمد عربی صل الله علیہ وسلم کے مقام عالی کی سمجھ ہی نہیں .....
تو دوسری جانب وہ طبقہ ہے کہ اگر اس کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کریں عقیدہ کے مسائل بیان کریں ان کو خالص توحید کی جانب بلائیں اور شرک کی غلاظت سے روکیں تو انکی جانب سے صرف ایک ہی دلیل سامنے آتی ہے " وہابی گستاخ رسول "
اہل سنت وسط میں ہیں یہاں نبی اور نبی کے متعلقین اصحاب رسول امہات المومنین اہل بیت اطہار سب کی ناموس مقدم و محترم ہے اور ان میں سے کسی کی شان میں بھی ادنی سی گستاخی بھی قابل برداشت نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ بلا تحقیق کسی بھی گروہ پر نادانی میں جاپڑیں اور فساد فی الارض کا موجب بنیں .....
يَ۔ٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن جَآءَكُمْ فَاسِقُۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓاْ أَن تُصِيبُواْ قَوْمَۢا بِجَهَ۔ٰلَةٍ فَتُصْبِحُواْ عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَ۔ٰدِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو
ایک طبقے کی جانب سے کچھ ایسے اشکالات اٹھتے ہیں
الله کے رسول علیہ سلام نے تو طائف میں پتھروں سے لہو لہان کرنے والوں کو معاف کر دیا تھا کوڑا پھینکنے والی کی عیادت کی قتل کا ارادہ کرنے والوں کو سینے سے لگایا .....
سمجھ لیجئے نبی رحمت صل الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جن لوگوں سے درگزر کا معاملہ فرمایا وہ آپ کی شخصی رحم دلی کا مظہر تھا لیکن یہاں معاملہ خالص قانونی ہے
ناموس رسالت کی حفاظت پوری امت پر لازم ہے اور اس فریضے کو امت کی جانب سے ریاست سر انجام دیتی ہے اگر ریاست اپنے اس فرض منصبی میں کوتاہی کی مرتکب ہو تو پھر یہ ذمےداری افراد کی جانب پلٹتی ہے ...
الله کے رسول کی ذات صرف ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ آپ کی شخصیت قوانین و عقائد اسلامی کا منبع و مصدر ہے بلکہ ہم نے تو خالق حقیقی کے کلام کو بھی محمد عربی صل الله علیہ وسلم کی توسط سے پہچانا ہے .....
قل اطیعو اللہ والرسول فان تولوا فان اللہ لا یحب الکٰفرین (آل عمران:32)۔
اے نبی ان سے کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔ پھر اگر وہ اس سے منہ موڑیں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یایھا الذین امنوا امنوا باللہ و رسولہ (انسا : 136(
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، (سچے دل سے) ایمان لاؤ اللہ اور رسول پر۔
انما المومنون الذین امنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرقابوا (الحجرات:15(
مومن تو اصل میں وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، پھر شک میں نہ پرے۔
ومن لم یومن باللہ و رسولہ فانا اعتدنا للکٰفرین سعیرا (الفتح:(13
اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر، تو ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔
ان اللہ لعن الکفرین واعد لھم سعیرا خالدین فیھا ابدا لا یجدون الیا ولا نصیرا یوم تقلب وجوھھم فی النار یقولون یالیتنا اطعنا اللہ و اطعنا الرسولا (الاحزاب: 64، 65، 66
یقینا اللہ نے لعنت کی کافروں پر اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس روز کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔ جب ان کے چہرے آگ پر پلٹائے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔
وما منعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم کفروا باللہ وبرسولہ (التوبہ:54
ان کے نفاق کو قبول ہونے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ انہوں نے کفر کیا، اللہ اور اس کے رسول سے۔
ان تستغفر لھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم ذالک بانھم کفروا باللہ و رسولہ (التوبہ:80
اے نبی اگر تم ان کے لیے ستر بار مغفرت کی دعا کرو تو اللہ انہیں نہ بخشنے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے۔
ولا تصل علیٰ احد منھم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا باللہ و رسولہ وما توارھم فاسقون (التوبہ:84
اور ان میں سے جو کوئی مر جائے، اس کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں۔
یا ایھا الذین امنوا اطیعوھ اللہ و اطیعوھ الرسول ولا تبطلوھ اعمالکم (محمد:33
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کر لو۔
ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خالدین فیھا ابدا (الجن:23
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
الم یعلموا انہ من یحادد اللہ و رسول فان لم نار جھنم خالدا فیھا (التوبہ:63
کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرئے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
واللہ و رسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین (التوبہ:62
اللہ اور اس کا رسول اس کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ اس کو راضی کریں اگر وہ مومن ہیں۔
ملاحظہ کیجئے ان آیات مبارکہ کو جہاں جہاں خالق حقیقی کی اطاعت کا تذکرہ ہے وہیں محمد عربی صل الله علیہ وسلم کا ذکر بھی موجود ہے ...
سو الله کے رسول کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا اصل میں اسلام کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے .....
دوسری طرف اگر آپ عالمی قوانین پر نگاہ ڈالیں تو دنیا کی کسی بھی موجود آئینی ریاست میں وہاں کے ملکی قانون وہاں کے دستور وہاں کے ریاستی اداروں اور مقتدر شخصیات کی شان میں کوئی بھی تنقیص قابل قبول نہیں اخلاقیات کے بہانے اہل اسلام کو نبی کی شان میں گستاخی کا بھاشن کیوں دیا جا رہا ہے .
ایسا ہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک ہر مخالف فرقہ گروہ جماعت ادارہ یا مذھب جب تلک گستاخ ہی قرار نہ دے دیا جاوے انکی مذہبی دکانیں چلتی نہیں ہیں ......
بَاب قَوْلِهٖ تَعَالٰى {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا} وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ۔
ارشادِ الہٰی ’’ہم نے اسی طرح تم کو امت وسط بنایا ہے‘‘، اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپ کی مراد جماعت سے اہل علم کی جماعت تھی۔

حسیب احمد حسیب
 
سوال آپ سب سے ، گستاخ رسول کی گستاخی ثابت کرنے کے لئے کتنے گواہان کی ضرورت ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عطا فرمائیے؟
 
آسہ بی بی کے مقدمے میں کوئی چشم دید گواہ عدالت میں پیش نہیں ہوا، صرف دو عورتوں کے حلف نامے پیش کئے گے۔ دفاع کو ان دو گواہوں سے جرح کا موقع نہیں ملا۔ کیا بناء چشم دید گواہوں کے ایسا جرم ثابت کیا جاسکتا ہے؟ کیا بناء چشم دید گواہوں کے سزائے موت دی جاسکتی ہے؟
 
کوئی جرم گوہوں کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا، خاص طور پر آسیہ نورین کے مقدمے میں کوئی گواہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ ان گواہوں پر عدالت میں جرح نہیں ہوئی۔ دو عدد مبینہ طور پر گواہ خواتین نے اپنے اپنے حلف نامے ، جمع کرائے، جس کی بنیاد پر آسیہ نورین کو جیل میں 11 سال سے سڑایا جارہا ہے۔ وہ ایک کال کوٹھری میں بند ہے ، نا یہ موت ہے اور نا ہی یہ زندگی۔ کوئی اس کی آواز سننے والا نہیں ۔ جس کا کوئی نہیں اس کا رب، اللہ تعالی ۔۔۔ اس جرم کی سزا سارے پاکستان کو مل کر رہے گی۔

بے جور و خظا جن ظالموں نے معصوم ذبح کرڈالا ہے
ان ظالموں کے بھی لہو کا پھر بہتا ندی نالہ ہے
یا دیر نہیں اندھیر نہیں، یاں عدل و انصاف پرستی ہے
اس ہاتھ سے دو اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے

(معذرت، شاعر سے معذرت)
 
Top