خُدا خیر کرے جی ۔۔۔عابی مکھنوی

نشتر کی جگہ ہاتھ میں مرہم وہ لیے ہیں
اِس درجہ عِنایات خُدا خیر کرے جی

اِک بار ِ گراں ٹھہرا ہمیں اپنا تنفس
پھر اُن کے مفادات خُدا خیر کرے جی

کہتے ہیں کہ مر جاؤ تو پھر زندہ کریں گے
اُف اُن کی کرامات خُدا خیر کرے جی

عابی مکھنوی
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، اگر اصلاح کی غرض سے ہے تو ’جی‘ کا استعمال پسند نہیں آیا، محاورے کے خلاف ہے، محاورہ صرف خدا خیر کرے ہوتا ہے، ’جی‘ کا اضافہ غزل کی لفظیات سے میل نہیں کھاتا۔
 
Top