خون کا عطیہ اور اس کی بینکاری

جیا راؤ

محفلین
خون کا عطیہ اور اس کی بینکاری

ڈونر کا انتخاب:

ڈونر کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہو۔
ڈونر کا وزن کم از کم 50kg ہو۔
اسے کبھی یرقان(Jaundice) نہ ہوا ہو۔ (پیدائشی یرقان اس سے مثتثنٰی ہے)
گذشتہ چھہ ماہ میں ملیریا نہ ہوا ہو۔
دل کی بیماری، بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ نہ ہو۔
کبھی خون نہ لگا ہو
اگر میجر سرجری ہوئی ہو تو اسے کم از کام ایک سال گزر چکا ہو
اگر اس سے پہلے خون دیا ہو تو دوبارہ خون دیتے وقت کم از کم 3 ماہ کا وقفہ رکھا جائے۔
خون کی کمی نہ ہو (Hb > 12.5 mg/dl)
خون دیتے وقت بخار یا کسی قسم کا کوئی انفیکشن نہ ہو
بغیر کچھ کھائے خون نہ دیا جائے
ڈونر کوئی دوا لے رہا ہو تو اس کے بارے میں مکمل معلومات لی جائیں
نشہ آور ادویات استعمال نہ کرتا ہو

ان تمام باتوں کی تسلی کر لینے کے بعد ڈونر سے خون لے لیا جاتا ہے جسکی مقدار تقریبا 540 ملی لیٹر ہوتی ہے
(ایک صحت مند شخص مین تقریبا 5 لیٹر خون موجود ہوتا ہے)
جس بیگ میں خون لیا جاتا ہے اس میں خون اور anticoagulantکی مقدار:
anticoagulant = 75ml
Blood = up to 450 ml

Anticoagulant وہ کیمیکل ہے جو خون کو جمنے سے بچاتا ہے اور اس کے خلیات کو زندہ رہنے کے لئے بنیادی غذا فراہم کرتا ہے۔

ڈونرسے خون حاصل کرنے بعد مختلف بیماریوں کے لئے اس کی اسکریننگ کی جاتی ہے مثلا ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی،syphilis ،ملیریا اور دیگر منتقل ہونے والی بیماریوں کے لئے۔


خون کے اجزاء:

خون کے مختلف اجزاء کو الگ الگ کر لیا جاتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں

خون کے سرخ خلیات (packed cells)
پلیٹیلیٹس Platelets
پلازما Plasma
فیکٹرز (factor concentartes) مثلا فیکٹر VIII، فیکٹر IX وغیرہ

مکمل خون کی منتقلی کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب مریض کو خون کا وہی جز دیا جاتا کہ جس کی اسے ضرورت ہو۔ بہت کم صورتوں میں مریض کو مکمل خون لگایا جاتا ہے۔


خون کے اجزاء اور ان کا استعمال

مکمل خون: خون کے بہت زیادہ بہہ جانے کی صورت میں مکمل خون لگایا جاتا ہے۔ مثلا کسی ایکسڈینٹ کے بعد
سرخ خلیات(Packed Cells): اگر مریض کا ہیموگلوبن خطرناک حد تک کم ہو گیا ہو۔
پلیٹیلیٹس (Platelets): جب خون میں پلیٹیلیٹس کی تعداد معمول سے بہت کم ہو جائے مثال کے طور پر ڈینگی یا ڈینگی ہیمرجک فیور میں

پلازما (Fresh Frozen Plasma):
مریض کا خون کسی وجہ سے بہت گاڑھا ہو گیا ہو۔
فیکٹرز (Factor Concentrates): یہ خون کو جمانے والے مختلف فیکٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ مثلا

1۔ ہیموفیلیا اے میں فیکٹر VIII کی شدید کمی ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے Factor VIII concentrates دیئے جائیں گے۔
2۔ ہیموفیلیا بی میں فیکٹر IX کی کمی ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے Factor IX concentrates د یئے جاتے ہیں۔


خون کے تجزئیے:

سب سے پہلے خون کا گروپ معلوم کیا جاتا ہے۔
خون کے مندرجہ ذیل چار بنیادی گروپس ہیں:
بلڈ گروپ "اے"
بلڈ گروپ" بی"
بلڈ گروپ" اے بی"
بلڈ گروپ "او"

اس کے ساتھ ہی خون میں Rh اینٹی باڈی کی موجودگی یا غیر موجودگی دریافت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی گروپ کو بالترتیب مثبت یا منفی کہا جاتا ہے۔

مریض اور ڈونر کے خون کا گروپ خواہ ایک ہو مگر پھر بھی اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ ڈونر کا خون مریض کے جسم میں داخل ہو کر مضر رد عمل ظاہر کر دے، اس امکان کو ختم کرنے کے لئے بلڈ بینک میں ڈونر کے خون کو مریض کے خون کے ساتھ ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہ ہونے کی صورت میں یہ خون مریض کو لگا دیا جاتا ہے۔

خون کے مذکورہ تجزئیے کو کراس میچ (Cross-match) کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مریض کے پلازما میں ایسی اینٹی باڈیز دریافت کی جاتی ہیں جو کسی بھی صورت میں ڈونر کے سرخ خلیات کے ساتھ ردِ عمل کر کے انہیں توڑ پھوڑ سکتی ہیں۔ خون کے طلب کئیے جانے کے بعد یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔


خون اور اس کے اجزاء کی ذخیرہ کاری:

خون اور اس کے اجزاء کو مختلف درجہ حرارت پر ان کی معینہ مدت تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔

مکمل خون: 6-2 ڈگری سینٹی گریڈ پر 35-28 روز کے لئے
سرخ خلیات: 6-2 ڈگری سینٹی گریڈ پر 35-28 روز کے لئے


پلیٹیلیٹس: کمرے کے درجہ حرارت (25-20 ڈگری سینٹی گریڈ) پر 5 روز کے لئے۔ اس دوران پلیٹیلیٹس کو ایسی سطح مہیا کی جاتی ہے جو انہیں مسلسل حرکت میں رکھے، اسے agitator کہا جاتا ہے۔
پلازما: 35- سے 80- ڈگری سینٹی گریڈ پر تقریبا ایک سال کے لئے
فیکٹرز: 35- سے 80- ڈگری سینٹی گریڈ پر تقریبا ایک سال کے لئے

Cross-match کیا ہوا خون بغیر Cross-match کئیے خون سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اگراس خون کا اجراء ایک ہفتے تک نہ ہو تو اسے واپس بغیر Cross-match کئیے خون میں رکھ دیا جاتا ہے۔

روزانہ خون کے ہر بیگ کی expiry date دیکھی جاتی ہے۔ وہ بیگ جو ایکسپائر ہو چکے ہوں یا جن میں اسکریننگ کے دوران کسی انفیکشن کے شواہد ملے ہوں، انہیں فوری طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔




معیاری بلڈ بینکس خون کی خرید و فروخت کی مذمت کرتے ہیں اور "خون کے بدلے خون" کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ ایک بلڈ بینک کی ساکھ بنیادی طور پر ڈونر کی فراہم کردہ معلومات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ڈونر خون دیتے وقت غلط بیانی سے کام لے تو بلڈ بینک کے عملے کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں جو اس کے بیان کی صداقت کو پرکھ سکے۔

پاکستان کے اچھے بلڈ بینکس اور اسپتالوں میں بھی فقط چند بیماریوں کے لئے خون کی اسکریننگ کی جاتی ہے جبکہ اکثر جگہوں پر اس کی سہولت میسر نہیں، ایسے میں ڈونر کی فراہم کردہ معلومات پر ہی مریض کی صحت کا سارا دار و مدار ہوتا ہے۔


مثال کے طور پر
کسی شخص کو کبھی یرقان(Viral Jaundice) ہوا اور پھر وہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گیا، زندگی کے کسی حصے میں اسے خون دینے کی ضرورت پڑی مگر بلڈ بینک میں ہسٹری دینے کے دوران وہ اس بات سے بات سے انکاری ہو گیا کہ اسے کبھی یرقان ہوا ہے۔ اب بلڈ بینک میں کوئی ایسا نہیں کہ جو اس کے انکار کو چیلنج کر سکے، لہٰذا اس سے خون لے لیا جاتا ہے۔ اس خون کی اسکریننگ کے دوران کسی وائرس کی موجودگی کا ثبوت نہیں ملتا۔ اب یہ خون مریض کو لگا دیا جاتا ہے جس کے کچھ عرصہ کے بعد مریض کو انفیکشن ہو جاتا ہے۔

یہ اس لئے ہوا کہ وائرس اکثر انفیکشن ٹھیک ہو جانے بعد جسم میں چھپ کر (in inactivate form) زندگی کزارتے ہیں اور اسکریننگ کے دوران بھی شناخت نہیں ہوتے اسے وائرس کی لائف سائیکل کا window phase کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی اس وائرس کو سازگار ماحول (مثلا بیمار جسم جس کا مدافعتی نظام کمزور پڑ چکا ہو) میسر آتا ہے یہ دوبارہ activate ہو کر انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔

یہ صوتحال اس وقت کی ہے کہ جب خون کی مکمل اسکریننگ کی گئی ہو، جہاں یہ سہولت میسر نہیں وہاں صورتحال کس قدر گھمبیر ہو گی !

بلڈ بینک کی بنیاد ہی ڈونر کی ایمانداری پر ہے اس لئے اگر آپ خون کا عطیہ دینے جا رہے ہیں تو پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ آیا آپ کا دیا ہوا خون کا عطیہ مریض کو زندگی ہی بخشے گا یا اس کے لئے وبالِ جان بن جائے گا۔


ازقلم جویریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
"طب و صحت" کے انتہائی اہم موضوع پر آپ کا یہ دوسرا مضمون بھی انتہائی معلوماتی ہے، شکریہ آپ کا۔
 

Dilkash

محفلین
دوستوں
دعا کریں کہ خون کی مہلک بیماریوں سے اللہ سبحانہ و تعالی ہر کسی زی روح کو بچائیں۔
امین
پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں ہزاروں بچے روزانہ تھیلسمیا او ہیموفیلیا جیسے موزی امراض سے لررہے ھیں۔
یہ معصوم بچے اور بچیاں تنہا زندگی اور موت کی یہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔
اپکی خیرات زکواۃ اور عطیات سے ان مرتے سسکتے بچوں کی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔
انکی امداد ہم سب پر واجب ہے
http://www.frontier-foundation.org/







پاکستان میں کئ ایک ادارے خون کی مہلک بیماریو ں کے روک تھام او لوگوں میں اوئیرنیس پیدا کرنے کے لئے کام کرہے ہیں۔

ائیے اس کار خیر میں دل کھل
 
مفید معلومات کےلئے شکریہ صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ آجکل خون کے حصول سے پہلے اسکا نمونہ حاصل کرکے تمام ٹیسٹ لےلئے جاتے ہیں اور پھر ڈونر کو خون دینے کےلئے کال کیا جاتا ہے۔

یرقان اور اس طرح کے بہت سی عفونتی امراض کے بارے جن کا ڈونر پر ممکنہ طور پر ماضی میں حملہ ہوچکا ہو، کی معلومات بھی خون کے مختلف تجزیئے کرکے خون میں موجود اینٹی باڈیز کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں ۔ واضع ہو کہ اینٹی باڈیز جسی کی پیداوار ہوتی ہیں جنکو جسم کسی بیرونی عفونتی حملہ کو روکنے کےلئے تیار کرتا ہے۔ مثلا اگر ایک آدمی کو بچپن میں ٹی بی کا حملہ ہوا اور وہ خود ہی ٹھیک بھی ہوگیا۔ تو اس بارے میں معلومات اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اور ایسے ڈونر کو غیر معیاری قرار دیا جائے گا۔ یہی احوال ہپاٹائٹس کا بھی ہے۔
 
Top