فارسی شاعری خَبَرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد - غزلِ امیر خسرو مع ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
خَبَرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد

مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔

ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ اُمید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔

کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد

عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔

بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد

میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔

بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد

تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔ فارسی ادب کے کیا کہنے ۔۔۔
اقبال سے متاثر ہو کر ایک فارسی کامصرع اردو کے ساتھ ملا کر میں نے بھی لکھا تھا، آج تک معلوم نہیں یہ درست ہے یا غلط:
در دو جہاں عزیز تر است آرزوئے دل
کس سے کہیں کیسا ہے جو اس کا خیال ہے
 
سبحان اللہ ۔۔ فارسی ادب کے کیا کہنے ۔۔۔
اقبال سے متاثر ہو کر ایک فارسی کامصرع اردو کے ساتھ ملا کر میں نے بھی لکھا تھا، آج تک معلوم نہیں یہ درست ہے یا غلط:
در دو جہاں عزیز تر است آرزوئے دل
کس سے کہیں کیسا ہے جو اس کا خیال ہے
فارسی مصرعہ غلط ہے.
ایسے درست ہو جائے گا
از دو جہاں عزیز تر است آرزوئے دل
 
برصغیر میں جو کلام صدیوں سے رائج ہے وہ اس کلام سے کافی مختلف ہے جو گنجور پر ہے، سب سے بڑی مثال حافظ کی ہے۔
لیکن حافظ تو ایرانی ہے تهے. خسرو کا تو چلو ہو سکتا ہے اہل فارس نے خود بدل دیا ہو. کیونکہ وہ مستند نہیں مانتے اہل ہند کو. کیا اہل ہند بهی ایسا ہی کرتے تهے.
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن حافظ تو ایرانی ہے تهے. خسرو کا تو چلو ہو سکتا ہے اہل فارس نے خود بدل دیا ہو. کیونکہ وہ مستند نہیں مانتے اہل ہند کو. کیا اہل ہند بهی ایسا ہی کرتے تهے.
بدلنے والی بات نہیں ہے، یہ کوئی شعوری کوشش کسی کی نہیں ہے۔ دراصل برصغیر میں فارسی کلام صدیوں سے قوال گاتے رہے ہیں، سو سوچا جا سکتا ہے کہ ان قوالیوں میں جو مشہور و معروف غزلیں ہیں ان میں تبدیلی واقع ہوئی ہوگی، پھر لوگ تضمینیں بھی کہتے تھے وہ بھی سب خلط ملط ہو جاتی تھیں ایسے موقعوں پر۔ ذاتی طور پر میں حافظ کے ایرانی نسخوں کو ترجیح دیتا ہوں انہوں نے واقعی ان پر بہت محنت کی ہے بہت تحقیق کی ہے۔ لیکن برصٖغیر کے شعرا یا سبک ہندی کے شعرا پر ایرانیوں نے اتنا کام نہیں کیا، اس طرح کی تحقیق نہیں کی، سو یہاں کے شعرا کا جو کلام یہاں رایج ہے وہی بہتر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پھر ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے، جیسے کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ہر اچھا شعر میر کا ہوتا ہے، سو ایسے ہی ہر اچھا شعر ہو سکتا ہے یہاں حافظ کے نام لگا دیا گیا ہو۔
 

فاخر

محفلین

خبرم رسید امشب که نگار خواهی آمد

سر من فدای راهی که سوار خواهی آمد

به لبم رسیده جانم، تو بیا که زنده مانم

پس از آن که من نمانم، به چه کار خواهی آمد

غم و قصه فراقت بکشد چنان که دانم

اگرم چو بخت روزی به کنار خواهی آمد

منم و دلی و آهی ره تو درون این دل

مرو ایمن اندر این ره که فگار خواهی آمد

همه آهوان صحرا سر خود گرفته بر کف

به امید آن که روزی به شکار خواهی آمد

کششی که عشق دارد نگذاردت بدینسان

به جنازه گر نیایی، به مزار خواهی آمد

به یک آمدن ربودی، دل و دین و جان خسرو

چه شود اگر بدین سان دو سه بار خواهی آم

(بشکریہ گنجور فارسی ویب سائٹ )
 

سیما علی

لائبریرین
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا
سرِ من فدائے راہی کہ سوار خواہی آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا سر اُس راہ پہ قرباں،جس راہ پر تجھ سا سوار آئے گا


ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سراُتار کر ہتھیلیوں پر رکھ لئے
بہ امید آنکہ روزی بہ شکار خواہی آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس امید پرکہ کسی روز تُو شکار کے لئے آئے گا

بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جان لبوں تک آ پہنچی ہے، تُو آ کہ میں زندہ رہ سکوں
پس ازاں کہ من نہ مانم،بہ چہ کار خواہی آمد ۔۔۔ ۔۔۔ بعد اس کے کہ میں زندہ نہ رہوں،تو پھر تُو کس لئے آئے گا

کششِ کہ عشق دارد،نہ گزاردت بدینساں ۔۔۔۔۔ عشق کی کشش تجھے اس طرح زندہ رہنے نہ دے گی
بہ جنازہ گر نیائی، بہ مزار خواہی آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے جنازہ پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا

بہ یک آمدن ربودی،دل و دین و جانِ خسرو ۔۔۔۔ تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل،دین و جان سب چھین لئے ہیں
چہ شود اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہو گا اگر تُو دو تین بار اسی طرح آ گیا

(امیر خسرو)
 
Top