دار بہ تمنا !! ۔۔۔ (اقتباس)

سید فصیح احمد

لائبریرین
"میرے مالک! میں ایک غریب آدمی ہوں۔ پہاڑ سے لکڑیاں لا کر بیچتا ہوں اور لوگوں کا سامان ڈھوتا ہوں۔ اس طرح اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ آخر میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ کس بات کے لیے آپ مجھ کو پھانسی دینا چاہتے ہیں؟"

"ارے احمق! مجھے اس کا کیا پتا کہ تمھارا کوئی قصور ہے یا نہیں۔ بس کسی آدمی کو پھانسی پر چڑھانا ہے۔ میں ایک چور کو پھانسی پر چڑھوانا چاہتا تھا' لیکن معلوم ہوا کہ اس کا قد ذرا اونچا ہے اور اس کے پاؤں زمین سے اوپر نہیں اٹھ پاتے لیکن تمھارا قد بالکل مناسب ہے۔"

چھوٹے قد والے آدمی نے گڑگڑا کر کہا:

"بادشاہ عالم! قصور کیا ہے لمبے قد کے چور نے اور آپ پھانسی پر چڑھاتے ہیں چھوٹے قد کے ایک بے گناہ، بے قصور غریب آدمی کو۔ یہ بھی کوئی انصاف ہے؟ چور ضرورت سے زیادہ لمبا ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے ایک گڑھا کھدوا دیجیے، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

اس کی بات بادشاہ کو پسند آئی۔ اس نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ جلّاد دوبارہ چور کو پکڑ لائے انھوں نے اس کو پھانسی کے پھندے کے نیچے کھڑا کر کے گلے میں پھندا ڈال دیا اور اس کے پاؤں کے نیچے گڑھا کھودنے لگے۔ مگر چور تھا کہ برابر کہے جا رہا تھا:

"جلدی کرو، مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے پوچھا:

"ارے' تُو مرنے کے لیے کیوں اتنا بے تاب ہو رہا ہے؟"

"بادشاہ عالم! چور نے جواب دیا۔ "ابھی ابھی جنّت کا بادشاہ مر گیا ہے۔ اس نے مرتے وقت یہ وصیت کی ہے کہ جو سب سے پہلے جنّت میں داخل ہو، اس کو میری جگہ بادشاہ بنایا جائے۔ وہاں بادشاہ کا تخت ابھی خالی ہے۔ اگر جلدی سے پھانسی پر لٹکا دیا جاؤں تو ممکن ہے کہ میں سب سے پہلے جنت میں پہنچ جاؤں اور شاہی تخت پر بیٹھ جاؤں۔"

بادشاہ کے دل میں لالچ اور حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ بھلا جنّت کا بادشاہ بننا چھوٹی بات ہے؟ چنانچہ اس نے فوراً جلادوں کو حکم دیا:

"چور کو رِہا کر دو اور مجھے پھانسی پر چڑھا دو۔"

بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہونی ہی چاہیے تھی چنانچہ بے وقوف بادشاہ کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کہانی سے اقتباس، جس کا لیکھر تو مجھے معلوم نہیں مگر شائد کتاب کی مؤلف شگفتہ آپی ہیں !! ،، بہتر ہے ہم ابن سعید بھائی سے پوچھ لیں!!
 
Top