خوشیوں کے چار دن بھی میں نے کبھی نہ پائے-----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------------
خوشیوں کے چار دن بھی میں نے کبھی نہ پائے
میں نے سدا ہی دیکھے سر پر غموں کے سائے
------------
دنیا سمجھ رہی ہے خوشیاں ہیں پاس میرے
وہ جانتے نہیں ہیں بیٹھا ہوں غم چھپائے
-------------
وعدہ کیا تھا مجھ سے میرا وہ ساتھ دیں گے
تھوڑے ہی دن جو گزرے غیروں کے ساتھ آئے
------------
ایسا ملا نہ کوئی جس کا ہو پیار سچا
میرے جو ساتھ اپنی الفت سدا نبھائے
-------------
میں نے سبھی کو پرکھا سارے بدل گئے تھے
غربت جو مجھ پہ دیکھی اپنے ہوئے پرائے
------------
یہ زندگی کٹھن ہے میری سمجھ سے بالا
سوچیں ہوئی ہیں گھائل بیٹھا ہوں سر جھکائے
------------
جو بھی گیا یہاں سے آیا نہیں وہ واپس
پردے کے پار کیا ہے کوئی مجھے بتائے
-----------
پہلے ہی میں دکھی ہوں دنیا سے جا کے کہہ دو
ورنہ میں رو پڑوں گا میرا نہ دل دکھائے
----------
ان کو خبر نہیں ہے جن کے لئے مرے تھے
اٹھنے کو ہے جنازہ کوئی انہیں بتائے
---------------
پینا گنہ سمجھ کر بچتا رہا ہے ارشد
پی لے گا یہ ہے وعدہ آنکھوں سے وہ پلائے
----------یا
پیتا نہیں ہے ارشد پھر بھی ہے اس کا وعدہ
آئے وہ پاس اُس کے آنکھوں سے پھر پلائے
------------
 

الف عین

لائبریرین
خوشیوں کے چار دن بھی میں نے کبھی نہ پائے
میں نے سدا ہی دیکھے سر پر غموں کے سائے
------------ درست

دنیا سمجھ رہی ہے خوشیاں ہیں پاس میرے
وہ جانتے نہیں ہیں بیٹھا ہوں غم چھپائے
------------- کون جانتے ہیں؟ پہلے مصرع میں دنیا فاعل ہے، 'وہ جانتی نہیں ہے' درست ہو گا

وعدہ کیا تھا مجھ سے میرا وہ ساتھ دیں گے
تھوڑے ہی دن جو گزرے غیروں کے ساتھ آئے
------------ دوسرا مصرع رواں نہیں لگتا۔ اس کے فاعل کا بھی پتہ نہیں چلتا، 'وہ' تو کہنا ضروری ہے
میرا وہ ساتھ؟ وہ میرا ساتھ دیں گے' بہتر بیانیہ نہیں؟

ایسا ملا نہ کوئی جس کا ہو پیار سچا
میرے جو ساتھ اپنی الفت سدا نبھائے
-------------' جو میرے ساتھ اپنی..... ' باقی ٹھیک ہے

میں نے سبھی کو پرکھا سارے بدل گئے تھے
غربت جو مجھ پہ دیکھی اپنے ہوئے پرائے
------------ مجھ پہ غربت؟ عجیب ہے 'غربت جو میری' ممکن ہے

یہ زندگی کٹھن ہے میری سمجھ سے بالا
سوچیں ہوئی ہیں گھائل بیٹھا ہوں سر جھکائے
------------ ربط مضبوط تو نہیں

جو بھی گیا یہاں سے آیا نہیں وہ واپس
پردے کے پار کیا ہے کوئی مجھے بتائے
----------- پردہ ہی کیوں، اس کی معنویت پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے

پہلے ہی میں دکھی ہوں دنیا سے جا کے کہہ دو
ورنہ میں رو پڑوں گا میرا نہ دل دکھائے
---------- 'دنیا سے جا کے کہ دو، میرا نہ دل دکھانے' بہتر
مصرع ہو گا، اس پر گرہ لگاؤ

ان کو خبر نہیں ہے جن کے لئے مرے تھے
اٹھنے کو ہے جنازہ کوئی انہیں بتائے
---------------
پینا گنہ سمجھ کر بچتا رہا ہے ارشد
پی لے گا یہ ہے وعدہ آنکھوں سے وہ پلائے
----------یا
پیتا نہیں ہے ارشد پھر بھی ہے اس کا وعدہ
آئے وہ پاس اُس کے آنکھوں سے پھر پلائے
--------- وعدہ کی معنویت سمجھ میں نہیں آتی
 
الف عین
( اصلاح کے بعد دوبارا )
خوشیوں کے چار دن بھی میں نے کبھی نہ پائے
میں نے سدا ہی دیکھے سر پر غموں کے سائے
------------
دنیا سمجھ رہی ہے خوشیاں ہیں پاس میرے
وہ جانتی نہیں ہے بیٹھا ہوں غم چھپائے
-------------
وعدہ کیا تھا مجھ سے وہ ساتھ دیں گے میرا
تھوڑے ہی دن جو گزرے غیروں کے ساتھ آئے
------------
ایسا ملا نہ کوئی جس کا ہو پیار سچا
جو میرے ساتھ اپنی الفت سدا نبھائے
------------
میں نے سبھی کو پرکھا سارے بدل گئے تھے
غربت جو میری دیکھی اپنے ہوئے پرائے
-----------
میری سمجھ سے بالا میں مسئلے جہاں کے
سوچیں ہوئی ہیں گھائل بیٹھا ہوں سر جھکائے
------------
جو بھی گیا یہاں سے آیا نہیں وہ واپس
مرنے کے بعد کیا ہے کوئی مجھے بتائے
-----------
پہلے ہی میں دکھی ہوں بچھڑا ہے یار میرا
دنیا سے جا کے کہہ دو ،میرا نہ دل دکھائے
---------
ان کو خبر نہیں ہے جن کے لئے مرے تھے
اٹھنے کو ہے جنازہ اب تک نہیں وہ آئے
---------------
ارشد کسی کے دل میں اتنی جگہ بنا لو
مرنے کے بعد تیری بھی یاد اس کو آئے
------------یا
رشتہ خدا سے چھوٹے ان کے لئے نہ ارشد
دنیا میں سب یہ رشتے تُو نے ہیں جو بنائے
----------
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے لیکن مقطع..
رشتوں والا شعر وضاحت طلب ہے، رشتے لفظ بھی بار بار آنا مستحسن نہیں۔ دوسرا مقطع بہتر ہے لیکن موجودہ الفاظ اور ترتیب درست نہیں
مرنے کے بعد تیری بھی یاد اس کو آئے
غلط جگہ سے ٹوٹنے کے علاوہ 'مرنے کے بعد بھی' کہنا چاہتے ہیں مگر الفاظ 'تیری بھی یاد' مختلف معنی رکھتے ہیں
 
Top