در سے جو دار تک نہیں پہنچا ٭ راحیلؔ فاروق

در سے جو دار تک نہیں پہنچا
تیری سرکار تک نہیں پہنچا

اس گنہگار تک نہیں پہنچا
نور بھی نار تک نہیں پہنچا

اشک رخسار تک نہیں پہنچا
ابر گلزار تک نہیں پہنچا

میرے اشعار تک نہیں پہنچا
شاہ شہکار تک نہیں پہنچا

زلزلے آ گئے لبوں پہ مگر
عشق اظہار تک نہیں پہنچا

شہر خاموش ہو گیا لیکن
شور سردار تک نہیں پہنچا

شاید امید نے فریب دیا
غم خریدار تک نہیں پہنچا

حسن کی قیمتیں بلند سہی
عشق بازار تک نہیں پہنچا

پاؤں میں اس نے رول دی جس کا
ہاتھ دستار تک نہیں پہنچا

دشت پر دشت طے کیے دل نے
در و دیوار تک نہیں پہنچا

عشق اس تک پہنچ گیا راحیلؔ
اس کے اسرار تک نہیں پہنچا

راحیلؔ فاروق
 
Top