خوشیاں منا رہے ہیں ایسے فساد کر کے-- برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
---------
خوشیاں منا رہے ہیں ایسے فساد کر کے
آئے ہیں لوگ جیسے کوئی جہاد کر کے
-----------
مانگیں تھیں جو دعائیں پوری خدا نے کر دی
دل خوش ہوا ہے میرا حاصل مراد کر کے
-------------
خوشیاں کسی کو دینا سچی خوشی یہی ہے
دیکھو کبھی کسی کو دنیا میں شاد کر کے
---------------
لوٹا وطن کو میرے پردیس میں ہے ڈیرہ
بیٹھے ہیں دور ہم سے حاصل مفاد کر کے
-------------
آتی ہے یاد تیری کیسے تجھے بھلا دوں
آیا سکون دل کو تجھ کو ہی یاد کر کے
------یا
پایا سکون دل نے تجھ کو ہے یاد کر کے
-----------
پا کر میں پیار اس کا خوشیاں منا رہا ہے
وہ بھی تو مطمئن ہے دل کو کشاد کر کے
-----------
گر ہو خطا کسی سے کر دو معاف ارشد
حاصل نہ ہو گا کچھ بھی تجھ کو عناد کر کے
----------------
 
لگتا ہے اس مرتبہ صرف قافیہ پیمائی کی ہے، شاعری نہیں کی

انگیں تھیں جو دعائیں پوری خدا نے کر دی
دل خوش ہوا ہے میرا حاصل مراد کر کے

پہلے مصرع میں آخر میں ’’کردیں‘‘ آنا چاہیے

دوسرے مصرع میں ’’حاصل مراد کرکے‘‘ بے معنی لگ رہا ہے۔

خوشیاں کسی کو دینا سچی خوشی یہی ہے
دیکھو کبھی کسی کو دنیا میں شاد کر کے
’’کسی کو شاد کرنا‘‘؟؟؟

لوٹا وطن کو میرے پردیس میں ہے ڈیرہ
بیٹھے ہیں دور ہم سے حاصل مفاد کر کے

ضمیروں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔

آتی ہے یاد تیری کیسے تجھے بھلا دوں
آیا سکون دل کو تجھ کو ہی یاد کر کے
------یا
پایا سکون دل نے تجھ کو ہے یاد کر کے


پا کر میں پیار اس کا خوشیاں منا رہا ہے
وہ بھی تو مطمئن ہے دل کو کشاد کر کے

’’دل کو کشاد کرنا‘‘ ؟؟؟

گر ہو خطا کسی سے کر دو معاف ارشد
حاصل نہ ہو گا کچھ بھی تجھ کو عناد کر کے
’’عناد کرنا‘‘؟؟
 
Top