داستاں گو

زیف سید

محفلین
میر باقرعلی
تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی؟

شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں ‌کو سلجھاتا
صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدروں سے نمٹتا
بیابانِ‌ حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے
پہرے پہ مامور یک چشم دیووں‌ کی نظریں ‌بچا
سبز قلعےکی اونچی کگر پھاند کر
مہ جبیں‌ کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے

اور اس طرف حق و طاغوت مدِ مقابل ہیں
آنکھیں ‌جدھر دیکھتی ہیں کلہاڑوں کی، نیزوں کی، برچھوں‌ کی فصلیں‌ کھڑی لہلہاتی نظر آ رہی ہیں
جری سورما آمنے سامنے ہنہناتے، الف ہوتے گھوڑوں پہ زانو جمائے ہوئے منتظر ہیں
ابھی طبل پر تھاپ پڑنے کو ہے

اور ادھر شاہ زادہ طلسمی محل کے حسیں دودھیا برج میں شاہ زادی کے حجلے کے اندر
ابھی لاجوردی چھپرکھٹ کا زربفت پردہ اٹھا ہی رہا ہے
مگر میر باقر علی
تم نے پھر ‌بیچ میں داستاں روک دی

راہ داری، منقش دروبام، ست رنگ قالین، بلور قندیل، فوارہ بربط سناتا
جھروکوں پہ لہراتے پردوں کی قوسِ قزح
میمنہ، میسرہ، قلب، ساقہ، جناح
آہنی خود سے جھانکتی مرتعش پتلیاں
رزم گہ کی کڑی دھوپ میں ایک ساکت پھریرا
چھپرکھٹ پہ سوئی ہوئی شاہ زادی کے پیروں پہ مہندی کی بیلیں۔۔۔

فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔

مگر میر باقر علی داستاں گو، سنو
داستاں سننے والے تو صدیاں ہوئیں اٹھ کے جا بھی چکے ہیں
تم اپنے طلسماتی قصے کے پرپیچ تاگوں میں ایسے لپٹتے گئے ہو
کہ تم کو خبر ہی نہیں ۔۔۔
سامنے والی نکڑ پہ اک آنے کی بائیسکوپ آ گئی ہے!
 

فاتح

لائبریرین
ارے زیف سید،
فصاحت کے دریا بہاتے چلے جا رہے ہو۔۔۔
بلاغت کے موتی لٹاتے چلے جا رہے ہو ۔۔۔
 

زیف سید

محفلین
شاید کچھ نئے دوستوں کو معلوم نہ ہو۔ ان کی سہولت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ “داستان روکنا“ اصطلاح ہے، جس کا مطلب اپنے ایک مضمون سے کاپی پیسٹ کر رہا ہوں:

ان داستان گوؤں کا ایک کمال یہ تھا کہ بعض اوقات وہ اپنی استادی دکھانے اور فن پر گرفت کا مظاہرہ کرنے کے لیے داستان ’روک‘ دیا کرتے تھے۔ داستان روکنے سے مراد یہ ہے کہ کہانی وہیں کی وہیں رہتی تھی اور جزئیات اور تفصیلات کے بیان میں کئی کئی دن بِیت جاتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ سنیئے۔

’ایک بار ایک داستان گو ایک نواب کے دربار میں داستان امیر حمزہ کی کسی عظیم جنگ کی روداد بیان کر رہے تھے۔ کہانی کا ہیرو ایک شہزادہ ہے جو منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا میدانِ جنگ میں پہنچا ہے۔ رن میں پہنچ کر شہزادے نے گھوڑے کی باگیں کھینچیں، ایک قدم زمین پر رکھا، دوسرا ابھی رکاب ہی میں تھا۔۔۔ کہ داستان گو نے داستان روک دی۔ اب میدانِ حرب کا احوال شروع ہو گیا، غالباً کچھ اس انداز میں، جوطلسمِ ہوش ربا کی جلدِ اول میں مذکور ہے:

صف آرائی شروع ہوئی، میمنہ و میسرہ و قلب و جناح و ساقہ و کمین گاہ، چودہ صفیں مثلِ سدِّ سکندر کے آراستہ ہوئیں۔ سواروں کے آگے پیادے، جنگ کے آمادے، دیوارِ فوج تھے۔ سوار دریائے لشکر میں موج در موج تھے۔ گھوڑے برابر، تھوتھنی سے تھوتھنی، پٹھے سےپٹھا، دم سے دم، سم سے سم ملاتے تھے۔ نقیب جو آگے بڑھ آتا تھا، اسے پیچھے کو ہٹاتے تھے۔ گھٹے ہوئے کو آگے بڑھاتے تھے۔ دم بہ دم باجے رزمی بجتے تھے، مرکب الف ہوتے تھے۔‘

ایک دن گزرا، دو دن گزرے، چار دن ۔۔۔ لیکن داستان گو ہیں کہ لشکر، میدانِ جنگ، اسلحے، گھوڑوں، خیمہ و خرگاہ اورسپاہیوں کے حلیے اور وضع قطع کے احوال کے دریا کے دریا بہائے چلے جا رہے ہیں۔ آخر چھٹے دن نواب صاحب سے رہا نہیں گیا۔ انھوں نے ذرا سا کھنکار کر قصہ گو کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور ذرا دھیمے سے لکھنوی لہجے میں بولے:حضت، اب ذرا شہزادے کو دوسرا قدم بھی زمین پر رکھنے کی اجازت دیجیے، بے چارہ تھک گیا ہو گا۔‘


اساتذہ کرام سے درخواست ہے کہ کیا اس اصطلاح کا مطلب حاشیے میں بتانے کی ضرورت ہے یا اس کے بغیر بھی گزارا ہو جائے گا؟

آداب عرض ہے

زیف
 

محمد وارث

لائبریرین
زیف صاحب اس بات کا جواب تو اساتذہ ہی دیں گے لیکن یہ خاکسار یہی عرض کرے گا کہ حاشیے میں مختصراً ایک آدھ جملہ لکھنا شاید غیر ضروری نہ ہو۔ صاحب، داستان روکنا کی جو توضیح آپ نے ایک واقعے سے پیش کی ہے فی زمانہ اس کے بغیر داستان روکنے کا مطلب کون سمجھے گا۔

عام طور پر شعرا کا اپنی تخلیق پر کچھ حاشیہ وغیرہ یا وضاحت لکھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن میری نظر سے اساتذہ کا ایسا کلام گزرا ہے جس میں انہوں نے کچھ وضاحت لکھی ہے مثلاً جگر کی کسی کتاب میں کچھ الفاظ کے بارے میں انکی رائے اور وضاحت تھی جو انکی غزلیات میں آئے تھے، اور حمایت علی شاعر کے ثلاثی جو سب سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں "فنون" میں شائع ہوئے تھے اس پر ان کا اپنا نوٹ بھی حاشیے میں شامل تھا، وغیرہ۔

والسلام
 

زیف سید

محفلین
وارث صاحب: بہت شکریہ۔ میں خود وضاحتی حاشیوں کا قائل نہیں ہوں، لیکن یہ بھی ہے کہ بعض اوقات نئے پڑھنے والوں کی رہنمائی کے لیے ایسا ضروری ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نظمِ ہٰذا میں اگر ’داستان روکنے‘ کی سمجھ نہ آئے تو نظم بے معنی ہو جائے گی۔

زیف
 

الف عین

لائبریرین
زیف، میں تو سمجھ گیا تھا، یہ یہاں داستان روکنا عام محاورہ ہے۔ اس لئے کسی نوٹ کی ضرورت نہیں۔
 
Top