دشت، صحرا، سراب تیرے ہیں ( حمد باری تعالٰی)

ایم اے راجا

محفلین
ایک حمد باری تعالٰی کہی ہے اصلاح کیجیئے گا۔

دشت، صحرا، سراب تیرے ہیں
پھول، گلشن، گلاب تیرے ہیں

تُو ہی مالک، جہان تیرا ہے
چاند، تارے، سحاب تیرے ہیں

ہر سُو جلوہ نمائی تیری ہے
شوخ گُل با شباب تیرے ہیں

خالقِ کُل تُو، مالکِ کُل تُو
دریا تیرے، حباب تیرے ہیں

وحدہ ھُو لا شریک تُو مولا
نام سب لا جواب تیرے ہیں

تُو ہی مشکل کُشا تُو ہی مولا
ہر سُو بجتے رباب تیرے ہیں

راجا ہوں یا غلام ہوں، مالک
بندے سب لاجواب تیرے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
صحت تو الحمد للہ درست ہی ہے، محض کھانسی زکام کا شکار ہوں۔ اور مہمانوں کے ساتھ مصروف۔ جلد ہی دیکھتا ہوں انشاء اللہ اسے، ویسے بھی تصحیح و اصلاح کی زیادہ ضرورت نہیں، محض بہتری کی گنجائش ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکر ہے کہ آپ ٹھیک ٹھاک ہیں، اللہ آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور تمام پریشانیوں سے بھی دور رکھے۔ آمین۔
باقی، نزلہ زکام اور کھانسی تو آجکل سبھی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
دشت، صحرا، سراب تیرے ہیں
پھول، گلشن، گلاب تیرے ہیں
///دوسرے مصرع میں پھول اور گلاب تقریباً ایک ہی چیز ہیں۔ اس کی بجائے کچھ اور ہو تو بہتر ہے، مثلاً
خوشبو، گلشن، گلاب
یا
باغ، خوشبو، گلاب
آخری صورت مجھے زیادہ پسند آئی ہے۔ یعنی ’ باغ، خوشبو، گلاب تیرے ہیں‘

تُو ہی مالک، جہان تیرا ہے
چاند، تارے، سحاب تیرے ہیں
/// سحاب بھی چاند تاروں کے مجموعے سے تعلق نہیں رکھتا، لیکن بہر حال آسمان سے سب کا تعلق ہے، اس لئے چل بھی سکتا ہے۔ یوں بھی ’سحاب‘ تو قافئے کی مجبوری ہے۔ یا یوں کہیں تو
ابر تیرے، سحاب تیرے ہیں؟

ہر سُو جلوہ نمائی تیری ہے
شوخ گُل با شباب تیرے ہیں
/// پہلا مصرع کچھ رواں نہیں، یوں کہیں تو بہتر ہے
جلوہ آرائی ہر طرف تیری
دوسرا مصرع تو مسئلہ ہے ہی، یہ صورت بہتر ہے
جلوہ آرائی ہر چمن تیری
شوخیِ گل، شباب تیرے ہیں
اگرچہ مجھے یہ پسند نہیں آ رہا ہے، اس کو نکال ہی دینا بہتر ہے۔

خالقِ کُل تُو، مالکِ کُل تُو
دریا تیرے، حباب تیرے ہیں
// توٗ میں وٗ کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا، یہاں توٗ حذف کر دیں تو شعر بہتر ہو جاتا ہے۔
خالقِ کُل بھی، مالکِ کُل بھی

وحدہ ھُو لا شریک تُو مولا
نام سب لا جواب تیرے ہیں
/// درست، صرف املا کی غلطی ہے
وحدہٗ لا شریک تو مولا۔۔۔

تُو ہی مشکل کُشا تُو ہی مولا
ہر سُو بجتے رباب تیرے ہیں
// رباب کے قافئے کا مشکل کشائی سے تعلق؟؟ پہلا مصرع کچھ بھی بدلا جا سکتا ہے۔
ہر طرف رنگ تیرے، سُر تیرے
چنگ تیرے رباب تیرے ہیں

راجا ہوں یا غلام ہوں، مالک
بندے سب لاجواب تیرے ہیں
// اس شعر میں لاجواب قافیہ کی کوئی تُک نہیں۔ اسے نکال ہی دو
 

ایم اے راجا

محفلین
سر بہت شکریہ کچھ بہتری لانے کی کوشش کی ہے میں نے، ملاحظہ ہو۔

دشت، صحرا، سراب تیرے ہیں
بحر و بر اور گلاب تیرے ہیں

تُو ہی مالک، جہان تیرا ہے
چاند، تارے، سحاب تیرے ہیں

ہر سُو جلوہ نما ہے تُو ہی تُو
شوخ گُل پر شباب تیرے ہیں

خالقِ کُل و، مالکِ کُل تُو
دریا تیرے، حباب تیرے ہیں

وحدہ‘ لا شریک تُو مولا
نام سب لا جواب تیرے ہیں

تُو ہی مشکل کُشا، تُو ہی آقا
سب کے سب یہ خطاب تیرے ہیں

ایک دو ہوں تو گن سکے راجا
پر کرم بے حساب تیرے ہیں​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تینوں شعروں میں میری اصلاح ہو چکی ہے، اس کی بات کر چکا ہوں۔
خالقِ کُل و، مالکِ کُل تُو
مصرع بحر سے ٌخارج ہے۔ واو متحرک نہیں ہوتی۔
تُو ہی مشکل کُشا، تُو ہی آقا
سب کے سب یہ خطاب تیرے ہیں

ایک دو ہوں تو گن سکے راجا
پر کرم بے حساب تیرے ہیں
دونوں شعر درست ہیں
 
Top