خوش حال خان خٹک

تفسیر

محفلین

خوش حال خان خٹک


فرحت : اَمّی ، اَمّی آج ہمارے اسکول میں ایک نیا لڑکا داخل ہوا ہے۔

اَمّی : یہ کون سی خاص بات ہوئی جو تم اتنے شوق سے بتا رہے ہو۔

فرحت : نہیں اَمّی ! ہوا یہ کہ جب ماسٹر صاحب نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا میرا نام خوش حال خان ہے۔

اَمّی : یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے۔

فرحت : اَمّی آپ تو پوری بات ہی نہیں سنتیں۔

اَمّی : اچھا سناؤ،

فرحت : ہمارے ماسٹر صاحب اس کا نام سن کر بولے، بھائی یہ تو بہت اچھا نام ہے۔ سرحد کےصوبے میں ایک بہت مشہور آدمی گزرے ہیں ان کا نام خوش حال خٹک تھا۔ خٹک ، قبیلے کا نام ہے۔ خوش حال خان کے باپ شہباز خان اس قبیلے کےسردار تھے۔ مغل بادشاہوں کے زمانے میں وہ ایک بڑے عہدے دار تھے۔

خوش حال خان خٹک ، پہلی بار تیرہ برس کی عمر میں اپنے باپ کےساتھ ایک جنگ میں شریک ہوئے۔ پھر تو ان کی ساری زندگی پٹھانوں کی آزادی کے لیے جنگ میں گزری۔

اَمّی : ہاں بیٹے، پٹھان بھائی بہت دلیر ہوتے ہیں لیکن تم کو معلوم ہے کہ خوش حال خان خٹک ایک بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ جیسے علامہ اقبال نے قومی نظمیں کہہ کر مسلمانوں میں بیداری پیدا کی اُسی طرح اُن سے بہت پہلے خوش حال خان خٹک نے پشتو میں بڑی جوشیلی نظمیں کہیں اور مسلمانوں کو ان کی عظمت کا احساس دلایا ان کی نظمیں آج تک مشہور ہیں۔

فرحت : اِس کا مطلب یہ ہے کہ خوش حال خان خٹک قلم اور تلوار دونوں کے دَھنی تھے۔

اَمّی : ہاں بیٹا! مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اُسے اپنے حق کی خاطر قلم اور تلوار دونوں سے کام لینا چاہیے۔
 
Top