'درد' کی ایک نئی جہت، شہزاد قیس کے قلم سے

غالبا رات کے دو بجے ہوں گے کہ اَچانک ایک کمرے سے گوشت جلنے کی بُو آنے لگی۔ خوش گپیوں اور مٹر گشت میں مصروف طلبہ بطورِ تجسس اِس کمرے کی جانب کھنچے چلے آئے۔ جب کھٹکھٹانے پر کوئی جواب نہ ملا تو کسی عجیب خیال کے پیش نظر اُنہیں چٹخنی توڑنی پڑی۔ اندر کی دَرد ناک حیرانی نے پتھریلی آنکھوں سے بھی چشمے جاری کر دئیے۔ ایک نیم معذور نوجوان گہری نیند سو رہا تھا مگر جلتا ہوا ہیٹرگرنے سے کمبل اور اس کی ٹانگیں سلگ رہی تھیں۔ بیچارے کی ٹانگیں کسی حد تک کام تو کرتی تھیں مگر ایک سانحے میں اس کا اعصابی نظام سُن ہو چکا تھا۔ چنانچہ اُسے بہت سے حصوں پر دَرد کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔

یہ سچا دَرد اَفروز واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دَرد ایک نعمت ہے۔ بہت بڑی نعمت۔ دَرد ایک خطرے کی گھنٹی ہے جو متوقع نقصان سے خبردار کرتی ہے۔ اگر دَرد نہ ہوتا تو ہم خود کو برباد کر چکے ہوتے۔ دَرد ایک طرح سے یہ اچھی خبر دیتا ہے کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ مزید نقصان روکنے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ دَرد کی کسی بھی سطح کی ’’خوش خبری‘‘ کی وجہ دور کی جائے۔

خوشی کی طرح دَرد بھی شعور کی بنیادی علامت ہے۔ جہاں شعور نہیں وہاں دَرد نہیں۔ دَرد کُش ادویات ، دراصل ’’شعور کُش‘‘ ہوتی ہیں۔ جتنا زیادہ دَرد روکنا ہو اتنا زیادہ شعور کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ اور بعض آپریشنز تو مکمل بے ہوشی کے عالم میں ہی کئے جاتے ہیں تاکہ جسم کے ساتھ کچھ بھی ہوتا رہے مگر ’’دَرد‘‘ نہ ہو۔ باقاعدگی سے دَرد کی گولی کھانے والے افراد اپنے ماحول سے کچھ کچھ لاتعلق سے بھی تو محسوس ہوتے ہیں۔

اگر دَرد ایک نعمت ہے تو عین ممکن ہے ہمیں دَرد کا بھی حساب دینا پڑے۔ ہو سکتا ہے ہم سے پوچھا جائے تم نے زندگی میں دَرد محسوس کیا کہ نہیں؟۔ کتنا دَرد کمایا ، کس راہ میں خرچ کیا۔ کیا خبر منکرینِ دَرد کو ہی دَرد کے الاؤ میں ڈالا جائے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ چنانچہ دُنیا میں ’’دَرد مندوں سے ، ضعیفوں سے ، محبت کرنا‘‘ عالمِ وجود کے آخری مرحلے کے آخری پل کو پار کرنے میں سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

جس طرح لذتوں میں سب سے کم درجہ جسمانی لذات کا ہے اسی طرح دَرد کا کم ترین درجہ بھی جسمانی دَرد ہے۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹے یا دِل ، دونوں ہی تلخ واقعات ہیں مگر حساس انسان کے لیے ان میں سے کون سا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے؟ جسمانی دَرد اپنی نوعیت میں سادہ ہوتا ہے اور ہم اس کو عام طور پر نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ جسمانی دَرد پر ہمدَرد بھی فورا میسر آ جاتے ہیں کیونکہ جسمانی دَرد مشینوں پر بھی ظاہر ہو سکتا ہے اور کسی کو دکھایا بھی جا سکتا ہے ؎

زَخم سب کو دِکھا تو سکتے ہیں
آپ کا اِنتظار اُف توبہ
(قیس)


دِلچسپ امر یہ ہے کہ جسمانی دَرد کی ’’کم زوری‘‘ کے باوجود’’ اب بھی‘‘ کچھ استعماری طاقتیں جسمانی دَرد کی دھمکی دے کر انسانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر محروم شدہ لوگ اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے پر اس لئے مجبور ہوتے ہیں کہ ظلم برداشت کرنے پر ان کو جس شدید جذباتی اور روحانی کرب کا سامنا ہوتا ہے اس کے آگے کسی بھی قسم کاجسمانی دَرد ہیچ لگتا ہے

اَب کوئی دَرد ، دَرد لگتا نہیں
ایک بے دَرد نے کمال کیا
(قیس)


رُوحانی دَرد کی بنیاد اپنی ذات کی بجائے کسی اور کے دَرد کو بعینہ محسوس کرنا ہے۔ یوں دَرد ہمیں کسی انسان کی رُوحانی ترقی کا بھی پتہ دیتا ہے۔ جو جتنا زیادہ دوسروں کا دَرد محسوس کر سکے وہ اتنا ہی قربِ خداوندی کا حامل ہو گا۔ کیونکہ خدا کو تو ہر ’’شعور پارے‘‘ کے دَرد کا ادراک ہوتا ہی ہو گا۔ روحانی کرب اپنی لطافت اور روحانی گہرائی کی وجہ سے جذباتی دَرد سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ جس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ برگزیدہ افراد انسانیت کے حال پر کتنا کرب محسوس کرتے ہیں۔


کائنات ایسی ہستیوں سے خالی نہیں ہے جو ’’بظاہر‘‘ اپنی پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں مگر پھر بھی دوسروں کی خاطر تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ دراصل یہ ان کے اندر کا آفاقی اور روحانی دَرد ہے جو ان پر آرامِ جاں ، حرام کر دیتا ہے۔ ایسے افراد لائقِ تعظیم تو ہیں مگر پرسکون زندگی گزارنے کے خواہش مند افراد کو ان سے ضروری فاصلہ رکھنے کی ’’نصیحت اور وصیت‘‘ کی جاتی ہے ۔ کیونکہ زیادہ قریب ہونے پر ان کے دل کی لَو کسی کے بھی خود ساختہ ’’خرمنِ ذات‘‘ کو جلا کر بھسم کر سکتی ہے۔ یوں حجابِ ذات ہٹ جانے سے ایک اچھا بھلا ’’نارمل‘‘ زندگی گزارنے والا فرد دوسروں کی تکالیف دور کرنے کا عزم لے کر دنیا تیاگنے پر ’’خوشی خوشی‘‘ مجبور ہو جاتا ہے۔ ان پراسرار وادیوں میں دائمی طفل مکتب ہونے کے ناطے اور بہت سی ’’نورانی تنبیہات‘‘ سے بچنے کے لئے مزید لب گشائی سے پرہیز افضل الامر معلوم ہوتا ہے۔ ’’خوش قسمتی‘‘ سے رُوحانی دَرد کے حصول کے لیے خود ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے اور ہر شعوری نقطہ اپنے ارتقاء کے مطابق ہی رُوحانی دَرد وصول کرسکتا ہے۔


جذباتی دَرد یقینا جسمانی دَرد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جبھی تو لوگ اس سے جان چھڑانے کو اپنے ہاتھوں اپنی شہ رگ تک کاٹ لیتے ہیں۔ جذباتی دَرد جسمانی نظام کو آنا فانا مکمل طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ کسی کی موت پر اس کے کسی عزیز کے صدمے سے ہی مر جانے کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہم سب نے سن رکھا ہے۔ لیکن جذباتی دَرد کے دھیمے دھیمے ،دُور رَس عواقب بھی کم خطرناک نہیں ہیں۔


جب کسی تلخ واقعے سے پیدا ہونے والے جذباتی دباؤ کا ’’انعکاس‘‘ نہ ہو سکے تو عارضی طور پر اِس ’’تلخ توانائی کی گیند‘‘ کو جسم میں ہی کسی مقام پر ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ تاہم اِس کا مستقل طور پر جسم میں رُکے رہنا جسمانی افعال کے لیے نقصان دہ ہے۔ چونکہ ہمارے لاشعور کا بنیادی کام جسم کا دفاع ہے اس لیے مختلف مواقع پر ہمیں اس تلخ توانائی کی یاد دلائی جاتی ہے۔ آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ کسی وقت ہم بہت خوشگوار موڈ میں ہوتے ہیں کہ اچانک یادِ ماضی افسردہ کر جاتی ہے۔ یہ تلخ یاد ، دراصل لاشعور کی اس توانائی کو جسم سے باہر نکالنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مگر ہم بجائے اس کے کہ جوشِ خوشی سے اس پر غلبہ پالیں یا معاف کر کے بھول جائیں اس کے اثر میں اپنی موجودہ خوشی غارت کر دیتے ہیں۔ انتظامی نظام کو مجبورا وہ تلخ توانائی دوبارہ جسم میں رکھ دینی پڑتی ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہی ’’منجمد تلخیاں‘‘ جسم کو لے ڈوبتی ہیں کیونکہ ’’تن درستی‘‘ بہاؤ اور روانی کا نام ہے۔


تلخ یادوں اور بیماریوں کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بچپنے کی بیماریوں کی تعداد برائے نام ہوتی ہے مگر بڑھاپا خود ایک بیماری گنا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ بڑھاپے میں جسم کو اِک عمر کی تلخ یادوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے وگرنہ رُوح تو کبھی بوڑھی نہیں ہو سکتی۔ جسم کے تمام خلیے بھی اَز سرِ نو جنم لیتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن جذباتی طور پر ہمیں دن بدن تلخ یادداشتوں کے وسیع ہوتے ہوئے انبار سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
موت بھی قیس سُود مند رہی
یادِ جاناں سے جان چھُوٹ گئی
(قیس)

اقتباس ازشہزادقیس
مجموعہ کلام: "دسمبر کے بعد بھی"
http://www.sqais.com/node/567
 
Top