درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے

نوید ناظم

محفلین
پوچھتے ہو پتہ دِوانے سے
کیا لگے اس کو آشیانے سے

میں تو اُس کو بھی کھو چکا ہوں اب
یاد آیا مجھے کمانے سے

ہے مِرا بھی خمیر سونے کا
میں نکھر جاؤں گا جلانے سے

میری ہستی نہیں رہے گی بس
اور کیا ہو گا اُس کے جانے سے

مجھ کو سچ بولنے کی عادت ہے
میری بنتی نہیں زمانے سے

درد، غم، آہ، آنسو، کچھ لیجے
ایسے مت جائیے خزانے سے

میری آنکھوں میں کچھ نہیں ہے اب
خواب ہیں بس، وہ بھی پرانے سے
 

نور وجدان

لائبریرین
اچھی غزل ہے

اور کیا ہوگا اسکے جانے سے

کیا کا وزن فع ہے یہاں فعو کا وزن بنتا ہے
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
ماشاء اللہ جناب۔ بہت خوب۔
یہ تو کمال ہیں
ہے مِرا بھی خمیر سونے کا
میں نکھر جاؤں گا جلانے سے
میری ہستی نہیں رہے گی بس
اور کیا ہو گا اُس کے جانے سے
واہ!
باقی اگر کہیں اصلاح کی ضرورت ہے تو وہ اساتذہ ہی فرمائیں گے۔
 

عظیم

محفلین
میرا مشورہ ہے کہ مطلع کے دوسرے مصرع میں 'لگے' کی جگہ'ملے' استعمال کریں
اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں اس بات کی وضاحت کریں کہ کیا کمانے سے؟چوتھے شعر میں 'ہستی' کی جگہ کچھ اور لے کر آئیں کہ یہ لفظ ذرا فلسفے کی جانب چلا جاتا ہے. مثلا
میں ہی زندہ نہیں بچوں گا بس یا 'رہوں گا بس وغیرہ.
چھٹے شعر کے پہلے مصرع کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے 'آہ' کی جگہ 'آہیں' کا محل معلوم ہوتا ہے اور دوسرے مصرع میں اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ کس کے خزانے سے؟آخری شعر میں 'وہ بھی' 'و بی' تقطیع ہونا اچھا نہیں لگ رہا
 

نور وجدان

لائبریرین
جی ہاں! یہاں پر "کیا" سوالیہ ہے اور اس لیے فع ہی باندھا گیا۔ تاہم آپ کیوں مغالطے میں ہیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
آپ نے شاید یہ بحر استعمال کی ہے
فاعلاتن مفاعلن فعلن

اس میں کیا فع کے طور شعر کو بے وزن نہیں کر رہا ہے
 
Top