اسکین دستیاب داستان غدر

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 246

اگر حقّہ عنایت ہو تو دو گھونٹ ہم بھی پی لیں۔میں نے کہا آؤ بیٹھ جاؤ تُم بھی پی لو۔وہ دونو بیٹھ گئے ایک حقّہ پینے لگا اور ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ سے کچھ علیٰحدہ عرض کرنا ہےمیں سمجھا یہ مسافر ہیں کچھ سوال کریں گےمیں اُس کا ہاتھ پکڑ کے علیٰحدہ لے گیا اور پوچھا کیا اُس نے چپکے سے کہا تمہاری مدد آ گئی ہے مگر دروازہء شہر بند ہے اندر کس طرح آ سکتے ہیں۔ میں سمجھا سو پچاس سوار آئے ہوں گے۔ پھر میں نے پوچھا کس قدر جمیعّت تمہارے ساتھ ہے۔اس نے بیان کیا پانچہزار سوار تو اس وقت موجود ہے اور جیسے کا توپ خانہ اور پیدل فوج عقب سے آئے گی۔ یہ سُنتے ہی ایک بار تو میرے ہوش پرواز کر گئےمیں سمجھا یہ ہنسی کرتا ہے پھر میں نے کہا کیا یہ بات سچ ہےیا از راہِ ہنسی اُس نے کہا اب آنکھ سے دیکھ لینا مگر ترکیب اندر آنے کی بتاؤمیں نے کہا دروازہ کے سامنے سے چکر کاٹ کر شمالی دروازہ سے آنا چاہئیے وہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس طرح دور سے گھوڑے اُٹھا کر آنا چاہئیے کہ دروازہ بند نہ کرنے پائیں اور میں اُس دروازہ پر جا موجود ہوں گادروازہ بند نہ ہونے دوں گا۔ تُم جاؤ بسم اللہ کرو اُن دونوں کو تو میں نے اُدھر روانہ کیا اور اپنی جمیّعت کو الگ بُلوا کر چُپکے سے کہہ دیا کمر بندی کر کے مسلّح ہو جاؤ، دس آدمی تو مندر کی حفاظت پر رہو اور باقی دروازے تک پھیل جاؤ ۔ جس وقت کچھ فساد ہوتا دیکھو دروازے پر دوڑ آؤ۔میں ٹہلتا ہوا دروازے پر جاتا ہوں غرضکہ سب جلدی سے تیار ہو گئے اور میں تلوار ہاتھ میں لے کر اور ایک ہاتھ میں حقّہ پیتا ہوا دروازے کی طرف کو چلا۔ خدمتگار کاندھے پر بندوق وہ میرے عقب میں تھا اور ٹہلتا ہوا دروازے پر پہنچا ۔ دروازے پر کوئی

ریختہ صفحہ 247
ڈیڑھ سو دو سو آدمی کی جمیّعت میں وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے مجھے سلام کیا اور کہا آج تھانہ دار جی ادھر کیسے تشریف لائےمیں نے جواب دیا بھئی ہم تو تمہارے قیدی ہیں کہیں جا تو سکتے نہیں شہر میں پھر کر جی بہلاتے ہیں۔ سپاہیانِ دروازہ نے کہاتھانیدار جی تم کو کون قید کر سکتا ہے تُم پھر بھی راج کے نوکر ہو ۔یہ بھی کوئی دن کا ہلہ غلہ ہے۔ میری ان کی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ میں نے دیکھا یکایک دروازہ کے سامنے سے ایک رسالہ کا نائب رسالدار گھوڑا دوڑائے ہوئے بے تحاشہ چلا آتا ہے اور اُس کے پیچھے ہی سواران کا غٹ ہے اور اُس نے آتے ہی کمر سے تلوار کھینچ کر علم کی اور بولی قواعد کی بولی اور سب سواروں نے تلواریں کھینچ لیں نگہبان دروازہ سہمکر سکتہ کے عالم میں ہک دھک رہ گئے اور نائب رسالدار نے ڈانٹ کر دروازہ والوں سے کہا کہ خبردار اگر اپنی جا سے جنبش کی تو مارے تلواروں کے ٹکڑے اڑا دئیے جائیں گے۔جیسے بیٹھے ہو یوں ہی بیٹھے رہو۔ پھر کس کا مقدور تھا کہ چوں کر سکے۔اور افسر نے گھوڑا بڑھا کر کہا کہ آؤ مردود آ جاؤ۔ بس پھر کیا تھا ایک ریلہ سواروں کا ایسے داخل ہوا کہ دروازے میں سے بمشکل برآمد ہوئے اور سواروں کے غٹ کے غٹ چلے آتے ہیں اور سامود میں داخل ہوتے جاتے ہیں اُن کے عقب میں نقارے پر چوٹ دیتا ہوا نقارچی داخل ہوا اور احمد میاں نے آ کر مجھ سے سلام علیک کی اور پیچھے ان کے خاص رسالے آٹھوں رسالے نقاروں پر چوٹ دیتے ہوئے داخل ہو گئے ان کے عقب میں تین ہزار جاگیرداروں کا خیل داخل ہو گیا ۔ اب سامود میں تِل دھرنے کو جا نہ رہی۔ تمام شہر سواروں سے بھر گیا۔ اُس وقت احمد میاں نائب سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہارے قیدی کہاں ہیں لاؤ اُن کو میں نے کہا موجود ہیں مندر

ریختہ صفحہ 248
میں قید ہیں۔ اُسی وقت سامود میں سے ایک گاڑی بیگار میں پکڑی اور قیدیوں کو مندر سے برآمد کر کے چھکڑے پر سوار کیا اور مجھ سے کہا کہ چلو۔ میں نے کہا کہ ایک پانچ منٹ اور توقّف کیجئیے کہ میں ذرا بھائی جی کے مدارراول جی صاحب سے چل کر دو دو باتیں کر لوں احمد میاں بولے اچھا میں نے کہا ایک امر اور ہے ذرا نقارچیوں کو میرے ہمراہ کر دو۔ غرضکہ نقارے گھوڑے ہمراہ لے کر میں کامدار صاحب کے مکان پر پہنچا تو دروازہ کو تیغا لگا ہوا پایا میں نے اس وقت بآواز بلنددیا بھائی جی کا نام لے کر آواز دی کہ دروازہ کُھلوا کر مجھ سے دودو باتیں کر لو۔ ہر چند میں نے اور میرے سپاہیوں نے پکارا مگر دروازے میں سے صدائے برخواست کا عالم پایا۔ اُس وقت میں نے بہت بڑی آواز سے پکار کر کہا کہ دیا بھائی جی آپ کہتے تھے کہ بیسوں تھانہ دار چلا دئیے ہیں کسی نے آج تک ٹھکانے کی آن نہیں توڑی ہے اُس کے جواب میں مینے آپ سے کہا تھا کہ کوئی تھانہ دار نمک حلال نہ آیا ہو گا۔ ورنہ ڈنکے کی چوٹ گرفتار کر کے لے جائے گا تو دیکھ مرد جو بات زبان سے نکالتے ہیں اُسے پورا کر کے دکھا دیتے ہیں ۔ لو دیکھ لو۔ میں ڈنکے کی چوٹ ان کو گرفتار کر کے لئے جاتا ہوں اگر ہم سے چھوڑانا چاہتے ہو چھڑا لو۔یہ کہہ کر میں نے نقارچیوں کو حکم دیا ہاں بھائی اب تُم نقارے پر چوب دو ۔ یکبارگی دس بارہ نقاروں پر چوب پڑی۔ تمام شہر اور پہاڑ گونج اٹھا اور ہم سب افسر قیدیوں کو لے کر شہر سے باہر ہوئے اور شہر سے ایک کوس کے فاصلہ پر راول جی کا ایک باغ تھا وہاں جا کر فوج کا ڈیرہ کیا احمد میاں نے دیا بھائی سے کہلا بھیجا کہ اگر اپنی خیر منظور ہو تو سرکاری لشکر کے لئے بہت جلد رسد کا سامان اور بنیوں کی دکانیں روانہ کرو۔ میں نے یہ ٹھکانے کا لحاظ کیا ہے کہ فوج کو شہر کے

ریختہ صفحہ 249
باہر لے آیا ہوں۔ ورنہ سامود لُٹ جاتی۔اس پیغام کے تھوڑی دیر بعد رسد وغیرہ سب آ موجود ہوا اور لشکر نے دن بھر اپنا کھانا وانا کیا۔رات کو وہیں شب باش ہوئے صبح کو سہانے وقت کوچ ہوا گیارہ بجے دن کے مقام ہرمارہ پر جہاں میرا تھانہ تھا پہنچے۔وہاں درختوں کے سایہ میں سواروں نے آرام کیا۔گھوڑوں کو پانی پلوایا ۔ اب کچھ چنا چبینا وغیرہ جو کچھ دستیاب ہوا ، لے کر ناشتہ کیا۔ ادھر میرے آدمیوں نے ماساوال وغیرہ کی تیاری کی۔ احمد میاں اور گرداور اورتھانہ داران ہمراہی اور افسران سوار نے وہ ناشتہ کیا بعد دو بجے وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب ہم امانی شاہ پر پہنچے تو شہر کی خلقت کا ایک اژدحام پایا جیسے کوئی میلہ ہوتا ہے۔شہر کے تماشائیوں کا میلہ امانی شاہ سے لے کر حبیب چوک تک وہ اژدحام تھا کہ سواروں کو رستہ نہ ملتا تھا۔ غرضکہ ہم سب اُن قیدیوں کو لئے حبیب چوک میں پہنچے تو مہاراج صاحب اور مہاراجہ جسونت سنگھ بہادر فرمانروائے جودہ پور اُس وقت ہوا محل کے دروازہ کی سیڑھیوں کے برابر کے بُرج میں بیٹھے ہوئے منتظر تھے اور تمام اہلکار محکمہ جات حبیب چوک میں راہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے اور احمد میاں نے اور افسروں نے جا کر سلام کیا۔ مہاراجہ صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا تو کہاں جا پھنسا تھا میں نے کہا حضور سرکار کی نوکری ہے ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے۔ فرمایا شاباش نمک حلال ایسے ہی ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو سپرد فوجداری کر کے جاؤ مکان پر کمر کھولو تمہاری نوکری ہو گئی۔ میں تعمیلِ حکم کر کے اور فوجداری سے رسید لے کر گھر کو روانہ ہوا اور جب لوگ اپنے اپنے قیام گاہ کو گئے۔ میں گھر پر پہنچا ہوں تو سب برّیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔ صدقے سیلے اتارے گئے۔ اسی طرح

ریختہ صفحہ 250
ایک اور معاملہ ٹھاکر گوہند سنگھ جی کے گاؤں میں واقع ہوا تھا اگر اُس کی تشریح کی جائے تو ایک دفتر ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ ایک سوامی کہ سب خلقت کو صاحبِ نسبت ہونے کا گُمان تھا۔ اور مہاراجہ صاحب کو اس کے ساتھ حُسنِ عقیدت بدرجہ غایت تھی اُس کی ایک بھینس چوری ہوگئی تھی اس نے خود جا کر مہاراج سے عرض کی کہ آپ کیا راج کرتے ہیں آپ سے میری ایک بھینس تو منگائی جاتی ہی نہیں۔ مہاراجہ صاحب نے سنتے ہی سپرنٹنڈنٹ پر دس روپے روز کی دستک جاری رکھنے کا حکم دیا اور ایک روپیہ یومیہ کی دستک جاری ہوئی۔ میں نے جاکر مدعی سے کہا۔کہ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی مہاراج سے کیوں فریاد کی۔ سوامی جی نے مجھ سے کہا کہ بابا تیرے بس کی بات نہیں میری بھینس بہت بڑے ٹھکانے میں گئی ہے تو نہیں لا سکتا۔ مجھے سب حقیقت معلوم ہے میں نے سوامی جی سے کہا کہ اچھا تم مجھے نشاندہی کرو میں گرفتار کر لاؤں گا سوامی جی نے کہا ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کرا دے تو وہ تیرے ساتھ جا کر نشاندہی کرا دے۔ میں یہ بات سُن کر کونسل میں پہنچا اور حکام سے عرض کی کہ ایک اشتہاری مجرم کا قصور معاف کیا جائے تو مال مجرم پیدا کر سکتے ہیں چونکہ مہاراج کا حکم باور میں صادر ہو چُکا اُسی وقت معافی قصور کا پروانہ بایں شرط کہ اگر مال مجرم گرفتار کرا دے تو مجرم کا قصور معاف کیا جائے میں وہ پروانہ لے کر پھر سوامی جی کے پاس پہنچا اور سوامی نے بیجناتھ اشتہاری کو میرے سامنے بلوا کر موجود کر دیا۔ وہ مجرم میرے علاقے کا نہیں تھا غرضکہ اُس کے دوسرے دن دس سوار خاص رسالے کے میں ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ بیجناتھ میرے ہمراہ تھا۔ وہ ایک گاؤں جاگیر ٹھاکر گوبند سنگھ جی میں مکھے لے کر پہنچا وہ

ریختہ صفحہ 251
گاؤں جے پور سے چودہ کوس تھا۔ شام کوہم وہاں جا کر پہنچے۔ تعلقداردیہ سے سربراہ کے واسطے کہلا بھیجا گیا کہ ہم واسطے کارِ سرکار کے آئے ہیں تُم سربراہ بھجوا دو اور خود آؤ جو کچھ سرکار سے کام ہے اس کی تعمیل کرو۔ اس کے جواب میں تعلقدار نے کہلا بھیجا کہ سربراہ دینے کا ہماری سرکار سے حکم نہیں ہےاور مجھے اس وقت فرصت نہیں صبح کو ملوں گا۔پھر میں نے ایک سوار بھیج کر کہلا بھیجا کہ سربراہ نہ دو مگر حکم تو سُن جاؤ۔ کہا صبح کو آؤں گا۔ میں نے مخبر سے کہا کہ پولیس کی نشاندہی کر۔ بھینس تو گرفتار کر لی جائے بعد میں دیکھا جائے گا وہ اُٹھ کر گیا اور تھوڑی دیر میں آ کر جواب دیا کہ جس مکان میں بھینس بندھی ہوئی دیکھ گیا تھا ، اب وہاں نہیں ہے اور میں بھینس کی پونچھ پر ہاتھ پھیر کر گیا تھا۔ اور تعلقہ دار جی کو جتا کر گیا تھا کہ یہ بھینس جانے نہ پائے۔ اور یہ مجرم اور زمینداروں کو بھی کہہ گیا تھا بھینس ابھی ابھی انہوں نے یہاں سے چلا دی ہے اور اسی واسطے تعلقدار نہ آیا۔ غرضکہ اس شب کو تو گھوڑوں کا دانہ گھاس اور دیہات سے منگوا کر کیا مگر آدمی سب بھوکے پیاسے رہے صبح کو تعلقدار صاحب آئے تو دیکھتا کیا ہوں کہ بڑے موٹے تازے لحیم شحیم آدمی ہیں۔خیر سلام علیک ہو کر آکے بیٹھے مین نے اِن سے کہا کہ تعلقدار صاحب خاص مہاراجہ صاحب کا تو حکم اور میں نے اس کی تعمیل کے واسطے آپ کو بُلوایا اور آپ نے عذر کیا اس حکم عدولی کا تو مجھے جواب دیجئیے پھر اور کچھ کہوں گا جواب دیا کہ یہ نہ معلوم تھا کہ خاص حکم حضور سے ہے۔ پھر میں نے کہا وہ چوری کی بھینس اور کالی ناتھ سارق میرے حوالہ کرو۔ تعلقدار: کیسی بھینس ۔ کون کالی ناتھ۔ میں: اینجانب سدسے والے سوامی کی بھینس اور کالی ناتھ چور جس کو تم نے گاؤں میں آباد کیا اور

ریختہ صفحہ 252
جس سے چوریاں کراتے ہو اور مال حراممکا کھا کر موٹے ہوئے ہو۔ تعلقدار: کالیا کوئی ہمارے گاؤں میں نہیں آیا نہ بھینس آئی۔ میں نے مخبر سے کہا کہ جواب دے۔ بیجناتھ نے کہا کہ تعلقدار جی میں خود بھینس دیکھ کر گیا تھا اور آپ سے کہہ گیا تھا کہ بھینس جانے نہ پائے یہ چوری کی ہے اور کالیا بھی موجود تھا دونوں کے واسطے آپ سے یہ کہا تھا۔ اور تاکید کر کے گیا تھا کہ خبردار دونو جانے نہ پائیں۔
تعلقدار: جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ پھر میں نے تعلقدار سے کہا کہ تعلقدار صاحب میں آپ سے دوستانہ فہمائش کرتا ہوں کہ آپ اپنی خیر چاہیں تو بھینس منگا دیں۔ ورنہ آپ تو کیا ہیں ٹھاکر صاحب کو بُری بن جائے گی۔ یہ خاص حُکم ہے۔
تعلقدار: اجی حضرت بیسوں افسر گرائی دیکھ لئے ہیں۔ ٹھاکر صاحب پر بُری بنوانےوالا کون ہے۔ اینجانب۔ افسر گرائی کو بھی نہیں دیکھا ہو گا ارنہ اب تک کبھی کی بیڑیاں پڑ گئی ہوتیں۔
تعلقدار : انشاءاللہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل اتنے وقت آپ کو زیور پہنا دوں گا۔ یہ کہہ کر میں نے گھوڑے پر چار جامے بندھوائے اور وہاں سے روانہ ہوا۔ چار بجے جے پور داخل ہوا۔ اور سیدھا کونسل میں پہنچا۔ اور مخبر اور دو سواران ہمراہی کو اپنے ساتھ لیتا گیا اور جا کر حکام کو سلام کیا۔ نواب فیض علیخاں صاحب نے پوچھا بھینس لائے میں نے ساری کیفیت بیان کی۔ سواران سے دریافت کیا انہوں نے بھی میرے بیان کی تائید کی۔ بیجناتھ مخبر کو بُلوا کر پوچھا

ریختہ صفحہ 253
کہ تُو نے بچشمِ خود بھینس کو دیکھا تھا۔ بیجناتھ مخبر خود بھینس کے پُٹھے پر ہاتھ پھیر کر تعلقدار اور زمینداران کے سپرد کر کے آیا تھا۔ اُس کا اظہار لیا گیا اُس نے اظہار میں بھی یہی بیان کیا۔ نواب صاحب کونسل سے اُٹھ کر مہاراج صاحب کے پاس گئے اور گھڑی بھر کے بعد آ کر حکم سُنایا کہ چہار دبیست جائیں اور ٹھاکر صاحب کے دھوئیں کو گھیر لیں اور کہہ دیں کہ جب تک بھینس اور کالی ناتھ مجرم جے پور نہ آئیگا آپ یہاں سے کہیں نہ جا سکینگے۔ حکم پہنچتے ہی ٹھاکر صاحب نے سوار اور شترسوار دوڑانے شروع کئے کہ دن نکلتے بھینس اور چور تعلقدار اور زمیندار مسل پٹواری سب حاضر ہو جائیں۔ کونسل سے تو یہ کاروائی ہوئی۔ میں اپنے گھر میں آ کر تھکا تھکایا کھانا کھا کر سو رہا۔ دوسرے روز صبح کو چار گھڑی دن چڑھے تک سوتا رہا۔ ہنوز نیند میں تھا کہ ہرکارہ محکمہ گرائی کا پہنچا کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب بلاتے ہیں۔ خیر منہ ہاتھ دھوئے پگڑی باندھی تلوار اور چادر بغل میں دبا کر گرائی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میر احمد علی خاں صاحب کچہری کر رہے ہیں اور وہ تعلقدار صاحب اور پٹیل پٹواری سب موجود ہیں۔میں نے جا کر سپرنٹنڈنٹ صاحب کو سلام کیا ۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے پوچھا تم سےاور تعلقدار صاحب سے کیا گفتگو ہوئی تھی۔ میں نے سب بیان کی۔
سپرنٹنڈنٹ : تم نے کیا کہا تھا
اینجانب : میں نے کہہ دیا تھا کہ اگر میں افسر گرائی ہوں تو کل آپ کو زیور پہنا دوں گا۔
سپرنٹنڈنٹ صاحب: اچھا تو یہ زیوار موجود ہے، اس میں سے جو تعلقدار صاحب کے شان کے موافق ہو وہ اُن کو پہنا دو۔ تم اپنا وعدہ پورا کرو۔ اور بیڑیاں میرے آگے

ریختہ صفحہ 254
ڈلوا دیں میں نے اس میں سے ایک بھاری ڈنڈے دار بیڑی لے کر تعلقدار صاحب کی نذر غزرانی آہنگر نے فوراً پاؤں ڈال کر حلقہ میں کیل مستحکم ٹھونک دی۔ مابقی سب زمینداروں کے بھی بیڑیاں پڑ گئیں، کچہری میں اظہارات ہونے لگے۔ آخر تعلقدار صاحب قبولے کہ وہ بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی اجرول کے گاؤں میں ہم نے چلا دی تھی اب بھی وہیں ہے۔ یہ بات سُن کر میں کونس کو پھر دوڑا گیا اور تمام کیفیت بیان کی کہ ابتک بھینس ٹھاکر رنجیت سنگھ جی حاکم کونسل کے گاؤں میں موجود ہے۔ اور ٹاھکر صاحب خود سرِ اجلاس کونسل میں موجود تھے۔ نواب فیض علیخاں صاحب بہادر نے ٹھاکر صاحب سے کہا ۔ واہ واہ ٹھاکر صاحب آپ کونسل کے سردار ہو کر چوروں کی پناہ دہی کرتے ہیں۔ ٹھاکر رنجیت سنگھ جی نے مجھ سے کہا کہ اچھا بھایا اگر میرے گاؤں میں بھینس ہو گی تو کل تیرے گھر پہنچ جائے گی، خاطر جمع کر۔ یہ سُنکر میں حکام کو سلام کر کے گھر کو آیا ۔ دوسرے دن دوپہر کو پھر مجھے گرائی میں بُلوایا گیا۔ جب میں گرائی میں پہنچا تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ لو بھینس سنبھال لو اور ٹھاکر رنجیت سنگھ کے آدمیوں کو رسید لکھ دو۔میں نے رسید لکھ کر بھینس گرائی میں بھجوا دی اور کونسل میں جا کر نواب صاحب سے عرض کی کہ وہ گاؤ میش مہاراج کے اقبال سے میرے پاس آ گئی ہے۔ اب سرکار کو اختیار ہے جسے چاہے حوالہ کر دیں۔ نواب صاحب میرا اتھ پکڑ کر مہاراجہ صاحب کے پاس لے گئے۔ میں نے جا کر سلام کیا پوچھا بھینس لے آئے ۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ حضور کے اقبال سے موجود ہے۔ مہاراجہ صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ نواب صاحب میں نے پہلے آپ سے کہہ دیا تھا کہ وہ بھینس پیدا کر کے لائے گا۔ بعد حکم ہوا کہ اُس سوامی کے

ریختہ صفحہ 255
حوالہ کر کے راضی نامہ لے لو۔ سوامی جی کو بلا کر کہا کہ لو تم بھینس لو اور ٹھاکر گوبند سنگھ جی کے نام راضی نامہ کردو۔ سوامی نے راضی نامہ سے انکار کیا۔ اب ٹھاکر صاحب کے وکیل منّت کرت ہیں اور روپیہ دیتے ہیں مگر سوامی کسی طرح راضی نامہ نہیں دیتا۔ اور نہ بھینس لیتا ہے۔ ٹھاکر صاحب نہایت تنگ ہیں غرضکہ میں نے پھر سوامی سے جا کر کہا بھینس تمہاری آ گئی۔ اب تُم راضہ نامہ کیوں نہیں دیتے اُس نے کہا میری بھینس کے سینگ اور دم کاٹ ڈالی ہے۔ بچہ مار ڈالا ہے۔ میں نے کہا کہ اُسی کا تاوان اسّی روپیہ دلاتا ہوں،
سوامی: راضی نامہ نہ دینے کا ایک سبب یہ ہے مجھے کچھ بھینس کی پرواہ نہیں دس بھینس میری چوری جائیں تو میں کبھی فریاد نہ کرتا مگر میرے پاس تمام زمیندارہ کی روز فریاد آتی ہے۔ کسی کے بیل چوری ہو جاتے ہیں کسی کا اونٹ کسی کی بھینس۔ کسی کا غلّہ۔ جب میں نے تنگ آ کر نالش کی ہے جب تک زمیندارہ کی چوری کا بندوبست نہیں ہو گا میں راضی نامہ ہر گز نہ دوں گا۔ یہ کالیا مینہ جس نے میری بھینس چورائی ہےیہی چوری کرتا پھرتا ہے۔ اور کہور کے قصبہ کے اردگرد دیہات میں چوری کرتا ہے۔ اور گاؤں والوں کو تنگ کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قصبہ کہور کے چوکیدارہ میں وہ بھی شامل ہے اس کے بھائی بندوں نے اُسے وراثت سے خارج کر کے نکال دیا۔ اُس کی جو جائداد اور آمدنی۔ غلّہ وغیرہ ہل پیچھے مقرر تھی وہ اوروں نے چھین لی۔ اب وہ انکے چوکیدارہ سے جو دیہات ہیں وہ ان کو لوٹتا ہے اور بڑے بڑے حمایتی دیہات میں رکھتا ہے کبھی علاقہ الور میں بیٹھکر چوری کرتا ہے یا تو سرکار اُسے گرفتار کرے یا اُس کو بٹھا کر اُس کا حصّہ دلائے کہ وہ چوری نہ کرے اور رعیّت
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 256
کو امن ملے یہ حقیقت میں نے سُن کر حکام کو گوشگزار کی۔ کونسل سے میرے لئے حکم ہوا کہ بذاتِ خود ان موضعات میں جا کر تحقیق کرو اور جو کچھ اس کی جائداد موروثی ہو واگذاشت کرادو۔ اور اُسے بُلا کر بہ اخذِ ضمانت آباد کرو۔ تا کہ وہ فتنہ فرو ہو اور رعیّت کو آسائش ملے غرضکہ میں نے اُسکے رہنے کا حکم حاصل کر کے دیہات میں اشتہارات لگوا دئیے کہ کالیا مینہ یا تو آٹھ روز کے اندر آ کر آباد ہو جائے تو اُس کی جائداد موروثی وغیرہ اُسے دلا دی جائے گی۔ آجتک کے جرائم سرکار سے معاف کرا دئیے جائیں گے ورنہ جائداد اس کی دوام ضبط کر کے اُس کی جا دوسرا چوکیدار مقرر کیا جائے گا اور بعد اُسکے عذرات قابلِ سماعت نہ ہوں گے۔ اس اشتہار کے جاری ہونے کے تیسرے روز وقتِ شام اُس نے تھانہ میں آ کر میرے قدم پکڑ لئے میں نے اُس کا اطمینان کیا کہ تو تھانے میں رہو میں دورہ پر چلکر تیرا سب بندوبس کرا دوں گا۔ بعد قصبہ ء بجنور میں جا کر سب دیہات کے زمنداروں کو بُلوا کر جو اُس کا حصّہ تھا وہ جاری کرا دیا۔ اور اُس کی منجانب آباد کرایا۔ ٹھاکر صاحب کا اضافہ کرا دیا۔ حکام اس کاروائی سے نہایت خوژنود ہوئے۔
بعد قصبہ نوالی علاقہ نظامت بالی پورہ میں بھی بد نظمی ہو رہی تھی۔ چوکیدار تحصیلدار کی جبر و تعدی سے برخاست ہو گئے تھے رعیّت کو ستاتے تھے نوالی کے شرفا میری تبدیلی کی درخواست کونسل سے کرا کے مجھے بدلوا کر نوالی لے گئے وہاں مدت تک میں بہت حیران و پریشان رہا۔ تمام رات پچاس پچاس آدمیوں کی جمیّعت لے کر رات بھر گشت کرتا تھا۔ چور ہاتھ نہ آتے تھے۔ میں ایک محلہ میں جاتا وہ دوسرے میں درآمد ہوتے۔ آخر مجبور ہو کر کونسل سے آبادی چوکیداران کی درخواست کی۔ منظور ہو کر

ریختہ صفحہ 257
حکمِ آبادیء چاکیداران صادر ہوا۔ میں نے اشتہار لگائے۔ شام کو سب کے سب بچے ، بوڑھے، جوان، عورتیں قریب بیس چالیس کے میرے قدموں میں آ گرے۔ میں نے آباد کروایا۔ پھر اُس روز سے قصبہ میں چوری نہ ہوئی۔ مواضعات کے دو چار دیہات سرکش تھے، ان کو ٹھونک پیٹ کے درست کر دیا۔ بندوبست ہو گیا۔ میں جس علاقہ میں رہتا تھا وہاں واردات بہت کم ہوتی تھی۔ اور اگر ہو بھی جاتی تھی تو جب تک اصل مجرم دریافت نہ ہو تے چوکیداروں کا پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ غرضکہ بعد جب مہاراجہ صاحب سالکانیوالے نے پوچھا تھانہ دار کہاں ہے رجپوت نے عرض کی نوالی بدل گیا ہے اُسی وقت سوار بھیج کر مجھے بُلا بھیجا۔
ایسا ہی جب میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمادرئی تھا تو کونسل سے ایک سانڈنی سوار کیفیت لیکر میرے پاس پہنچا کہ ایک جاگیردار کے قصبہ میں باہم دو تھکرانیوں میں تنازع واقع ہوا ہے۔فوج ایک ٹھکرانی کے جانب ہے اور کامدارانِ ریاست دوسری ٹھکرانی کی طرف ہیں آٹھ سات ہزار آدمی کا بلوہ ہے مبادا باہم فساد چلے اور خونریزی ہو۔ اور ٹھکانا برباد ہو جائے، فی الفور موقع واردات پر پہنچکر بندوبست کرو دنگہ و فساد کا ذمہ اپنا سمجھو اور یہی حکم ناظم میر احمد علی صاحب کے نام پہنچا۔ غرضکہ ہم دونو آدمی قریب چار سو سوار و پیدل کی جمیّعت لے موقعہ پر پہنچے تو یہ دیکھا کہ دونوں جانب فوج کی مورچہ بندی ہے اور چھ سات ہزار آدمی کو بلوہ طرفین سے ہے اور توپیں بندھی ہوئیں گراب کی تیار ہیں۔ فقط بتی دینے کی دیر ہے۔ اور شہر میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ رعیّت تمام معہ اہل و عیال مال اپنی دکان سے علاقہ بیکانیر کو بھاگی چلی جاتی ہے۔ سیٹھ، ساہوکار، مہاجن، بنئیے، بقال، گاڑیاں بھر بھر کر اپنا سامانِ

ریختہ صفحہ 258
خانگی شہر سے لئے جاتے ہیں۔ اہلِ شہر تمام اپنے دیگر علاقہ جات میں لئے جاتے ہیں۔ غرضکہ غدر کا نقشہ دوبارہ نظر آ گیا۔ میں نے اُس وقت گھوڑا بڑھا کے بیچ میں دونوں بلوائیوں کے جا کر کھڑا ہو کر بہ آواز بلند سُنایا کہ اب ہم لوگ انتظام کے واسطے آ گئے ہیں اب سے جس کی جانب سے درازی ہو گی۔ وہ راج کا قصوروار سمجھا جائے گا اور ہم لوگ دوسری جانب ہو کر اُس کی پوری پوری خبر لیں گے اور پھر مقابلہ راج سے آ پڑے گا۔ جو تم کو داد فریاد کرنی ہو ہم سے آ کر عرض کرو ہم بندوبست کریں گے اور ہٹا دیجئیے مورچے۔ غرضیکہ میں نے ان کے مورچے جو قریب بندھے ہوئے تھے۔ وہ فاصلے سے کرا دئیے۔ شب کو سب افسر فوج کے اور بڑی ٹھکرانی کا وکیل میرے پاس آیا اور ٹھکرانی کی اوڑھنی لے کر آیااور مجھے ٹھکرانی صاحبہ کی جانب سے پیغام دیا کہ ٹھکرانی صاحبہ نے سلام کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ ڈپٹی جی تؐ میرے دینی بھائی ہو اور میں بیوہ ہوں، میں نے تم کو اپنا بھائی کہا ہے ۔ اس اوڑھنی کی گتم کو شرم چاہئیے۔ اب یہ ٹھکانا تُم رکھو گے یا خدا رکھے گا۔ ٹھاکر صاحب کو مرے ہوئے دو برس کا عرصہ ہوا۔ یہ پانچ برس کا بچہ وہ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ چھوٹی ٹھکرانی سے ہے اس کے پیدا ہوتے ہی میری گود میں ڈال دیا تھا۔ اب یہ کامدار چھوٹی ٹھکرانی سے مل گئے ہیں۔ اور رعیّت اور فوج کو تنگ کر رکھا ہے۔ دس مہینے فوج کے چڑھ گئے ہین۔ تنخواہ نہیں پائی۔ جس کو کوئی زمین ٹھاکر دے مرا تھا وہ سب ضبط کر لی ہے۔ جاگیر کو لوٹتے اِس کو کھاتے ہیں آخر فوج نے لاچار ہو کر کمربندی کر کے مقابلہ آرائی پر کمر باندھی کامداروں نے اور ٹھکانوں میں سے جمیّعت فراہم کر کے وہ بھی مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اور ان کا ارادہ ہے کہ دوڑ کر اُن کی توپیں چھین لیں اب تُم آ گئے ہو اب اسکا بندوبست

ریختہ صفحہ 259
تمہارے اختیار ہے اور یہ تین سو روپیہ دعوت کے بھیجے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ جب تک ڈیرہ رہے گا تمہاری فوج کا خرچ میں دوںگی۔
جواب اینجانب: ٹھکرانی صاحبہ سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ جب تُم نے اپنے منہ سے مجھے بھائی کہا ہے تو ہم لوگوں میں یہ دستور ہے کہ بہن ۔ بیٹی ۔بھانجی ۔ بھتیجی کا پیسہ سور مردار سمجھتے ہیں۔یہ دعوت آپ رہنے دیجئیے ۔ خدا چاہے گا تو ٹھکانے کا بال بھی بیکا نہ ہو گا اور برقرار رہے گا اور دشمن سب رد ہو جائیں گے اور آپ کا حکم حاصل بنا رہے گا مگر میں جو کہوں گا میرے حکم کے بموجب عملدرآمد رکھنا چاہئیے۔میری جانب کی کاروائی تو یہ ہوئی ۔ اب ناظم کے یہاں کی کاروائی کا حال سُنئیے کہ کامدار وہاں پہنچے اور اہلکارانِ ریاست سے ساز باز کر کے یہ چاہا کہ افسرانِ فوج کوناظم صاحب گرفتار کر کے جہنجہہکو لے جائیں تو میدان صاف ہو جائے۔ سپاہی بیچارے کیا کر سکیں گے۔ پھر ٹھکانے پر قبض و بست برابر ہماری مداخلت ہو جائے گی۔حسبِ دلخواہ کاروائی کریں گے کوئی مانع اور مزاحم نہ ہو گا۔ ٹھکرانی بیچاری پردہ نشین ہے وہ کیا کر سکتی ہے۔بطور نظر بند کے بیدخل پڑی رہے گی۔یہ خبر مجھ کو رات کے بارہ بجے معلوم ہوئی کہ ناظم صاحب کہ یہاں یہ منصوبہ ہوا ہے کہ کامداران کی امداد کر کے افسرانِ فوج کو گرفتار کرا دیا جائے۔ایک رسالدار فوج نے مجھ سے آ کر یہ ماجرا بیان کیا اور نیز یہ اظہار کیا کہ ہم لوگوں کا گرفتار ہو جانا کچھ سہل نہیں ہے آخر ہم سپاہی ہیں اور مرنے مارنے پر آمادہ ہیں۔ جب ناظم صاحب ہماری گرفتاری کا ارادہ کریں گے تو اس وقت ہم لوگ کچھ لحاظِ حکومت نہ کریں گے ۔ کامداران کے شامل ناظم صاحب کو بھی سمجھ کر مقابلہ آرائی میں دریغ نہ کریں گے۔ اُس

ریختہ صفحہ 260
وقت حاکم محکوم سب برابر ہیں اگر سرکار جے پور کا مقابلہ ہو تو ہم آپ کو جتائے دیتے ہیں کہ جو ہمارے سامنے آئے گا ہم گراب ماریں گے خواہ ناظم صاحب ہوں خواہ آپ ہوں۔ ہم کسی رُو رعایت نہ کریں گے۔ یہ سُن کر میں نے اُسے تسلّی دی کہ نہیں ایسا امر ہرگز نہ ہونے پائے گا۔ تُم خاطر جمع رکھو میں ایسی تدبیر کروں گا کہ یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچے گی اور رفع شر ہو جائے گا۔ یہ کہہ سُن کر وہ تو رُخصت ہوا میں اپنے بستر پر لیٹ کر سو رہا۔ صبح کو جب بیدار ہوا ۔ ہاتھ منہ دھو کر بیٹھا ہوا حقّہ پیتا ہوں اور اس کے معاملہ میں سوچ رہا ہوں کہ یکایک ایک ہرکارہ گھبرایا ہوا آیا اور اُس نے بیان کیا کہ ناظم صاحب نے حُکم دیا ہے کہ جلدی تیار ہو کر معہ جمیّیت آ جاؤ، وہاں ہتیار چل گیا۔ جلدی چلو ۔ میں نے اپنی جمیّعت کو آواز دی تیار ہو جاؤ اور آپ ہتیار لگائے۔ بندوق بھری۔ بارود گولی کا تور دان کمر سے لگایااور مکان میں سے نکل کر چلا۔میری جمیّعت میرے ہمراہ ہوئی۔ جب میں ناظم صاحب کے مکان پر پہنچا تو میں نے دیکھا ناظم صاحب بندوق میں گولی ڈال رہے ہیں۔ مگر اضطراب کے باعث دست و پا میں رعشہ ہے۔ مجھے دیکھتے ہی بولے۔ وہاں ہتیار چل گیا کُشت و خون ہو رہا ہے چلو اور جلدی چلو۔ میں نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں۔ مجھے جانے دیجئیے آپ کا چلنا مناسب نہیں ہے۔ آپ کی صورت دیکھتے ہی توپوں پر بتّی پڑ جائے گی اگر تلوار نہ چلی ہوگی۔ مجھے ساری کیفیت معلوم ہے۔آپ یہیں ٹہریں ۔ میں اپنی جمیّعت لے جاتا ہوں۔ جب مجھ سے کسی طرح کی جنگ و جدل واقع ہو تو آپ میری امداد کو آ جائیے گا۔ یہ کہہ کر میں معرکہ میں آیا تو یہی کیفیت دیکھی کہ بالکل آمادگی دونوں جانب سے لڑائی کی پائی گئی اور دونو گروہ بہت قریب ہو گئے تھے شاید سو قدم کا فاصلہ ہو گا اور عین بازار میں معرکہء

ریختہ صفحہ 261
کارزار ہے۔ فوج والوں کی پُشت پر توپ خانہ کی بارک ہے اور آگے توپیں بڑھا رکھی ہیں۔ اور توپوں میں ٹکوں کا چھرّا بھرا ہوا ہے توڑا سُلگتا ہے توپوں کے پیچھے فوج جمی کھڑی ہے اور کامدار کی طرف جمیّعت بازار کی دورویہ دکانوں میں بندوقیں بھری کھڑی ہے۔میں ان دونوں لشکروں کے پہلو میں سے پہنچا۔ جس وقت فوجیوں نے مجھے آتے ہوئے دیکھا پکار کر کہا کہ ڈپٹی جی خبردار آگے نہ آنا ورنہ ہم توپ کو بتی دکھاتے ہیں۔ میں نے پُکار کر جواب دیا کہ اچھا میں اپنی جمیّعت کو نہیں لاتا، تنہا آتا ہوں تُم سے دو باتیں کرنی ہیں۔ یہ کہہ کر میں آگے چلنے لگا تو میری جمیّعت والے میرے ساتھ آنے لگے اور کہا کہ اس وقت ہم تمہیں اکیلا نہیں جانے دیں گے اگر تُم وہاں مارےگئے تو راج ہم کو توپ سے اڑا دے گا کہ تُم اپنے ڈپٹی کو قتل کر آئے۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ نہیں مجھے کوئی نہیں مارے گا۔ میں دو باتیں ان سے کر کے آتا ہوں۔ اور میں نے بیچ میں کھڑے ہو کر سُنایا کہ دیکھو تُم دونو کے بیچ میں میری جمیّعت حائل ہے۔ جس کی طرف سے پہل ہو گی گویا مجھ سے مقابلہ ہو گا اور اپنی جمیّعت کو بیچ میں بُلا کر کھڑا کر دیا۔ اور آپ تنہا افسرانِ فوج کے پاس پہنچا اور اُن کو سمجھایا کہ دیکھو تُم لوگ سپاہی ہو اور سپاہ کا قرینہ جاہل ہوتا ہے۔ ایسا کام نہ کرنا کہ جانیں بھی تلف ہوں اور لاشیں بھی کتّے کوّے کھائیں۔ اور بال بچے تباہ ہو جائیں۔ عورتوں کی آبرو ریزی ہوا ایسا کام کرو نہ سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے۔ میرے نزدیک یہ بات مناسب ہے کہ تُم لوگ سب جے پور کو صدر میں چلے جاؤ وہاں جا کر اپنا استغاثہ پیش کرو۔ افسرانِ فوج : ہم تو اس بات پر راضی ہیں مگر کامداربھی مانیں وہ ہم کو گرفتار کیا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں اس بات کا ذمہ دار ہوں پہلے ان کا چالان جے پور کو کر لوں گا جب تُمکو

ریختہ صفحہ 262
بھیجوں گا۔ وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ اچھا کامداران کو بھی ہمارے ساتھ جے پور کو روانہ کر دو۔ یہ کہہ کر میں کامداران کی طرف کو گیا اور وہاں جا کر اُن کو دھمکایا اور کہا کہ اپنی خیریت چاہتے ہو تو تُم دونو اسی وقت جے پور کو روانہ ہو جاؤ۔ ورنہ پہلے مجھ سے سمجھ لو پھر آپس میں لڑنا جھگڑنا جے پور میں اب تو لڑو جھگڑو ٹھکانے کو کیوں برباد کرتے ہو اور ان بلوائیوں کو پیچھے ہٹا دو۔ اور اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ ہٹا دو ان کو پیچھے کو، دوکانیں خالی کراؤ۔ نیچے جا کر انھیں کھڑا کرو اور کامدار سے کہا کہ چلو میرے ہمراہ ناظم صاحب کے پاس اُن دونوں کو ہمراہ لے کر ناظم صاحب کے پاس آ کر کہا کہ بس مصلحتِ وقت اس میں ہے کہ آپ ان کو اسی وقت اپنے ساتھ سوار کر کے جے پور کو روانہ کریں اور میں اپنے سواروں کے ساتھ افسرانِ فوج کو روانہ کرتا ہوں۔ فساد برخاست ہوتا ہے اور دونوں طرف کے مورچے ہٹائے دیتا ہوں۔ ناظم صاحب نے بھی چار و ناچار اس تجویز کو منظور کیا اور کامداران سے کہا کہ جاؤ جے پور میں جا کر آپس میں سمجھ لو اور تیار ہوجاؤ چلنے کو۔ میں نے جا کر توپیں کُھلوا کر توپ خانہ میں رکھوائیں اور میرے آدمیوں نے بلوائیوں کو منتشر کر دیا اور دونوں ٹھکرانیوں سے کہلا بھیجا کہ اب اپنے اپنے وکیل جے پور بھیج دو اور اُسی روز کامدار اور افسران ِ فوج ہر دو مخاتصمین کو جے پور کو چالان کر دیا گیا۔ غرضکہ نوکری جے پور میں ایسے ایسے کار نمایاں ظہور میں آئے ہیں۔
ایک بار زمانہء تھانیداری سانگانیر میں شفیع میاں جنرل سپرنٹنڈنٹ نے مجھے تھانے سے معطل کر کے میری جا پر قائم مقام کر کے اپنے ایک عزیز کو بھیج دیا۔ مجھے اطمینان تھا کہ مجھے معطل کون کر سکتا ہے۔ بے حکم حضور کے میں بھی خاموشی کے ساتھ

ریختہ صفحہ 263
ہنستا بولتا دو ماہ تک گھر بیٹھا رہا۔ آخر ایک قصیدہ میں حال معطلی درج کر کے مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچا۔ مہاراجہ صاحب موضع کھاتی پورہ کی شکار گاہ میں تشریف رکھتے تھے اور اتفاق سے نواب احمد علی صاحب بھی اور نائب عبید اللہ خاں صاحب اُن کے بھتیجے بھی کہ اُن دنوں میں جے پور میں موجود تھے وہ دونو صاحب بھی وہیں آ موجود ہوئے، شام کو میں نے جا کر مہاراجہ صاحب کو سلام کیا ۔ فرمایا آج تھانہ دار جی تُم کہاں سے آ گئے۔ میں نے عرض کی کہ بہت دن سے حضور کو سلام نہیں ہوا تھا اور کچھ لکھ کر بھی لایا ہوں مُسکرا کر فرمایا بہت اچھا چراغ جل جائیں تو بیٹھ کر سُنوں۔ جب چراغ روشن ہو گئے تو کھونے پورہ کے بنگلہ میں حضور صاحب بیٹھے اور برابر نواب احمد علیخاں صاحب بیٹھے اور سامنے کےرُخ کو چراغدان روشن تھااُس کے ایک پہلو میں بیٹھا اور دوسرے پہلو میں نائب عبید اللہ خاں صاحب اور ان کے برابر بابو راؤکامتی چندر بہادر تھے۔اور میری بغل میں میں منشی نولکشور مالک مطبع اودھ اخبار اور مہاراجہ کی پُشت پر مہاراج پرتاپ سنگھ جی جودھ پور والے بیٹھے ہوئے اور ٹھاکر فتح سنگھ جی اُن سے باتیں کر رہے ہیں کہ مہاراجہ صاحب نے حکم دیا ہاں ہوئے اور میں نے قصیدہ شروع کیا اور سب تعریف کر رہے تھے منشی نولکشور صاحب بولے واہ کیا قصیدہ لکھا ہے بالکل فردوسی کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ مہاراجہ صاحب کی خوش اقبالی ہے۔ کہ اہلِ کمال آ کر موجود ہو جاتے ہیں اس کلمہ پر مہاراجہ صاحب بہت خوش ہوئے۔ مگر جب وہ معطلی کے مضمون کے شعر آئے تو نواب احمد علیخاں صاحب سے پوچھا یہ کیا کہتے پہں۔ انہوں نے کہا دو ماہ سے معطل ہو کر گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں، فرمانے لگے میری بے اجازت کس نے معطل کیا۔ بابو کانتی چندر سے مخاطب ہو کر میں لکھوا چٗکا ہوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 264

کہ میری بغیر اجازت معطلی۔ تبدیلی۔ برخاستگی نہ ہو۔
بابو صاحب:ہاں میں نے یہ حکم کونسل میں لھکوایا ہے زبانی حضور کے
مہاراجہ صاحب: شفیع میاں بڑے بے شعور آدمی ہیںان کی معطلی کی تنخواہ ان کی تنخواہ سے دلا دو کہ آئندہ انھیں خیال رہے۔
اور بیس روپیہ ماہواران کے روزینہ داران میں کر دو اور اگر یہ نوکری سرکار سرشتہ میں انجام دیں تو کارگزاری کی تنخواہ علیٰحدہ ملے اور یہ روزینہ علیٰحدہ ۔ میں نے اُٹھ کر سلام کیا ۔ وہاں سے رُخصت ہو کر گھر کو آیا وہ نواب احمد علی خاں صاحب کے مکان پر آئے اور مجھے بُلوایا اور کہا کہ تھانے پر جاؤ۔ میں نے کہا مجھے معاف کیجئیے۔ مہاراجہ صاحب نے میرا روزینہ کر دیا۔ اب مجھے کارکردہ کی کچھ حاجت نہیں۔ میں نہیں جاتا۔اب میں انکار کرتا ہوں اور وہ درپے ہوتے ہیں اور نواب صاحب سے کہا کہ ایک بار ان کو آپ سانگانیر بھجوا دیں۔ پھر یہ چاہیں استعفا داخل کریں ۔ میں بری ہو جاؤں خیر سمجھا کر مجھے تھانے پر بھیج دیا۔ بعد ایک سال کے حضور صاحب نے مجھے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کر کے ٹوراوائی کو بھیج دیا اور نیز یہ فرمایاکہ مجھے تیری چاکری کا حال خوب معلوم ہے انشاء اللہ تیری ترقی بہت کچھ ہو گی۔ میری بدنصیبی سے چھ ماہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اور میں اس دلدل میں پھنس گیا۔ ایک سال ٹوراوائی میں مَیں نے نوکری دی اور وہاں سے تین برس شیخا واٹی میں ڈپٹی رہا۔ مہاراجہ صاحب بہادر مہاراجہ مادھو سنگھ جی ان روزوں میں میں بے اختیار تھےاور ایک طوفان بد تمیزی جے پور میں طغیانیوں پر تھا یعنی جس قدر مہاراج رام سنگھ جی کے ملازم تھے وہ سب خانہ نشین ہو گئے۔ ایک نئے سپرنٹنڈنٹ ہوئے تھے انہوں نے چاروں ڈپٹیوں اور پرانے تھانہ داروں کو موقوف کر کے

ریختہ صفحہ 265
نئے بھرتی کر دئیے تھے۔ ان کی نالش فریاد بہت سی ہوئی۔ انہوں نے میری جگہ پر اپنے ایک بھائی کو مقرر کیا اُن کی نالش فریاد ہوتی رہی۔ آخر دو برس چارہ جوئی کر کے تھک کر گھر بیٹھ رہا ریاست نے اتنی پرورش کر دی کہ میرے بیٹے کو تھانہ دار کر دیا تھا اسی اثناء میں میرا ارادہ بھوپال کا ہوا۔ اور دورانِ سفر میں مقام جاورہ میں قیام ہوا۔ نواب صاحب نواب اسمٰعیل خاں بہادر والیءجاورہ سے ملاوقات ہوئی۔ میں نے ایک قصیدہ نذر کیا آٹھ روز مجھے مہمان رکھا اور پچاس روپے صلہ کے دے کر رخصت کیا۔ میں بھوپال میں آیا اپنے ایک دوست کے مکان پر مقیم ہوا ۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب سے ملاقات ہوئی حضور نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ کے مواجہی میں مشاعرہ ہوتا تھا ۔ آٹھویں دن روز جمعہ کو شریک ِ مشاعرہ ہوتا تھا بس پانچ سات آدمی شریک جلسہ ہوتے تھے۔نواب صاحب نے امیدوار کیا تھا بعد تین ماہ کے میں واپس مکان کو روانہ ہوا۔ ایک قصیدہ عید قربان کا بیگم صاحبہ کے دربار میں پڑھا تھااُس کے صلہ میں دو سو روپے عنایت ہوئے تھے۔ وہ لے کر مکان کو چلا گیا نواب احمد علی خاں صاحب کے بڑے بیٹے کی شادی میں میں نے قصیدہ لکھا پچاس روپے صلہ کے دئیے اور کہا کہ اب آپ کہیں نہ جائیں میری ریاست میں رہیں چنانچہ مرتے دم تک انہوں نے مجھے اپنے سے جدا نہ کیا اور میں آرام سے جے پور میں بیٹھا رہا۔
جے پور کو خدا آباد رکھے عجب شہر ہے باعتبار شہریت یہ اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ اور آب و ہوا بھی بحد اعتدال لطیف و خوشگوار ہے۔ہر طرح کا امن و آسائش ہے۔ ایک ایسی عمدہ بات جے پور میں دیکھنے میں آئی کہ تمام ہندوستان میں نہیں۔ یعنے ہر قوم اور ہر فریق اور ہر مذاہب کے آدمی جے پور میں سکونت پذیر ہیں مگر باہم تعصّب

ریختہ صفحہ 266
مذہبی نہیں۔ہندو۔ مسلمان۔ شیعی۔ سنی انگریز سب باہم شیر وشکر ہیں کبھی باہم مذہبی تعصّب کا تذکرہ نہیں آتا۔ہولی۔ دسہرہ۔ محرم۔ رام لیلا وغیرہ میں انگریزی عملداریوں میں باہم فتنہ و فساد ہوئے آدمی مارے گئے ۔ مگر جے پور میں کبھی تکرار تک نہیں ہوئی۔ یہ سب خوبیاں مہاراج رام سنگھ بہادر کے عدل و انصاف اور نظم و نسق اور سیاست دانی اور تالیفِ قلوب اور بلا تعصبی کے ہیں کہ آجتک وہی انتظام برقرار ہے جو بنا وہ ڈال گئے ہیں اور یہ سب نتیجہ اُن کی بیدار مغزی کا ہے حالانکہ مہاراج صاحب بہادر مہاراج سری سوامی مادہو سنگھ جی کے مزاج میں کسی درجہ تعصّب مذہبی نسبت فرقہ ء اہلِ اسلام ہے مگر رعایا پروری کی نظر سے حقوق سب کے برابر سمجھے جاتے ہیں جو سلوک ہنود کے ساتھ ہوتے ہیں اس سے زیادہ کچھ مسلمانوں کے ساتھ مرعی رکھے جاتے ہیں۔ ایّامِ قحط سالی میں سب اقوام کے ساتھ ایک برتاؤ کیا گیا اور دو دو روپیہ مہینہ سب کا برابر جاری رکھا گیا اور تین برس سب کو برابر ،لے کیا۔حق تو یوں ہے کہ زمانہ ء قحط سالی میں جو مہاراجہ مادھو سنگھ جی نے رعایا پروری کی ہے آج تک نہ کسی بادشاہ نے کی نہ کسی راجہ نےکروڑوں روپے اپنی رعّیت پر سے صدقے کر دئیے۔ غلہ کے بازاروں میں انبار چنوا دئیے اور دس سیر کا بیچے گئے۔ ایک پیسہ والے کو ایک لَپ بھر کے دے دیتے تھے اٹھارہ ہزار آدمی کی مدد جاری تھی۔ عوراتِ پردہ نشین رات کو جا کر کام کرتی تھیں۔ صبح سے پہلے مزدوری لے کر گھر آ جاتی تھیں۔ بن میں عام حکم تھا جس کا جی چاہے درخت کاٹ لاؤ اور بیچو اور کھاؤ۔ اس کے علاوہ لنگر جاری تھا ۔ کنگلوں کے واسطے ڈیرے کھڑے کرا دئیے۔ نمدے کا فرش بچھوا دیا کئی ہزار کمبل تقسیم کرا دئیے۔ علاوہ ازیں مہاراجہ صاحب مزاج

ریختہ صفحہ 267
کے بہت حلیم و سلیم ہیں۔ کسی کے آزار تکلیف کے روادار نہیں۔ منہ سے کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتے۔ کسی پر خفا نہیں ہوتے۔ رعایا، ملازم سب خوش و خرم ہیں۔ فیاض بدرجہء اوسط ہیں۔ جو جس کا مقرر ہے ملے جاتا ہے۔

قلعہ رنتھنبور ؎1
یہ قلعہ بنظرِ استحکام روئے زمین کے قلعہ جات سے زیادہ تر رفعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی غنیم قلعہ کشائی کے ارادہ سے حملہ آور ہو تو ہر چہار اطراف سے قلعہ تک رسائی محال بلکہ غیر ممکن۔ اگر قلعہ والوں کے پاس سامانِ رسد و میگزین وغیرہ و جمیّعت مناسب و فعیہء محاصرین موجود ہوتو تمام عمر فاتح قلعہ ء مذکور پر دستیاب نہیں ہو سکتا۔
یہ قلعہ سات سو کوس کے دوائر میں بطور نقطہ ئ پرکار واقع ہوا ہےاور حصار کے پہاڑ بھی سب سر بفلک کشیدہ اور نہایت بلند و ضخیم ہیں۔ دامنِ کوہستان میں زمین مزروعہ ہے۔ اُن میں زراعت بخوبی ہوتی ہے اور جا بجا آبشار و چشمہ سار ہیں۔ پہاڑوں کا پانی تالابوں میں جمع ہوتا ہے اور دیہات آباد ہیں۔ طولاً عرضاً دو از دہ کوس کے فاصلہ میں یہ قلعہ واقع ہوا ہے اور کسی جانب سے راہ ہموار اور درہ راہ آمد و شد قلعہ نہیں ہے بجز اینکہ جادہ ہائے ناہموار و انتہائی دشوار گزار اور پست و بلند گھاٹیاں کہ جن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎1
اس فلک تمثال قلعہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سلطان علاؤ الدین خلجی نے فتح کیا۔ لیکن خاندان کے زوال کے بعد یہ ریاست پھر راجپوتوں کے قبضہ میں چلی گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شہنشاہ اکبر نے جے پور پر حملہ کیا یہاں کے راجہ بہارامل نے اکبر کی اطاعت قبول کر لی اور اپنی بیٹی کی شادی شہنشاہ سے کر دی اکبر نے راجہ کے بیٹے بھگوان داس اور پوتے مان سنگھ کو امراء میں شامل کیا اور(5) ہزاری منصب عطا کیا۔ شاید اسی وجہ سے اس ریاست میں مذہبی تعصّب نہیں تھا (ظہیر)

ریختہ صفحہ 268
پر سوائے ایک دو پیدل اور ایک سوار کے عبور و مرور دشوار ہے۔کوئی رستہ بھی ایسا نہیں جس سے توپ کا گزر قلعہ تک ہو کسی جانب سے لگاؤ ایسا نہیں کہ توپ پہنچ سکے۔چہار طرف سے پہاڑ قلعہ کو چکی کے گوند کی طرح گھیرے ہوئے ہیں ان کے بیچ میں قلعہ کا مینار واقع ہوا ہے اور خوبی یہ ہے کہ یہ پہاڑ سیدھا مینار کی طرح زمین سے اٹھ گیا ہے ۔ قلعہ کا راستہ البتہ ڈھلوان ہے۔ قلعہ کے شمالی جانب پیش قلعہ ایک میدانِ وسیع واقع ہوا ہے اُس میں ایک تالابِ عظیم الشان ہے تالاب کے کنارے درختانِ انبہ بکثرت ہیں۔ لیکن یہ قطعہ ء سرزمین اس درجہ گلہائے رنگا رنگ خود رو سبزہ زارِ شاداب سے ایسا پُر فضا اور پُر بہار ہے کہ خطہء کشمیر بھی اس کے نظیر نہیں ہو سکتا ہے۔ کیوڑے کیتکی کے درخت اس کثرت سے ہیں کہ کوسوں تک ان کی مہک پہنچتی ہےتمام کوہستان خوشبو ہو رہا ہے۔ قطعہ زمین سب سرسبز ہے سبزے پر چھوٹے چھوٹے رنگ برنگ کے پھول مصور کے ہاتھ کے قلم کار معلوم ہوتے ہیں۔ یہ منظر ایسا خوشنما اور پُر فضا ہے کہ اس کا جواب بھی نکلنا دشوار ہے۔بالائے قطعہ بہت وسعت ہے ہزارہا فوج کی گنجائش ہے پانی کے چشمے عمیق ہیں۔
جوہرا۔بوہرا دو کھتے ایسے عمیق ہیں جس میں ہزارہا من غلّہ و میخزین اور اشرفیاں اور روپیہ کروڑوں سما جائیں اور بالائے قلعہ دو بزرگانِ دین اولیاء اللہ کا مزار ہے جن کی امداد سے قلعہ فتح ہوا ہے ایک بزرگوار کا نام تو سیّد صدر الدین صاحب ہے اُن اضلاع میں ہندو مسلمان یا اور کوئی میں صدر الدین کے نام کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔ قلعہ قلعہ کے پہاڑ سے ملا ہوا رن کا پہاڑ ہے ۔ ان دونوں پہاڑوں میں باہم دو سو گز کا فاصلہ ہے۔عجب تماشہ ہے کہ جب قلعہ پر چڑھو تو رن کا پہاڑ

ریختہ صفحہ 269
نیچا معلوم ہوتا ہے اور جب رن کے پہاڑ پر چڑھو تو قلعہ نشیب میں ہو جاتا ہے۔بادشاہ علاؤ الدین خلجی راجہ ہمیر سے بارہ برس لڑا ہے۔جب قلعہ فتح ہوا ہے ہر گھاٹی میں صد ہا قبریں شہیدوں کی ہیں۔لاکوں آدمیوں کے کُشت و خون کے بعد قلعہ فتح ہوا ہے۔بامداد ان دونوں بزرگوانِ سادات ۔
رن کے پہاڑ پر جب بادشاہ کی فوج پہنچی ہے اور یہاں سے توپ لگائی جب میدان میں آ کر راجپوت لڑے ہیں۔
قلعہ کے پہاڑ کے گردو پیش کے جو پہاڑ ہیں سب پُر بہار ہیں۔جا بجا چشمہ ہائے آبِ رواں ہیں۔اور درختانِ گنجان اور سبزہ زار ہے۔ جہاں دیکھو پہاڑ میں سے آبِ زلال جھرتا ہے اور کیتکی کے پھولوں کا سبزہ ہے۔یہ قلعہ جے پور سے گوشہ ء مشرق و جنوب میں بہ فاصلہ چہل کوس واقع ہے۔ اس کوہستان میں شکار پرند۔ چرند۔ درند بکثرت ہیں۔جو صاحبانِ انگریز جے پور میں آتے ہیں اسی قلعہ کے دیکھنے کو ضرور جاتے ہیں اور آٹھ آٹھ دس دس روز شکار بگھیرہ۔ ریچھ وغیرہ کا کھیلتے ہیں۔ سانبھر، نیل گاؤ، چنبل،بارہ سنگھے، چیتے وغیرہ اس افراط سے ہیں کہ چرند تو کیا آدمیوں کے قریب آ جاتے ہیں اور مطلق وحشت و و رم نہیں کرتے۔

کوہستان ببرائیہ
ببرائیہ نامی ایک پرگنہ ہے علاقے جے پور کا۔ جے پور سے چوبیس کوس کے فاصلہ پر جانب گوشہ ء مشرق و شمال اس مقام پر کچھ آثار و نشانیاں پانچ ہزار سال گذشتہ کی موجود پائی جاتی ہیں۔ تواریخِ ہنود میں کورو پانڈؤں کا مذکور ہے اور بھارت میں جس جنگِ عظیم کا نشان ملتا ہے وہ پانڈے یہیں مقیم تھے اور وہ جنگِ خونخوار اسی نواح میں ہوئی

ریختہ صفحہ 270
ہے بھیم اور ارجن وغیرہ کے مکانات بھی موجود ہیں ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جو زمین سے کچھ بلند ہے، اُس کی سطح بالا پر ایک حجرہء وسیع پہاڑ میں ترشا ہوا ہے۔ اس کے دروازہ کی چوکھٹ تک موجود ہے کہتے ہیں کہ یہ بھیم کی سکونت کا حجرہ ہے۔ اُسی پہاڑ پر دس بارہ گز طویل اور ڈیڑھ دو گز کے قریب ایک چشمہء آب ہے اور اُس کے عُمق میں بہت مبالغہ ہے لوگ کہتے ہیں سات چار پائیوں کے بان میں پتھر باندھ کر لٹکایا تھا تاہم تہ کو نہ پہنچا تھا۔ اُس کا عُمق کسی کو ثابت نہیں ہوا اُسے مشہور کرتے ہیں کہ بھیم نے پہاڑ پر لات ماری تھی تو زمین کا پیندا پھوٹ کر یہ پانی اُبل آیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ دو از دہ ماہ وہاں پانی بھرا رہتا ہے اور اس میں سے لوگ بھر کر لے جاتے ہیں اور پیتے ہیں اور پانی کم نہیں ہوتا۔ اُسی پہاڑ پر بڑے بڑے گولے پتھر کے ترشے ہوئے مدّور پانچ پانچ گز کے اکثر دیکھنے میں آئے۔ اُن لوگوں کی نسبت یہ روایت سُنی جاتی ہے کہ یہ اُن ساتوں بھائیوں کے کھیلنے کی گولیاں ہیں۔
اُن کے قریب ہی پہاڑ پر ایک اور سطح مربع قطعہ پہاڑ کا ہے کہ پچاس گز سے پچاس گز تک مربع ایک سِل پہاڑ کی ہے اور اس کے ہر چہار کونوں پر چھوٹی چھوٹی چار بُرجیاں بنی ہوئی ہیں مگر طرفہ تر یہ بات تعجب خیز ہے کہ پہاڑ کا ٹکڑا زمین سے ادھر رکھا ہوا معلوم ہوتا ہے نیچے اس کے جوف سے چہار طرف سے خالی ہے فقط ایک نوک اس کی پہاڑ پر دھری ہوئی ہے۔ اُس کی شکل ایسی ہے جیسے خاصدان کا ڈھکنا اُٹھا کر رکھ دیتے ہیں اور بصورت اوندھے بُرج کے وہ پہاڑ پر رکھا ہوا ہے آگے جا کر ایک پہاڑ پر پتھر کے نقارے دھرے ہوئے دیکھے اور ایک

ریختہ صفحہ 271
پتھر کا ایک ہاتھی بقامت ِ فیل اصلی بیٹھا ہوا دیکھا۔
اُس کے اوپر کے پہاڑ پر ایک پتھر کی لاٹ چھ گز لمبی دیکھنے میں آئی۔ اُس کا حال دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ لاٹھ تو دال گھوٹنے کی ڈوئی ہے اور یہ نقارے اصلی لوہے کے تھے۔ اور فیل بھی ان کی سواری کا ہاتھی تھا بعد یہ سب پتھر کے ہو گئے۔
شیخاوانی
یہ ضلع جے پور سے جانبِ شمال دور تک چلا گیا ہے۔ حدِ غربی اس کی جودھ پور اور بیکا نیر سے ملحق ہے اور حدِ شمالی ہانسی حصار اور پرگنہ لوہارو ہے۔ یہ ملک تمام ریگستان ہے۔ جابجا ریت کے پہاڑ ہیں جس وقت ہوا تیز چلتی ہے ادھر کا پہاڑ اُڑ کر ادھر آ جاتا ہے۔ آدمی اگر سوتا ہو اور ریت اڑ کر آ رہے تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہاں غائب ہو گیا۔ پانی کی اس ملک میں کربلا ہے۔ پانی اتنی دور جا کر کنوئیں میں واقع ہوا ہے کہ جب کنوئیں میں سے چرسہ برآمد ہوتا ہے تو چرسہ کھینچنے والے کو کنوئیں پر سے آواز نہیں پہنچ سکتی ہے لامحالہ لبِ چاہ ایک بڑا ڈھول رکھا جاتا ہے جب پانی کا چرسہ برآمد ہو جاتا ہے تو ڈھول پر ڈنکا دیا جاتا ہے۔ کیلی والے کو خبر ہو جاتی ہے لاؤ کے نرگاوان کو روک لیتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے ڈھولے ڈھمکے سے پانی نکلتا ہے۔ اب اس پانی کی کیفیت یہ ہے کہ فی گاؤں ایک کنواں ہوتا ہے بالائے چاہ ایک چبوترہ وسیع ترتیب دیا جاتا ہے اور سر چاہ چار مینار بلند تعمیر کئے جاتے ہیںاور چاہ میں بذریعہ دلو آب برآمد کیا جاتا ہے اور ہر چہار حوض میں بھر دیا جاتا ہے۔ اب ٹھاکر برہمن بقال مہاجن مسلمان۔ شیخ۔ سیّد ۔ مغل۔ پٹھان سب ان حوضوں میں سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں۔ وہاں پرہیز ہندو مسلمان کا نہیں ہے

ریختہ صفحہ 272
یہ تجویز کی گئی ہے کہ ہر چہار طرف چبوترہ نالیاں پختہ بنا دی گئی ہیں کہ اُن حوضوں میں سے پانی چھلک کر اُن نالیوں میں جاتا ہے یا بوقت بھرنے حوضوں کے چبوترہ پر سے بہ کر اُن میں جاتا ہے ان میں سے اور اقوام گھڑے بھر بھر کر لے جاتے ہیں یا مویشی پیتے ہیں۔
بعض مقامات پر یہ بھی نہیں۔ وہاں بالکل قحظِ آب ہے۔ پانی ہے مگر کس کام کا بالکل دریائے شور کا پانی ہے زہر آب کا حکم رکھتا ہے ادھر آدمی کے حلق سے اترا اُدھر دست کی راہ سے سب نکل جاتا ہے آدمی کو دست لگ جاتے ہیں۔ تلخ اس درجہ ہے جیسے برگِ نیب۔ اُن مقامات پر یہ کاروائی کی گئی ہے کہ صاف چٹیل میدان میں بڑے بڑے حوض پختہ ڈھلوان بنائے گئے ہیں اور پہلوئے حوض میں ایک چاہ عمیق کندہ کر کے اس کو پختہ کیا ہے اور اُس کی تہ بہت پختہ چونے سے کر دی ہے اور کنوئیں کا دور بھی پختہ ہے۔
موسمِ بارش میں جب بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو اُن حوضوں میں پانی بھرتا ہے اور چاہ کی جانب حوض کا ضلع ڈھلواں ہے وہاں اس کی موری رکھی گئی ہے۔ اور اُس کے منہ پر جالی لگی ہوئی ہے اُس جالی سے پانی چھنکر موری کی راہ سے پہنچ کر چاہ میں فراہم ہوتا ہے اور چاہ کے منہ پر ایک کھڑکی لگی ہوئی ہے۔ وہ کھڑکی بند رہتی ہے اور اُس کے منہ پر قفل لگا رہتا ہے۔صبح کو گاؤں والے قفل کھول کر پانی تقسیم کرتے ہیں۔ ایک ایک گھڑا پانی کا گھر پیچھے دیا جاتا ہے اُس میں سب خانہ داری کا سامان کرنا ہوتا ہے اب اگر خدا نے فضل کیا بارش ہو گئی تو وہ لوگ دیہات میں مقیم ہیں۔ اور اگر بارش نہ ہوئی تو وہ لوگ اپنے بال بچوں کو لے کر گاؤں سے نکل

ریختہ صفحہ 273
کھڑے ہوتے ہیں۔ زراعت کی یہ کیفیت ہے کہ اس ملک میں زراعت اونٹوں کے ذریعہ کی جاتی ہے نر گاواں سے نہیں۔
بعض جگہ ہل نہیں جوتے جاتے فقط ہاتھوں سے ریتوں کے ٹیلوں پر تخم ٌپاشی ہوےی ہے، قدرت خدا کو ملاحظہ کرنا چاہئیے کہ وہ ملک ایک فصلہ ہے بارانی زراعت ہوتی ہے۔
قسم غلہ سے باجرہ۔ موٹھ پیدا ہوتی ہے۔ اساڑھ کے مہینے میں ایک چھینٹا پانی کا پڑا اور ان لوگوں نے تخم پاشی کی۔ باجرہ کا درخت گھوڑے کے قد سے زیادہ تجاوز کرتا ہے اور سیر بھر کی درخت میں بال آتی ہے۔
علیٰ ہذاالقیاس موٹھ بھی زمین میں ایسی پھیلتی ہے کہ چھتے کے چھتے ہو جاتے ہیں لاکھوں من موٹھ باجرہ پیدا ہوتا ہے اور باجرہ کس قدر شیریں ہوتا ہے کہ گندم اور برنج کی کچھ حقیقت نہیں وہاں کے باشندوں کی وہی خوراک ہے۔ باجرہ کی روٹی اور موٹھ کی دال اور وہ ایسی خوش ذائقہ ہوتی ہے کہ اُس کے آگے پلؤ، بریانی کی کچھ اصل نہیں۔ طرفی ماجرا یہ ہے کہ اگر اس ملک میں گندم برنج کا زیادہ استعمال کیا جائےتو آدمی بیمار ہو جاتا ہے۔
مویشی اس ملک کے نہایت توانا ۔ گائے بھینس وغیرہ دودھ افراط سے دیتے ہیں اور دودھ چکنا ہوتا ہے۔ گھی بہت نکلتا ہے۔
بھیڑیں جیسی خوبصورت یہاں ہوتی ہیں کہیں نہیں دیکھیں۔ سفید براق رنگ ہوتا ہے۔ پشم نہایت باریک ہوتی ہے کہ پارچہ بافی میں بہت کارآمد ہوتی ہے۔ گوشت بھیڑ بکری کا خوش ذائقہ مچرب ۔ فربہ۔ بھربھرا مثلِ مرغ و ماہی ہوتا

ریختہ صفحہ 274
ہے اور سریؑ الہضم ہے ایسا لذیذ گوشت ہندوستان بھر میں نہیں ہوتا۔ ایک قسم کا خربوز ریگستان میں ہوتا ہے جس کو متیرہ کہتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا سرد و شیریں و کلاں ہوتا ہے۔ اُس کا شربت مثل قندِ شیریں اور خوش گوار ہوتا ہے ایک سوار اور گھوڑا ہنگامِ تشنگی میں سیراب ہو جاتا ہے وہ اکثر ریت کے ٹیلوںپر خودرو ہوتے ہیں اور ریت میں دبے پڑے رہتے ہیں، جن لوگوں کو ان کا حال معلوم ہوتا ہے وہ برآمد کر لیتے ہیں۔ ہنگامِ سفر میں پانی تو کوسوں نہیں ملتا۔ متیرہ مل جاتا ہے اُس کو نکالا اور ایک جانب اس میں روزن کیا اور تاس وغیرہ یا اور کوئی ظروف پُر کر لیا۔ آپ پیا اور گھوڑے کو بھی پلا دیا۔ مجھے ہنگامِ دورہ اکثر اتفاق ہوا ہے کہ تشنگی غالب ہوئی ہے اور سوارانِ ہمراہی سے کہا گیا ہے اور وہ ڈھونڈ کر جنگل سے لے آئے ہیں اور اس کا شربت استعمال کیا گیا ہے۔ آدمی اس ملک کا محنت کش صاحبِ ارادہ ۔ صاحبِ ہمت اور کماؤ ہوتا ہے۔ خصوصاً فرقہ ء مہاجن اور اسی وجہ سے وہ لوگ متمول ہیں۔ شیخادانی کا آدمی سوائے مُلک پورب تمام روئے زمین پر پھیلا ہوا ہے اور کمائی کر کے لاتے ہیں اور مکانات اور عمارات عالی شان بنواتے ہیں۔

میں تین سال برابر اس ملک میں برسرِ حکومت رہا ہوں۔
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 91

کان میں پہنچی۔ اور پشت پھیر کر جو سواروں کو آتے ہوئے دیکھا یکبارگی سب کے اوسان خطا ہو گئے اور کسی کے منہ سے یہ نکلا کہ اے وہ تو یہ آ گئے۔ پس کہنا غضب ہو گیا ڈنڈی پر اور ڈنڈی کے نیچے جتنے انگریز اور کوتوال اور تھانہ دار نجیب کھڑے ہوئے تھے۔ سب کے پاؤں اُٹھ گئے۔ اس وقت ایسا ہیز اور نامردی طبیعتوں پر مستولی ہوئی۔ کسی کی جرأت اور ہمّت نہ پڑی کہ ان پانچ سواروں پر حملہ کرے۔ اور ان پانچ سواروں کا رعب ایسا غالب ہوا کہ ڈنڈے پر سے کُود کُود کر سب مگن مود دروازہ کی جانب فرار ہو گئے اس وقت اگر یہ لوگ مُٹھی مُٹھی بھر خاک ڈال دیتے تو وہ دب کر رہ جاتے مگر استغفر اللہ کسی کی جرأت تھی کہ اُن کے مقابل ہوتا۔ جیسے بکریوں میں شیر آن پڑا بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ سوجھا۔ اب میدان صاف ہو گیا۔ رہ گئے بے چارے رزیڈنٹ بہادر اور قلعدار صاحب ان کے سوا چڑیا تک کا نام و نشان نہ پایا۔

ان پانچوں سواروں نے صاحب رزیڈنٹ بہادر کی بگھی کو آ گھیرا، مگر واہ ری جرأت و ہمّت۔ صاحب ممدوح کی کہ اس وقت بیکسی میں ذرا انتشار طبیعت اور اضمحلال خاطر کو دل میں نہ آنے دیا اور بہ استقلال تمام بگھی کو گھوڑے کی باگ قلعہ کے دروازہ کی جانب پھیر دی اور چابک مار کر گھوڑے کو تیز کر دیا اور سوار بھی ساتھ کے ساتھ شمشیرِ برہنہ کئے ہوئے بارادۂ قتل چلے آتے تھے کہ ایک سوار نے گھوڑا بڑھا کر جاہا کہ تلوار کا وار کرے۔ صاحب رزیڈنٹ نے جیبی طپنچہ نکال کر اس پر سَر کیا اور طپنچہ کی گولی سوار کے سینہ پر کارگر ہو گئی اور اس کا کام تمام کیا۔ باقی چار سواروں نے کہا کہ اب تو تم نے ہمارا ایک سوار بھی گِرا دیا۔ اب ہم تم کو ہرگز جیتا

صفحہ 92

نہ چھوڑیں گے۔ ٖغرض کہ جوں تُوں کر کے دروازہ قلعہ تک پہنچے اور بگھی میں سے جلدی جلدی کُود کر کھڑکی کی راہ سے دروازہ قعہم میں داخل ہوئے اور کھڑکی پر بھی قفل ڈلوا دیا اور کمپنی کو حُکم دیا کہ ہاں کیا دیکھتے ہو ان باغیوں پر فیر کیوں نہیں کرتے۔ یہ کہہ کر دونوں صاحب قلعہ کے چھتے میں داخل ہوئے اور نیچے سے گُزر کر زینے پر چڑھتے تھے۔ قلعہ دار صاحب تو دروازہ پر جہاں اُن کی سکونت کا مکان تھا جا پہنچے اور بڑے صاحب چونکہ جسیم تھے ہنوز راہ میں ہیں۔

سوارانِ باغیوں نے نگہبانانِ دروازہ سے آ کر کہا تم لوگ دین کے ساتھی ہو کر ان کے؟ نگہبان دروازہ؟ دین کے۔ سواران۔ تو دروازہ کیوں بند کر رکھا ہے؟ سپاہیانِ دروازہ نے فوراً چوپٹ دروازہ کھول دیا۔

سواران۔ صاحب کہاں گئے۔ نگہبان دروازہ۔ بالائے دروازہ۔

سوارانِ باغیہ فی الفور گھوڑوں پر سے کود کود کر گھوڑوں کو تو سپاہیان دروازہ کے حوالہ کیا اور چھتہ میں روانہ ہوئے اور زینہ کی راہ میں بڑے صاحب بہادر کو جا لیا۔

ریذیڑنٹ کا قتل

افسوس صف افسوس کہ باغیانِ کور نمک نے کچھ حقِ نمک پر خیال نہ کیا اور اس حکمِ ذری الاقتدار نصف شعار کے ساتھ گستاخی سے پیش آئے اور بضراباتِ شمشیران کا کام تمام کیا اور اوپر دروازہ کے بنگلہ پر جا کر بھی قلعدار صاحب اور قلعہ دار کی بیوی اور اُن کے بچوں کو مارے تلواروں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دیا۔

دنیا الحق مقام عبرت ہے اس لئے اہل اللہ جن کو خداوندِ عالم الغیب نے

صفحہ 93

چشمِ بصیرت اور نگاہِ معنی نگر عطا فرمائی ہے۔ وہ ہرگز ہرگز اس عروسِ گتدم نمائے جَو فروش کے حُسن ابلہ فریب پر مائل نہیں ہوتے ہیں اور اس کے نقش و نگار ظاہری و بہارِ عارضی کے دامِ فریب پر التفات نہیں فرماتے ہیں۔ہ

دو در وارد ایں باغِ آراستہ

در و بند ازیں ہر دو برخاست

در از درِ باغ و بنگر تمام

زدیگر درِ باغ بیروں خرام

اس کی ثروت و تمکنت اور دولت و حشمت سلطنت کا کچھ اعتبار نہیں۔ ہزاروں باوشاہانِ عالی مقام و سلاطین ذوى الاقتدار چشم زدن میں پامال نکہت دا دبار ہو گئے ہیں۔ نام و نشان تک باقی نہ رہا۔

خیال فرمانا چاہیے کہ یا تو سلطنتِ برطانیہ کا یہ رعب سطوت و سیاست تھا کہ کسی دول خارجہ کی یہ مجال اور حوصلہ نہیں کہ سرکار سے آنکھ ملا کر دیکھ سکے یا پانسپ پلٹا تو ایسا پلٹا کہ چند جہال گھس کھدوں نے آناً فاناً میں زیر و زبر کر دیا۔

وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِکَ ٱلْخَيْرُ ۖ إِنَّکَ عَلَىٰ کُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ

تجہیز و تکفین کا انتظام

جہاں میں جتنے تھے اوباش رند نافرجام

دغا شعار چغلخور بدمعاش تمام

ہوئے شریک سپاہِ شریر و بد انجام

کیا تمام شریفوں کے نام کو بدنام

دو چند آتش فتنہ کو سربلند کیا

کیا وہ کام کہ عالم کو درد مند کیا

شریر و مغوی و نا اہل سا اُٹھانے لگے

کہ گمرہوں کو رہِ گمرہی دکھانے لگے

چھپے ہوؤں کا سراغ و نشاں بتانے لگے

پکڑ پکڑ کے ستمگار خُون بہانے لگے

صفحہ 94

اٹھائی گیرے چلے گھروں سے دھر بھاگے

جو گٹھ کٹے تھے وہ گٹھڑی لپک کے دھر بھاگے

ہمارے ہاں کمرے کے گھنٹے میں سات بج کر پچیس منٹ پر سوئی آ کر قائم ہوئی ہے۔ راقم روزے کی نیّت باندھ کر جو چھپر کھٹ پر دراز ہوا تو جوانی کی نیند ہے۔ بائیس کا سن۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ چار مہینے شادی کو گزرے ہیں۔ بلند مکانات سے جب آفتاب بلند ہو چکا ہے اور کمرے کی منڈیر سے دھوپ اُتر کر نصف دروں تک پہنچی ہے اور چھپر کھٹ کے پردوں میں چھن چھن کر تمازتِ آفتاب بدن پر اثر کرنے لگی ہے۔ جب خواب سے بیدار ہوا ہے مکان کی سقف فراخ ہے تو کمرے کے آگے صحن وسیع ہے کمرہ شرق رویہ ہے۔ جنوب کی جانب دیوار بلند ہے شرق کی جانب قدِ آدم ہے۔ زینہ شرق کی جانب ہے۔ زینہ میں سے دو رستے ہیں۔ ایک دیوان خان کے چھت کی جانب دوسرا کمرہ کے صحن کمرہ کے آگے چھپر کھٹ ہے اور چھپر کھٹ کے آگے چوکیوں کا فرش اُس پر دری چاندنی وغیرہ کا فرش ہے۔ گاؤ تکیہ جھُرمٹ کی پٹّی سے لگا ہوا ہے۔ حوائج ضروری سے فارغ ہو کر مونڈے پر بیٹھا ہوں دوسرے مونڈے پر سیلابچی دھری ہوئی ہے۔ خادم کے ہاتھ میں آفتابہ ہے۔ مُنہ دھو کر رومال سے ہاتھ منہ پاک کرتی ہوں۔ سامنے کرسی دار مونڈھے پر آئینہ دھرا ہے۔ کنگھی سے بالوں کو سلجھا کر مروڑی دے رہا ہوں کہ یکایک کیا دیکھتا ہوں ایک خادمہ گھبرائی ہوئی سانس چڑھا ہوا ہوش حواس پراگندہ پسینے پسینے مُنہ فق۔ رنگ زرد لمبے اوسان زینہ پر سے چڑھی چلی آتی ہے۔ آتے ہی دھم سے چوکھوں پر گِر گئی۔

صفحہ 95

ہیں ہیں مبارک خیر باشد آج ایسی گھبرائی ہوئی کہاں سے آئی۔ گھر میں تو خیر ہے۔ مبارک سلام کر کے ہاتھ کے اشارہ سے ذرا سانس قائم ہو لے تو کہتی ہوں۔ قریب چار منٹ کے سر پکڑے بیٹھی رہی۔ جب ہوش درست ہوئے تو کہا میاں مجھے نواب صاحب اوت تمہاری خوشدامن نے بھیجا ہے اور تمہاری خیریت دریافت کی ہے کہ تم گھر میں ہو یا قلعہ میں۔ راقم میں تو اچھا بھلا چنگا ہوں خدا کا فضل ہے۔ قلعہ تو بسبب رمضان المبارک دوسرے تیسرے روز جاتا ہوں آج تو نہیں گیا۔ اور میری بیوی بھی تندرست ہیں۔ یہ دیکھ لے چھپر کھٹ میں سوتی ہیں۔

مبارک:- اور یہ تختوں پر چدر اوڑھے کون سوتا ہے۔

راقم :- فہیم النسا مانی سوتی ہیں۔

مبارک :- بی مانی ابھی تک اُٹھی نہیں۔ شہر کی تجھے کچھ خبر ہے۔ شہر میں تو غدر ہو رہا ہے۔ تم پڑی سوتی ہو۔

مانی: انے چل کمبخت دور پار غدر کیوں ہونے لگا۔ تو اسی ہی فال زبان سے نکالا کرتی ہے۔ صُبح ہی صُبح کہاں سے آئی۔ میں رات بھر کی جاگی ہوئی ہوں۔ مجھے سونے دے۔

راقم :- مبارک غدر کیسا۔

مبارک :- میاں دکانیں شہر کی بند ہیں بازار میں سوار پھر رہے ہیں۔ شہر میں خاک اُڑ رہی ہے۔ جب تو نواب صاحب نے تمہاری خیریت منگائی ہے۔

راقم:- مبارک کیا کہتی ہے۔ سوار کیسے کس کے سوار؟

مبارک:- میاں میں تو عورت ذات۔ مجھے کیا معلوم کس کے سوار ہیں

صفحہ 96

اگر میں مرد ہوتی تو ان سے پوچھتی کہ تم کون ہو۔ کہاں سے آئے ہو۔

راقم :- مبارک سواروں کو تم نے آنکھ سے بھی دیکھا یا سُنی سنائی کہتی ہے۔

مبارک:- ہاں میاں میں آنکھ سے دیکھ کر آئی ہوں۔ جامع مسجد کے نیچے پانچ سات سوار پھر رہے تھے۔ بلکہ میرے پیچھے پیچھے شاہ بولا کی سڑک تک آئے۔ میں روشن پور میں چلی آئی اور وہ قاضی کے حوض کی طرف چلے گئے۔

راقم:- کس وضع کے سوار تھے۔ کیسے کپڑے تھے کیسے گھوڑے تھے۔

مبارک:- کپڑے تو ان کے سفید ہی تھے مگر گھوڑوں کا سامان انگریزی تھا۔

یہ واقعہ سُن کر مُجھ پر ایک حیرت کا عالم ہوا اور تین منٹ تک سکوت میں گردن جھکائے ہوئے خاموش بیٹھا رہا اور خیالاتِ فاسدہ میرے دماغ میں گردش کرتے رہے۔ یکایک خیال نے پلٹا کھایا اور طبیعت میں یہ بات آئی۔ آیا وہ جو دو بزرگوار اولیاء اللہ نے تجھ سے چند کلمے بطور پیشنیگوئی بیان کئے تھے۔ یہ اس کا ظہور ہے۔

اس واقعہ سے پانچ چار ماہ پہشتر ایک روز میں بازار پایہ والوں میں ایک کتب فروش کی دکان پر بیٹھا ہوا کتابوں کی سیر کر رہا تھا کہ یکایک ایک بزرگ لحیم شحیم دراز قامت، فربہ اندام، درویش سیہ فام، کڑکڑی ڈاڑھی، ساٹھ برس کا سِن و سال، ڈھیلا انگرکھا۔ شرعی پائجامہ گول ٹوپی ہاتھ میں عصا، گلے میں تسبیح ڈالنے وارد ہوئے اور دکان پر آ کر بولے۔ بھائی سلام علیک مولوی عیسٰے کتب فروش نے اور میں نے تعظیم دی۔

مولوی عیسٰے۔ آئیے حافظ صاحب۔ حافظ صاحب راقم کی برابر آ کر بیٹھ گئے۔ حافظ صاحب (راقم سے مخاطب ہو کر) بھائی ان کتابوں میں کوئی کلام مجید

صفحہ 97

بھی بے۔

راقم:- حضرت ہاں ہے۔ میں نے ایک لکھنؤ کے چھاپہ کا کلامِ اللہ اتار کر حافظ صاحب کے حوالے کیا۔ حافظ صاحب تلاوت میں مشغول ہوئے۔ ایک رکوع جب ختم ہو گیا تو حافظ صاحب پر حالتِ جذب طاری ہوئی اور آنکھیں سرخ ہو گئیں اور چہرہ تمتما گیا گردن کی رگیں پھُول گئیں اور حالت غیظ و غضب میں بازار کی جانب ہاتھ اُٹھا کر فرمانے لگے۔ ایلو! ایلو وہ مار ڈالا وہ مار ڈالا وہ پھانسی دے دیا وہ پھانسی دے دیا واہ واہ کیا خوب تماشا ہے۔ ایک کو ایک مارے ڈالتا ہے۔ ایک کو ایک پھانسی دے رہا ہے۔ اور کوئی کچھ نہیں کہتا اور بارٹن صاحب بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ الفاظ فرما کر حافظ صاحب خود ہی فرمانے لگے۔ بس خاموش رہو۔ تم کو کس نے اذن دیا ہے کہ تم اسرارِ الہٰی کا پردہ فاش کرو۔ یہ کہہ کر حافظ صاحب نے گردن نیچے جھکا لی اور پھر تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ ایک رکوع پڑھ کر پھر وہی حالت طاری ہو گئی اور دوبارہ پھر انہی الفاظ میں وہی کلماتِ سابق ادا فرمائے ۔غرضیکہ مرٗہ بعد اولٰے و کرة بعد اخرے تین بار یہ ظہور میں آیا اور بعد حافظ صاحب نے کلام شریف کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا اور سر پر رکھا اور میرے حوالے کیا۔ میں نے الماری میں رکھ دیا۔ پھر حافظ صاحب راقم سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔ تم شہر میں بیٹھے ہوئے کیا کرتے ہو۔ باہر رجواڑے کی سیر کیا کرو۔ دینادار کو گھر میں بیٹھنا نہ چاہیے۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ مارے رعب کے کچھ نہ کر سکا۔ پھر فرمانے لگے تمہارے والد خطِ نسخ کے بہت بڑے خشنویس ہیں۔ تم اپنے والد سے مجھے ایک کلام اللہ ایسا لکھوا دو کہ ایک ورق میں سیپارہ تمام ہو جائے اور تیس ورق میں تیس سیپارے ختم ہو جائیں۔

صفحہ 98

راقم :- بہت بہتر میں عرض کروں گا۔

حافظ صاحب بھائی میرے واسطے پرانٹھے اور میتھی کا ساگ پکوا کر لانا۔

راقم :- بہت بہتر آپ کہاں ملیں گے۔

حافظ صاحب:- یہ برابر میں جو نانبائی کی دکان ہے۔ یہ کہہ کر اور سلام علیک کہہ کر تشریف لے گئے۔ ہنوز یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ امیر خاں خدمت گار نے دروازہ پر ایک خادمہ کا نام لے کر آواز دی کہ میاں سوتے ہیں یا جاگتے ہیں۔ اگر سوتے ہوں تو جگا دو۔ ڈیوڑھی سے چوبدار حکم لے کر آیا ہے۔ یہ آواز میرے گوش گزار ہوئی میں جس طرح بیٹھا ہوا تھا نیچے اتر کر آیا۔ اور باہر دیوان خانہ میں پہنچا۔ چوبدار نے حکم سنایا کہ حضور کا حکم ہے، زبانی محبوب علی خاں کے کہ جتنے ملازم سرکار ہیں سب آ کر ڈیوڑھی پر حاضر ہوں۔ آپ جلدی سوار ہو کر جائیے۔ مجھے اور کئی جائے حکم پہنچانا ہے۔

میں سن کر آداب بجا لایا اور چوبدار سے کہا کہ مجھے کپڑے پہن کر کمر باندھ کر روانہ ہوتا ہوں۔ گوردھن سے کہنا گھوڑے پر چار جامے رکھ۔ امیر خاں سے کہا تیار ہو جاؤ یہ کہہ کر گھر آیا۔ والد ماجد اللہ اغفر و ارحم باہر کے دالان میں تختوں کے فرش پر سوزنی بچھی ہوئی تھی تکیہ لگا ہوا بعاوت معہودہ بیٹھے ہوئے کلام مجید لکھ رہے تھے۔ ان کی خدمت میں جا کر آداب بجا لا کر دو زانو ہو بیٹھا۔ میری جانب مخاطب ہو کر پوچھنے لگے خیر باد۔ میں نے تمام حال گزارش کیا۔ یہ کہہ کر جزو کلام مجید کو ہاتھ سے رکھ دیا اور چند منٹ تک گردن جھکا کر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر گردن اٹھا کر فرمانے لگے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ کہاروں سے کہو پاکی لگا لیں میں جاتا ہوں۔

راقم: دست بستہ ہو کر جناب آپ تشریف رکھیں۔ غلام نوکری میں جاتا

صفحہ 99

ہے اور چوبدار نے آپ کا نام نہیں لیا۔ مجھے ہی حکم سنایا ہے۔ آپ کی نوکری تو حضور سے معاف ہے۔ آپ گھر سے خبردار رہیے۔ آدمیوں کو ڈیوڑھی پر چھوڑے جاتا ہوں۔ فقط امیر خاں اور گوردھن چاکر کو ہمراہ لے جاتا ہوں اور باقی پانچوں خدمتگار یہاں موجود ہیں۔ یہ عرض کر کے میں اوپر کوٹھے پر آیا اور کپڑے بدلے پگڑی باندھی اور جب چلنے لگا تو میرے گھر کے آدمی میری طرف دیکھ کر آبدیدہ ہونے لگے۔ میں کلماتِ تسلّی آمیز کہہ کر نیچے آیا ہوا کہ کچھ ہتھیار ہاتھ میں لے چلنا ضرور ہے۔

تلواریں چھُری وغیرہ جو سالہا سال سے بے غور پڑے ہوئے تھے ان کو دیکھنے لگا کہ اگر کوئی کام کی ہو تو لیتا چلوں۔ اس میں والدِ بزرگوار نے منع فرمایا خبردار ایسی حرکت نہ کیجو۔ انگریزی عملداری ہے۔ خدا جانے کیا معاملہ ہے۔ سیدھا ڈیوڑھی پر چلا جا جب کچھ حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو جب ہتھیار کو ہاتھ لگائیو۔ غرضیکہ میں سوار ہو کر آیا۔ جس وقت چھوٹے دریبہ کے پھاٹک سے باہر نکلا ہوں تو دیکھا کہ تین چار سوار کرتے پہنے اور دھوتیاں باندھے ہوئے سر سے ایک چھوٹا سا انگوچھہ لپیٹا ہوا فقط ایک کرچ ڈاب میں اور وہ پیپل کے درخت کے سایہ میں نہر کی دیوار سے لگے کھڑے ہیں اور ہندو لوگ ان کی سربراہی کر رہے ہیں۔ کوئی پوریاں لے آیا ہے کوئی مٹھائی کا دونہ لیے آتا ہے کوئی لوٹا پیتل کا پانی سے بھر کر لا دیتا ہے۔ میں نے کچھ ان کی طرف توجہ نہ کی اور قلعہ کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں سے چند قدم گھوڑا آیا تو کیا سیکھتا ہوں گامی بدمعاش پہلوان نہر والہ آگے آگے کرتہ پہنے ہوئے لنگر لنگوٹ بندھا سر پر ٹوپی کاندھے پر لٹھا اور پیچھے اس کے پچاس سو شہدوں کا انبوہ سب کے لنگر لنگوٹے کسے، ہاتھ میں بانڈیاں لئے چلے آتے ہیں۔ اشرف بیگ کے کمرے کے نیچے آ کر اس نے

صفحہ 100

ایک لٹھ سڑک کی لاٹین پر مارا اور لالٹین چھن ویسی ہو کر گر پڑی اور مُنہ سے کہا کہ یہ ایک کافر اور مارا اور پھر ایک بزاز کی دکان کا قفل توڑنے لگا۔ میں گھوڑا بڑہا کر آگے چلا گیا پھر آگے اور دو چار سوار پھرتے چلتے دیکھے۔ نہ میں نے ان سے کچھ کہا۔ نہ انہوں نے میری مزاحمت کی میں سیدھا کوتوالی ہوتا ہوا خونی دروازہ کے آگے پہنچا تو دیکھا کہ انبوہ کثیر بدمعاشاں کا ہے اور صرافوں کی دوکانیں لُٹ رہی ہیں۔ امیر خاں میرا خدمتگار ساتھ آتے آتے ٹھٹک رہا جب قلعہ کے دروازہ پر پہنچا ہوں تو یہ تماشا دیکھا کہ قلعہ کی کھائی کی برابر کوئی پچاس سوار جمع ہیں اور انگریزی کتابوں کے اوراق پھٹے ہوئے اُڑتے پھرتے ہیں۔ ہوا بہت تیز چل رہی ہے۔ کاغذ اُڑ اُڑ کر قلعہ کے دروازہ کی طرف آتے اور قلعہ کے دروازہ کے فاصلہ سے چار کروڑی کھائی کے کٹہرا سے لگا ہوا ایک مست ننگ دھڑنگ بیٹھا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک پرانا مونڈا انگریزی جوتا ہے اور کاغذ اُڑ اڑُ کر اس کے پاس آتے ہیں اور وہ مجذوب غصّہ میں اُن کاغذوں پر جوتے مارتا جاتا ہے اور بُرا بھلا کہہ رہا ہے۔ خیر یہاں سے گھوڑے کو بڑھا کر میں نقار خانہ کی ڈیوڑھی پر پہنچا اور گھوڑے سے اُتر کر ڈیوڑھی سے گزر کر ویران خانۂ خاص کے صحن میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ دیوانِ خاص کے در میں ایک ستون کے در سے لگے ہوئے محبوب علیخاں بیٹھے ہیں اور سامنے ان کے دوسرے در سے لگے ہوئے حکیم آسن اللہ خان (1) بیٹھے ہیں اور سب درباری دو رویہدو صفیں

1) احترام الدولہ۔ عمدۂ الحکماء۔ معتمد الملک۔ حاذق الزماں۔ حکیم محمد احسن اللہ خان ثابت جنگ بہارد وزیرِ اعظم تھے۔ غدر کے بعد بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس میں ان کی بھی شہادت ہوئی تھی۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 302

دسواں باب
حیدر آباد دکن میں وردد

غرضکہ مجبور وہاں سے روانہ ہوا۔ بڑددے ہوتا ہوا یہاں آیا۔ راجہ بھگوان سہائے بہادر نے مجھے باغ میں اُتروایا۔ دو آدمی میرے ہمراہ آئے تھے یہ سب بار میرا اُن پر پڑ گیا۔ اول اول تو میرا خرچ اسی نوے روپے کے قریب ماہوار کا تھا۔ مگر پھر ایک صاحب کو میں نے رخصت کردیا۔ اُس کو راجہ بھگوان سہائے بہادر نے رخصتانہ دیا۔ پورے ایک سال تک راجہ بھگوان سہائے بہادر میرے کفیل رہے اور میرے کُل اخراجات اُن کے ذمہ تھے۔ اُسی ایام میں سرکار دولت مدار آقائے نامدار کی نذر ہوگئی۔ میں نے قصیدہ مدحیہ سُنایا۔ بعد وقتِ رخصت فرمایا۔ میں پھر تم کو بلواؤں گا۔ اِسی اثنا میں روانگی دہلی کی تیاری ہوگئی۔ مہاراجہ صاحب اور اعلیٰ حضرت قدر قدرت دہلی تشریف لے گئے۔ اب میرا بھی ارادہ ہوا کہ تو بھی واپس وطن کو چلا چل۔ جن لوگوں نے بلوایا تھا۔ وہ کہنے لگے بے نیل مرام جانا کون دانائی ہے۔ صبر کرو تا واپسی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 303

مہاراج کے دہلی سے رہنا چاہیے۔ غرضکہ میں یہاں ٹھہر گیا۔ تین مہینے کے بعد مہاراجہ صاحب بہادر تشریف لائے۔ مولوی برتر صاحب دہلی سے وطن کو خرچ کراکے بھیجتا ہوں اور یہاں یہ کہہ رکھا تھا کہ کچھ دستگیری مہاراجہ مرلی منوہر صاحب کی طرف سے ہوگی اور کسی قدر اسے رایان بہادر دستگیری فرمائیں گے مابقی مہاراجہ سرکار عالی بہادر مقرر فرمائیں گے۔ تیری گزر بخوبی ہوجائے گی وہ سب کوری باتیں تھیں۔ ایک سوائے راجہ بھگوان سہائے بہادر کے کسی نے بات تک نہ پوچھی۔ اب یہ صورت ہوئی مجھ سے کہا گیا نوکری کا ڈھب لگنا تو مشکل ہے۔ مگر رخصت بہت معقول طور سے ہوجائے گی۔ اسی امید میں آٹھ ماہ کا عرصہ گزر گیا اور سب کوری باتیں اور دم وہاں سے ہی نکلے۔ آخر ٹونک سے تحریر آگئی کہ تمہارا نام دفتر سے جدا کردیا گیا۔ اب تم ٹونک آکر کیا کرو گے۔ جب میں سب طرف سے مایوس ہوگیا تو جن صاحبوں نے مجھے بُلایا تھا وہ منہ چھپانے لگے۔ ملتا تک چھوڑ دیا۔ آخر میں نے سرکار خداوند نعمت کو عرضی اور اپنی مصیبت اور انقطاع تعلق ٹونک کا حال لکھ کر سرکار کی خدمت میں بھیجی۔ اور نیز داغ صاحب نے بھی سرکار میں لکھا۔ خداوند تعالیٰ سرکار دولت مدار کو تا ابد سلامت رکھے کہ سرکار نے بخیال کبرسن اندھا، بہرا، اپاہج، بے کار مخص سمجھ کر ازراد ترحم میری پرورش فرمائی کہ اس زمانے میں روٹی نصیب ہوگئی۔ ورنہ یار لوگوں نے تو دنیا سے کھونے میں کوئی کسر نہ رکھی تھی۔ اب گوشہ عافیت میں بیٹھا ہوا جو کچھ دال دلیا اور روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے بہزار
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 304

وقت و پریشانی نصیب اُسے غنیمت جان کر کھاتا ہوں اور اپنے آقائے نامدار خداوندِ نعمت کو دعا دیتا ہوں۔ اور قدردانی حیدر آباد کی تو بخیر جن لوگوں سے مجھے توقع تھی وہ انداز سُن کا پھل نکلے۔ پھر جو کچھ رہی سہی حالت قدرِ سُخن کی ہے تو یمین السلطنت مدار المہام مہاراجہ کشن پرشاد و شاد کے دم سے ہے۔ البتہ مہاراج صاحب بہادر اس فن کے قدردان ہیں۔ اور سرکار میں اکثر شعرا ملازم ہیں اور نیز مہاراجہ صاحب بہادر کا کلام بھی اعلیٰ درجہ کا ہے۔ خود بھی ایسا فرماتے ہیں جس کا جواب نہیں۔ نظم و نثر فارسی اُردو بہت لاجواب ہے۔ اس کے علاوہ مہاراجہ صاحب بہادر جامع الکمال ہیں۔ ہر فن میں مداخلتِ تام رکھتے ہیں۔ حُسنِ اخلاق کی شہرت تو عالمگیر ہے۔ محتاج شرح و بیان نہیں ہے۔ فیاضی و دریا دلی و داد و دہش و سیر چشمی و علوے ہمت کا حال اظہر من التمش ہے۔ سب سے صرف و اصراف نذر و نیاز عرس بزرگان و مشائخین کا ہے۔ ان تقریبات میں بے دریغ علی الحساب صرف فرماتے ہیں۔ ہزار روپیہ تیاری سامان عرائس میں اور پخت طعام نیاز میں صرف ہوتے ہیں۔ اور ہزار ہا آدمیوں کو طعام ہائے لذیز پُر تکلف کھلائے جاتے ہیں اور تقسیم طعام بے دریغ ہوتی ہے۔

بریں خوانِ یغما دشمن چہ دوست

عُرسِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
اِن تقریبات کے علاوہ مہاراجہ صاحب بہادر جب کو عرسِ مولا علی پر تشریف لے جاتے ہیں تو کئی کئی مہینے قیام فرماتے ہیں۔ تمام عملہ سرکاری اور ملازم سرکار اور محلات وغیرہ ہمراہ ہوتے ہیں۔ سب کو طعام پُر تکلف دونوں وقت مطبخِ سرکار سے بے دریغ عطا ہوتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 275

نواں باب

ریاست ٹونک کی ملازمت

ٹونک میں دھوم ہے کل سے کہ ظہیرؔ خستہ
سرگزشت دل محزوں ہیں سنانے والے

بعد انتقال مہاراجہ صاحب رام سنگھ جی بیکنٹھ باشی تین سال تک میں ملازم ریاست جے پور رہا۔ بعد خانہ نشین ہو کر دو ڈھائی سال بے روزگار پریشان سرگردان رہا۔ بعد نواب احمد علی خاں صاحب کی رفاقت میں چھ سال بسر کئے۔ اس اثنا میں شعر و سُخن کا بہت چرچا رہا۔ بہت سا کلام فراہم ہو گیا۔ بعد انتقال نواب احمد علی خاں صاحب بہادر نواب مستطاب نواب حافظ محمد ابراہیم علی خاں صاحب امین الدولہ صولت جنگ فرمانروائے ریاست ٹونک خلد اللہ ملکہ کی طرف سے فقیر کی طلب ہوئی اور عاجز صاحبزادے احمد سعید خاں صاحب عاشق محرک سلسلہ ہوئے اور نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم کے بڑی صاحب زادے کے نام حکم آیا کہ اُستاد ظہیر کو ٹونک بھیج دو۔ اس واقعہ سے پیشتر مجھے اکثر اوقات ٹونک جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا۔

داستان غدر صفحہ 276

اور نواب صاحب مرحوم کی خدمت میں آتا جاتا رہتا تھا۔ اکثر صاحبزادے میرے شاگرد ہو چکے تھے۔ اور عمائد شہر میرے معتقدین میں تھے۔ اول باوجود مجھے ٹونک جانے کا اتفاق ہوا تھا تو نواب عبید اللہ خاں صاحب وزیر جنگ نے مجھے اپنے بڑے صاحبزادے کی شادی میں مدعو کیا تھا اور نہایت احترام سے میری مہمانداری کی تھی۔ میں نے قصیدہ تہینت شادی لکھا تھا۔ وقت رخصت پچاس روپے اور دوشالہ صلہ میں دیا تھا۔

غرضیکہ میں جب ٹونک میں پہنچا ہوں تو اپنے ایک شاگرد کے مکان پر فروکش ہوا اور پیشتر نائب صاحب سے ملاقات کی۔ نائب صاحب بکمال اعزاز پیش آئے اور فرمایا آپ نے بہت راہ دکھائی۔ حضور پُرنور کو بہت انتظار تھا۔ اس کے بعد منشی محمد یوسف صاحب میر منشی خاص اور کپتان سید نور الدین صاحب فصیح الملک جو نواب صاحب بہادر کے مصاحبین میں تھے اور میری طلبی کے بارہ میں وہی واسطہ تھے ان سے ملا اور انہوں نے میرا کلام سُنا۔ چونکہ یہ دونوں صاحب نہایت سنجیدہ اور فہمیدہ، سخن سنج، سخن فہم اور خود سخنور تھے اور مذاق سخن سے خوب آگاہ تھے۔ وہ نہایت محظوظ ہوئے اور کہا کہ جیسی شہرت سُنی تھی، اس سے بدرجہا زائد پایا۔ اب کل ان شاء اللہ تعالٰی حضور میں چل کر نذر گزرائیے۔ دوسرے روز بمعیت ہر دو صاحبان میں نواب صاحب بہادر خداوند نعمت کی خدمت میں پہنچا۔ نذر گزرانی۔ حضور بہت خوش ہوئے۔ اپنا کلام مجھے سُنایا۔ میں نے تعریف کی۔ فرمایا جب تم نے پسند کیا تو میر دانست میں بلا شک مقبول عام و خاص ہو گا۔ اس ے دوسرے روز صاحبزادے اسحاق خاں صاحب برادر حقیقی نواب صاحب کے مکان پر مشاعرہ تھا۔ حکم ہوا کل مشاعرہ میں حاضر ہو کر اپنا کلام عرض کرو۔ دوسرے روز مشاعرہ میں ایک ہجوم کثیر صاحبزادگان اراکین دولت کا

داستان غدر صفحہ 277

فراہم ہوا۔ نواب صاحب پس پشت سراچہ تشریف رکھتے تھے۔ قنات کے دروازوں پر چلمنیں پڑی ہوئی تھیں۔ غزلخوانی شروع ہوئی۔ اول نواب صاحب بہادر کی غزلیں پڑھی گئیں۔ اور بہت سی تعریف ہوئی اور بعد سلیمان خاں صاحب اسدؔ شاگرد منشی مظفر علی صاحب اسیرؔ مرحوم نے نائب صاحب کی غزل پڑھی۔ کیونکہ نائب ان کے شاگرد تھے۔ بعد سلیمان خاں صاحب نے اپنی غزل پڑھی۔ میں نے تعریف کی۔ آپ کا کلام بہت اچھا ہے۔ بعد مجھے حکم ہوا تُو غزل پڑھ۔ میں نے غزل کا مطلع پڑھا۔ بس مطلع سُنتے ہی مشاعرہ میں شور برپا ہو گیا۔ نواب صاحب بہادر نے تین تین چار چار بار مطلع کو پڑھوایا، بعد دوسرا مطلع پڑھا۔ اُس پر بھی یہی کیفیت ہوئی۔ تیسرا مطلع پڑھا، وہ اس سے بڑھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک صاحبزادے نے ان کا نام بھی بھول گیا ہوں اور وہ انتقال فرما گئے (افسوس ظہیر صاحب بھی رحلت فرما گئے) انہوں نے مشاعرہ میں کھڑی ہو کر بہ آواز بلند یہ بات فرمائی۔ سلیمان خاں صاحب شعر اسے کہتے ہیں کہ خود بخود در و دیوار سے صدائے تحسین و آفرین بلند ہے۔ غرضیکہ تمام غزل پر یہی کیفیت رہی۔ بعد میرے اور حضار نے غزلیں پڑھیں۔ مشاعرہ ختم ہوا۔ نواب صاحب بہادر نے مجھے اندرون قنات بُلا کر بہت قدر افزائی فرمائی۔ اس کے بعد جلسہ سالگرہ نواب صاحب بہادر کا ہوا۔ اس تقریب میں شامل رہا۔ حسب قاعدہ نذر ہوئی۔ اُس کے تیسرے روز صاحبزادے احمد یار خاں کےمکان پر مشاعرہ ہوا۔ میں نے قصیدہ سالگرہ کا پڑھنا شروع کیا۔ اور تحسین و آفرین کا غل مچ گیا۔ میں چلمن کے برابر بیٹھا ہوا قصیدہ سُنا رہا ہوں، اندرون کمرہ سے حضور تشریف فرماتے جاتے ہیں اور باہر عوام تعریف کر رہے ہیں۔جب میں قصیدہ سُنا چکا تو اندر نواب صاحب اپنے جلسے کے لوگوں سے

داستان غدر صفحہ 278

قصر میں تھے۔ ان سے صلاح لینے لگے کہ اس قصیدہ کا صلہ تجویز کیا جائے۔ یہ قصیدہ اُستادوں کے قصائد سے ملتا جلتا ہوا ہے۔ میرزا محمد علی خاں صاحب اور نواب نجف خاں صاحب ممبران کونسل نے عرض کی کہ ظہیرؔ تو ذوقؔ زندہ ہے اور حضور بہادر شاہ اب صلہ کا اختیار حضور کو ہے۔ نواب صاحب نے فرمایا کہ پانسو روپیہ دلا دینے چاہیں۔ اس وقت میری بد نصیبی سے دع حساد بھی موجود تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ حضور قصیدہ تو ذوق کا ہے۔ آپ صلی کس بات کا دیتے ہیں۔ مگر سبحان اللہ حضور نواب صاحب بہادر کی دریا دلی فرمایا کسی کا ہو، ہے تو میری مدح میں۔ مجھے صلہ دینا واجب ہے۔ خیر اچھا تو ڈھائی سو روپیہ دلا دو۔ خیر وہ حکم لکھوا دیا گیا۔ اسی وقت میرزا محمد علی خاں صاحب نے باہر آ کر مجھ سے یہ ماجرا بیان کیا کہ یہ معاملہ پیس آیا جب بعد تین ماہ کے وہ صلہ کے روپے معرفت نائب صاحب کے مجھے وصول ہوئے۔ عرصہ چہار ماہ تک میںامید وار رہا۔ اس عرصہ میں دربار داری بھی رہی اور ہمیشہ جلسے شاعروں کے بھی ہوتے رہے۔ میںہر مشاعرہ میں شامل ہوتا رہا۔ صحبت شعر سخن شبانہ روز سرکار میں گرم رہتی تھی۔ بعد میں نے ایک روز نائب صاحب سے کہا کہ میںکب تک امیدواروں میں بسر کروں۔ میں مسافر ہوں۔ نائب صاحب نے کہا میں تم کو رخصت کرائے دیتا ہوں۔ میں نے یہ تذکرہ منشی محمد یوسف سے کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ تم ہرگز ایسا نہ کرنا۔ تم نواب صاحب کے حسب الطلب آئے ہو۔ تم نوکر ہو تو تمہیں تنخواہ ملے گی۔نائب صاحب تمہارا رہنا نہیںچاہتے۔ وہ سلیمان کے ساعی ہیں۔ چنانچہ بعد چار ماہ کے ایک رعز حافظ عبد الرحمٰن صاحب مختار سے جناب نواب صاحب نےمجھے اور سلیمان خاں صاحب کو بُلا کر دو دو ماہی کی تنخواہ برابر دی اور

داستان غدر صفحہ 279

کہا کہ چوتھے مہینے تمکو اسی حساب سے تنخواہ ملا کرے گی۔ یہ وہی سال اور وہی دن ہیں کہ جس سال داغؔ صاحب کا خط پہنچا ہے کہ یہاں میں نوکر ہو گیا ہوں۔ اس کے جوب میں خبر ملنے پر میرے خط کی تحریر ہے تو اس کا بھی یہی مضمون تھا۔ کہ میں بھی نوکر ہو گیا ہوں۔ اسی اثنا میں نواب خاتون زمانی بیگم صاحبہ، ہمشیرہ زادی نواب کلب علی خاں صاحب مرحوم محل خاص حضور نواب صاحب بہادر خداوند نعمت میری شاگرد ہوئیں اور کچھ تنخواہ میری وہاں سے بھی مقرر ہو گئی اور بیگم صاحب کی مثنوی اصلاح کو آنے لگی۔ خیر میں اپنے خوش و خرم رہنے لگا۔ میں خاصی اچھی طرح بسر کرتا تھا۔ اُدھر میں نوکر اور میرا بیٹا نوکر تھا۔ وہ تھانے دار تھا۔ بعد میں دو تین سال وہ معطل ہو گیا تھا۔ کچھ پرواہ کی بات نہ تھی۔ میں نوکر تھا۔ اسی اثنا میں میری منجھلی لڑکی کی شادی ہوئی اور وہ رخصت ہر کر دہلی چلی گئی۔ میرا ارادہ سیر و سیاحت کا ہوا۔ میں ٹونک سے تین ماہ کی رخصت حاصل کر کے بڑودہ ہوتا ہوا بمبئی پہنچا اور حیدر آباد میں وارد ہوا۔ اکثر عمائد سے ملاقات ہوئی۔ مہارانا بھگوان سہائے بہادر میرے شاگرد ہوئے اور دو تین آدمی شاگرد ہوئے۔ خانساماں محمد ابراہیم خاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے نہایت اخلاق سے پیش آئے۔ مجھے امیدوار کیا، تم ٹھہرو۔ میں حضور میں پذکرہ کروں گا۔ سہرے حضور کے واسطے لکھوائے۔ جھولا لکھوایا۔ غزلیں اکثر لے جاتے تھے۔ غرضیکہ لیت و لعل میں پانچ مہینے گزر گئے۔ ٹونک سے تاکید طلبی کی ہوئی۔ تار آیا۔ اُدھر لڑکے کا خط آیا ہم کو آپ کی کمائی درکار نہیں۔ آپ چلے آئیے۔ میں یہاں سے چلا گیا۔ ٹونک میں پہنچا تو میرے بعد چھ ماہ میں تنخواہ تقسیم ہوئی ہے۔ مجھے نہ ملی۔ بلکہ دوسری چھ ماہی میں ملی۔ نہایت

داستان غدر صفحہ 280

درجہ کی زیر باری ہو گئ۔ نو سو روپیہ کا قرضدار ہا گیا۔ خدا خدا کر کے وہ قرضہ ادا کیا۔ اب چرخِ جفاکار دل آزار نے ایک تیر ستم تک کر ایسا دل پر لگایا کہ دل اور جگر کو پھوڑ کر پار ہو گیا۔ یکایک گھر سے خط پہنچا کہ منجھلی لڑکی بیمار ہو کر دلی سے جے پور میں تھی۔ اس کا انتقال ہو گیا۔ اس خط کر دیکھتے ہی روح تن سے پرواز کر گئی۔ رویا، پیٹا لیکن کیا کر سکتا تھا۔ گھر پر آیا۔ بی بی کو دیکھا تو وہ دیوانی ہو رہی تھی۔ اسے سمجھایا، اپنے دل پر پتھر رکھا۔ گیارہ بچوں میں یہ چار پروان چڑھے تھے۔ جوان ہوئے تھے۔ سب سے بڑا لڑکا تھا اور یہ تین لڑکیا تھیں۔ ایک چھوٹی لڑکی ہنوز شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ منجھلی لڑکی مرنے والی پانچ ماہ کی ایک دختر نہایت خوبصورت چھوڑ کر مر گئی تھی۔ اس کی پرورش کی گھر میں نہایت تاکید کی کہ بجائے متوفیہ کے اس کو سمجھو۔ انا دودھ پلانے پر نوکر رکھ کر پھر نوکری پر روانہ ہوا۔ برس روز بعد اس بچی کا انتقال ہو گیا۔ اور زخم پر زخم لگا۔ اور وہ داغ کہن دوبارہ تازہ ہو گیا۔ اس پر بھی صبر کیا۔ ان روزوں میں ٹانک میں میں تھا کہ میری بی بی ٹونک میں میرے پاس پہنچیں۔ صاحبزادہ احسان اللہ خاں ہمشیرہ زادہ و داماد نواب صاحب بہادر میرے شاگرد تھے، ان کی والدہ صاحب یعنی خواہر نواب صاحب کے پاس جا کر رہیں۔ بیگم صاحبہ نے نہایت خاطر مدارت فرمائی۔ بعد ایک ماہ کے وہاں سے رخصت ہوئی تو مجھ سے کہا کہ مجھے گھر پہنچا آؤ۔ خیرمیں شکرم کا کرایہ دیا اور شکرم کا نیچے کا درجہ لیکر اس میں نصف شکرم میں پردہ ڈال دیا۔ اس میں انہیں اور ایک نیک بخت مغلانی خاتون زمانی بیگم صاحبہ کے ہمراہ ہی دونوں کو بٹھا دیا۔ اور آپ باہر ہو بیٹھا۔ اور سب سامان اپنا شکرم کی ماچی پر بندھوا دیا۔ اور تین مرد اور میرے پاس باہر

داستان غدر صفحہ 281

بیٹھے تھے۔ اور چند آدمی شکرم کے اوپر کے درجے میں تھے۔ میرے پاس تلوار بہت عمدہ تھی، میرے پاس رکھی ہوئی تھی۔ جب ہم ندی سے پار اتر کر شکرم پر سوار ہوئے ہیں تو مغرب کا وقت تھا اور جب تین کوس راہ اور طے کی ہے، تو دس بجے رات کا وقت تھا کہ یکایک دھڑا دھڑ کی آواز آنی شروع ہوئی اور ماریو ماریو کا غل مچا اور غارتگروں نے آ کر شکرم کو گھیر لیا اور لٹھ مارنے شروع کئے۔ مارے لٹھوں کے کوچوان کو اور محافظ شکرم کو بھی گرا دیا۔ اور شکرم کے اوپر کے چھپر پر لٹھ مارنے لگے اور ایک عورت اور ایک مرد شکرم کی پشت کے تختے پر بیٹھے تھے، مارے لٹھوں کے ان کا چورا کر دیا۔ اب یہ کیفیت ہوئی کہ ایک پر ایک شکرم کے اندر گرتا ہے۔ میں تین آدمیوں کے نیچے دب گیا۔ ادھر اُدھر کے درجہ والے جو گھبرا کر اُترا، اُترتے ہی ان کو بچھونہ کر دیا۔ ایک جوان انگریزی سپاہی تھا، وہ جوان بھرتی کرنے آیا تھا، اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔ اس غریب نے پانچ چار ڈنڈے مارے۔ ایک کو ان نے بھی گرا دیا تھا۔ مگر اکیلا کیا کر سکتا تھا۔ وہ چالیس آدمی تھے، اس کے سر پر بہت سے لٹھ پڑ گئے۔ آخر غش کھا کر گر گیا۔ ادھر میں تڑپ کر آدمیوں کے نیچے سے نکلا۔ تلوار کو ٹٹولتا ہوں، تلوار کا پتہ نہیں۔ میں شکرم سے نکل کر تختے پر آیا ہوں کہ ایک شخص نے برابر سے لٹھ دیا۔ میرے کاندھے پر پڑا۔ دوسرے نے لٹھ مارا، سر پر پڑا۔ سر پھوٹ گیا۔ تیسرا لٹھ جو برابر سے مارا، میری نظر اُدھر تھی۔ وہ میں نے خالی دیا۔ پرے کو گردن کر لی۔ وہ لٹھ تختے کی زنجیر پر پڑا۔ وہ لٹھ میں نے تھال لیا۔ ایک طرف سے میرے ہاتھ میں دوسرا غارت گر کے ہاتھ میں، تو اور دو تین آ کر مجھے لپٹ گئے۔ تختے پر سے نیچے گرا دیا۔ اوپر سے اور چاہتا تھا کہ میرے لٹھ مارے کہ میری بی بی

داستان غدر صفحہ 282

میرے اوپر گر پڑی۔ ایک بولا، اردے ڈوگری ہے ڈوگری مر جائے گی۔ اب میرا ہاتھ پکڑ کے دو تین کے کھڑا کیا اور میرا بدن اور کمر ٹٹولنے لگے۔ میں نے کہ کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ وہ تینوں مجھے گھسیٹتے ہوئے کوئی دس قدم کے فاصلہ پر لے گئے اور وہاں جا کر کنکروں پر پھینک دیا اور دو آدمی لٹھ لے کر میرے سر پر کھڑے ہو گئے اور کہا ڈوگرے تو یہاں سے ہلا تو تجھے جان سے مار ڈالیں گے۔ میری بی بی روتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہا ہائے غارت گر گاڑی والوں کو مار ڈھاڑ کر رہے ہیں۔ اور پوئیں باندھ باندھ کر اسباب کی لئے جاتے ہیں۔ اور ہم دونوں بیٹھے ہوئے یہ سماں دیکھ رہے ہیں۔ ایک آدمی کے ہاتھ میں وہی میری تلوار ہے اور وہ اُچھلتا پھرتا ہے اور کہتا ہے اس تلوار سے سب کا سر کاٹوں گا۔ ادھر گاڑی کے اندر کے آدمیوں کو سب کو باہر نکال کرسب کی تلاشی لے لی۔ کسی کے پاس ایک پیسہ نہ چھوڑا۔ اور اس عورت مغلانی کے پاس پانسو چھ سو کا مال اسباب تھا سب چھین لیا۔ ایک برہمنی کے پاس زیور تھا سب اُتار لیا۔ فقط پاؤں کے کڑے نہ اُتر سکے۔ جب وہ تلوار ہلاتا ہوا ادھر آئے، میرے بی بی روتیں اور چپکی چپکی مجھ سے کہتیں، خدا کے لئے تم یہاں سے بھاگ جاؤ، تماری جان تو بچ جائے گی۔میں نے کہا بھاگ کر جاؤں تو اس کہیں جان بچ سکتی ہے۔ اسی اثناء میں ایک شخص اور مسافر آ مرا۔ اس کو دیکھتے ہی یہ دنووں شخص جو میرے سر پر کھڑے تھے انہوں نے برابر سے جا کر اس کی پشت پر دو لٹھ مارے ۔ وہ گر گیا۔ اس کی جیب میں سے پانچ روپے نکال لئے اور تلوار چھین لی۔ اسی اثناء میں کچھ دوڑنے کی آواز آئی تو وہ سب کے سب فرار ہو گئے۔ پھر جا دیکھا تو سب کے چوٹیں لگی ہوئی تھی۔ سب کے پاس کچھ نہ چھوڑا، سب لوٹ کر لے گئے۔ اتنی

داستان غدر صفحہ 283

دیر میں گاؤں والے آ گئے۔ ان سے ہر چند کہا گیا کہ تم ان کا تعاقب کرو۔ ہرگز نہ مانا۔ کہا جب تک پولیس کا آدمی ہمراہ نہ ہو ہم کھوج نہیں نکالتے۔ میرا سب سامان کپڑا زیور وغیرہ سب لے گئے۔ کچھ نہ چھوڑا۔ فقط ایک پرانا برقعہ جو پرانے کپڑے کا سفر کرنے کے واسطے سیا تھا وہ چھوڑ گئے۔ رات بھر اسی جگہ سب پڑے رہے۔ صبح اُٹھ اُٹھ کر اُن چوروں کا سرغ دیکھنے لگے کہ کدھر کو گئے ہیں۔ میں بھی ڈھونڈھتا ہوا کوئی دو سو قدم گیا تو وہاں دیکھا کہ مریے دونوں صندوقچے ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں۔ اور پاندان بھی ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔ بیگ پھٹے ہوئے پڑے ہیں ۔ کپڑے ندارد۔ زیور نقد روپیہ وغیرہ کچھ نہیں مگر وہ ڈاکو میرے سر ایک احسان کر گئے کہ آج اُن کا شکر گزار ہوں۔ میں صدہا دعائیں ان کو دیں کہ خدا ان کا بھلا کرے۔ میرے ساری عمر کی کمائی وہ چھوڑ گئے۔ میرے جواہرات میں سے ایک نگینہ انہوں نے نہیں لیا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ جزدان جو نیا چھینٹ کا میں سلوایا تھا وہ تو اتار کر لے گئے اور میرے جتنے مسودات غزلوں اور قصائد کے اور قلمی دیوان میرا ایک جا رکھ کر اوپر پتھر رکھ گئے۔ اسی کی تلاش میں میں نکلا تھا۔ بس یہ دیکھ کر مجھے اتنی خوشی احاصل ہوئی کہ حد سے بے حد گویا میرا سب مال اسباب مجھ کو مل گیا۔ میں نے خوشی خوشی وہ کاغذات اپنے اٹھا لئے اور باقی سب سامان اپنا وہیں پڑا رہنے دیا۔ اور وہاں سے آ کر سب آدمیوں سے کہا کہ بھائی میرے دولت تو مجھے مل گئی۔ وہ پوچھنے لگے کیا دولت ملی۔ میں نے کاغذات دکھائے اور کہا جا کر اپنی چیز تلاش کرو۔ سب پہنچ گئے۔ جو کچھ ٹوٹا پھوٹا پرانا جس جس کا تھا وہ سب نے پہچان لیا اور اسی طرح پڑا رہنے دیا۔ سہ پہر کو جب صآحزادے عبد الرحیم خاں صاحب فوجدار ریاست موقع واردات پر پہنچے ہیں تو وہ اٹھوایا گیا۔ پھر واپس ٹونک

داستان غدر صفحہ 284

کو جانا پڑا۔ فوجداری میں اظہار لکھائے۔ آٹھ روز کے بعد گھوڑا گاڑی میں گھر کے ادمیوں کو سوار کرا کے ٹونک کو آیا۔ سال بھر کے بعد میرے پاس گھوڑی تھی۔ وہ فروخت کرنے کو جے پور کے میلے میںلے گیا تھا۔ وہ میلے میں بندھی ہوئی تھی۔ ایک دن صحب کا وقت ہے، چاکر گھوڑوں کو مل رہے ہیں۔پچھاڑی میں گھوڑوں کی الاؤ تھا۔ اس میں بیٹھا ہوا چائے پکا رہا تھا۔ آدمی دودھلینے کو گیا ہوا تھا کہ ناگہاں میرے دامن کو آگ لگی۔ اور وہ دامن بھڑک گیا۔ میں نے ہاتھوں سے اُسے بجھیا۔ دوسرا دامن بھڑک اُٹھا۔میں بجھانے لگا، کمر پر سے انگرکھا بھڑک اُٹھا۔ میں اُٹھ کر بھاگا۔ سامنے سائیس گھوڑے مل رہے تھے۔ ان سے کہا، ارے دیکھتے ہو تم تجھاتے نہیں۔ انہوں نے دوڑ کر میرے کپڑے پھاڑ کر پھینک دیئے۔ انگرکھا کُرتہ سب جل گیا۔ پیٹ اور کمر اور شانے اور دونوں پُک کر کباب ہو گئے۔ اور اب ہوا لگی اور اس میں سوزش پیدا ہو گئی اور مجھے غش آ گیا۔ جیون علی میرے داماد موجود تھے، جلدی سے شفا خانہ میں دوڑے گئے اور وہاں ایک ہنڈیا میں کچھ پانی میں ملی ہوئی دوا لائے۔ اور زخموں پر ملی اور کچھ دوا لائے۔مجھے پلائی کہ مجھے تسکین ہوئی اور کرایہ کی گاڑی کر کے مجھے گھر لائے۔ گھر میں دیکھتے ہی رونا پیٹنا پڑ گیا۔ تمام پُشت پر ایک بڑا آبلہ پڑا ہوا تھا۔ غرضیکہ شفاخانہ کا علاج ہوا۔ تین ماہ میں تندرست ہوا۔ تمام دنیا میں موت کی خبر اُڑ گئی تھی، حتٰے کہ ٹونک میں بھی خبر پہنچ گئی تھی کہ وہ مر گیا۔ لیکن خدا نے فضل کیا۔ جب میں ٹونک گیا ہوں تو سب میرے دوست ملنے آئے اور والی نہایت خوش ہوئے۔ میرے بدن کی کھال جہاں جہاں سے جلی تھی وہ سب اُودھڑ گئے تھی۔ پہنچوں تک ہاتھوں کا چمڑا سب اُتر گیا تھا۔ فقط گوشت و استخوان رہ گئے تھے۔ اس علالت
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 305

اور ہنگامِ عرسِ حضرت علی مرتضیٰ شیرِ خدا صلواۃ اللہ علیہ میں چند روز پیشتر از عرس اعلیٰ حضرت قدر قدرت فلک رفعت کیواں حشم برجیس شیم ورونق افروز کوہ مبارک ہوتے ہیں اور تمام حیدر آباد کی خلقت کا ازدہام ہوتا ہے اُس زمانہ میں کئی سو آدمی کا اجماع خاص و عام درِ دولت سرکار پر ہوتا ہے۔ خیمہ ہائے متعدد اُستاد ہوجاتے ہیں۔ اکثر اربابِ نشاط و طوائف وغیرہ بھی حاضر ہوتی ہیں۔ اس اجماع کثیر و جم غفیر کو طعام سرکار سے تقسیم ہوتا ہے۔ دونوں وقت دیگیں کھانے کی پکتی ہیں اور تقسیم ہوتی ہیں۔ کئی روز تک یہ پخت جاری رہتی ہے۔ اور بعد عرس کے انعامات ہمراہیاں کو علیٰ قدر مراتب مہاراجہ صاحب بہادر اشرفیاں تقسیم فرماتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت قدر قدرت خلد اللہ ملکہ، زمانِ قیام میں دو تین بار بنگلہ سرکار پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ بزمِ رقص و سرود برپا ہوتی ہے۔ روشنی کا سامان بخوبی ہوتا ہے۔ یہ مہاراجہ صاحب بہادر کی دریا دلی اور سیر چشمی اور بلند حوصلگی اور علو ہمت کا ایک نمونہ ہے جو معرض بیان میں آیا۔

آج کسی امیر یا رئیس کی یہ ہمت ہے کہ اس طرح بیدریغ صرف کرے گا۔ حیدر آباد میں بڑی بڑی سرکاریں اور جاگیرداران اولوالعزم ہیں۔ حالانکہ اُن کی آمدنی جاگیرات مہاراجہ صاحب کی جاگیر سے بدرجہا زیادہ ہے۔ مگر یہ ہمت اور حوصلہ کسی کا نہیں کہ اس طرح بے دریغ صرف کرے غور کیا جاتا ہے تو مہاراجہ صاحب بہادر حاتمِ وقت ہیں۔
تونگری بدل است نہ بمال
بزرگی بعقلست نہ بسال

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
اُن کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے

میں حُبِ وطن سے حیدر آباد حیدر آباد روانہ ہوا ہوں تو مجھے بڑی بڑی امیدیں قدردانی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 306

حیدر آباد سے تھیں۔ میں جانتا تھا کہ سوائے ذاتِ بابرکات اعلیٰ حضرت قدر قدرت کے اگر ایک دوا میر کی سرکار میں تیری رسائی ہوگئی تو تیری گذر بخوبی ہوجائے گی کیونکہ گورنمنٹ حیدر آباد کی سرکار عالی جاہ ہے۔ آج ہندوستان میں سلطنت خیال کی جاتی ہے۔ اُس کی برابر کوئی ریاست نہیں اُس کا جاہ و حشم مصر اور ایران کی برابر شمار ہوتا ہے۔ وہاں بڑے بڑے امیر کبیر ہیں پچیس پچیس لاکھ کے جاگیردار ہیں۔ ہزار ہا روپیہ کے تنخواہ دار تو اہلکار ہیں۔ ایسے مقام پر پانچ چار سو روپیہ ماہوار کا روزگار ہونا کچھ دشوار نہیں۔ مجھے خیال ریاستہائے ہندوستان کا تھا۔ ہندوستان کے رئیس پانچ پانچ چار چار لاکھ کے جاگیردار بیچارے آدھی لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے ہیں۔ اُن کو کُل لوازمئہ ریاست اور تجمل جلوس ریاست کا رکھنا پڑتا ہے۔ اصطبل میں دس پانچ خاصہ کوتل ہزار روپیہ کی قیمت سے لگا کے پانچ ہزار تک موجود ہیں۔ فیل خانہ میں دو چار ہاتھی بھی ہیں اُس کے علاوہ سامانِ جلوس نوبت نقارہ علم ماہی مراتب فوج سپاہ سوار پیدل، توپ خانہ، مصاحبین اہلکار عملہ وغیرہ سب سامانِ ریاست موجود ہے۔ غرضکہ جب میں یہاں پہنچا ہوں تو میرا گمان فاسد نکلا۔ یہاں مقدمہ سرکارِ دولت مدار ظہیر صاحب کو کس نے سبز باغ دکھایا۔ کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آکر حیران و پریشان ہوئے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ285
میر جیون نے میری بڑی خدمت کی۔مجھے اُٹھانا، بٹھانا ،کھلانا سب وہی کرتے تھے۔کیا خدا کی قدرت ہے کہ میری تو خبرگیری اس بندہ ء خدا نے پوری پوری کی مگر اُن کی خبر میں نہ لے سکا۔میں جب ٹونک گیا وہ بیمار پڑ گئے۔ پندرہ روز کے بعد اُن کا انتقال ہو گیا۔ہنوز پہلے زخم دل کے بھرنے نہ پائے تھے کہ یہ صدمہ عظیم داماد کا ہوا، چار بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔کیا صدمہ ہوا کہ کمر ٹوٹ گئی۔یا رب العالمین میں بوڑھا ۔ مرنے کو تیار بیٹھا ہوں، جوان بیٹی بیوہ ہوئی۔ یہ بچے کیونکر پرورش پائیں گے۔

سجّاد مرزا کی وفات
بس اسی صدمہ میں تھا کہ فلکِ غدار ستمگار نے کہا کہ اس پر صبر کئے بیٹھا ہے۔ایسا صدمہ ء جانکاہ اور زخم شمشیر دل شگاف لگایا جائے کہ زندگی تلخ ہو جائے۔میر جیون علی کے مرنے کے بعد ایک سال کے چھوٹی لڑکی کی شادی قرار پائی تھی۔ سجاد مرزا جب سوائی مادھوپور میں آئے میں نوکری پر تھا۔ مجھے لکھا آپ کچھ سامان اور زیور پارچہ وغیرہ کا کر کے بھیجئیے اور میں بھی کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ اور میں رخصت لے کر گھر کو جاتا ہوں۔ اور آپ یہ سامان وغیرہ لے کر گھر پر آ جائیے۔ لڑکی کی شادی ہو جائے۔ غرضکہ میں نے بندوبست وغیرہ روپیہ کا کر کے کچھ زیور چاندی کا اور کوئی اسی روپیہ کا کپڑا ریشمی ۔ گلبدن ۔ اطلس وغیرہ کچھ سفید خریدا اور پچاس روپے کا گوٹہ کناری وغیرہ بہم کر لیا اور کچھ اور روپیہ کا انتظار تھا۔ وہ قرض نکلوایا تھاکہ وہ دستیاب ہو جائے تو میں جے پور چلا جاؤں۔ وہ کمبخت ساہوکار ایسا ملیچ تھا کہ روز آج کل آج کل کرتا تھا۔ اس اثنا میں مجھ سے پہلے وہ رخصت لے کر جے پور پہنچ گیا۔وہاں جاتے ہی جنرل سپرنٹنڈنٹ نے اس کی بدلی بوروانے کی کر دی۔ ہر چند اس نے عذر کئے کہ میری بہن کی شادی ہے

ریختہ صفحہ286
میں نہیں جا سکتا۔ سپرنٹنڈنٹ درپے ہو گیا کہ ایک مہینے کے واسطے چلا جا۔ پھر جے پور کی تبدیلی ہو جائے گی۔ قضا سر پر سوار تھی۔ میرے خط کی بھی راہ نہ دیکھی۔ اس کی ماں نے ہرچند روکا کہ تو نہ جا تیرا باپ اب آتا ہے۔ شادی ہو جاے دے پھر جائیو ایک نہ مانی۔ یہی کہا کہ ابا جی کے آنے میں دیر ہے میں جب تک ہو آؤں گا، وہ یہاں سے سوار ہو کر ندراونی مقام کھندیلہ پہنچا اور میں نے وہ سامان زیور اور پارچہ گوٹا کناری عبدالقادر خاں صاحب رسالدار کے بھائی کی معرفت گھر کو روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ اسی ہفتہ میں آتا ہوں، ادھر سجاد مرزا کھندیلے میں پہنچا وہاں جا کر سنا کہ ڈپٹی صاحب تو مر گئے، یہ حیران ہوا۔ ہیں یہ کیا معاملہ ہوا۔ ابھی تو ڈپٹی صاحب نے مجھے بلوایا ہے میری تبدیلی کرائی یہ کیا ہوا۔ وہ مقام کندیلہ سے پانچ سات کوس پر بودہ دریبہ میں ہے۔دو روز بعد وہاں پہنچا۔ تیسے روز سجاد مرزا اور دوسرا اہلکار وا سنگھ جس کی تبدیلی پر یہ گیا تھا وہ اور ڈپٹی کا بھائی یہ سب کھندیلہ میں آئے۔ اُس شب کو سب ڈپٹی صاحب کے مکان پر پڑ رہے۔ دوسرے روز ڈپٹی کا بھائی اپنے بھائی کے استخوانِ سوختہ لے کر گنگا کو گیا اور سجّاد مرزا کو کہہ گیا کہ میں واپس آ کر اپنے بھائی کا سامان تم سے لے لوں گا۔ تُم حفاظت سے رکھنا۔ وہ تو وہاں سے رخصت ہوا اور سجّاد مرزا نے دا سنگھ نے کہا کہ ایک دو روز تم صبر کرو ۔ میں دفتر سنبھلوا دوں گا۔ سجاد مرزا نے کہا وجہ حجت کی کیا ہے۔ تمہاری تبدیلی ہو گئی اب دفتر کیوں نہیں سنبھلواتے۔ جاؤ تم اپنے علاقہ پر جاؤ۔ میرا دفتر مجھے سپرد کرو۔ کہا آج تو نہیں سنبھلواتا کل سنبھلوا دوں گا۔ اس میں زیادہ تکرار کی نوبت پہنچی۔ سجاد مرزا کو لوگوں نے خفیہ طور پر مشتبہ کر دیا تھا کہ اُس نے ڈپٹی کو زہر دے کر مارا ہے

ریختہ صفحہ 287
اُس کمبخت (سجاد مرزا) کے منہ سے نکل گیا۔ سیدھی طرح دفتر سنبھلوا دو ورنہ ہتھکڑی بیڑی ڈال کر شہر جے پور بھیجوں گا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کو خبر ہو گئی ہے، ڈپٹی کے مارے جانے کی، آؤ اس کا بھی کام تمام کرو۔ پس اُس نے یہ چالاکی کی کہ پہلے تو اُس آدمی کو جو سجاد مرزا کے پاس تھا بہکا کر نکال دیا کہ وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ اب یہ دو بچے رہ گئے اور سجاد مرزا بشارت حسن اور اشتیاق حسین یہ دونوں چھوٹے چھوٹے تھے، اس دن سجاد مرزا تو دائرہ میں ایک ڈپٹی دوسرے رہتے تھے ان سے ملنے گیا۔ اور بشارت حسن گوشت بھون رہا تھا کہ وا سنگھ آیا اور کہا پانی ڈال گوشت جلتا ہے۔ یہ ااٹھ کر پانی لینے گیا اور اس ظالم بے رحم نے سنکھئے کی پڑیا دیگچے میں ڈال دی اور چمچے سے چلا دی۔ جب یہ آیا تو وہ چمچا ہانڈی میں پھر رہا تھا۔ اس نے پانی ڈال دیا اور وہ اٹھ کر چل دیا شام کو جب سجاد مرزا آیا ہے تو اس نے پوچھا بچوں سے روٹی پکا لی ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ماموں پکا لی ہے۔ ان تینوں نے بیٹھ کر روٹیکھا لی۔ بس کھاتے ہی قے اور دست لگ گئے۔ آدھی رات گئے ذرا قے دست ٹھیرے ہیں کہ وا سنگھ نے پوچھا اب تمہاری طبیعت کیسی ہے کہا دل پر جلن ہے کہا سکنجین پی لو میں لاتا ہوں دوبارہ پھر اور سنکھیا سکنجین میں ملا کر پلا دی۔ بس دوبارہ سنکھیا دینے سے حال تغیّر ہو گیا۔ اب خیال کیا چاہئیے کہ کیا عالمِ بیچارگی اور بے بسی کی موت ہے۔ ؑالمِ غربت، نہ کوئی دوست نہ شفیق رفیق نہ تیماردار نہ طبیب ِ غمخوار نہ عزادار۔ سوائے بے کسی کے کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سوائے دو بچوں خورد سال کے کہ وہ بھی اُسی حال میں گرفتار ہیں انہیں بھی قے دست لگے ہوئے ہیں۔ غرض صبح ہوتے اس کا کام تمام ہو گیا۔ تھانہ دار اور منشی تھانہ نے آکر تجہز و تکفین کی اور

ریختہ صفحہ 288
اُن دونوں بچوں کو تھانہ میں لے جا کر دوا درمن کی کہ بیچارے جانبر ہو گئے ورنہ ان کا بھی کام تمام ہو جاتا۔ دوسرے روز منشی تھانہ نے ایک اونٹ کرایہ پر لیا اور ایک سوار کی حفاظت میں ان بچوں کو جے پور روانہ کیا اور دوسرے روز شام کے وقت بچے گھر کو آئے۔ جب بچے محلّے میں پہنچے ہیں اور سجاد مرزا مرحوم کے ماموں احمد مرزا خان ایک دوست سے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے انہوں نے بچوں سے پوچھا تمہارا ماموں کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مر گیا۔ یہ سنتے ہی وہ بیہوش ہو کر گر پڑے اور محلّہ میں ایک فریاد برپا ہو گئی زن و مرد ہمراہ ہوئے۔ بچے جب گھر میں آئے تو محلّے کی عورات جمع ہو گئیں۔ باہر مردوں کا اجتماع ہو گیا۔ اب سب بچوں سے حقیقت پوچھتے ہیں کیا ہوا کہو تو سہی۔ اب غریب بچے سہمے ہوئے اپنی مصیبت میں آپ گرفتار ہیں۔ دبی زبان سے کچھ حقیقت بیان کی۔ ایک حشر برپا ہو گیا۔ صبح کو احمد مرزاخاں نے مجھے خط لکھا کہ تُم خط دیکھتے ہی چلے آؤ۔ سجاد مرزا کا حال غیر ہے۔ اس خط کو دیکھتے ہی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ اُسی وقت سرکار میں جا کر رخصت طلب کی۔ شام کو اونٹ گاڑی میں سوار ہو کر جے ہور روانہ ہوا۔ کمبخت اونٹ ایسے ناقص تھے کہ وہ ایک چوکی بھی نہ چل سکے۔ رستہ میں وہ تھک کر بیٹھ گئے، گاڑیبان دوسرے اونٹ لینے گیا۔ اس عرصہ میں نصف شب گزر گئی۔ گاؤں والاں نے شکرم کو روک لیا کہ اس وقت روانہ ہونے دیں گے پہلے شکرم لُٹ چکی ہے صبح کو شکرم روانہ ہوئی نوابی میں جا کر اونٹ بدلوائے گئے۔ میں نے کچھ کھانے کو بازار سےلیا کھانے کو تھا مگر نوالہ حلق میں پھنسنے لگا۔ منہ سے نہ چلا۔ اسی اثنا میں ایک برات محلہ والونکی جے پور سے ٹونک کو جاتی تھی۔ وہ مجھے ملی۔ میں نے اپنے بچوں کا حال پوچھا انہوں

ریختہ صفحہ 289
نے کچھ دبی زبان سے ایسا بیان کیا کہ اور بھی اوسان پراگندہ ہو گئے۔ غرضکہ پھر شکرم روانہ ہوئی۔ مگر اونٹ بہت خراب تھے وہ دوسرے روز صبح کو جے پور میں پہنچے اور میں شکرم میں سے اتر کر گھر پر پہنچا۔ میری بی بی نے سب کو منع کر دیا تھا کہ کوئی تذکرہ کچھ نہ کرنا۔ میں گھر میں گیا تو سب خاموش تھے۔ اُسی وقت احمد مرزا خاں اور احمد سلطان کو بلوایا۔ میں ہر چند پوچھتا ہوں کوئی نہیں بتاتا۔ یہی کہتے ہیں وہ کھنڈیلہ میں ہے۔ جب سب مرد جمع ہو گئے تو میں نے کہا خدا کے واسطے بتاؤ تو سہی ماجرا کیا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ بلا شک سجّاد مرزا مر گیا جو یہ سب خاموش ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ میں نے زور سے زمین پر سر دے مارا کہ میرے دماغ سے خون جاری ہو گیا اور میں نے کہا کہ اگر حقیقت بیان نہیں کرتے تو میں اپنے کو اسی وقت ہلاک کئے دیتا ہوں۔ تب عزیزوں نے میرے ہاتھ پکڑے اور کہا صبر کرو۔ ہم بیان کرتے ہیں۔ جب احمد مرزا خاں نے یہ حقیقت زبانی بچوں کی بیان کی تو میں چیخیں مار کر رونے لگا۔ میری بھتیجی نے سجاد مرزا کے دونوں بچوں کو لا کر میرے آگے بٹھا دیا۔ وہ چھوٹا بچہ کوئی سوا برس کا تھا۔ اس نے کبھی مجھے نہ دیکھا تھا اور نہ میں نے اسے دیکھا تھا۔مگر جوشِ خون کی تاثیر دیکھو کہ وہ گھٹنیوں چل کر آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں نے اُسے چھاتی سے لگایا اور دوسرا بچہ کہ وہ چار برس کا تھا اُس نے میری گردن میں ہاتھ ڈال دئیے۔ میں نے دونوں کو چھاتی سے لگایا تو جو آگ میرے سینہ میں بھڑک رہی تھی فی الجملہ تسکین ہوئی۔ احمد سلطان صاحب نے کہا کہ اب سجّاد مرزا ان بچوں کو سمجھو۔ یہ ان کی نشانی ہے تمہاری نسل قائم رہے گی اب انکی پرورش کرو اگر تم ببی اپنے کو ہلاک کر دو گے تو یہ بچے کیونکر پلیں گے۔ غرضکہ بعد دو چار گھڑی کے جب میرے اوسان

ریختہ صفحہ 290
درست ہوئے تو میں نے کہا کہ میں اب حکام کے پاس جا کر فریاد کرتا ہوں ۔ میری بیبی کہنے لگی جو کچھ ہوا اب صبر کرو۔مُردے کی مٹی عزیز کرو گے قبر کھود کر نعش نکلوائی جائے گی، میرا دل گوارا نہیں کرتا نالش فریاد نہ کرو۔ یہ لوگوں نے ڈرایا تھا۔ غرضکہ کسی نے مجھے کچہری نہ جانے دیا۔میں نے کہا اس کی فاتحہ درود تو کرو کہا کہ کل صبح تمہارے آنے سے پہلے رسم پھولوں کی ہو چکی۔ کل سب عورات فراہم ہوئی تھیٰ اور باہر سب عزیز و اقارب دوست آشنا جمع ہوئے تھے بعد قرآن خوانی کے ختم پڑھوا دیا تھا۔ پھول کُل ہو چکے ہیں۔ غرض میں تو اپنی مصیبت میں مبتلا رہا۔ لوگ آٹے تھے رسمِ فاتحہ ادا کرتے۔ دوسرے روز کچہری سے ہرکارہ آیا اور مجھ سے کہا کہ بچوں کو سپرنٹنڈنٹ جی نے بلایا ہے۔ تُم ان کو لے کر چلو۔ غرض یہ کہ میں نے ان دونوں لڑکوں کو سجاد مرزا کے ہمراہ تھے لے جا کر کچہری میں پہنچا۔ سپرنٹنڈنٹ کو اس امر کی اطلاع پیشتتر ہی ہو چکی تھی اور آدمیوں نے مہاراجہ صاحب کو متھرا میں بھی بذریعہ تار اطلاع دے کر اجازت قبر کھولنے کی منگا کر تحقیقات کے واسطے بھیج بھی دیا تھا، یہ بچے گئے تو ان کو دلاسہ دے کر بہ آہستگی سب حال دریافت کیا اور اظہار لکھوائے اور تحقیقات جاری ہوئی۔ عند التحقیقات عمل ڈاکٹری سے معدے متوفی سے سنکھیا برآمد ہوا۔ خون بے گناہ ثابت ہوا۔ جب میں نے جا کر کونسل میں عرضی دی کہ میرا بیٹا جوان نوکری سرکار میں مارا گیا ہے میں اس خون کا قصاص چاہتا ہوں اور مرحوم کی بی بی اور دو بچے خورد سال ہیں۔ ان کی پرورش ہونی چاہئیے۔ اس عرضی پر حکم ہوا کہ بعد تکمیلِ مثلِ مقدمہ سائل کی دادرسی ہونی چاہئیے اور قتل کی تحقیقات اوّل محکمہء گرامی میں ہوئی اور جنرل سپرنٹنڈنٹ نے اپنے مواجہ میں ایسی تحقیقات کی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ291
کہ باید و شاید اور پھر نظامت میں مسل گئی۔ اور پھر فوجداری میں آئی اور مجھے اور بچوں کو طلب کیا گیا اور مسل کی تصدیق کی گئی۔ بعد اس کے میں اُس کے بچوں کو ہمراہ لے کر بابو راؤ کامتی چندر بہادر کے مکان پر پہنچا اور کہا کہ میرا بیٹا جوان بے قصور نوکری راج میں مارا گیا ہے اور میں بوڑھا ہوں۔ کوئی دن کا مہمان ہوں۔ ان بچوں اور اس کی بیوہ کی پرورش کون کرے گا۔ بابو صاحب نے اُس وقت دو ممبر کونسل کے ان کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ اُن سے دریافت کیا کہ یہ کیا کہتا ہے۔ اُن دونوں نے متفق الّلفظ بیان کیا کہ اس کا بیان راست ہے کوئی شک نہیں۔ ہمارے یہاں اطلاع آ گئی ہے اُسی وقت بابو صاحب نے فرمایا کہ ظہیر الدین تُورو نہیں۔ جے پور کا راج بے انصاف نہیں ہے۔ تیری اور تیرے بچوں کی پرورش کی جائے گی۔ اور قاتل کو ایسی سزا دی جائے گی کہ تیرے آنسو پُچھ جائیں گے۔ تیرا بیٹا نہیں مارا گیا ہے۔ میں خود مدّعی ہوں۔ نیز صاحب ممبر کلکٹر موجود تھے۔ اُن کو حکم دیا کہ کاغذات دفتر کونسل کے نکلوا کر دیکھو۔ ایک بار مہاراج رام سنگھ جی نے اس کے بیس روپے ماہوار بصیغہ روزینہ داران جاری کرنے کا مجھ کو حکم دیا تھا۔ وہ کاغذات نکلوا کر وہ بیس روپیہ جاری کر دو۔ پھر میں نے عرض کی کہ میں اپنے بیٹے کے خونبہا میں ایک پیسہ نہیں چاہتا۔ اگر کوئی لاکھ روپے نقد اور ہزار روپیہ مہینہ مجھے دے گا تو بھی میں نہ لوں گا۔ میرا لعل بے بہا مارا گیا ہے ہاں اگر راج کو پرورش منظور ہے تو اُس کے بچوں اور بیوہ کی پرورش کر دے تو بابو صاحب نے فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ چنانچہ چار ماہ تک دفتر کونسل میں ان کاغذات کا تجسّس کیا گیا کچھ پتہ نہ چلا۔ چونکہ عرصہ ء کثیر منقضی ہو چکا تھا اور دفتر کئی جا منتقل ہو گیا تھا۔ وہ کاغذ برآمد نہ ہوئے۔ آخر الامر بابو صاحب نے مجھے بُلا کر حکم دیا کہ میں مجبور ہوں

ریختہ صفحہ 292
تیرے بچوں کی تقدیر سے وہ کاغذ تو دستیاب نہیں ہوئے اور تجھے منظور نہیں اب جو سجّاد مرزا کی تھانہ داری کی تنخواہ تھی اُس کا نصف بارہ روپیہ دو آنہ تیرے بچوں کا مقرر کیا گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر تک بعدہ راج سے پرورش روزگار کی ہوگی چنانچہ اس حکم کی نقل بطور سند مجھے مل گئی میرے پاس موجود ہے۔ اُس سند میں لکھا ہوا ہے کہ مبلغ دو از دہ روپیہ بصیغہ روزینہ داران بنابر پرورش بیوہ و اطفال سجّاد مرزا متوفی ظہیرالدین کو ملتے ہیں اور بعد وفات ظہیر الدین اُس کے بچوں کو اٹھارہ برس کی عمر تک ملیں گے۔ وہ روزینہ میرے بچوں کو گھر پر ملے جاتا ہے اور مسمی دان سنگھ قاتل سجّاد مرزا کی نسبت سزائے دائم الحبس تجویز ہو کر جیل خانہ سپرد کیا گیا۔ وہ محبوس ہے۔
بس اس صدمہ ء جانکاہ نے میری کمر توڑ دی اور زندگی تلخ کر دی ہوش و حواس میں اختلال واقع ہو گیا۔ دل و دماغ منتشر ہو گئے۔ لطفِ زندگی جاتا رہا۔ اُس روز سے میری بصارت اور سماعت میں فرق آ گیا۔ اب آنکھوں سے سوجھتا نہیں کانوں سے بالکل بہرا بہنڈ ہو گیا ہوں۔ جسم پر سوائے استخان اور پوست کے گوشت کا نام نہیں رہا۔ بے حیائی سے زندگی بسر کر رہا ہوں۔ جائے غور ہے کہ ایسی حالت میں کوئی شعر کہہ سکتا ہے۔

ٹونک میں شعر و شاعری
اب تمتہ ء حالات شعر و سُخن مقام زمانہ ء قیام ٹونک معرضِ وجود میں لائے جاتے ہیں۔ ٹونک میں اکثر شعر و سخن کے لکھنے اور پڑھنے کا اتفاق رہا۔ اور بہت سی غزلیں لکھی گئیں۔ اکثر مشاعرے مواجی نواب صاحب بہادر میں ہوئے خدا کی عنایت سے آج تک

ریختہ صفحہ 293
کسی کی غزل فقیر کی غزل پر سربر نہ ہوئی۔ تمام اہلِ ٹونک اعلٰے و ادنٰے موجود ہیں۔ بڑے بڑے زور لگا کر لوگ لکھ کر لائے اور جب اخیر میں میری غزل پڑھی گئی سب سرو ہو گئے۔ اکثر منصف مزاجوں نے اپنی غزلیں سرِ مشاعرہ چاک کر ڈالی ہیں بلکہ بارہا ایسا ہی اتفاق ہو گیا ہے کہ اکثر حضّار نے اہلِ بزم کو امتناع کر دیا ہے کہ کوئی غزل کی داد نہ دینا اور پھر جب میں نے غزل شروع کی ہے تو جو لوگ پیچھے اہلِ مشاعرہ کے کھڑے ہیں اُن کا شور تحسین و آفرین ایسا بلند ہوا ہے کہ حسّاد کا رنگ فق ہو گیاہے۔ بہت سے معرکہ ایسے بھی گزرے ہیں۔ چنانچہ ایک بار نواب صاحب کے مواجہہ میں مشاعرہ ہوا اور اہلِ مشاعرہ نے اچھی اچھی غزلیں پڑھیں ۔ میرے شاگردوں نے بھی اچھی اچھی غزلیں لکھی تھیں غرضکہ جب ؎ا افتخارحسین خاں صاحب مضؔطر نے غزل پڑھی ہے تو غزل ان کی بہت نادر تھی ۔ اُن کے جانبداروں میں سے جو لوگ تھےانہوں نے بڑے نعرے سبحان اللہ کے لگائے اور ہر شعر پر یہ بیان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎1افتحار حسین مضطر خیر آبادی جو بسمل خیر آبادی کے شاگرد امیر مینائی کے چھوٹے بھائی تھے جے پور میں وکیل تھے ۔ نواب ابراہیم خاں پہلے بسمل سے اصلاح لیتے تھے ان کی وفات کے بعد مظفر خیر آبادی سے اصلاح لینے لگے مضطر کی یہ غزل بہت مشہور ہے ؎

میں وہ قلبِ مضطرب ہوں جسے کل کسی کل نہ آئے
وہ نہالِ بے ثمر ہوں جو پھلوں تو پھل نہ آئے

؎مقطع ہے
نہ تُم ان کو پوجو مضؔطرکہ یہ بُت ہیں چند روزہ
تُم اسی خدا کو پوجو کہ جسے اجل نہ آئے
(نظیر)

ریختہ صفحہ294
ہوتا ہے کہ کیا کہنا ہے۔کوئی شاعر اب کیا کہے گا۔ قلم توڑ دیا ہے۔اِک شہرت سی شہرت ہو رہی ہےکہ میں کیا بیان کروں۔حالانکہ میرے شاگرد احمد سعید خاں عاشؔق کی غزل مضؔطر سے کم نہ تھی۔ بلکہ مذاقِ زبان میں بڑھی ہوئی تھی۔ قصّہ کوتاہ آخر کو جب میری نوبت آئی تو میں نے بیان کیا سُنو صاحبو! تُم صاحبوں کی جوان طبیعتیں ۔ دلوں میں نئی نئی امنگیں۔ سب طرح کی فارغ البالی ۔ دل و دماغ تمہارے صحیح اور درست ہیں۔ میں بوڑھا آدمی ہوش و حواس تک درست نہیں۔ دل و دماغ میں طاقت نہیں۔ ہزارہا صدمے قلب و جگر پر پڑے ہیں۔ اب کیا شعر کہوں گا اور تمہارے مضمون کہاں سے لاؤں گا۔ مجھے تو معاف ہی رکھئیے تومناسب ہے۔ اندع سے نواب صاحب نے حکم دیا انہیں غزل پڑھنی پڑے گی۔جیسی کہہ کر لائے ہو پڑھو۔ تمہاری غزل کے واسطت تو مشاعرہ ہی مقرر ہوا کرتا ہے۔ غرضکہ مجبور ہو کر میں نے غزل شروع کی اور مطلع غزل پڑھا۔ بس غزل کا مطلع سُنتے ہی ایک شور مچ گیا اور مرزا محمد علی خاں صاحب ممبر کونسل نے پکار کر کہا کہ اُستادی کے یہ معنی ہیں کہ ایک مطلع ایک دیوان کے برابر ہے۔ وہ صاحب جو فرما رہے تھے کہ قلم توڑ دیا ہے۔ اب انصاف سے فرمائیں کہ مطلع کہاں پہنچا ہے۔ سو سُنا کی اور ایک لوہار کی وہ مطلع یہ تھا ؎

وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
وہ کچی آگ ہے جس میں دہواں ہو
اُس وقت افتحار حسین صاحب نے فرمایا کہ انہیں باتوں سے تو یہ لوگ استاد مانے جاتے ہیں ایسے اشعار سے سکّہ شاعری کا بیٹھتا ہے

ریختہ صفحہ 295
غرضکہ صدہا اس قسم کے معرکے رہے۔ حالانکہ سوائے ایک نواب ؎سلیمان صاحب اسؔد اور بسؔمل صاحب اور مضؔطر صاحب سب میرے دوست احباب تھے۔ خدا نخواستہ میرے ان کے درمیان کبھی چشمک یا تنازعہ کسی طرح کا واقع نہیں ہوا تھا، مگر ہاں حسّاد لکھنو کے نام پر مرنے والے جن کے باپ دادا کو خواب میں بھی لکھنو کی زیارت نصیب نہ ہوئی ہو گی اُن کا یہ عالم تھا کہ رشک و حسد میں جل کر کباب ہوئے جاتے تھے۔ خدا واسطے کا بیر۔ چنانچہ روزِ اوّل جو قصیدہ میں نے سالگرہ کا سنایا اور جس کی نسبت سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ استاد ذوؔق کا قصیدہ ہے۔ میرے شاگرد صاحبزادہ احمد سعید خاں نے اُس کی صبح کو یہ کام کیا کہ کہیں سے دیوانِ ذوق مانگ کر لائے اور اُس کو بجائے خود میرے قصیدہ سے ملا کر دیکھا تو زمین آسمان کا فرق اُس کی تشبیب میں تھا اُستاد کے قصیدہ میں غُسلِ صحت کی تشبیب تھی میرے قصیدہ میں سالگرہ کی۔ وہ اُس سے کیونکر مطابق ہو سکتا تھا۔ علاوہ بریں مدح میں بڑا اختلاف۔ وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ ذرا آپ میری خاطر سے تھوڑی دور تکلیف کیجئیے اور اُن صاحب کے مکان تک چلئیے۔ میں نے کہا کہ میاں جانے بھی دو، حسّاد ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ وہ مصر ہو گئے کہ میں لے ہی چلوں گا۔غرضکہ وہ مجھے ہمراہ لے کر وہاں پہنچے اور جا کر کہا کہ لیجئیے حضرت وہ چور ڈھور سب موجود ہیں۔یہ دونوں قصیدے بھی موجود ہیں اور کہنے والے بھی۔ جو حضرات یہ فرماتے تھےکہ اُستاد کا قصیدہ پڑھ دیا ہے۔ وہ کون صاحب ہیں۔ ایک صاحب بولے کہ ہم ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎ 1
نواب سلیمان خاں اسد میر ظفر علی اسیر لکھنوی کے شاگرد اور صاحبِ دیوان تھے نوابصاحب نے ظہیر کی طرح انھیں بھی خاص طور سے ٹونک سے بلایا تھا
(نظیؔر )
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ296
ہم کہتے ہیں۔ احؔمد سعید خان آپ کس واسطے استاد کا قصیدہ بتاتے ہیں۔ جواب: زبان استاد کی اور متانت اور مضامین پکار رہے ہیں۔ زمانہء حال میں کوئی نہیں کہہ سکتا ہے اُس وقت وہ دونوں قصیدے پڑھوائے گئے اور اُن حضرت کو قائیل معقول کیا گیا۔
نواب؎ابراہیم علی
نواب ابراہیم علی خاں بہادر فرمانروائے ٹونک کو خداوند عالم زندہ و سلامت رکھے اور اُس کے ملک کو آباد اور سرسبز نواب صاحب موصوف جمیع محامدِ ذاتی و صفاتی سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ نواب صاحب ممدوح کو نفوسِ قدسیہ میں شمار کرنا چاہئیے۔ نواب صاحب سا رئیس با شرع متقی و پرہیزگار ۔ عابد و زاہد با خدا۔ عاشقِ رسول، دیندار۔ شریف پرور۔ عدل گستر۔ رحیم۔ کریم۔ جواد۔ فیاض۔ بہادر۔سخی۔ دریادل۔ کریمالنفس۔ خداترس۔ وسیع الاخلاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎1
نواب ابراہیم علی خاں خلؔیل1848ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد نواب محمد علی خاں کی معزولی کےبعد 1866 ء میں مسند آرائے ریاست ہوئے۔انہیں نعت گوئی کا بھی شوق تھا۔ ذیل میں اپ کی ایک نعت کے چند اشعار درج کرتا ہوں
؎
دیکھ پائے گر جمالِ روئے انور آفتاب
والضحٰی پڑھنے لگے حیران ہو کر آفتاب

روشنی کا ایک مرکز ہے فلک پر آفتاب
ہیں یہاں ایک ایک جلوے میں بہتّر افتاب

آپکے پرتو سے اس نے پائی ہیں آرائشیں
ہے جبینِ صبح پر چاندی کا جھومر آفتاب

آسماں والوں کو بھی ہے پاسِ خاطر آپ کا
اک اشارہ جب کیا آیا پلٹ کر آفتاب

آپ ہی کی چاند کو شب بھر رہتی ہے جستجو
آپ ہی کو ڈھونڈتا رہتا ہے دن بھر آفتاب

آپ محشر میں اگر بہرِ وضو فرمائیں عزم
آفتابہ لے لے کے دوڑے تا بہ کوثر آفتاب
(نظؔیر)
ریختہ صفحہ 297
دوستدار فی زماننا دنیا میں نہیں۔میرے قلم کو طاقت نہیں مہ ان کے اوصافِ حمیدہ تحریر کر سکے۔اوّل تو یہ کہ نواب صاحب بہادر کے ثروت و حشمت وریاست کے باوجود بوئے رعونت و تمکنت پاس ہو کر نہیں نکلی۔سراپا عجز و انکسار بلکہ خلقِ مجسّم کہنا چاہئیے۔زہد و صلاح کا یہ حال ہے کہ کبھی نمازِ سحر تک قضا نہیں ہوئی اوقاتِ شبانروزی یادِ الٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ شب کو کُل چار گھنٹے آرام کرتے ہوں گے چار بجے بیدار ہو جاتے ہیں۔ خدمتگاروں کو حکم ہے کہ مجھے جگا دو۔ صبح کو بیدار ہوئے اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہو کر نماز میں مشغول ہوئے۔ باغ میں مسجد ہے اُس میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرتے ہیں۔ میں نے بثشمِ خود دیکھا ہے کہ گھڑیوں مسجد میں پڑے ہوئے تضّرع و زاری کرتے ہیں۔رحم و ترحم کا یہ حال ہے کہ شاید کسی خدمتگار سے کچھ قصور سرزد ہو گیا اور اُسے کوئی طمانچہ غصہ میں مار بیٹھےتو پھر اُس سے قصور معاف کراتے ہیں کہ میاں اللہ کے واسطے میرا قصور معاف کر دے۔سخاوت کا یہ حال ہے کہ باوجود اس بے دستگاہی کے کہ پانچہزار روپے اُن کے دستِ خرچ کے مقرر ہیں اُس میں بہت سے لوگ بیش قرار درباری ہیں۔اور اُن کی اولاد بھی اُس میں شریک ہے جو کچھ دادو دہش ہوتی ہیں اُس میں سے کرتے ہیں ریاست کے روپے سے کچھ تعلق نہیں سوائے نقد وغیرہ کے۔پوشاک اسلحہ جو وقت پر موجود پایا بخش دیا۔زبان پر کبھی کوئی کلمہ تہذیب کے خلاف نہیں آتا۔ مرنج و مرنجاں کسی متنفّس کو ان کے دم سے تکلیف نہیں پہنچتی۔عملداری ٹونک میں مقدور ہے کسی کا کہ مرتکب منہیات کا ہو جائے۔مسکرات وغیرہ کا پورا پورا انتظام ہے۔ رمضان المبارک میں کیا مجال ہے کہ بے عذر شرعی کوئی ترکِ صوم و صلوٰۃ کر سکے۔ کوچہ کوچہ محتسب ہوتا ہےجس کو تارک الصّوم پاتا ہے فی الفور گرفتار کر کے کوتوالی میں پہنچایا جاتا ہے

ریختہ صفحہ 298
اور پھر وہ تا اختتامِ ماہ مبارک کوتوالی نظر بند رہتا ہے۔وہاں اُس سے روزے رکھوائے جاتے ہیں اور رویتِ ہلال شوال پر رہا کر دیا جاتا ہے۔زنانِ فاجرہ کوگرفتار کر کے نکاح کرا دئیے جاتے ہیں۔نواب صاحب بہادر کو مولود شریف کا ازحد شوق ہےسال میں ایک بار مجلسِ مولود شریف منعقد ہوتی ہے۔علما، فضلا، صاحبزادے،عمائد ،ملازم سب فراہم ہوتے ہیں۔کھانا بہت عمدہ کھلایا جاتا ہے۔ شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔ربیع الاوؔل میں بارہ روز مجلسِ نبوی منعقد ہوتی ہے اور نظیر باغ کی نہایت (طیاری) ہو جاتی ہےجھاڑ فانوس گلاس وغیرہ کی روشنی بکثرت ہوتی ہے اور اذنِ عام ہوتا ہے۔تمام شہر کی خلقت فراہم ہوتی ہے اور سیر سیر بھر شیرینی سب کو تقسیم ہوتی ہے۔ سات روز تک مردانہ محفل رہتی ہے اور پانچ روز زنانہ مجلس ہوتی ہے۔اُس روز حکم ہے کہ رات کو کوئی فرد گھر سے باہر نہ نکلنے پائے۔مستورات پردہ نشین سب مجلسِ مولود میں جاتی ہیںاور وہ مولود شریف نظم و نثر نواب صاحب کی تصنیف سے ہے۔ اور احادیث اور روایات صحیحہ کو ترجمہ ہے۔اسی 80 جزو کی اس کی ضحامت ہےوہ پڑھا جاتا ہے۔ شعر و شاعری کا ازحد ذوق ہے اور کلام بھی عمدہ ہے زیادہ توجہ حمد اور نعت کی جانب ہے۔مگر افسوس اس امر کا ہے کہ ریاست کے انتفاع میں بہت نقصان اور تنّزل ہو گیا ہے اور ریاست بدرجہ غایت مقروض ہو گئی ہے۔بائیس لاکھ کی ریاست اور پیداوار نو دس لاکھ کی رہ گئی ہے۔وجوہات باعثِ تنّزل ریاست واقع ہوئے ہیں۔بڑی خرابی تو یہ ہے کہ علاقہ ریاست ٹونک کا منتشر پرگنات پر واقع ہوا ہےایک پرگنہ دوسرے پرگنہ سے علیٰحدہ ہے اور عملداری ہائے غیر سے ملحق ہے۔اور صد ہا

ریختہ صفحہ299
کوس کے فاصلہ سے واقع ہوا ہے۔بیچ میں اور ریاستیں آ گئی ہیں۔ جو عامل و ناظم جاتا ہے۔ اپنی شکم پوری سے غرض رکھتا ہے۔ریاست کی خیرخواہی اور تباہی رعایا سے کچھ مطلب نہیں۔جب رعیّت پر جبر و تعدی ہوتا ہے رعیّت برخاست ہو کر اور ریاست میں چلی جاتی ہے۔ مثلاً پرگنہ سرونج علاقہ ٹونک تو برباد ہو گیا اور بھوپال آباد ہو گئی۔ دوم یہ کہ خرچ اخراجاتِ خاندان بہت بڑھ گئے ۔ اب گنجائش اتنی نہیں کہ نواب صاحب اپنی اولاد کا کچھ مقرر کریں، جن صاحبزدگان کی ماؤں کی جو تنخواہ ہیں وہ اس میں بسر کرتے ہیں۔ اُن کی ذاتی امدنی کچھ نہیں۔
مورثِ اعلٰے نواب محمد امیر خاں صاحب اوّل رئیس ٹونک کے بارہ بیٹے اور کئی بیٹیاں ہیں۔اور تنخواہ اسی حساب سے تقسیم ہوتی چلی آئی۔ اب ریاست میں کیا رہ گیا ہے خاندان کے مصارف میں برابر ہولی برائے نام ریاست ہے۔ علاوہ ازیں ریل کی سڑک نکلنے سے اور رہا سہا ستیاناس برباد اور تباہ کر دیا۔ مگر تاہم نواب صاحب کا علو ہمّت اور صرف خیر ؤ خیرات نذر و نیاز وغیرہ میں کسی طرح فرق نہیں آیا بدستور سابق اب تک ہیں جو مسافر آ جاتے ہیں کچھ نہ کچھ لے ہی نکلتے ہیں۔ ہمیشہ اعراب بطور گداگر کے اتے ہیں۔ اور روپیہ درخت کہنہ وغیرہ لے جاتے ہیں۔ کوئی ٹوٹا پھوٹا شاعر بھی جا نکلتا ہے اور اس کی نواب صاحب تک رسائی ہو جاتی ہے۔ تو نوکر نہیں ہوتا تو زادِ راہ مل جاتا ہے۔
نواب صاحب کو شعر وسخن کا شوق ازحد ہے۔ قصیدہ بغیر صلہ کے سُننا حرام جانتے ہیں بخلاف امرائے حیدرآباد۔ نواب صاحب ممدوح شاعر کی قدر ومنزلت

ریختہ صفحہ 300
میں ریاست ٹونک میں بہت اچھی طرح بسر کرتا تھا، تیس روپیہ ماہوار نواب صاحب دیتے تھے۔ دس روپیہ ماہوار بیگم صاحبہ دیتی تھیں۔ خدمتگار کی تنخواہ صاحبزادہ احسان اللہ خاں صاحب دیتے تھے۔ انہیں کے مکان میں رہتا تھا کرایہ مکان کا نہ دینا پڑتا تھا۔سواری احسان اللہ خاں کے یہاں موجود تھی۔ جہاں چاہتا تھا چلا جاتا تھا۔ ایک تانگی سرکار میں سے تعیّنات تھا۔ پندرہ روپیہ ماہوار خواجہ عبدالرحیم خاں صاحب ڈہاکہ سے بھیجتے تھے۔ اہل و عیال قریب تھے۔ جب چاہتا تھا چلا جاتا تھا۔ نواب صاحب بہادر نہایت اعزاز و احترام سے پیش آتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں فاصلہ سے الگ بیٹھا ہوںاور نواب صاحب کی نظر پڑی ہے فرمایا یہاں قریب آ جاؤ۔ ہرچند میں نے عذر کیا ایاز قدرِ خود بشناس فرمایا تم قریب آ جاؤ تم بہرے ہو میرا کلام سمجھ میں نہیں آئے گا اور اپنے قریب طلب فرمایا ہے۔ ہر طرح عزت و حرمت سے بسر ہوتی تھی۔ بیٹھے بٹھائے گردش نصیب کی خواہ مخواہ وطن سے بیوطن ہو کر حسبِ ترغیب بعض احباب حیدر آباد میں چلا آیا اکثر دوستوں کے خطوط پہنچے حیدر اباد میں آ جاؤ۔ یہاں کے امرا ء قدردان ہیں۔ شعر وسخن کا چرچا ازحد ہے۔ تمہارے کلام کے بہت لوگ مشتاق ہیں۔ شعر وسخن کی بڑی قدردانی ہے۔غرضکہ میرا قصد بھی حیدراباد کا ہوا۔ زیادہ تر خیال اس امر کا دامنگیر ہوا کہ میری عمر تو پوری ہو چکی ہے مگر بچوں کا کچھ فکر کرنا چاہئیے اور کچھ نہ ہو گا۔ تو ان کے روزگار کی صورت تو نکل آئے گی۔ اس خیال سے قرض دام کا بندوبست کیا کچھ پارچہ پوشیدنی تیار کرائے۔ چار ماہ کی رخصت لے کر جے پور ملنے آیا۔ مگر جب میں ایا تو بی بی کی طبیعت علیل پائی۔

ریختہ صفحہ301
آٹھ روز کے اندر اندر ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خانہ ویرانی کی صورت پیش آئی جو کچھ روپیہ کا بندوبست زادِراہ کا کر کے لایا تھا۔ وہ تجہیز و تکفین میں صرف ہوا۔ اب ارادہ فسخ ہو گیا۔ میں نے جے پور سے لکھ بھیجا کہ مجھ پر تو یہ واقعہ گزرا ہے۔ پھر تھریر گئی مشیّت ایزدی میں دخل کیا ہے جو امر تقدیری تھا وہ ہوا مگر آپ چلے آئیں۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 307

میر محبوب علی خاں:
بہ نفس نفیس نہایت دانا مدبر و ہوشیار روشن دماغ و روشن خیال، رحیم، رعیت نواز، رعیت دوست، رعیت پرور، خلیق، وجیہ، خوش رو، خوش خو، سخ گستر، حق پسند بہمہ صفت موصوف
-----------------------------------------------
1: مظفر الملک فتح جنگ نواب میر محبوب علیخاں نظام الملک آصف جاہ ششم 18 اگست 1866 کو پیدا ہوئے اور 26 فروری 1869 کو مسند آرائے ریاست ہوئے آپکی تعلیم و تربیت مختلف اوقات میں مولوی محمد خاں شہید مولوی مسیح الزمان خان، مولوی انوار اللہ خاں، مولوی اشرف حسین، مظفر حسین، خوشنویس مرزا نصر اللہ خاں، مسٹر کلارک، سرور جنگ، افسر جنگ، بٹو خاں وغیرہ نے کی۔ آپ کو زبان عربی، فارسی، اُردو اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ فنونِ سپہ گری کے بھی ماہر تھے۔ آپ علماء و فضلاء اور اہلِ کمال کے قدردان تھے۔ سینکڑوں اہلِ علم اور باکمالوں کو آپ سے فیض پہنچا۔ مولوی سید احمد کو فرہنگِ آصفیہ کی اشاعت کے لیے زرِ کثیر دیا۔ آپ ہی نے مولانا شبلی، مولانا حالی، مولوی ڈاکٹر عبدالحق، قدربلگرامی، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولوی عبدالحلیم شرر، ڈپٹی نذیر احمد، سید علی بلگرامی، پروفیسر شہباز، مرزا داغ اور مولانا ظفر علی خاں کی سرپرستی کی۔ مرزا داغ کو جو شعر و سُخن میں ان کے اُستاد تھے۔ جو عزت، شہرت اور عروج حاصل ہوا وہ اُردو زبان کے کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔ آخر میں مرزا داغ کی تنخواہ 15 سو روپیہ ماہوار تھی تعجب ہے کہ حضرت ظہیر مصنف کتاب ہذا کی کماحقہ قدر افزائی نہ ہوئی۔ جیسا کہ اُن کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔

میر محبوب علیخاں آصف تخلص کرتے تھے اور اپنے اُستاد داغ کے رنگ میں غزل کہتے تھے ان کی ایک غزل کے دو اشعار لکھتا ہوں۔

عاشق تیری زلفوں سے پریشاں بہت ہیں
یہ تاکتی یہ لوٹتی، ایمان بہت ہیں

کچھ اور ہو غم حضرتِ آصف کی بلا کو
ہاں تیری محبت میں پریشان بہت ہیں (نظیر)
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 308

فی زمانہ ابراہیم بک عادل شاہ ثانی کہنا چاہیے اور نتیجہ رعایا پروری اور تالیف قلوب کا یہ رنگ ہے کہ تقریب میں رعایا اور ملازمین اپنے پاس سے زرِ کثیر صرف کرکے آرایش شہر و روشنی وغیرہ کا سامان فراہم کرتے ہیں اور محافلِ رقص و سرور گرم کرکے عیش و نشاط مناتے ہیں اور دل و جان سے اپنے بادشاہ مہربان پر نثار اور قربان ہیں۔

رعایائے حیدر آباد تمام و کمال خورسند و خوشخال متمول و مالا مال ہے۔ کسی طرح کی شاکی نہیں۔

آبادی شہر:
بازار از کثرتِ خلائق ایک جہانِ دیگر تصور کرنا چاہیے۔ بیرونِ حصارِ شہر حیدر آباد ہر چہار جانب شہر کوسوں تک بازاور اور مکانات بنے چلے گئے ہیں۔ آدمیوں کا بَن کہنا روا ہے۔ ہزار ہا گھوڑا گاڑی اور جھٹکے وغیرہ دو گھڑی رات پچھلے سے نصف شب تک شہر میں دوڑتے ہیں۔ سواریوں کی کثرت سے پیدلوں کو راستہ چلنا دشوار ہوتا ہے۔ شباہ روز آمد و رفتِ خلقت جاری ہے۔

ملازمین کی تنخواہیں بہ نسبت ریاستہائے ہندوستان ادنیٰ تا اعلیٰ و چند سر چند چہار چند ہیں۔ اور دربار بیش قرار پاتے ہیں۔ متوسلین طبقہ علیہ آصفہ تین طبقہ پر تصور کئے جاتے ہیں۔

طبقہ اعلیٰ طبقہ اوسط طبقہ ادنیٰ

امرائے طبقہ اعلیٰ:
وہ امرا اور جاگیر دار جو خاندان شاہی سے نسبتِ قرابت رکھتے ہیں۔ جیسے نواب شمس الامرا مرحوم کا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 309

خاندان ہے کہ باون گاؤں کے جاگیردار ہیں ان سے بڑھ کر کوئی جاگیردار نہیں اعلیٰ حضرت قدر قدرت کے ہمشیر زادہ ہیں۔

اور بعد ازاں اور امراء ہیں۔ جو امرائے قدیم اور جاگیردارانِ موروثی ہیں۔ مثلاً راجہ رایان مہاراجہ شیو رام بہادر دیانت دنت آصفجاہی۔
و مہاراجہ راجگان مہاراجہ چند ولال بہادر سیکنٹھ باشی کا خاندان و نواب مختار الملک سالار جنگ بہادر مرحوم کا خاندان۔ اس قدر امرائے دولتِ آصفیہ تو طبقہ اول میں تصور کئے جاتے ہیں۔

امرائے طبقہ دوم:
اِس طبقہ میں تین لاکھ روپیہ سے لے کر پچاس ہزار روپیہ کے جاگیردار منصبدار اور اراکینِ دولت پنشنخوار درماہی دار مثل معین المہامان و دیگر ملازمینِ محکمہ جات و حکام و تعلقہ داران وغیرہ وغیرہ پانچ ہزار سے لے کر دو سو روپیہ کے تنخواہ دار منصب دار تک طبقہ دوم میں شمار کئے جاتے ہیں۔

امرائے طبقہ سوم:
اس طبقہ میں دو سو روپیہ سے لے کر پانچ روپیہ کے نوکر اہلکار محکمہ جات و ملازمین صیغہ فوج سوار و پیدل وغیرہ تصویر کیے جاتے ہیں۔

حیدر آباد کا سو روپیہ ماہوار کا ملازم اور ریاست ہائے ہندوستانی کا تیس روپیہ کا درماہی دار حیثیت میں برابر ہے۔

حیدر آباد میں جو سو روپیہ میں بسر اوقات کرسکتا ہے وہ شمالی ہندوستان میں
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 310

تیس روپیہ میں کرسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں سب اشیاء ارزاں ہیں۔ حیدر آباد میں گراں، اول تو روپے کے خوردے میں ڈھائی آنہ کا فرق ہے۔

اقتصادی حالات:
اب اجناس کو غور کیجیے۔ گوشت یہاں فی روپیہ چار سیر کا فروخت ہوتا ہے ہندوستان میں آٹھ سیر کا بکتا ہے (لیکن اب وہ وقت نہیں رہا۔ ہر جگہ آٹھ آنہ سیر کا نرخ ہے۔ ممکن ہے کہ حیدر آباد میں بھی اضافہ ہوگیا ہو) دو چند فرق ہوگیا۔ غلہ یہاں دس سیر کا ہو تو وہاں سترہ اٹھارہ سیر کا ملتا ہے ایک ادنیٰ رقم ہے کہ ایک غریب آدمی کے گھر کے کپڑے دھوبی چار آنے مہینے میں دھوتا ہے۔ حیدر آباد میں ایک آدمی کے کپڑوں کی دھلائی ایک روپیہ ماہوار طلب کرتا ہے اور مہینے میں دو بار بمشکل دھوکے دیتا ہے۔ حجام خط کی بنوائی ایک آنہ لیتا ہے۔ (اب دہلی میں بھی یہی مقرر ہے) ہندوستان میں غریب آدمی حجامت کا ایک پیسہ دیتا ہے۔ آسودہ حال دو پیسے دیتے ہیں۔ یہاں جتنے کمینہ پیشہ ور ہیں سب خوش و خرم مرفہ الحال ہیں۔

اور طبقہ سوم کے شریف تہیدست، دنیا کی قلتِ معاش۔ حیدر آباد کے اخراجات ہی حسبِ حیثیت تمول حدِ اعتدال سے بدر جہا بالاتر ہیں یہاں قلیل المعاش کی بسر اوقات غیر ممکن ہے۔ خصوصاً مسافرین امیدوارِ روزگار نہایت خراب و خوار ذلیل ہوتے ہیں۔ کوئی دروازہ پر آنے کا روادار نہیں ہوتا ہے۔

سوائے ذاتِ بابرکات بندگانِ عالی اعلیٰ حضرت قدر قدرت خلد اللہ ملکہ، و مہاراجہ ۔۔۔۔ السلطنت مدارالمہام بہادر۔
 

La Alma

لائبریرین
ریختہ صفحہ 36

دوسرا باب
‎سلطنت مغلیہ کی حالت

‎جہاں کھودو وہیں بنیاد کے پتھر نکلتے ہیں
‎بہت معمورۂ ہستی میں اجڑے گھر نکلتے ہیں

‎فَاعْتَبِرُوا يَا أُوْلِي الأَبْصَارِ
‎ہر چند سلطنت تو ڈیڈھ سو برس پیشتر خاندانِ عالی شانِ تیموریہ و دمان اولعزم گور گانیہ کو ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ کہہ کر رخصت ہو چکی تھی برائے نام بادشاہت رہ گئی تھی کیونکہ ایک چھوٹی سی چھوٹی ریاست ہندوستانی کے برابر بھی بادشاہ دہلی کو وسعتِ مقدرت واستطاعت نہ رہی تھی۔ بقول سودا؀۱
‎کہ ایک شخص ہے بائیس صوبہ کا خاوند
‎رہی نہ اسکے تصرف میں فوجداری کول
‎فقط ایک لاکھ روپیہ ماہوار تو سرکار انگریزی سے آتا تھا اور کسی قدر پرگنات و محالات و تہ بازاری و کرایہ دکاکین و آمدنی باغات و طیول و نزول خالصہ وغیرہ کی آمدنی تھی۔ من کل الوجود سوا لاکھ روپیہ ماہوار تصور کر لینا چاہیے مگر عظمتِ جلال؀۱سودا کی مراد مغل بادشاہ یعنی شاہ عالم ثانی سے ہے۔ عہد مغلیہ میں ہندوستان ۲۲ صوبوں میں منقسم تھا
؀۱ شاعر


ریختہ صفحہ 37

شان و شوکت و تزک و احتشام و ادب و آداب دربار و انتظام سواری کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ہاں کسی زمانے میں یہ خاندانِ عالی شان سزاوار فرمانروائی ہندوستان جنت نشان ہو گا۔ جل جلالہ مگر باوجود انحطاط و کسر ِتمول و قلتِ معاش دو امر حیرت خیز و تعجب انگیز ایسے نظر سے گزرے ہیں کہ مجھے آج تک ورطہء حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اول تو خدائے عالم نے اس لاکھ روپیہ میں ایسی برکت عطا فرمائی تھی کہ وہ خیر و برکت و دست و استطاعت کروڑوں روپیہ کی ریاستوں میں بھی نہ دیکھی

شریف اگر متضعف شود خیال مبند
کہ پائگاہِ بلندش ضعیف خواہد شد

چار روپیہ کا سپاہی ہے۔ وہ بھی خوشحال ہے اور بیش قرار در ماہہ وار ہے وہ بھی مالا مال ہے۔ گردشِ روزگار کا کسی کو شاکی نہ پایا۔ یہ ثمرہ خوش نیتی تو نتیجہ علو ہمتی کاہے۔ دوم قرائنِ دربارِ سلطانی و سطوتِ جہانبانی جو دربار شاہی میں دیکھے۔ وہ کسی ریاست میں نہ پائے۔ خرچ و اخراجاتِ شاہی پر جو نظر مغائر ڈالی جاتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یاالہی یہ کیا معاملہ تھا۔ اتنی برکت خزینہء شاہی میں کہاں سے آگئی تھی کہ ان اخراجات کو مکتفی ہوتی تھی۔
شاہی کارخانہ جات خاصۂ کلاں، خاصہ خورد، آبدار خانہ، دوا خانہ، توشہ خانہ،جواہر خانہ، اسلحہ خانہ، خانسامانی، فیل خانہ، اصطبل بگھی خانہ، توپ خانہ، شتر خانہ، رتھ خانہ، کارخانہ جلوس ماہی مراتب ( چتر و علم) بخشی خانہ فوج، کتب خانہ کبوتر خانہ، داروغہ نذر نثار، داروغہ فراش خانہ، پالکی خانہ، داروغہ کہاراں، داروغہ خاص برداراں، جمعدار صبیان، نواب، ناظر افسر خواجہ سرایاں، کارخانہ داران کے نام بنظر ِطوالت قلم انداز کیے گئے۔

‎ریختہ صفحہ 38

‎افواج
سپاہ پلٹن۔اگری پلٹن- بچہیرہ پلٹن۔ خاص برادران۔ رسالہ سواران

معززین و دربار معلّٰی
وزرا پیر و مرشد اوستادان۔ علماء۔ حکما- شاہزادگان۔ نواب ناظر- بخشی فوج۔ برادران کسان کمیدان- کاملین پر فن مہتممان کارخانہ جات۔ عرض بیگیان

صیغہ ہائے تقسیم تنخواہ
تنخواہ محلات و شاہزادگان- صیغہ سرکارِ قدیم۔ صیغہ علاقہ بخشی گری۔ صیغہ روزینہ داران- تعلقہ نظارت، معززینِ دربار، ملازمانِ فوج

‎ ِدربارِشاہی کے آداب
جو قرینے دربار سلاطین دہلی کے تھے سوائے سلطنتِ ایران کے کسی سلطنتِ یورپ میں مروج نہیں دیوانِ خاص کے وسط میں تختِ طاؤس نصب ہوتا تھا. اور بالائے تخت نمگیرہ زریں چوبہائے نقرہ ملمع طلائی پر نصب کیا جاتا تھا۔ تخت طاؤس کے برابر چار گوشوں پر چار طاؤس طلائی مینا کار نصب ہوتے تھے۔ اور ان کے منقاروں میں بڑے بڑے موتیوں کی مالائیں جن میں زمرد کے گچھے ہوتے تھے آویزاں ہوتی تھیں۔ تختِ طاؤس میں مسند تکیے لگائے جاتے تھے۔ جب باد شاہ دربار فرماتے تختِ طاؤس کے دونوں پہلوؤں میں دو طرفہ دو صفیں دربار داروں کی دست بستہ استادہ ہوتی تھیں۔ سب نیچی نگاہیں کیے کھڑے رہتے تھے۔ خاموش مجال کیا ہے کہ کوئی کسی طرف دیکھے یا کھجائے یا مسکرائے یا بات کرے۔ دربار کے دونوں گوشوں پر دو قطار لکڑی بردار دو لکڑیاں سرخ لیے کھڑے رہتے تھے۔ ذرا سی کسی سے بے اعتدالی ہوئی

ریختہ صفحہ 39

اور گردن میں لکڑی ڈال کر دربار سے باہر کیا گیا۔ اور روسائے ہند کا سا دربار نہ تھا۔ دیوانِ خاص کے مقابل لال پردے کا دروازہ تھا وہاں سرخ بانات کا پردہ کھچا رہتا تھا۔ جو شخص دروازہ میں سے داخلِ دیوانِ خاص ہوتا تھا پہلے لال پردے کے آگے آ کر سلام گہہ پر آ کر استادہ ہوتا تھا۔ آداب و تسلیمات بجا لاتا تھا۔ اور تین سلام مودب بہت جھک کر بجا لاتا اور نقیب لال پردے کے برابر سے آواز لگاتا ملاحظہ آداب ہے۔ آداب بجا لاؤ۔ جہاں پناہ بادشاہ سلامت عالم پناہ بادشاہ سلامت۔ بعد اس کے شخص سلامی پہلو میں ہو کر عقب حمام کی جانب کے زینہ سے دیوانِ خاص کے چبوترہ پر چڑھتا اور نعلین خالی کرتا اور دیوانِ خاص میں جا کر دوبارہ دوسری سلام گاہ پر آداب بجا لاتا
‎اور نقیب دربار بطور اول آواز لگاتا اورسلام کراتا۔ اگر نذر گزارنی ہے تو سیدھا تخت کی طرف جا کر نذر پیش کرے گا اور بادشاہ نذر اٹھا کر نذر نثار کے داروغہ کو دے دیتے۔ نذر نثار کا داروغہ تخت کے پہلو میں استادہ رہتا تھا اور ایک متصدی لکھتا جاتا تھا۔ مگر نذر دے کر پھر پچھلے قدموں ہٹ کر سلام گاہ تک جاتا اور بقاعدہ اوّل پھر اسی طرح آداب بجا لاتا اور جہاں جا ملتی صفِ دربار میں جا ملتا تھا۔ تخت کے عقب میں خواص لوگ عہدے سے کھڑے رہتے تھے۔ وہ بالِ ہما سے مگس رانی کرتے تھے۔ اگر کچھ عرض معروض کرنی ہی تو عرض بیگی دو صفوں میں دربار کے سرے پر کھڑے رہتے تھے۔ عرضی ان کو دے دی جاتی تھی اور وہ عرضی لے جاتے تھے۔ بادشاہ کے سامنے عرضی کو کھول کر ملاحظہ کرا دیتے تھے۔ پشت عرضی عرض بیگی کی جانب ہوتی تھی۔ بعد ملاحظہ عرضی خواص قلمدان پیش کرتا تھا۔ اور وہ بصورتِ آئینہ گھر کے مجوف تھا۔ اس میں قلم ہر طرح کے رکھے رہتے تھے۔ عرضی کو اس پر رکھا گیا اور بادشاہ نے پنسل سے دستخط فرما دئیے۔ جس محکمہ کے نام حکم ہوا فورًا تعمیل ہوگئی۔ یہ قاعدے دربار شاہی کے تھے؀۱۔
‎(حاشیہ اگلے صفحے پر)

ریختہ صفحہ 40

اہلِ کمال
جو کاملین جس علم و فن کے ملازم سرکارِ بادشاہی تھے وہ فردِ کامل اور انتخابِ روزگار تھے۔ ان کی نظیر اور مثال بجائے دیگر غیر ممکن اور محال اگر بفرضِ محال تھے بھی تو اسی سرکار ذدی الاقتدار کے وظیفہ خوار شمار کیے جاتے تھے۔ اگر کسی دوسری جائے نوکر بھی ہو جاتے تو تھوڑا بہت وہاں سے بھی روزینہ پاتے رہتے تھے۔ برس چھ مہینے میں آ کر آستانہ بوسی کر جاتے تھے۔ بعد بربادئ قلعہ معلّٰے اکثر اشخاص خانہ ویراں ہو کر اطراف و جوانبِ ہندوستان میں منتشر و پریشاں ہو گئے
--------------------------
(حاشیہ صفحہ نمبر ۳۷) ابو للظفر محمد سراج الدین ظفر خاندانِ مغلیہ کے آخری بادشاہ اکبر شاہ عالم ثانی کے پوتے تھے۔ ۱۷۷۳ء میں پیدا ہوئے ۱۸۳۷ء میں اکبر شاہ ثانی کی وفات پر بہادر شاہ ثانی کے لقب سے تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے حکومت انگریزی سے اپنے وظیفہ میں اضافہ کے لیے درخواست دی تھی اور رام موہن رائے مشہور برہمو سماج لیڈر کو راجہ کا خطاب دے کر وظیفہ میں اضافہ کے مقدمہ میں وکالت کے لئے انگلستان بھیجا تھا مگر حکومت نے یہ درخواست منظور نہ کی۔ ظفر کے عہد میں انگریزوں نے بادشاہ کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کر دی۔ اسی میں گورنر جنرل اور کمانڈر انچیف ہند کی طرف سے بادشاہ کو نزر دینے اور اپنے تقرر کی تصدیق کرانے کا طریقہ ہی چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ کمپنی کی حکومت شاہی خاندان کو قلعہ سے نکالنے اور ظفر کے بعد دہلی کی برائے نام مغل شہنشاہی کو بھی ختم کر دینے کے درپے تھے۔ کہ عذر ہو گیا۔
ظفر ایک قادرالکلام اور خوش گو شاعر تھے۔ شعراء اور اہلِ کمال کے قدردان تھے۔ استاد ذوق کے شاگرد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مرزا غالب کو کلام دکھانے لگے۔
(نظیر)
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 14

پیروی کرتے تھے۔ زیرِ نظر کتاب میں انہوں نے بعض الفاظ اسی طرح لکھے ہیں جس طرح عوام بولتے ہیں۔ وہ خود میں لکھتے ہیں۔

”میں اپنا سیدھی سادی روز مرّہ کی زبان میں اپنی سرگزشت لکھ رہا ہوں۔ اخبار نویس نہیں۔ قصّہ خواں نہیں۔ میری زبان مادری ہے زمانۂ شیر خواری سے جو الفاظ اپنے پالنے والوں کی زبان سے سُنے ہیں وہ میرے ذہن نشین ہو گئے ہیں۔ اور میرے استاد اور اتالیق نے جو مجھے تعلیم کئے ہیں وہ نقش کالجریں میری زبان اور میرے قلم سے وہی کلمے نکلتے ہیں۔“

چونکہ ظہیر نے اس کتاب میں کہیں بھی کوئی تاریخ یا سن نہیں لکھا اس لیے یہ طے کرنا بڑا مشکل ہے کہ یہ کتاب ظہیر نے کِس سن میں تحریر کی۔ چونکہ اس میں محبوب علی خان اور ریاست حیدر آباد کے حالات بھی ہیں۔ اس لئے قیاس یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب حیدر آباد میں ہی قلم بند کی ہو گی۔

حیدر آباد ؁۱۹۱۰ء میں گئے اور ؁۱۹۱۱ء میں وہی فوت ہو گئے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے کتاب کا بیشتر حصہ پہلے سے لکھا ہوا ہو۔ اور حیدر آباد میں اس کی تکمیل کی ہو۔ بہرحال کتاب کسی عہد میں بھی لکھی گئی۔ اس کی زبان وہ ہے جو ذوق، غالب اور مومن کے عہدیں شہر دِہلی کے شرفاء کی زبان تھی۔ مثلاً انہوں نے ہر جگہ جا یا جگہ کی بجائے لفظ ”جائے“

صفحہ 15

استعمال کیا ہے۔ مثلاً ”روپیہ رکھنے کو جائے نہ تھی۔“ ذوق کہتا ہے۔

سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے

یہ نقیب اللہ اکبر اور لوٹنے کی جائے ہے

اب ہم کہتے ہیں لوٹنے کی جا ہے۔ شکر کا مقام ہے جائے نہیں بولتے۔

ظہیر نے اس کتاب میں ہر جگہ، ”برابر“ کو مؤنث لکھا ہے۔ مثلاً فلاں شہر جے پور کی برابر ہے۔ ہم کہیں گے جے پور کے برابر ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ”مکان کرائے کو لیا۔“ ہم کہیں گے مکان کرائے پر لیا۔ انہوں نے ہر جگہ لفظ ”بعد“کو میں کے بغیر استعمال کیا ہے۔ مثلاً ”بعد ہم نے ایک روز۔“ ہم کہیں گے ”یہ کہیں گے ”بعد نیں ہم نے ایک روز انہیں ۔“ انہوں نے لکھا ہے۔ ”ہمیں کرسٹان بنانا چاہا“ تو ہم کہتے ہیں ہمیں عیسائی بنانا چاہا۔ انہوں نے گاڑی کو ہندی میں ہر جگہ گاڈی لکھا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ”خلقت نے ہماری گرویدگی اختیار کی۔“ ہم کہیں گے۔ ”خلقت ہماری گرویدہ ہونے لگی یا ہو گی۔“

غرض کتاب کی زبان کم و بیش سو سال پرانی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظہیر مرحوم نے جیسا کہ انہوں نے تمہید میں بیان کیا۔ دہلی سے نکلنے کے بعد سالہا سال تک باہر زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنی گھریلو زبان کو قائم رکھا۔ غزل میں ان کی زبان وہی ہے جو مومن یا آزردہ یا حالی کی غزل کی ہے۔ لیکن نثر میں انہوں نے نہ غالب کی نثر کا تتبع کیا۔ نہ حالی کی نثر کا۔ بلکہ نثر میں وہی زبان اختیار کی جس میں وہ بچپن سے اپنے گھر میں اور احباب میں بات چیت کرتے تھے۔

صفحہ 16

اگرچہ یہ ظہیر دہلوی کی ۷۶ سالہ زندگی کی روداد ہے۔ مگر اس میں ضمناً اردو، اردو ادب، شہر دہلی اوت بعض ہندوستانی ریاستوں کی تاریخ کے چند اوراق بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ہم نہ شہر دہلی رہا نہ وہ ریاستیں رہیں تاہم ان کے ضمنی ذکر سے اس کتاب کی علمی حیثیت دو چند ہو گئی ہے۔

میں نے مکرمی مولانا صلاح الدّین احمد صاحب کے ایماء سے اس کتاب کی تصحیح کی۔ جابہ جا ضمنی سُرخیاں اور فٹ نوٹ لکھے۔ مصنف نے بعض جگہ ایک ہی عنوان کے ماتحت مختلف واقعات لکھ دیے تھے۔ اس لئے ضمنی سُرخیاں قائم کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مگر مصنّف کی عبارت میں نہ کوئی کمی بیشی کی گئی نہ ترتیب بدلی۔ اس طرح اب اس کتاب کو ایسی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے جو اس کی شان کے شایاں ہے۔

اصغر حسین خاں نظیر لودھیانوی

لاہور مورخہ ۹ فروری

؁۱۹۵۳ء

صفحہ 17

گذارش

اورنگ زیب عالمگیر کی وفات (؁۱۷۰۷ء) سے لے کر بہادر شاہ ظفر کی جلاوطنی تک ڈیڑھ سو برس کا زمانہ اگر ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے زوال کا زمانے ہے، لیکن یہی وہ زمانہ ہے جب وہ تمدّن فروغ پذیر ہوا جسے ہم ”ہندو مسلم“ تمدّن یا آسان تر لفظوں میں ”زبانِ اردو کا تمدّن“ کہہ سکتے ہیں۔ اردو شاعری اور فارسی نثر نگاری اس تمدّن کی امتیازی خصوصیات تھیں اور مغلیہ ہندوستان کے اہلِ قلم اور اہلِ ذوق، عام اس سے کہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو، اپنی علمی ضروریات اور ادبی مشاغل کے لئے انہی دو زبانوں کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ رؤساء اور امرائے شہزادگان اور راجگان یکساں طور پر فارسی اور اردو کے ان انشا پردازوں اور شاعروں کی سرپرستی فرماتے تھے۔

؁۱۸۵۸ء کے ہنگامۂ آزادی کے بعد صوتِ حال بدل گئی لیکن اس تبدیلی نے بھی اپنی تکمیل کے لئے کم و بیش نصف صدی کا عرصہ لیا۔ منشی ہرگوپال تفتہ فارسی زبان کے آخری صاحبِ دیوان ہندو شاعر اور مہاراجہ کشن پرشاد شاد، فارسی اور اردو شعر و ادب کے آخری سر پرست ہندو امیر تھے۔

زیرِ نظر کتاب کے مصنف سیّد ظہیر الدّین حسین ظہیر دہلوی نے ہنگامۂ ؁۵۷ء سے ربع صدی پہلے اور نصف صدی بعد کا زمانہ پایا ہے اور اس عہد کی تبدیلیوں اور کیفیتوں کو چشم عبرت سے دیکھا اور اس کے گرم و سرد کو زبانِ تجربہ سے چکھا ہے۔ اور اپنی اس خود نوشت سوانح عمری میں اپنی معلومات اور محسوسات کو بڑی سادگی اور بے تکلّفی سے بیان کر دیا ہے۔

صفحہ 18

یہ کتاب انیسویں صدی کے ایک ایسی سادہ مزاج اور راست بیان شخص کے وارداتو مشاہدات پر مشتمل ہے جسے اپنے ملک میں اس صدی کو سب سے بڑا انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے نتائج و عواقب کو اپنی جان پر لیا تھا۔ پھر اسی سلسلے میں وہ ہندوستان سے نکل کر اس کے دور دراز گوشوں تک پہنچا اور زندگی کی متنوّع کیفیتوں سے بدرجۂ شدید اثر پزیر ہوا۔ پس طراز ظہیری حقیقت میں انیسویں صدی کی ایک دلپذیر داستان ہے جسے شرفائے دہلی کے ایک خانماں بباد نے بڑے دلپزیر پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس بیان میں ظہیر کا اندازِ نظر ہمیشہ راشن اور دامنِ خیال ہمیسہ کشادہ رہا ہے اور یہی اس داستان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ یہ کتاب آج سے کم و بیش چالیس برس پیشتے پہلی بار حبیھ مکرم آغا محمد طاہر صاحب نبیرۃ حضرت آزاد کے اہتمام سے چھپی تھی۔ اب اردو کے کلاسیکی ادب کے احیاء و تجدید کے ضمن میں اس کی دوبارہ اشاعت کا خیال پیدا ہوا، تو میں صاحبِ موصوف سے اس کی اشاعت کے حقوق مانگے اور بڑی آسانی سے حاصل کر کے آغا صاحب نے اس تصنیف لطیف کو روشناسِ خلق کر کے زبان و ادب پر ایک احسان بے پایں کیا تھا۔ میں نے اس احسان کا محض سائی دراز کرنے کی سعی کی ہے۔ خدا کرے کہ میری ناچیز کوشش اہلِ ذوق اور اہلِ علم کو پسند آ جائے۔

میری درخواست پر محبِ گرامی خان اصغر خان صاحب نظیر لدھیانوی نے اس کے مطبوعہ متن کی تصحیح فرمائی اور ایک نظر افروز دیباچہ بھی رقم فرمایا۔ اردو کے پرانے خادموں میں آپ کا دم غنیمت ہے اور اس تجدّد کے زمانے میں جو لوگ اب بھی اسلاف کا نام لیتے اور یادِ رفتگان کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ خانِ موصوف ان میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ اس کتاب کی طباعت کے سلسلے میں متعدد حادثات پیش آئے۔ بیشمار فرمے ضائع ہوئے۔ پھر بھی چھپائی مرضی کے مطابق نہ ہو سکی۔ موجودہ زمانے میں بہت کم پریس اپنے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں، ورنہ صرف کاغذ سیاہ کرنا جانتے ہیں۔ اکادمی اب اہنے ذاتی پریس کا انتظام کر رہی ہے۔ خدا کرے یہ مرحلہ بہت جلد طے ہو جائے اور ہم جو محنت تدوین و نگارش میں صرف کرتے اور جو زرِ کمیاب اچھے کاغذ کی فراہمی اور عمدہ جلد کی تیّاری میں خرچ کرتے ہیں، وہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ وما توفیقی الا باللہ العلیٰ العظیم


خاکپائے رستگاں صلاح الدین احمد

۱۸ مئی ؁۸۸ء

صفحہ 19

تمہید

بعد حمد و ستائش خداوندِ پاک اضعف العباد فقير سید ظہیر الدّین حیسن حسین دہلوی۔ خدمتِ احباب کرم فرما و مخلصان بے ریاد اصحاب با صفا میں گزارش پرواز ہے کہ عرصہ بعید و مدت مدید سے اکثر محبان با صفا و دوستانِ باوفا جو یائے حالِ پراختلال اس شکستہ بال کے تھے اور کیفیت سرگزشت گزشتہ را صلواۃ تصوّر کر کے بلطائف الحیل ایٗام گزاری کرتا رہا۔ انجام کار جب احبابِ صادق الوداد کا تقاضا حدِ اصرار سے تجاوز کر گیا اور فقیر کو بجز اقبال گنجائش عذر و معذرت نہ رہی اور خطوط کا ایک دفتر فراہم ہو گیا۔ ناچار بپاسِ خاطر چند محبان اخلاص کیش قدرے اجزائے پُرملال بسان نامۂ اعمال سیاہ کرنے کا اتفاق ہوا اور تمامی سرگزشت بطور سوانح عمری روزِ ولادت سے تازیانۂ شیخو خیت راست راست بےکم و کاست بلا تصنّع و بال مبالغہ و ۔۔۔۔ بلا تصرّف و بلا تحریف جو حوادث سر پرگزرے اور جو واقعات مدۃ العمر میں پیش آئے ہیں، قلم برداشتہ بقید و مز و تحسین و آفرین کا طلبگار نہیں۔ عبارت نگاری اور انشاپتردازی سے بحث نہیں راست بیانی اور صدق گفتاری سے کام ہے۔ مقفّٰی و مسبّح سے طبیعت عاری ہے۔ ہر چند کہ میری طرزِ تحریر آج کل کے عبارت نگاروں کے خلاف ہے۔ ہوا کرے۔ مجھے

صفحہ 20

اپنے ادائے مطلب سے مراد ہے۔ کسی کی ؑزب البیانی و رطب السانی سے کیا غرض میں اپنی سئدھی سادی روز مرہ کی بول چال میں اپنی سرگزشت لکھ ریا ہوں۔ اخبار نویس نہیں، قصہ کاں نہیں۔ میری جو زبان مادری ہے، زمانۂ شیرخوارگی میں جو الفاظ اپنے پالنے والوں کی زبان سے سُنے ہیں وہ میرے ذہن نشین ہو گئے ہیں۔ اور میرے استاد و اتالیق نے جو مجھے تعلیم کیے ہیں وہ نقش کالحجر ہیں،۔ میری زبان اور قلم سے سہ ہی کلمے نکلتے ہیں اب اگر لاکھ دوسروں کی تقلید کروں تو کیا ہو سکتا ہے، زبان مادری بدلی نہیں جا سکتی ہے۔

اکثر مکالمات اور بیانات میں جو الفاظ میں نے دوسروں کی زبان سے سُنے ہیں مِن و عَن وہ کے وہ ہی برقرار رکھے ییں۔ اپنیجانب سے تبدّل اور تحریف کو روا نہیں رکھا۔ جو واقعات میری نظر سے گزرے اور بیانات کہ میں نے اہنے کان سے سُنے اسی برح درج صحیفہ کئے ہیں۔ دروغ برگردنِ راوی۔

مثلاً ایامِ غدر میں جو معرکۂ جنگ کے حالات زبانی مردمانِ فوج باغیہ میرے گوش گزار ہوئے وہ ہی لکھتا ہوں۔ اور بازاری گپوں کا اعتبار نہیں، ان سے مجھت احتراز ہے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 70
کمر کمر پانی میں غوطے لگا رہی ہیں۔ اکثر شوخ کم سن الہڑ پنے کے دن آپس میں چھینٹم چھینٹا ہو رہی ہیں ؎
کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سِن کیلئے
کوئی پری پیکر مہ جمال جمنا کا اشنان کر کے کھڑے کھڑے بالوں کو مروڑی دے کر نچوڑ رہی ہے۔ کوئی خشک ساڑھی باندھ کر گیلی ساڑھی کو مروڑی دے رہی ہے ؎
فشر و پنجہ مرجاں زابرِ مروارید
قمر زجیب شبِ اشکبار پیدا شد
گھات میں ایک مصری مہاراج موٹے تازے چوڑے چکلے ننگ دھڑنگ ٹانگوں میں لنگوٹی سر پر چوٹی جٹا لٹکائے توند پھیلائے آلتی پالتی مارے ہوئے براج رہے ہیں۔ ایک پتھر کے چھوٹے سے چکلے پر ایک ہاتھ سے صندل گھستے جاتے ہیں۔ ایک جانب مہا دیو کی بٹیا دھری ہے۔ مقابل میں اُس کے گورا پاربتی کی مورت رکھی ہے۔ اور سنگ مر مر کا ایک نادیا بیل بیٹھا ہوا ہے۔ ایک کمل کے آسن پر کچھ پوجا پتری کا سامان سنکھ وغیرہ دھرا ہوا ہے۔ مہا دیو پر کچھ دودھ کچھ پانی لنڈھا ہو اہے۔ کچھ پھولوں کی پنکھڑیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ایک جانب کوڑی پیسوں کا ڈھیر ہوتا جاتا ہے۔ اور ایک جانب اناج کا انبار ہے۔ نازنینانِ پری پیکر جو نہا دھو کر دربار سے نکلتی ہیں تو لباس پہن پہن کر پہلے آ کر مہادیو کے درشن کرتی ہیں اور مصر جی مہاراج کو پالا گن کہتے ہیں۔
مصر جی مہاراج ایک ہاتھ کی انگوٹھی سے پیشانی پر صندل کا ٹیکہ لگا دیتے اور ایک پنکھڑی قلسی کی منہ میں دے دیتے اور وہ روانہ ہوتی جاتی ہیں۔
میرٹھ میں غدر کی ابتداء
صبح ہوئی۔ گجر بجا۔ مرغِ سحر کا غل ہوا۔
کرنے لگے چمن چمن مرغ چمن نواگری

صفحہ 71
مسجد و خانقاہ سے شور اُٹھا صلوٰۃ کا
وَیر میں جا کے برہمن کرنے لگے ہری ہری
مرغانِ خوش الحان درختوں پر بیٹھے ہوئے حمد الہٰی چہچہا رہے ہیں۔ پڑی کے باغیچے میں چڑیوں کے چوں چوں کا وہ غُل شور ہے کہ کان پڑی آواز نہیں آتی۔ مستانِ بادہ توحید عالم وجد میں جھوم رہے ہیں۔ عجب کیفیت کا وقت ہے۔ سُرخی شفق اُفقِ آسمان پر پھولتی چلی جاتی ہے۔ مطلعِ خورشید گلناری ہوتا جاتا ہے۔ دامانِ سفیدہ چاک ہو کر آسمان کی رنگت نیلی نظر آنے لگی ہے۔ سورج کی گنگا جمنی کرنیں سنہرے رو پہلے تادوں کی طرح پھیلی جاتی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں قلعہ معلّٰے کے بلند منظروں کے سنہرے کلسوں پر پڑ پڑ کر اپنی چمک دمک دکھا رہی ہے۔ بیٹھک کا سنہری بُرج عکسِ شفقی سے سنہری نظر آتا ہے۔ اس برج کو ثمن برج کہتے ہیں۔ یہ بادشاہان تیموریہ کی خاص نشستگاہ ہے اس کے نیچے چھت بھی اور چھتہ میں سیڑھیاں ہیں۔ اور دیوانِ خاص میں سے نیچے دریا کی طرف رستہ اُترتا ہے اور نیچے اُتر کر دریا کے کنارہ پر بطور پشتہ ایک چبوترہ ہے جس کو پٹری کہتے ہیں اُس پر باغیچہ ہے جس کو پائینِ باغ دیوانِ خاص کہنا چاہیئے جس کا عرض تخمیناً بیس پچیس گز کے قریب ہو گا۔ سطح دریا سے پانچ چار گز کا ارتفاع ہے۔ ثمن برج وقتِ طلوعِ آفتاب مجازی آفتاب میں مشرق کی جانب سے آفتابِ دیگر کے قریب نظر آتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیئے کہ چودھویں تاریخ کا چاند وقت غروب و طلوع آفتاب کے مقابل میں دوسرا آفتاب ہو جاتا ہے۔ یہ برج اندر سے بہت چوڑا چکلا ہے۔ اور ہشت پہل ہے۔ اس لئے اس کا نام مثمن برج رکھا گیا ہے جس کو اب ثمن برج کہتے ہیں۔ بادشاہ شاہ جہاں بعد نماز صبح اسی کے جھروکوں میں بیٹھ کر درشنیوں کو درشن دیا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ

صفحہ 72

قاعدہ مستمرہ آج تک جاری ہے۔ اُس کے شمالی شرقی جنوبی طرف کو پُر تکلف نفیس خوش نما غرفے ہیں۔ اُن کو جھروکے کہتے ہیں۔ نیچے داہنی جانب کو ایک جنگلہ ہے جس میں میر فتح علی داروغہ کہاروں کا نشیمن ہے اور برابر میں دوسرا بنگلہ ہے اس میں حمید خاں رامپوری جمعدار خاص برداراں کا قیام ہے اور اُس کی برابر میں چھوٹا چھپر اور ہے اُس میں سیدی قمر جمعدار حبشیوں کا اور اُس پڑی کا طول قلعہ معلّٰی کی طول کی برابر ہے۔ اس پر پہرہ داروں کے خس پوش مکان بنے چلے گئے ہیں۔ حضرت ظلِّ سبحانی خلیفہ الرحمانی سراج الدین ابو ظفر بہادر شاہ ثانی فریضہ صبح سے فارغ ہو کر جھروکوں میں بیٹھے ہوئے وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ سواری کی تیاری ہے۔ تخت رواں جس کا سنہری ہودا ہے۔ اور چار ڈنڈے ہیں اُس پر زربفت کی مسند تکیے لگے ہوئے ہیں۔ اور کا شانی مخمل کا غلا ف پڑ اہوا ہے وہ تسبیح کے صحن میں پڑا ہے۔ ڈیوڑھی کے دروازہ پر باناتی پردہ پڑا ہے۔ تسبیح خانہ کے صحن میں خواجہ سرا اور خواص بادشاہی وغیرہ اور چند معززین دربار حاضر ہیں انتظار برآمد حضور ہے۔ تسبیح خانہ کے چبوترہ کے نیچے پچاس ساٹھ کہار جن کی نوکری ہے سُرخ بانات کی دریاں اور سُرخ پگڑیاں باندھے ہوئے کمربستہ استادہ ہیں۔ ثمن برج کے نیچے پڑی پر کوئی دو سو خاص بردار سرمئی دستار اور سرمئی ٹپکے باندھے ہوئے بغلوں میں تلواریں دبائے دست بستہ کھڑے ہیں ایک جانب کو تیس جوان حبشی نوعمر گراں ڈیل سرخ کمخواب کی وردیاں سرخ مندیلیں سرخ پٹکے باندھے دست بستہ موّدب کھڑے ہیں۔ نیچے پٹری کے پار رسالہ سواروں کا پرا جمائے ہوئے استادہ ہے۔ مہدیوں کے تختہ میں میر فتح علی اور حمید خاں اور شیدی قمر مسلح دست بستہ کھڑے ہیں۔ جھروکہ کی جانب سب کی نگاہ ہے کہ یکایک بالائے جھروکہ سے ہنکارے کی آواز آئی۔ میر فتح علی

صفحہ 73
ہاتھ جوڑ کر آگے بڑہا۔ اشارہ سبابہ سے دریا کے پُل کی جانب ایما ہوا۔ اب جو دریا کے پُل کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ دریا پار جو میر بحری کا بنگلہ ہے اس میں آگ لگ رہی ہے اور شعلے اُڑ اُڑ کر آسمان کو جاتے ہیں۔ دریا کا کنارہ گردوغبار اور دردِ آتش سے دہواں دہاروتیرہ تار ہو رہا ہے۔ میر فتح علی نے رسالدار کو حکم دیا کہ سوار بھیج کر خبر منگاؤ کہ یہ روشنی کیسی ہے۔ رسالہ سے نکل کر دو سواروں نے جو گھوڑوں کی باگیں لیں تو گرد باد ہو کے گھوڑے زمین سے لیٹ گئے آناً فاناً میں یہاں تھے یا وہاں تھے۔ ہنوز یہ موقع واردات پر نہ پہنچے تھے سلیم گڑھ کے نیچے پُل پر پہنچے تھے کہ دیکھا اُدھر سے بے تحاشا لوگ اور ملاح پل کے چپراسی بھاگے ہوئے چلے آتے ہیں ۔ سوار ہیں خیر تو ہے کیا آفت ہے جو اس طرح سراسیمہ ۔ منتشر الحواس بھاگے آتے ہو۔ چپراسی۔ اجی جناب خیر تو بخیر فوج اُتر آئی۔ میر بحری صاحب کو مار ڈالا۔ بنگلہ کو آگ لگا دی۔ مال کا صندوق اور گولک لوُٹ لی۔ ہم لوگ اپنی جان بچا کر بھاگے ہیں۔ سوارانِ بادشاہی نے یہ سُنتے ہی اُلٹی باگیں پھیر دیں۔ کوئی پانچ منٹ میں واپس آ کر خبر دی کہ کوئی غنیم دلّی پر چڑھ آیا ہے۔ اُس کی فوج نے تاخت و تاراج پر کمر باندھی ہے۔ بنگلہ پھونک دیا۔ میر بحر کو مار ڈالا1؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1؎ 1857ء کی جنگِ آزادی کے آغاز سے بہت پہلے دہلی میں انقلاب کی پیش گوئیاں ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اس انقلاب کی تفصیل سے کوئی شخص آگاہ نہ تھا۔ تاہم عام طور سے یہ خیال تھا کہ اس انقلاب کا نتیجہ انگریزوں کے حق میں بُرا ہو گا ۔ کوئی کہتا تھا ایران ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ ایک مرتبہ شور اُٹھا کہ ایرانی اٹک تک آ چکے ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلی کہ ایرانی فوج درہ بولان کے راستے سے آ رہی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ شاہ فارس پانچ پشت سے فوج اور سامانِ حرب تیار کر رہا تھا تاکہ ہندوستان کو فتح کرے اور کہ زار روس شاہ ایران کا ساتھ دے گا۔ ایک طرف شاہ نعمت اللہ ولی کی مشہور پیش گوئی کا چرچا تھا۔ (باقی آیندہ صفحہ)
 
Top