ام اویس

محفلین
گھنٹی کی آواز سن کر ابوبکر نے کاپی پین ایک طرف رکھا اور باہر بھاگا۔ نانو جان نے اسے لکھنے کے لیے اکٹھے چار صفحات دے دئیے تھے۔ وہ پڑھائی میں ہوشیار تھا سارا سبق یاد کر لیتا لیکن لکھنے کی مشق کم ہونے کی وجہ سے اس کی لکھائی خراب تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ نانو جان کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جس میں کتابیں تھیں اور اردو زبان میں پتہ لکھا تھا ۔ لکھائی نہایت عجیب اور بھدی تھی ۔ الفاظ ٹیڑھے میڑھے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے تھے کہ پڑھنا دشوار تھا ۔
نانوجان ! باہر ڈاک والے انکل کھڑے ہیں وہ پوچھ رہے ہیں ، کیا یہ پیکٹ آپ کا ہے ؟ اس میں کتابیں ہیں۔
نانو جان نے پیکٹ ہاتھ میں لے لیا اور غور سے اس پر لکھا پتہ پڑھنے لگیں ۔ کافی غور کرنے کے بعد آخر کار انہوں نے تحریر پڑھ لی یہ ان کا ہی نام و پتہ تھا۔
“جی ہاں ابوبکر یہ میرا ہی ہے ۔ “
نانوجان ! انکل کہہ رہے تھے دو دن سے یہ ایڈریس پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں بڑی مشکل سے اندازہ ہوا کہ یہ آپ کا ہو سکتا ہے ۔ ابوبکر نے ہنستے ہوئے بتایا ۔
اسی لیے میں آپ سے کہتی ہوں کہ لکھائی پر توجہ دو ، صاف صاف اور خوبصورتی سے لکھنا سیکھو ورنہ آپ کی لکھائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا ۔
پھر آپ کا لکھا ہوا سمجھنے کے لیے آپ کو بلا کر لانا پڑے گا ۔ وہ محاورہ سنا ہے نا !
“لکھے منہ سا پڑھے خود آ “
لیکن میں نے تو کہیں پڑھا تھا “لکھے موسی پڑھے خدا” ابوبکر جھٹ سے بولا
جی یہ محاورہ اس طرح بھی ہے ۔
“کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے خط لکھوایا جائے اور آپ کہیں بھائی آج میرے پاؤں میں درد ہے “
وہ کیوں ؟ نانو جان ! ابوبکر نے حیرانی سے کہا
بھئی اپنی لکھائی پڑھنے آپ کو وہاں جانا پڑے گا ۔
ابوبکر زور سے ہنستے ہوئے ! اچھا آپ یہ بتائیں کہ انسان نے پڑھنا لکھنا کب سیکھا ؟
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے لکھنا اور کتاب سے پڑھ کر درس دینا حضرت ادریس علیہ السلام نے شروع کیا ۔ اسی لیے ان کا نام ادریس یعنی درس دینے والا مشہور ہوگیا ۔ نانوجان نے پیکٹ کھولتے ہوئے جواب دیا ۔
کیا ادریس علیہ السلام بھی الله کے پیغمبر تھے اور کیا ان کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ؟
ابوبکر نے فورا دوسرا سوال کیا :
حضرت ادریس علیہ السلام الله کے پیغمبر ہیں اور قرآن مجید میں ان کا ذکر دو بار ہے۔
نانو جان نے پیکٹ کی کتابیں کھول لی تھیں اور اب وہ انہیں دیکھ رہی تھیں ۔ ابوبکر کو ان میں ایک کتاب دکھائی دی جس کا نام تھا “ کیا لکھیں ، کیسے لکھیں “
ابوبکر نے فورا سوال کیا ، نانو جان ! ان کا زمانہ کون سا ہے یعنی کس نبی کے بعد آئے تھے ؟
جی مورخ ( تاریخ لکھنے والے) بیان کرتے ہیں کہ ادریس علیہ السلام حضرت نوح کے دادا تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ پہلے انسان اور پہلے نبی تھے ان کے بعد ان کے بیٹے شیث علیہ السلام بھی نبی تھے۔ تقریبا پانچ سو سال بعد جب لوگ گمراہ ہوچکے تھے۔ طرح طرح کی برائیوں اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ الله تعالی نے حضرت ادریس علیہ السلام کوانسانوں کی راہنمائی کے لیے دنیا میں بھیجا ۔ ان پر صحیفے بھی نازل ہوئے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام اپنی قوم کو یہ صحیفے پڑھ کر سناتے تھے۔
نانو جان نے کتابیں ایک طرف رکھ دیں اور پوری طرح سے ابوبکر کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔
سورة مریم میں ان کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ
“اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو۔ وہ بھی نہایت سچے نبی تھے۔اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا۔”
اہل علم کی اکثریت کے نزدیک آپ کو اللہ تعالی نے آسمانوں پر اٹھا لیا تھا ۔
نانو جان معراج کے واقعے میں بھی ان کا ذکر ہے نا ؟ ابوبکر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا :
جی ہاں ! نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی۔
کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ بلند مقام تک پہنچانے کا مطلب ان کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ان کو شہرت اور عزت کا بلند مقام ملنا ہے۔ آپ کئی علوم وفنون میں ماہر اور ان کی ابتداء کرنے والے تھے ۔
مثلا: علم رمل، علم جفر، حساب، کتابت، درزی کا کام، شہر اور بستیاں بسانا، ہتھیار بنانا وغیرہ
واہ ! سبحان الله وہ اتنے کام جانتے تھے واقعی وہ بلند مرتبہ پیغمبر تھے ۔
ابوبکر حیرانی سے بولا:
الله تعالی نے انسانوں کی بھلائی کے لیے ان کو اتنے علوم سکھائے اور بعد میں آنے والے انسانوں تک علوم پہنچانے کے لیے لکھنا بھی سکھایا ۔ لکھنے کی اہمیت کے سبب الله تعالی نے قرآن مجید میں قلم کی قسم بھی کھائی ہے ۔ نانو جان نے کہا :
اتنے میں طلحہ بھائی کمرے میں داخل ہوئے ۔ ان کی طبیعت خراب تھی وہ سخت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ نانو جان نے ان کا حال دریافت کیا تو وہ بتانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب سے دوا کا نسخہ لکھوا کر جب میڈیکل سٹور پہنچا تو اس نے بہت مشکل سے نسخہ پڑھا اور دوا نکال کر دی ۔
نانو جان نے کہا: “ ڈاکٹر صاحب سے تصدیق کروا کر دوا استعمال کرنا ، ایسا نہ ہو کہ غلط دوا لینے پر طبیعت زیادہ خراب ہوجائے”
طلحہ بھائی جی اچھا کہہ کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔
ابوبکر کو یاد آیا کہ پچھلے ہفتے ہی ڈاکٹر صاحب سے تصدیق کروائے بغیر دوا استعمال کرنے پر حسن کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی ۔
وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا پھر کاپی اور قلم لے کر لکھنے بیٹھ گیا جس پر نانو جان نے خوش خطی کی مشق کے لیے اصلاح لکھ کر دی تھی۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
جزاک اللہ ام اویس بہن۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں آپکا یہ سلسلہ یقیناً معاون و مددگار ثابت ہو گا۔ انشاءاللہ۔
 
Top