خوف بن کر یہ خیال آتا ہے اکثر مجھ کو ٭ امیر قزلباش

خوف بن کر یہ خیال آتا ہے اکثر مجھ کو
دشت کر جائے گا اک روز سمندر مجھ کو

میں سراپا ہوں خبرنامۂ امروز جہاں
کل بھلا دے نہ یہ دنیا کہیں پڑھ کر مجھ کو

ہر نفس مجھ میں تغیر کی ہوائے لرزاں
مرتسم کر نہ سکا کوئی بھی منظر مجھ کو

اپنے ساحل پہ میں خود تشنہ دہن بیٹھا ہوں
دیکھ دریا کی ترائی سے نکل کر مجھ کو

مرے سائے میں بھی مجھ کو نہیں رہنے دے گا
میرے ہی گھر میں رکھے گا کوئی بے گھر مجھ کو

کارگر کوئی بھی تدبیر نہ ہونے دے گا
کیا مقدر ہے کہ لے جائے گا در در مجھ کو

کام آئے گی نہ بیدار نگاہی بھی امیرؔ
خواب کہہ جائے گا اک دن مرا پیکر مجھ کو

امیر قزلباش
 
Top