رضا دشمنِ احمد پہ شدت کیجیئے

ساجد

محفلین
ساجد بھائی نے سوال کیا اعلیٰ حضرت کے اس شعر پر
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
"یارسول اللہ" کی کثرت کیجئے
"مجھے ایک سوال پوچھنا ہے کہ جو مسلمان ”یا رسول اللہ “ نہ کہے کیا وہ بے دین ہو جاتا ہے؟۔ جبکہ دینداری کا اسلامی معیار تو اللہ کی توحید اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی ماننا ہے ، اس میں تو ”یا رسول اللہ“ کہنے کی شرط نہیں ہے۔"
اقول و باللہ التوفیق
جی سر! یہ ایک علمی گفتگو ہے۔ اس کو علمی سطح پر ہی جانچا پرکھا جائے ۔ انگریزی وکیپیڈیا میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری کے تنقید والے حصے میں لکھا ہے کہ انہوں نے علماء دیوبند کی تکفیر کی۔ اس کی وجہ کچھ لوگ ان کی عشقِ رسول میں حد درجہ مبالغہ آرائی کو قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ عاشق رسول کو عشق کی وجہ سے کفر کے فتوے دینے والی مشین سمجھ لیا جائے۔ ہمارے ہاں کچھ نعت خواں بھی اسی سوچ کے مظہر ہیں۔ کہتے ہیں کہ کہ وہ کالی کوئل نے جواب دیا میں عشق رسول میں جل کر کالی ہو چکی ہوں۔ یہ بھی زیادتی و ظلم والی بات ہے کہ عشقِ رسول میں غرقاب بندے کو کالا، جلا ہوا یا مجنون سمجھ لیا جائے اور اسے عقل و دانش سے بے بہرہ گردانا جائے۔
یو ٹیوب پر علامہ محمد ارشدالقادری کے سوال و جواب والے جو کلپس ہیں۔ ان کا لنک یہ ہے۔
اور سر چ کریں۔ گوگل میں سے۔
میں اس وقت یہ ویڈیو دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان میں یوٹیوب بند ہے۔
اس وجہ سے مجھے ایگزیکٹ کلپ کا بھی اس وقت یقین نہیں۔ لیکن انہی میں سے کوئی ایک ہوگا۔
یہاں اس سوال کے جواب میں کہ کیا صحابہ نے نبی پاک کے وصال کے بعد "یارسول اللہ" کا نعرہ لگایا۔
علامہ نے بتایا کہ جنگ یمامہ جو کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں سن 13 ہجری میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی اس میں صحابہ نے اپنا کوڈ ورڈ
(Code Word)
رکھا تھا "یا رسول اللہ" کا نعرہ۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب کے ہرکارے بھی "اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتے تھے۔ صحابہ کو حکم تھا کہ جو کہے "اللہ اکبر، یا محمدَ یارسول اللہ" اس کو چھوڑ دو۔ جو "یا محمدَ یا رسول اللہ" نہ کہے اسے قتل کر دو۔ اس کا حوالہ وڈیو کلپ میں موجود نہیں۔ لیکن میں نے خود پوچھا تھا۔ انہوں نے(مفتی محمد ارشدالقادری نے) تاریخ "وفا ء الوفاء" اور "البدایہ والنھایہ لابنِ کثیر" کا بتایا کہ ان کتب میں یہ واقعہ موجودہے۔
پھر نماز میں "السلام علیک ایھاالنبی" کا بیان ہے۔ اسلام کے سب ماننے والے نماز میں پڑھتے ہیں۔ پہلے(بعد از وصال نبوی) صحابہ نے منع فرما کر "السلام علی النبی" کا فتویٰ دیا۔ لیکن پھر رجوع فرما کر نماز میں "السلام علیک ایھا النبی " پڑھنے کا فتویٰ دیا۔ اس کا حوالہ قاضی عیاض مالکی کی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى سے دیا ہے علامہ نے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز میں سلام بطور واقعہ ہے۔ مثلاً واقعہ معراج میں اللہ کی طرف سے سلام کو بطور تذکرہ پڑھا جاتا ہے۔ لیکن میری نظر سے مفتی محمد خان قادری کی کتاب " یارسول اللہ کہنا امت کا متفقہ مؤقف " اور ایک عرب عالم کی کتاب کا اردو ترجمہ"پکارو یا رسول اللہ" قبلہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری کے قلم سے گزرا ہے۔جن میں اس موضوع کی ابحاث کو تفصیلاً سمیٹا گیا ہے کہ یہ سلام نماز میں بطور سلام ہی ہے۔ بطور واقعہ نہیں۔
ایک اور دلیل اگر بطور واقعہ سمجھا جاتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علہھم اجمعین پہلے سلام سمجھتے ہوئے منع نہ فرماتے۔ بعد میں حکم دینا سلام کے جواز کی دلیل ہے۔
اسی نوعیت کے لا تعداد واقعات کتب تواریخ اور کتب احادیث سے ملتے ہیں۔
حال ہی میں جب امریکی گستاخوں کی طرف سے ایک گستاخانہ فلم بنائی گئی تو اُس کے بعد پوری دُنیا خصوصاً عرب دُنیا کے لوگوں نے جو پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے ان پر یہ نعرہ جابجا درج تھا "لبیک یا رسول اللہ"۔
وہ بینرز بریلی شریف سے بن کر نہیں گئے تھے بلکہ عالَم اسلام کے مسلمانوں کے عقیدے کا اظہار تھا۔
رہا آپ کا سوال
"مجھے ایک سوال پوچھنا ہے کہ جو مسلمان ”یا رسول اللہ “ نہ کہے کیا وہ بے دین ہو جاتا ہے؟۔ جبکہ دینداری کا اسلامی معیار تو اللہ کی توحید اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی ماننا ہے ، اس میں تو ”یا رسول اللہ“ کہنے کی شرط نہیں ہے۔"
اس کا جواب میری رائے میں یہ ہے کہ
جب نماز میں شرط ہے تو باہر بھی ہونی چاہیے
اگر یا رسول اللہ پُکارنے کو شرک قرار دیا جائے تو یا تو پُکارنے والا شاید "بے دین" ہو۔ یا مُشرک کہنے والا خود بخود "بے دین" ہو جائے گا۔ دونوں میں سے ایک پر اس کا لزوم ہے۔
جو لوگ تھوک کے لحاظ سے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدے کی وجہ سے اُن پر فتوے لگائیں تواُن "بے دینوں" کے دل غیظ میں جلانے کے لیے "یا رسول اللہ" پُکارنے کی کثرت کا کہا گیا ہے۔
جب صحابہ کرام نے ایمان کی علامت جنگ یمامہ میں "یا محمدَ یا رسول اللہ" کے نعرے کو قرار دیا۔یہ ایمان کی علامت ہے۔ تو یہ شرک تو نہ ہوا۔ صحابہ کرام سے بہتر توحید کون جانتا ہے۔
یہ گزارشات میری بساط کے مطابق ہیں۔ نہ کوئی فتویٰ ہے۔ اور نہ کوئی لٹھ بردار دھونس۔
اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِعام رکھ دیا
قادری صاحب میں نے تو یہ سوال ہی نہیں کیا کہ یارسول اللہ کس نے کب کب کہا ۔ میں نے یہ دریافت کرنا چاہا تھا کہ کیا مسلم ہونے کے لئے یا رسول اللہ کا اقرار کرنا بنیادی شرط ہے؟ اور اگر کوئی یہ کلمہ نہیں کہتا تو کیا مسلمان نہیں کہلائے گا؟۔
میں نے یارسول اللہ پکارنے کو شرک نہیں کہا اور علمی اختلاف کو دوسرا مطلب تکفیر ہوا بھی نہیں کرتا لیکن آپ کے الفاظ
اگر یا رسول اللہ پُکارنے کو شرک قرار دیا جائے تو یا تو پُکارنے والا شاید "بے دین" ہو۔ یا مُشرک کہنے والا خود بخود "بے دین" ہو جائے گا۔ دونوں میں سے ایک پر اس کا لزوم ہے۔
نے معاملہ وہاں پہنچا دیا ہے جہاں یہ دینداری کے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائم کردہ معیار سے متصادم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ میں اس سوال کے ذریعہ کچھ سیکھنا اور سمجھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی جانب سےاس میں شرک اور مُشرک کے الفاظ کی آمیزش کی وجہ سے میں اس سوال سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
آپ کی تسلی طبع کے لئےذیل میں ایک تصویر پیش خدمت ہے جس میں خطاطی کے دو پارے ہیں جو میرے بیٹے کے ایک کیلی گرافر دوست نے اسے تحفہ دئے اور میں نے اپنے بیٹے سے کہہ کر انہیں اپنی لائبریری کے دراوازے پر خصوصی طور پر آویزاں کر وایا۔ اب آپ کے جواب کے بعدمیں سوچ رہا ہوں کہ میں اس پارے کے آویزاں کرنے سے پہلے بے دین تھا یا خدانخواستہ اب بے دین ہو گیا ہوں۔
:)
بس ایک گزارش ہے کہ سوال سن کر تحمل سے جواب دیا کیجئے تا کہ پوچھنے والا مزید کچھ پوچھنے کی ہمت بھی کر سکے۔ کفر اور شرک کو اتنی عجلت سے بیچ میں لانا مناسب نہیں ہوتا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
DSC03178.JPG
 
بس ایک گزارش ہے کہ سوال سن کر تحمل سے جواب دیا کیجئے تا کہ پوچھنے والا مزید کچھ پوچھنے کی ہمت بھی کر سکے۔ کفر اور شرک کو اتنی عجلت سے بیچ میں لانا مناسب نہیں ہوتا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
DSC03178.JPG
میں نے اپنے طور پر انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر جذباتی تحریر لگتی ہے تو معذرت۔ اسی لیے میں نے ایک دن سے زیادہ وقت لگایا۔
 

یوسف-2

محفلین
ا ایسا نہ کہنے
قادری صاحب میں نے تو یہ سوال ہی نہیں کیا کہ یارسول اللہ کس نے کب کب کہا ۔ میں نے یہ دریافت کرنا چاہا تھا کہ کیا مسلم ہونے کے لئے یا رسول اللہ کا اقرار کرنا بنیادی شرط ہے؟ اور اگر کوئی یہ کلمہ نہیں کہتا تو کیا مسلمان نہیں کہلائے گا؟۔
میں نے یارسول اللہ پکارنے کو شرک نہیں کہا اور علمی اختلاف کو دوسرا مطلب تکفیر ہوا بھی نہیں کرتا لیکن آپ کے الفاظ

نے معاملہ وہاں پہنچا دیا ہے جہاں یہ دینداری کے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائم کردہ معیار سے متصادم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ میں اس سوال کے ذریعہ کچھ سیکھنا اور سمجھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی جانب سےاس میں شرک اور مُشرک کے الفاظ کی آمیزش کی وجہ سے میں اس سوال سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
آپ کی تسلی طبع کے لئےذیل میں ایک تصویر پیش خدمت ہے جس میں خطاطی کے دو پارے ہیں جو میرے بیٹے کے ایک کیلی گرافر دوست نے اسے تحفہ دئے اور میں نے اپنے بیٹے سے کہہ کر انہیں اپنی لائبریری کے دراوازے پر خصوصی طور پر آویزاں کر وایا۔ اب آپ کے جواب کے بعدمیں سوچ رہا ہوں کہ میں اس پارے کے آویزاں کرنے سے پہلے بے دین تھا یا خدانخواستہ اب بے دین ہو گیا ہوں۔
:)
بس ایک گزارش ہے کہ سوال سن کر تحمل سے جواب دیا کیجئے تا کہ پوچھنے والا مزید کچھ پوچھنے کی ہمت بھی کر سکے۔ کفر اور شرک کو اتنی عجلت سے بیچ میں لانا مناسب نہیں ہوتا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
DSC03178.JPG
مکالمہ کا انداز پسند آیا ساجد بھائی!:)
  1. ”یارسول اللہ“ کہنا یا نہ کہنا، دین کے کسی بھی ایسے بنیادی ارکان میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی ایک فریق اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یا مرتکب شرک ہوتا ہو۔ اصل میں ”یارسول اللہ“ کہنے یا نہ کہنے کے پیچھے ”اصل کہانی“ کچھ اور ہے۔
  2. ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کا یہ کہنا یا ”ماننا“ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید میلاد النبی (ایک نئی اور” تیسری عید “ جیسے عید غدیر :p ) کی ہر محفل میں بالخصوص ”موجود“ ہوتے ہیں۔ اور ”موجود فرد“ کو ”یا“ کہہ کر بلایا جاسکتا ہے۔ اور اُن سے ”مدد“ بھی مانگی جاسکتی ہے ”یا رسول اللہ مدد“ کہہ کر، جیسے کہ ایک دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ ”یا علی مدد“ کہتے ہیں۔
  3. ”یا رسول اللہ“ یا ”یا رسول اللہ مدد“ اگر اس ”عقیدہ“ کے تحت کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر محفل میں اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں تو اس عقیدہ کی ”نفی“ کے لئے کہا جاتا ہے کہ ”یا رسول اللہ“ نہ کہا جائے۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں کا کہنا ہے۔ کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جودرود میرے روضہ کے سامنے پڑھا جاتا ہے، اسے میں خود سنتا ہوں اور جو دنیا میں کہیں اور پڑھا جاتا ہے، وہ مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔
  4. منرجہ بالا عقیدہ کے بغیر ”یا رسول اللہ“ کہنے کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ کہ ہم ”غیر موجود“ فرد کو بھی کسی کلام میں ”مخاطب“ کرسکتے ہیں۔ تاہم اب ہم میں ایک ایسا ”متشدد طبقہ“ بھی وجود میں آگیا ہے، جو سرے سے ہی ایسا کہنے کو منع کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مندرجہ بالا (غلط) عقیدہ رکھنے والے ”غلط مفہوم“ کی ادائیگی کے لئے ”یا رسول اللہ“ کہتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی ”مشابہت نہ کرتے“ ہوئے ایسا ہرگزنہیں کہنا چاہئے کہ ایسا کہنے والا ”مشرک“ ہوجاتا ہے۔:)
 
یا رسول اللہ کہنا یا نہ کہنا، ان سب امور کا تعلق روحانیت سے ہے۔ بزرگانِ دین ، اولیاء کرام اور عامتہ المسلمین میں فرق ہوتا ہے۔۔ان دونوں کی understanding اور perceptionsمیں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جب ایسے لوگ یا رسول اللہ کہتے ہیں تو اسکے پیچھے ایک حقیقت ہوتی ہے کیونکہ ان لوگوںکو حضوری حاصل ہوتی ہے۔۔لیکن عامتہ المسلمین میں سے وہ لوگ جو ان بزرگانِ دین اور اولیاء کرام سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں، وہ ان لوگوں کی اتباع کرتے ہوئے اور انکی تقلید کرتے ہوئے یا رسول اللہ کہتے ہیں اگرچہ ویسی حضوری اور ویسی روحانیت انکو حاصل نہیں ہوتی۔۔۔چنانچہ ان دونوں کے یارسول اللہ کہنے میں فرق ہے۔۔البتہ جو لوگ اس عمل کو شرک کہتے ہیں وہ لوگ خود ایسے وسوسوں اور دوئی یعنی شرک میں پڑے ہوتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے انکو یہ عمل سراسر شرک نظر آتا ہے۔۔حالانکہ قصور انکی اپنی فہم کا ہے۔
 

نگار ف

محفلین
دشمنِ احمد پہ شدت کیجئے
ملحدوں کی کیا مروت کیجئے
جزاک اللہ۔۔۔۔
پھر نماز میں "السلام علیک ایھاالنبی" کا بیان ہے۔ اسلام کے سب ماننے والے نماز میں پڑھتے ہیں۔ پہلے(بعد از وصال نبوی) صحابہ نے منع فرما کر "السلام علی النبی" کا فتویٰ دیا۔ لیکن پھر رجوع فرما کر نماز میں "السلام علیک ایھا النبی " پڑھنے کا فتویٰ دیا۔ اس کا حوالہ قاضی عیاض مالکی کی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى سے دیا ہے علامہ نے۔
محترم قادری صاحب، کافی مفصّل اور جامع جواب ہے۔ جزاک اللہ
 

عدیل منا

محفلین
اس کا جواب قادری بھائی ہی دے سکتے ہیں میں تو ابھی نومولود ہوں
آپ نے "حدائق بخشش" ڈاوؤن لوڈ کرنے کی بات کی تھی اس لئے میں نے آپ کو بھی ٹیگ کیا کہ جب آپ جلد 3 پڑھیں گے تو اس میں قابل اعتراض شاعری بھی ملے گی۔ اگر آپ اس بارے میں پہلے سے جانتے ہونگے تو وضاحت کر دیں گے۔ اگر نہیں جانتے تو اس میں ذرا احتیاط برتیئے کہ یہ شاعری احمد رضا سے منسوب کی گئی ہے۔ اصل صورتحال کی عبدالرزاق قادری صاحب سے امید ہے کہ وضاحت کریں گے۔
 

یوسف-2

محفلین
یا رسول اللہ کہنا یا نہ کہنا، ان سب امور کا تعلق روحانیت سے ہے۔ بزرگانِ دین ، اولیاء کرام اور عامتہ المسلمین میں فرق ہوتا ہے۔۔ان دونوں کی understanding اور perceptionsمیں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جب ایسے لوگ یا رسول اللہ کہتے ہیں تو اسکے پیچھے ایک حقیقت ہوتی ہے کیونکہ ان لوگوںکو حضوری حاصل ہوتی ہے۔۔لیکن عامتہ المسلمین میں سے وہ لوگ جو ان بزرگانِ دین اور اولیاء کرام سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں، وہ ان لوگوں کی اتباع کرتے ہوئے اور انکی تقلید کرتے ہوئے یا رسول اللہ کہتے ہیں اگرچہ ویسی حضوری اور ویسی روحانیت انکو حاصل نہیں ہوتی۔۔۔ چنانچہ ان دونوں کے یارسول اللہ کہنے میں فرق ہے۔۔البتہ جو لوگ اس عمل کو شرک کہتے ہیں وہ لوگ خود ایسے وسوسوں اور دوئی یعنی شرک میں پڑے ہوتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے انکو یہ عمل سراسر شرک نظر آتا ہے۔۔حالانکہ قصور انکی اپنی فہم کا ہے۔
اگر آپ خفا ہوئے بغیر جواب دے سکتے ہوں تو کچھ پوچھنے کی جسارت کروں؟
کیا شریعت کے ضابطے عامتہ المسلمین کے لئے الگ ہیں اور بزرگان دین و اولیاء کرام کے لئے الگ ؟
 
اگر آپ خفا ہوئے بغیر جواب دے سکتے ہوں تو کچھ پوچھنے کی جسارت کروں؟
کیا شریعت کے ضابطے عامتہ المسلمین کے لئے الگ ہیں اور بزرگان دین و اولیاء کرام کے لئے الگ ؟
جناب اس میں خفا ہونے والی کونسی بات ہے۔۔۔شریعت کے ضابطے سب کیلئے ہی ہیں۔ لیکن شریعت کے کسی ضابطے میں یہ نہیں ہے کہ 'یارسول اللہ' نہ کہا جائے۔
 

یوسف-2

محفلین
جناب اس میں خفا ہونے والی کونسی بات ہے۔۔۔ شریعت کے ضابطے سب کیلئے ہی ہیں۔ لیکن شریعت کے کسی ضابطے میں یہ نہیں ہے کہ 'یارسول اللہ' نہ کہا جائے۔
ناراض نہ ہونے کا شکریہ :p اسی طرح خوشگوار موڈ میں مکالمہ کرتے رہیں تو مزہ آجائے :)
اصل میں آپ کے اوپر والے بیان سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ شاید شریعت کے ضابطے ان کے لئے الگ ہیں جنہیں حضوری حاصل ہے: بزرگانِ دین ، اولیاء کرام اور عامتہ المسلمین میں فرق ہوتا ہے۔۔۔۔کیونکہ ان لوگوںکو حضوری حاصل ہوتی ہے۔۔۔ تصحیح کا شکریہ
 

محمد امین

لائبریرین
آپ نے "حدائق بخشش" ڈاوؤن لوڈ کرنے کی بات کی تھی اس لئے میں نے آپ کو بھی ٹیگ کیا کہ جب آپ جلد 3 پڑھیں گے تو اس میں قابل اعتراض شاعری بھی ملے گی۔ اگر آپ اس بارے میں پہلے سے جانتے ہونگے تو وضاحت کر دیں گے۔ اگر نہیں جانتے تو اس میں ذرا احتیاط برتیئے کہ یہ شاعری احمد رضا سے منسوب کی گئی ہے۔ اصل صورتحال کی عبدالرزاق قادری صاحب سے امید ہے کہ وضاحت کریں گے۔

حدائقِ بخشش حصہ سوم احمد رضا خان رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جمع کیا گیا تھا، لہٰذا اشاعت بھی ان کی وفات کے بعد ہی ہوئی۔ جن علامہ صاحب کے ذمے اس کلام کو (جو کہ بنیادی طور پر حمد، نعت، منقبت اور اصلاحی کلام پر مشتمل تھا) جمع کرنے کی ذمے داری تھی انہوں نے کچھ ایسی منظومات بھی اس میں شامل کر دیں جن پر شدید اعتراضات وارد ہوئے۔ تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ یہ کلام امام اہلِ سنت احمد رضا خان صاحب کا نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کی ساری زندگی میں ایسا کلام نہیں ملتا۔ جس کے بعد ان علامہ صاحب کا جو کہ حدائقِ بخشش سوم کے مدون تھے، ایک معافی نامہ بھی شایع ہوا۔

اعلیٰ حضرت جو کہ بہت ہی محتاط شاعر و نعت گو اور بہت متقی عالمِ با عمل تھے، ان کے یہاں ایسا کلام محال ہے۔۔
 

عدیل منا

محفلین
حدائقِ بخشش حصہ سوم احمد رضا خان رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جمع کیا گیا تھا، لہٰذا اشاعت بھی ان کی وفات کے بعد ہی ہوئی۔ جن علامہ صاحب کے ذمے اس کلام کو (جو کہ بنیادی طور پر حمد، نعت، منقبت اور اصلاحی کلام پر مشتمل تھا) جمع کرنے کی ذمے داری تھی انہوں نے کچھ ایسی منظومات بھی اس میں شامل کر دیں جن پر شدید اعتراضات وارد ہوئے۔ تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ یہ کلام امام اہلِ سنت احمد رضا خان صاحب کا نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کی ساری زندگی میں ایسا کلام نہیں ملتا۔ جس کے بعد ان علامہ صاحب کا جو کہ حدائقِ بخشش سوم کے مدون تھے، ایک معافی نامہ بھی شایع ہوا۔
اعلیٰ حضرت جو کہ بہت ہی محتاط شاعر و نعت گو اور بہت متقی عالمِ با عمل تھے، ان کے یہاں ایسا کلام محال ہے۔۔
محمد امین بھائی! واقعی ان صاحب سے ایسے شاعری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ بہت شکریہ معلومات فراہم کرنے کا۔
 
Top