حزیں صدیقی دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی۔۔۔حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی
لاؤ میرے سامنے مجھ سا کوئی

جاں بلب ہے دشت میں پیاسا کوئی
مالکِ ابرو ہوا چھینٹا کوئی

جب ہٹی در سے نگاہِ منتظر
بن گیا دیوار پر چہرہ کوئی

دیکھتے کیا سانس لینا تھا محال
اس قدر نزدیک سے گزرا کوئی

خواب ہی میں خواب کی تعبیر تھی
بند آنکھوں سے نظر آیا کوئی

جب بھی میں اپنے تعاقب میں چلا
پیچھے پیچھے چل پڑا سایہ کوئی

ہوں گے کانٹے بھی ریاضِ دہر میں
میرے دامن سے نہیں الجھا کوئی

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نظر

والسلام
 
Top