ن م راشد دستِ ستمگر ۔ ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
دستِ ستمگر

یہاں اس سرائے سرِپُل میں یوں تو،
رہی ہر ملاقات تنہائیِ سخت تر کا ہیولا،
مگر آج کی یہ جدائی
سپاہی کے دل کی کچھ ایسی جراحت ہے
جو اس کو بستر میں آسودہ رکھے گی، لیکن
کبھی اس کے ہونٹوں پہ
ہلکی سی موجِ تبسم بھی اٹھنے نہ دے گی!

خدا حافظ، اے گل عذارِ لہستان،
مبارک کہ تو آج دنیائے نو کو چلی ہے!
جہاں تیرا ہمسر تجھے آج لے جا رہا ہے،
لہستاں تو بےشک وہاں بھی نہ ہو گا،
مگر اس ولایت میں
"جو حرّیت کیش جمہور کی آنکھ کا ہے درخشندہ تارا"
تجھے بے حقیقت سہاروں سے،
غیروں کی خاطر شب و روز کی اس مشقّت سے،
کچھ تو ملے گی رہائی!
وہاں تجھ کو آہنگِ رنگ و زباں
کچھ تو تسکین دے گا،
اور اِس غم سے پامال ہجرت گزینوں کے
سہمے ہوئے قافلے سے
الگ ہو کے منزل کا دھوکا تو ہو گا!
یہ مانا کہ تو شاخسارِ شکستہ ہے
اور شاخسارِ شکستہ رہے گی؛
مگر اس نئی سرزمیں میں
تجھے سبز پتوں کی، شاداب پھولوں کی، امید پیدا تو ہو گی!
تجھے کیسے روندا گیا ہے،
تجھے دربدر کیسے راندا گیا ہے،
میں سب جانتا ہوں کہ شاکی ہے تو جس الم کی
وہ تنہا کسی کا نہیں ہے،
وہ بڑھتا ہوا
آج ذرّے سے عفریت بنتا چلا جا رہا ہے!

تو نازی نہ تھی،
تجھ کو فاشی تخیّل سے کوئی لگاؤ نہ تھا
بس ترا جرم یہ تھا، تجھے عافیت کی طلب تھی،
وطن کی محبت بھری سرزمیں کی
شبِ ماہ، بزمِ طرب، جام و مینا کی
منزل کی آسودگی کی طلب تھی،
طلب تھی سحرگاہ، محبوب کے گرم، راحت سے لبریز
بالش پہ خوابِ گراں کی!

اور اس جرم کی یہ سزا، (اے خدا)
سامنے تیری بے بس نگاہوں کے محبوب کی لاش،
پھر اجنبی قید میں
روس کے برف زاروں میں بیگار
روٹی کے شب ماندہ ٹکڑوں کی خاطر؟
اور اب سال بھر سے
یہ فوجی سراؤں میں خدمت گزاری
یہ دریوزہ کوشی،
یہ دو نیم، بے مدعا زندگی
جس کا ماضی تو ویران تھا،
آئندہ و حال بھی بے نشاں ہو چکے ہیں!

حقیقت کی دنیا تو ہے ہی،
مگر اک خیالوں کی، خوابوں کی دنیا بھی ہوتی ہے
جو آخرِ کار بنتی ہے تقدیر کا خطِ جادہ!
مگر یہ ستم کی نہایت،
کہ تیرے خیالوں پہ خوابوں پہ بھی
توبہ تو یاس کائی کے مانند جمنے لگی تھی!

کہاں بھول سکتا ہوں، اے عندلیبِ لہستاں
وہ نغمے، لہستاں کے دہقانی نغمے
جو فوجی سرائے کی بے کار شاموں میں
تیری زباں سے سنے ہیں ۔۔
وہ جن میں سیہ چشم ہندی کی خاطر
لہستاں کی عورت کا دل یوں دھڑکتا ہے
جیسے وہ ہندی کی مشکینہ رعنائیوں تک پہن کر رہے گا!
جنھیں سن کے محسوس ہوتا رہا ہے
کہ مغرب کی وہ روحِ شب گرد
جو پے بہ پے وسوستوں میں گھری ہے،
تعاقب کیا جا رہا ہے دبے پاؤں جس کا
اب آخر شبستانِ مشرق کے اجڑے ہوئے آشیانوں کے اوپر
لگاتار منڈلا رہی ہے!

اسی روحِ شب گرد کا
اک کنایہ ہے شاید
یہ ہجرت گزینوں کا بکھرا ہوا قافلہ بھی
جو دستِ ستمگر سے مغرب کی، مشرق کی پہنائیوں میں
بھٹکتا ہوا پھر رہا ہے!
خدا حافظ، اے ماہتابِ لہستاں!
یہ اِک سہارا ہے باقی ہمارے لیے بھی
کہ اس اجنبی سرزمیں میں
ہے یہ ساز و ساماں بھی گویا
ہوا کی گزرگاہ میں اک پرِکاہ!
بکھر جائے گا جلد
افسردہ حالوں کا، خانہ بدوشوں کا یہ قافلہ بھی
اور اِک بار پھر عافیت کی سحر
اس کا نقشِ کفِ پا بنے گی!
 
Top