داستانِ غریب ہمزہ (عارف وقار)

نبیل

تکنیکی معاون
ماخذ: داستان غریب ہمزہ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام

20060126112217rule_book203.jpg


اُردو میں ہمزہ کے استعمال سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ تو لاعلمی کے باعث اور کچھ اپنا نقطہء نظر دوسروں پر تھوپنے کی عادت کے باعث۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔

قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘

مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔

ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔

اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔

عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔

ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔

مزیدپڑھیں۔۔۔
 

ابو ہاشم

محفلین
عارف وقار صاحب آگے لکھتے ہیں:

اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔ مثلاً عربی میں کوئی لفظ یا رکن واول آواز سے شروع نہیں ہو سکتا لیکن اُردو میں بے شمار الفاظ واول سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے اُبٹن، اُبال، اِکائی، اِکاون، انداز، انجان وغیرہ۔ چنانچہ اہلِ اُردو نے عربی املا میں سے الف لے کر اسے واول آوازوں کا آلہ بنایا۔ اُردو میں بھی الف بذاتِ خود محض ایک سیدھی لکیر ہے اور کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتا، البتہ جب اِس پر زبر یا پیش پڑتی ہے یا اسکے نیچے زیر لگا دی جاتی ہے تو اس میں مخصوص واول آواز پیدا ہو جاتی ہے۔ (جب کوئی علامت نہ ہو تو تب بھی اس پر زبر تصّور کیا جاتا ہے) ظاہر ہے کہ الف کا یہ خصوصی اہتمام لفظ کی ابتداء کے لئے کیا گیا ہے۔ باقی تمام حروفِ صحیح پر تو زیر، زبر، پیش لگ ہی جاتی ہے۔

عربی نظامِ ہجّا کو ایک ہندوستانی زبان کے استعمال میں لانے کےلئے اس طرح کی راہ نکالنا ضروری تھا۔ خیر یہ تو ہوا الف کا استعمال جِسے ہم نے عربی املاء سے حاصل کیا اور اسے ہمزہ سے آزاد کر کے اس پر واول آوازوں کے اعراب لگا لِئے – لیکن خود ہمزہ کا کیاہوا؟

اہلِ اُردو نے اسے بھی اپنایا لیکن عربی کی طرح ایک حرفِ صحیح (کانسو نینٹ) کے طور پر نہیں بلکہ واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرنے والی علامت کے طور پر۔ اسکی وضاحت چند مثالوں سے ہو جائے گی۔ البتہ مثالیں پیش کرنے سے پہلے رکن یعنی سِلےبل کے تصوّر کو واضح کرنا ضروری ہے۔

تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رکن کہا جاتا ہے ۔ مثلاً سُن گُن کے لفظ میں دو ارکان ہیں سُن اور گُن۔ ’میرا‘ میں پہلا رکن ہے ’مے‘ اور دوسرا رکن ہے ’را‘۔ گویا ’میرا‘ کا لفظ بھی دو رکنی ہے۔ اسی طرح ’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کِس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آخری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسرا رکن ’کِس‘ ایک کانسو نینٹ پر ختم ہو رہا ہے۔ اسی طرح آخری دو ارکان (تا اور نی) بھی واول آواز پر ختم ہو رہے ہیں۔ یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد ہم اصل مسئلے کا رُخ کرتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اُردو میں ہمزہ کی بذاتِ خود کوئی صَوت (آواز) نہیں ہے اور الف کی طرح یہ بھی دیگر آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یعنی جسطرح الف اپنے اوپر لگی ہوئی (یا تصّور کی ہوئی) زبر یا پیش کی نمائندگی کرتا ہے یا اپنے نیچے لگی ہوئی زیر کی آواز کا آلہ کار بنتا ہے اُسی طرح ہمزہ خود کوئی آواز نہیں دیتا بلکہ دو واول آوازوں کے مقامِ اتصّال کی خبر دیتا ہے۔

مثال کے طور پر ذیل کے الفاظ کو دیکھیئے:
آئی۔ آئے۔ جاؤ۔ لاؤ۔
اِن لفظوں کی تقسیم، ارکان میں یوں ہو گی۔
آ + ای
آ + اے
جا + او
لا + او
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ہر مثال میں پہلا رکن ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے اور دوسرا رکن ایک واول آواز سے شروع ہو رہا ہے چنانچہ دونوں کے مِلاپ کی جگہ کو ظاہر کرنے کے لئے اُن کے اوپر ہمزہ لگا دیا گیا ہے۔

لیکن یہ اس معاملے کی ایک سادہ سی تشریح ہے۔ کیونکہ واؤ اور ی کے حروف بیک وقت واول بھی ہیں اور کانسونینٹ بھی۔ خاص طور پر ’ی‘ کا چلن خاصا ٹیڑھا ہے اور کئی بار یہ بولنے والے کے آبائی علاقے، طبقے یا تعلیمی و تہذیبی پس منظر کے مطابق رنگ بدل لیتی ہے۔ چنانچہ ہمزہ کے استعمال میں ’ی‘ کی نیرنگیء طبع خاصے گُل کھلاتی ہے۔

ہندوستان کا اُردو داں طبقہ جو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بخوبی آگاہ ہے وہ آئے، جائے کے ہجّوں میں ہمزہ کی بجائے ’ی‘ کے دو نقطے لگانے کا رجحان رکھتا ہے کیونکہ ہندی میں ’آئے‘ کے عمومی ہجّے (آ + یے) ہیں اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے،
یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔

اب یہاں معاملہ ذاتی پسند یا نا پسند کا بھی آجاتا ہے چنانچہ ہمارے خیال میں پہلی مثال (کیے، دیے) کی تقلید تو ہرگز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں دو واول آوازوں کے ملاپ کی نشانی (ء) استعمال نہیں کی گئی۔ باقی دو صورتوں میں سے کوئی ایک اپنا کر اسے اُردو میں مستقل رواج دے دینا چاہیئے۔

ہمارا ذاتی ووٹ تیسری اور آخری صورت کی طرف ہے کیونکہ یہ مکمل ترین ہجّے ہیں اور تعظیمی خطاب میں خاص طور پر اِن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔

اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔ لیکن خاص طور پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جب پہلا رکن بھی واؤ پر ختم ہو رہا ہو، مثلاً
اگر میں اسکو چُھوؤں تو وہ شرماجائے۔
جب تم پیر دھوؤ تو خشک ضرور کرنا۔
آپ نے دیکھا کہ اِن صورتوں میں ہمزہ ہمیشہ دوسرے واؤ پر آتا ہے۔

خلاصہ کلام:
• ہمزہ کی علامت دو واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرتی ہے۔
• ِلئے، دِئے، کِئے وغیرہ کو کئی طرح سے لکھا جا تا ہے لیکن مکمل ترین ہجّے وہ ہیں جن میں ہمزہ اور ی دونوں استعمال ہوں۔
• تعظیمی خطاب آئیے، لائیے، کھائیے میں بھی یہی املائی اصول مدِنظر رکھنا چاہیئے۔
• جب دو واؤ متصّل ہوں تو ہمزہ دوسرے واؤ پر آئے گا مثلاً آنسو کی قیمت، لیکن آنسوؤں کا دریا۔


(عارف وقار صاحب کا مضمون ختم ہوا)
 

ابو ہاشم

محفلین
اہلِ اُردو نے عربی املا میں سے الف لے کر اسے واول آوازوں کا آلہ بنایا۔ اُردو میں بھی الف بذاتِ خود محض ایک سیدھی لکیر ہے اور کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتا، البتہ جب اِس پر زبر یا پیش پڑتی ہے یا اسکے نیچے زیر لگا دی جاتی ہے تو اس میں مخصوص واول آواز پیدا ہو جاتی ہے۔ (جب کوئی علامت نہ ہو تو تب بھی اس پر زبر تصّور کیا جاتا ہے) ظاہر ہے کہ الف کا یہ خصوصی اہتمام لفظ کی ابتداء کے لئے کیا گیا ہے۔ باقی تمام حروفِ صحیح پر تو زیر، زبر، پیش لگ ہی جاتی ہے۔

بالکل صحیح۔
اور اس کے ساتھ ساتھ
او
اُو
اَو
ای
اے
اَے
میں بھی الف یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اردو میں کسی لفظ کے شروع میں الف اس لفظ کے عِلّت (واول) سے شروع ہونے کی علامت ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہندوستان کا اُردو داں طبقہ جو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بخوبی آگاہ ہے وہ آئے، جائے کے ہجّوں میں ہمزہ کی بجائے ’ی‘ کے دو نقطے لگانے کا رجحان رکھتا ہے کیونکہ ہندی میں ’آئے‘ کے عمومی ہجّے (آ + یے) ہیں اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے،
یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
عارف وقار صاحب آئے، جائے کی بات کرتے ہوئے کیے، دیے پر آ گئے!
پہلے آئے، جائے کو تو نمٹا لیتے۔
آئے، جائے کے رکن الگ الگ لکھے جائیں تو وہ بنتے ہیں:
آ+اے
جا+اے
اور لفظ کے درمیان میں الف کی جگہ ہمزہ لکھتے ہیں تو ان الفاظ کا املا بنتا ہے:
آئے، جائے
 

ابو ہاشم

محفلین
چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے،
یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔
یہاں پہلے کیے، دیے وغیرہ کا تلفظ واضح کرنا چاہیے تھا۔
میں ان الفاظ کا تلفظ واضح کر دیتا ہوں لیکن حروف کے ذریعے نہیں بلکہ آواز کے ذریعے۔
یہاں میں ایک گیت کا ربط دے رہا ہوں جس میں لیے، جیے، سیے، پیے، دیے وغیرہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
اس گیت سے آپ ان الفاظ کا تلفظ سن سکتے ہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین
اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔
"دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنا"؟ بات سمجھ نہیں آئی۔ شاید ڈفتھانگ (diphthong) کی بات کر رہے ہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین
چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے،
یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔
سوال یہ ہے کہ املا کا معیار کیا ہے؟ معیار سے ہی پتا چلے گا کہ املا کیے، دیے، لیے، پیے درست ہے یا کئے، دئے، لئے، پئے۔
املا کا معیار تلفظ ہے۔ تو آپ اوپر دیے ہوئے ربطوں سے سن سکتے ہیں کہ ان الفاظ کے آخر میں 'یے' ادا کیا جا رہا ہے یا 'اے'۔
 

ابو ہاشم

محفلین
واضح طور پر ان الفاظ کے آخر میں 'اے' ادا کیا جا رہا ہے۔
تو اس تلفظ کے پیشِ نظر ان الفاظ کے ارکان بنتے ہیں:
کِ+اے
دِ+اے
لِ+اے
پِ+اے
(ان تمام ارکان میں آنے والی زیر، زیرِ معروف ہے یعنی ی کی مختصر آواز ہے)

اب ان الفاظ میں لفظ کے درمیان آنے والے الف کو ہمزہ سے بدل دیں :
کِ+ئے
دِ+ئے
لِ+ئے
پِ+ئے
اب ان سب الفاظ کے ارکان کو جوڑ کر لکھ دیں:
کِئے
دِئے
لِئے
پِئے

تو یہ ہوا ان الفاظ کا صحیح املا۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے کا تلفظ بنتا ہے:
کی+اے
دی+اے
لی+اے
پی+اے
ایسے کوئی بھی ادا نہیں کرتا۔
شاید انھوں نے زیر کی جگہ ی لکھا ہو۔میری رائے میں ان الفاظ میں ایسا کرنا مناسب نہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہمارے خیال میں پہلی مثال (کیے، دیے) کی تقلید تو ہرگز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں دو واول آوازوں کے ملاپ کی نشانی (ء) استعمال نہیں کی گئی۔ باقی دو صورتوں میں سے کوئی ایک اپنا کر اسے اُردو میں مستقل رواج دے دینا چاہیئے۔
بالکل صحیح۔ دو علت آوازوں کے ملاپ کے موقع پر دونوں علات کے درمیان ء استعمال کرنا چاہیے۔ باقی دو صورتوں میں سے کونسی صحیح ہے اس کی وضاحت اوپر کر دی گئی ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہمارا ذاتی ووٹ تیسری اور آخری صورت کی طرف ہے کیونکہ یہ مکمل ترین ہجّے ہیں اور تعظیمی خطاب میں خاص طور پر اِن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔
یہاں معاملہ ڈِفتھانگ (مرکب علت) کا آ جاتا ہے۔
مرکب علت (diphthong) میں دو علت اس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ پہلے علت کے ختم ہونے سے پہلے ہی اگلا علت شروع ہو جاتا ہے اور یہ لفظ کے ایک ہی رکن میں آتے ہیں۔

علات کے جوڑ میں بھی دو علات ساتھ ساتھ آتے ہیں لیکن یہ الگ الگ ارکان کا حصہ ہوتے ہیں جیسے آؤ (آ+او) میں بھی دو علات اکٹھے آ رہے ہیں لیکن یہ الگ الگ رکنوں میں ہیں۔

علات کے جوڑ کی ایک مثال: فاعِل (اردو تلفظ: فا+اِل)
اور مرکب علت کی مثال: فائل (file)

فاعِل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ا اور اِ ایک دوسرے سے الگ ہیں اور الگ ارکان میں ہیں اگرچہ ادائیگی میں ساتھ ساتھ آ رہے ہیں۔ جبکہ فائل میں ا اور اِ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ لفظ یک رکنی ہے۔
یہ تو ہو گئی مرکب علت (diphthong) کی کچھ وضاحت۔ اب ہم واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

آئیے، کھائیے،فرمائیے، لائیے، جائیے، پائیے وغیرہ جیسے الفاظ میں پہلے مرکب علت آءِ آتا ہے اور اس کے بعد علت اے آتا ہے تو ان الفاظ کے ارکان بنتے ہیں:
آءِ+اے
کھاءِ+اے
فر+ماءِ+اے
لاءِ+اے
جاءِ+اے
وغیرہ
اب ان رکنوں کو اکٹھا لکھنے سے ان کی صورت بنتی ہے:
آئِئے
کھائِئے
فرمائِئے
لائِئے
جائِئے
ان الفاظ کا سائنسی املا تو یہی بنتا ہے۔ البتہ اردو میں ہم کئی موقعوں پر ءِ کی جگہ ی استعمال کرتے ہیں۔ (ی، ءِ کی طویل شکل ہے)۔ اسی طریقے کو یہاں استعمال میں لاتے ہوئے اوپر کے الفاظ یوں لکھے جا سکتے ہیں۔
آیئے
کھایئے
فرمایئے
لایئے
جایئے
ان الفاظ کا یہ املا رائج املا سے بہت ملتا جلتا ہے بس ہمزہ اور ی کی ترتیب بدل گئی ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔
بات صرف آیئے اور آئے کی لکھائی میں فرق کی نہیں بلکہ ان کو تلفظ کے مطابق لکھنے کی ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔
یہ شاید علات کے ساتھ ساتھ آنے کو ضم ہونا کہ رہے ہیں ۔یا شاید مرکب حرکت کی بات کر رہے ہیں لیکن دو الگ الگ ارکان میں تو مرکب حرکت نہیں ہو سکتی۔
 

ابو ہاشم

محفلین
اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔ لیکن خاص طور پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جب پہلا رکن بھی واؤ پر ختم ہو رہا ہو، مثلاً
اگر میں اسکو چُھوؤں تو وہ شرماجائے۔
جب تم پیر دھوؤ تو خشک ضرور کرنا۔
آپ نے دیکھا کہ اِن صورتوں میں ہمزہ ہمیشہ دوسرے واؤ پر آتا ہے۔
بالکل یہی بات ہے کہ دو علات اکٹھے آ رہے ہوں اور دوسرا علت واؤ ہو تو ہمزہ ہمیشہ اس دوسرے علت واؤ پر آئے گا چاہے پہلا علت واؤ ہو یا کوئی اور۔

تدوین: موجودہ املا میں پہلا علت یے ہونے کی صورت میں میری اوپر کہی گئی بات درست نہیں جیسے جیو، پیو وغیرہ جیسے الفاظ میں۔ ہاں تلفظ کے مطابق ان کا املا بھی جیؤ، پیؤ وغیرہ ہی بنتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
خلاصۂ کلام کے باقی نکات پر بات ہو چکی البتہ
• جب دو واؤ متصّل ہوں تو ہمزہ دوسرے واؤ پر آئے گا مثلاً آنسو کی قیمت، لیکن آنسوؤں کا دریا۔
یہ بات علات واؤؤں (زیادہ تر واؤ معروف اور واؤ مجہول)کے لیے درست ہے ۔
لیکن جہاں ان میں سے کوئی واؤ، واؤ صحیحہ ہو تو پھر ہمزہ استعمال نہیں ہو گا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں:
ا۔ حلوہ، جلوہ، بلوہ وغیرہ کی جمع حلووں، جلووں، بلووں وغیرہ
ب۔ عضو، سہو، ویلو (valve) وغیرہ کی جمع عضووں، سہووں، ویلووں وغیرہ
ج۔ واؤ صحیحہ پر ختم ہونے والے اسمائے معرفہ کو بطورِ نکرہ استعمال کرنا ہو تو جیسے راجیو(Rajeev)، کلائیو (Clive) سے راجیووں، کلائیووں وغیرہ
د۔ ووٹ، ووٹوں، وو (وہ کی پرانی شکل) وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین
اس کے ساتھ جن واحد الفاظ کے آخر میں ؤ آتا ہے ان کی جمع میں دونوں واؤؤں پر ہمزہ آئے گا جیسے واؤ کی جمع واؤؤں، ناؤ کی جمع ناؤؤں،پاؤ کی جمع پاؤؤں، بھاؤ کی جمع بھاؤؤں، وغیرہ
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top