دعا اور قبولیت

عاطف بٹ

محفلین
۔۔۔ دعا دوسرے تمام شرعی اور تقریری اسباب کی طرح مطلوب کے حصول کا سبب ہوتی ہے، خواہ دعا کو سبب کا نام دیا جائے یا جزو سبب کا، یا اسے شرط کہا جائے، مقصود ایک ہی ہے۔ اللہ جب بندے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ وہ دعا کرے اور مدد کا طالب ہو، پھر اس کی اسی دعا اور طلبِ نصرت کو اس کی بھلائی کا سبب بنادیتا ہے جو اس کے حق میں مقدر ہوچکی ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ’میرے ذمے صرف یہ ہے کہ دعا کروں، اس کی قبولیت میرے ذمے نہیں ہے لیکن جب میرے دل میں دعا ڈال دی جاتی ہے تو قبولیت بھی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔‘

(شیخ الاسلام امام احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصنیف ’اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب الجحیم‘ کے اقتباس کا ترجمہ)
 
Top