سلیم کوثر خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا

نیرنگ خیال

لائبریرین
خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا​
وہ کہانی کو مکمل نہیں ہونے دیتا​
سنگ بھی پھینکتا رہتا ہے کہیں ساحل سے​
اور پانی میں بھی ہلچل نہیں ہونے دیتا​
کاسہء خواب سے تعبیر اُٹھا لیتا ہے​
پھر بھی آبادی کو جنگل نہیں ہونے دیتا​
دھوپ میں چھاؤں بھی رکھتا ہے سروں پر ، لیکن​
آسماں پر کہیں بادل نہیں ہونے دیتا​
ابر بھی بھیجتا رہتا ہے سدا بستی میں​
گلی کوچوں میں بھی جل تھل نہیں ہونے دیتا​
روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی​
اور پلکوں کو بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا​
پھول ہی پھول کھلاتا ہے سرِ شاخِِ وُجود​
اور خوشبو کو مسلسل نہیں ہونے دیتا​
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے​
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب بھیا۔۔۔ میری پسندیدہ غزل ہے :)
بہت شکریہ امین بھائی۔ یہ میری بھی سلیم کوثر کے کلام سے پسندیدہ ہے۔

جناب نیرنگ خیال صاحب
بہت خوب!
بہت سی داد اس انتخاب پر
بہت خوش رہیں
قبلہ بہت مشکور ہوں آپکا۔ اس بار "ء" بھی ڈالا ہے۔ :D
 

طارق شاہ

محفلین
بہت شکریہ امین بھائی۔ یہ میری بھی سلیم کوثر کے کلام سے پسندیدہ ہے۔


قبلہ بہت مشکور ہوں آپکا۔ اس بار "ء" بھی ڈالا ہے۔ :D
جی آپ نے بالکل صحیح کیا، اسی لئے آپ کی مد میں اس پر ١٠٠ فی صد داد نچھاور کی :)

لیکن سلیم کوثر صاحب نے ایک مصرع کی بستگی میں بہت سے متاخرین کی طرح، قدما یا پرانے اسکول کا خیال نہیں کیا
ایسی مثالیں اساتذہ کے سوا بہت سے شعرا کے کلام میں مل جائیں گی۔

روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

بالا مصرع میں "اک" کی الف ادا نہیں ہو رہی ہے،
اس مصرع کی ادائیگی یوں ہو رہی ہے :
رو زک لہراُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

کیونکہ شاعری صوت اور تلفظ کی تابع ہے، اس لئے تقطیع میں وہی الفاظ ہی آئیں گے جو پڑھنے پر ادا ہوں یا جس طرح پڑھنے پر
ہمیں سنائی دے ، جو شعرا گنگنا کے لکھتے ہیں ان سے، اس طرح کا لکھا ناممکن ہے

افتخار عارف صاحب کا مقطع، مثال کے طور پر پیش ہے
اس کے دونوں مصرع میں عارف کی ع ادا نہیں ہو رہی، اس لئے تقطیع میں نہیں

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ


ویسے ہی معلومات کے لئے لکھ دی، ورنہ آپ کا کام تو درست رہا

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں صاحب
تشکّر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی آپ نے بالکل صحیح کیا، اسی لئے آپ کی مد میں اس پر ١٠٠ فی صد داد نچھاور کی :)

لیکن سلیم کوثر صاحب نے ایک مصرع کی بستگی میں بہت سے متاخرین کی طرح، قدما یا پرانے اسکول کا خیال نہیں کیا
ایسی مثالیں اساتذہ کے سوا بہت سے شعرا کے کلام میں مل جائیں گی۔

روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

بالا مصرع میں "اک" کی الف ادا نہیں ہو رہی ہے،
اس مصرع کی ادائیگی یوں ہو رہی ہے :
رو زک لہراُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

کیونکہ شاعری صوت اور تلفظ کی تابع ہے، اس لئے تقطیع میں وہی الفاظ ہی آئیں گے جو پڑھنے پر ادا ہوں یا جس طرح پڑھنے پر
ہمیں سنائی دے ، جو شعرا گنگنا کے لکھتے ہیں ان سے، اس طرح کا لکھا ناممکن ہے

افتخار عارف صاحب کا مقطع، مثال کے طور پر پیش ہے
اس کے دونوں مصرع میں عارف کی ع ادا نہیں ہو رہی، اس لئے تقطیع میں نہیں

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

ویسے ہی معلومات کے لئے لکھ دی، ورنہ آپ کا کام تو درست رہا

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں صاحب
تشکّر
بہت سی باتیں سر کے بہت ہی اوپر سے گزر گئیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عمل تقطیع اور بحور پر کوئی کتاب پڑھوں یا کسی سے سیکھ لوں۔ لیکن آپکا بہت شکریہ داد مکمل ملی آخر۔ ہماری محنت ٹھکانے لگی۔ :)
 

طارق شاہ

محفلین
بہت سی باتیں سر کے بہت ہی اوپر سے گزر گئیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عمل تقطیع اور بحور پر کوئی کتاب پڑھوں یا کسی سے سیکھ لوں۔ لیکن آپکا بہت شکریہ داد مکمل ملی آخر۔ ہماری محنت ٹھکانے لگی۔ :)
جناب اگر وقت میسر ہو تو ضرورایسا کیجئے گا، ورنہ ویب پر بھی اس بابت قافی مواد پڑھنے کے لئے ہے

میری داد آپ کے ذوقِ خُوب کے مقابل کچھ بھی نہیں، بہت خوش رہیں

جواب کے لئے تشکّر
 

محمد وارث

لائبریرین
جی آپ نے بالکل صحیح کیا، اسی لئے آپ کی مد میں اس پر ١٠٠ فی صد داد نچھاور کی :)

لیکن سلیم کوثر صاحب نے ایک مصرع کی بستگی میں بہت سے متاخرین کی طرح، قدما یا پرانے اسکول کا خیال نہیں کیا
ایسی مثالیں اساتذہ کے سوا بہت سے شعرا کے کلام میں مل جائیں گی۔

روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

بالا مصرع میں "اک" کی الف ادا نہیں ہو رہی ہے،
اس مصرع کی ادائیگی یوں ہو رہی ہے :
رو زک لہراُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

اس مصرعے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، روز اور اک علیحدہ علیحدہ ہی ادا ہو رہے ہیں، جس طرح آپ لکھ رہے ہیں اسطرح بے وزن ہو جائے گا۔ روز اک کو رو زک پڑھنا بھی غلط نہیں ہے، الف کا سقوط تو میر سے لیکر اب تک ہو رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی، لیکن یہاں سلیم کوثر کے مذکورہ مصرعے میں یہ سقوط یا وصال نہیں ہو رہا ہے، روز اک لہ، فاعلاتن کا وزن ہے، رو زک لہ کرنے سے مفعولن ہو جائے گا اور مصرع بے وزن۔
 

طارق شاہ

محفلین
جی آپ نے بالکل صحیح کیا، اسی لئے آپ کی مد میں اس پر ١٠٠ فی صد داد نچھاور کی :)

لیکن سلیم کوثر صاحب نے ایک مصرع کی بستگی میں بہت سے متاخرین کی طرح، قدما یا پرانے اسکول کا خیال نہیں کیا
ایسی مثالیں اساتذہ کے سوا بہت سے شعرا کے کلام میں مل جائیں گی۔

روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

بالا مصرع میں "اک" کی الف ادا نہیں ہو رہی ہے،
اس مصرع کی ادائیگی یوں ہو رہی ہے :
رو زک لہراُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

کیونکہ شاعری صوت اور تلفظ کی تابع ہے، اس لئے تقطیع میں وہی الفاظ ہی آئیں گے جو پڑھنے پر ادا ہوں یا جس طرح پڑھنے پر
ہمیں سنائی دے ، جو شعرا گنگنا کے لکھتے ہیں ان سے، اس طرح کا لکھا ناممکن ہے

افتخار عارف صاحب کا مقطع، مثال کے طور پر پیش ہے
اس کے دونوں مصرع میں عارف کی ع ادا نہیں ہو رہی، اس لئے تقطیع میں نہیں

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

ویسے ہی معلومات کے لئے لکھ دی، ورنہ آپ کا کام تو درست رہا

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں صاحب
تشکّر
اس مصرعے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، روز اور اک علیحدہ علیحدہ ہی ادا ہو رہے ہیں، جس طرح آپ لکھ رہے ہیں اسطرح بے وزن ہو جائے گا۔ روز اک کو رو زک پڑھنا بھی غلط نہیں ہے، الف کا سقوط تو میر سے لیکر اب تک ہو رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی، لیکن یہاں سلیم کوثر کے مذکورہ مصرعے میں یہ سقوط یا وصال نہیں ہو رہا ہے، روز اک لہ، فاعلاتن کا وزن ہے، رو زک لہ کرنے سے مفعولن ہو جائے گا اور مصرع بے وزن۔
جناب وارث صاحب!
اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں، جس طرح آپ نے کہا کہ روز اور اک علیحدہ علیحدہ ادا ہو رہے ہیں، یہی میرا بھی کہنا تھا
علیحدہ علیحدہ ادا کرنا ہی مصرع کی فطری ادائیگی کے برعکس ہے

آپ غزل کے تمام اشعار کو با آواز بلند ادا کریں گے تو اس مصرع کی قلعی کھل جائے گی۔ اس مصرع کی دوسرے مصرعوں ک طرح ادائیگی پرالف مجہول (بیکار) ہے، کہ اس میں الف کی ادائیگی کے لئے اگرتوقف کرلیں یا رک لیں تو الف تو ادا ہو جائے گا لیکن غیر فطری ہوگی ، یعنی دوسرے مصرعوں کا طرح روانی نہیں رہے گی اس میں

سقوط یا، حذف یا گرانے کی بات میں نے مطلق نہیں کی، اور نہ ہی اسے کسی اور طرح سے تشکیل دینے کی، محض الف کے نہ ادا ہونے کی بات کی ہے

یہاں "روز اک" لکھنے (مخطوطی ) میں تو صحیح ہے لیکن (ملفوظی ) صوت اور تلفظ کے مطابق نہیں، اس لئے عروض کے مروجہ قوائدِ تقطیع، کہ ملفوظی لفظ یعنی جو
لفظ تلفظ میں ادا ہو رہے ہیں تقطیع میں لائے جائیں، پر نہیں اترتا
میں نے اسی لئے جناب افتخار عارف کا مقطع مثال کے طور پر دیا تھا ، کہ لکھنے اور دیکھنے میں تو دونوں مصرع میں عارف کی ع نظر آ رہی ہے لیکن
ملفوظی نہیں یعنی تلفظ میں فطری ادائیگی سے ع ادا نہیں ہو رہا، اس لئے ارکان میں شمار نہیں یعنی تقطیع میں شامل نہیں بلکہ مجہول ہے اسی لئے عارف صاحب نے
ع کو تقطیع سے مبرا ہی کیا،ویسے ہی جیسے کہ تقطیع کا اصول اس کا متقاضی تھا

امید ہے اپنی بات کی وضاحت صحیح طرح سے کرپایا میں، ویسے میں نے یوں بھی لکھ دیا تھا کہ بہت سے شعرا کے کلام میں یہ عمل نظر آ جائے گا سوائے
اساتزہ کے

وارث صاحب ایک بار پھر سے تشکّر

بہت خوش رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

مہ جبین

محفلین
بہت شکریہ اپیا آپکو بھاء گیا انتخاب (یہ سرائیکی والا بھاء نہیں ہے:p )

سرائیکی میں بھاء کا مطلب بھائی ہوتا ہے؟

بھائی نیرنگ خیال میری معلومات میں اضافہ فرمائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ اپیا آپکو بھاء گیا انتخاب (یہ سرائیکی والا بھاء نہیں ہے:p )

سرائیکی میں بھاء کا مطلب بھائی ہوتا ہے؟

بھائی نیرنگ خیال میری معلومات میں اضافہ فرمائیں
نہیں اپیا سرائیکی میں بھا کا مطلب آگ ہوتا ہے۔ جب کوئی کسی سے ناراضگی کا اظہار کرے تب بھی مستعمل ہے
 
جی آپ نے بالکل صحیح کیا، اسی لئے آپ کی مد میں اس پر ١٠٠ فی صد داد نچھاور کی :)

لیکن سلیم کوثر صاحب نے ایک مصرع کی بستگی میں بہت سے متاخرین کی طرح، قدما یا پرانے اسکول کا خیال نہیں کیا
ایسی مثالیں اساتذہ کے سوا بہت سے شعرا کے کلام میں مل جائیں گی۔

روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

بالا مصرع میں "اک" کی الف ادا نہیں ہو رہی ہے،
اس مصرع کی ادائیگی یوں ہو رہی ہے :
رو زک لہراُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی

کیونکہ شاعری صوت اور تلفظ کی تابع ہے، اس لئے تقطیع میں وہی الفاظ ہی آئیں گے جو پڑھنے پر ادا ہوں یا جس طرح پڑھنے پر
ہمیں سنائی دے ، جو شعرا گنگنا کے لکھتے ہیں ان سے، اس طرح کا لکھا ناممکن ہے

افتخار عارف صاحب کا مقطع، مثال کے طور پر پیش ہے
اس کے دونوں مصرع میں عارف کی ع ادا نہیں ہو رہی، اس لئے تقطیع میں نہیں

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

ویسے ہی معلومات کے لئے لکھ دی، ورنہ آپ کا کام تو درست رہا

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں صاحب
تشکّر

اس مصرعے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، روز اور اک علیحدہ علیحدہ ہی ادا ہو رہے ہیں، جس طرح آپ لکھ رہے ہیں اسطرح بے وزن ہو جائے گا۔ روز اک کو رو زک پڑھنا بھی غلط نہیں ہے، الف کا سقوط تو میر سے لیکر اب تک ہو رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی، لیکن یہاں سلیم کوثر کے مذکورہ مصرعے میں یہ سقوط یا وصال نہیں ہو رہا ہے، روز اک لہ، فاعلاتن کا وزن ہے، رو زک لہ کرنے سے مفعولن ہو جائے گا اور مصرع بے وزن۔

جناب وارث صاحب!
اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں، جس طرح آپ نے کہا کہ روز اور اک علیحدہ علیحدہ ادا ہو رہے ہیں، یہی میرا بھی کہنا تھا
علیحدہ علیحدہ ادا کرنا ہی مصرع کی فطری ادائیگی کے برعکس ہے

آپ غزل کے تمام اشعار کو با آواز بلند ادا کریں گے تو اس مصرع کی قلعی کھل جائے گی۔ اس مصرع کی دوسرے مصرعوں ک طرح ادائیگی پرالف مجہول (بیکار) ہے، کہ اس میں الف کی ادائیگی کے لئے اگرتوقف کرلیں یا رک لیں تو الف تو ادا ہو جائے گا لیکن غیر فطری ہوگی ، یعنی دوسرے مصرعوں کا طرح روانی نہیں رہے گی اس میں

سقوط یا، حذف یا گرانے کی بات میں نے مطلق نہیں کی، اور نہ ہی اسے کسی اور طرح سے تشکیل دینے کی، محض الف کے نہ ادا ہونے کی بات کی ہے

یہاں "روز اک" لکھنے (مخطوطی ) میں تو صحیح ہے لیکن (ملفوظی ) صوت اور تلفظ کے مطابق نہیں، اس لئے عروض کے مروجہ قوائدِ تقطیع، کہ ملفوظی لفظ یعنی جو
لفظ تلفظ میں ادا ہو رہے ہیں تقطیع میں لائے جائیں، پر نہیں اترتا
میں نے اسی لئے جناب افتخار عارف کا مقطع مثال کے طور پر دیا تھا ، کہ لکھنے اور دیکھنے میں تو دونوں مصرع میں عارف کی ع نظر آ رہی ہے لیکن
ملفوظی نہیں یعنی تلفظ میں فطری ادائیگی سے ع ادا نہیں ہو رہا، اس لئے ارکان میں شمار نہیں یعنی تقطیع میں شامل نہیں بلکہ مجہول ہے اسی لئے عارف صاحب نے
ع کو تقطیع سے مبرا ہی کیا،ویسے ہی جیسے کہ تقطیع کا اصول اس کا متقاضی تھا

@محمد وارث بھائی سے صد فیصد اتفاق !! بھیا در اصل بات یوں ہے۔ افتخار صاحب کا جو شعر آپ نے نقل کیا اس میں حقیقی طور پر عارف کا ”ع“ گرا ہے یعنی پڑھینگے تو ”افتخارارف“ پڑھنے میں آئے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے آپ کو عروض کے ارکان کو سمجھ لینا بہتر ھے۔
افتخارا فاعلاتن کے وزن پر ہے۔
پورا مصرع اس وزن پر ھے:
فاعلاتن ÷ فاعلاتن ÷ فاعلاتن ÷ فاعلن
افتخارا÷رف کے تند و ÷ تیز لہجے ÷ پرنجا

اب آئیں سلیم کوثر کے مصرعے پر جس کا وزن اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ والا ہے یعنی:
فاعلاتن ÷ فعلاتن ÷ فعلاتن ÷ فعلن
روزاک لہ ÷ ر اُٹھا لا ÷ تہے بے خا ÷ بی کی

اگر آپ اس میں ”اک“ کا ”ا“ نہیں پڑہیں تو مکتوبی تو غلط ہوگا ہی۔ ساتھ ملفوظی طور سے بھی غلط ہو جائے گا۔
یہاں آپ کی پریشانی کو جو میں سمجھ پایا ہوں وہ اک کے الف سے زیادہ ”روز“ کے ”ز“ میں ہے۔
روز میں ر متحرک ۔ پھر ”و“ ساکن اور ”ز“ متحرک۔ ”ز“ کو مفتوح پڑھیں اور اِک بھی پورا پڑھیں تو یہ پریشانی رفع ہو جائے گی۔
 
Top