خود کو مجھ سے نہ تم جدا سمجھو

Imran Niazi

محفلین
اسلام و علیکم

خود سے مجھکو نہ تم جدا سمجھو
جان ! اِس بات کو ذرا سمجھو

میں‌وفا کر کے تم کو دکھلاؤں
تم اگر معنیءِ وفا سمجھو

تم تو سمجھو میرے رویے 'مسائل' کو
کب کسی غیر کو کہا سمجو

آج خائن ہوا ہوں میں‌ یارو
آج تم مجھکو بےوفا سمجھو

دنیا والو جنونِ مجنوں کو
عقل کی حد سے ماورا سمجھو

حد سے آسودگی جو بڑھ جائے
ایسے جینے کو بھی سزا سمجھو
 
بہت خب، مگر املہ کی غلطیاں اسکے حسن کو بگاڑ رہی ہیں اور ایک جگہ مسائل کا لفظ بھی اضافی معلوم دیتا ہے۔ معافی چاہتی ہوں اگر برا لگے تو۔
 

فاتح

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ ماشاء اللہ!

ذیل کے شعر میں یوں تو "رویّے" اور "مسائل" دونوں ہی جچتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر "مسائل" زیادہ پسند آ رہا ہے۔ ہاں اس کے مصرع ثانی میں "غیر کو کہا" کی بجائے "غیر سے کہا" کر دیا جائے محاورہ سلیس ہو جاتا ہے:

تم تو سمجھو میرے رویے/مسائل کو
کب کسی غیر کو کہا سمجو

اور ذیل کے شعر میں ایک تو یہ واضح نہیں ہو رہا کہ اپنے تئیں کیونکر "خائن" قرار دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی "یاروں" کو مخاطب کرنے سے یہ رنگ آ رہا ہے کہ تمام دوستوں سے کوئی خیانت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے دوسرے مصرع میں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کہا جا رہا ہو کہ "تم صرف آج ہی مجھے بے وفا سمجھو"، "آج تم" کی بجائے اگر "آج سے" لکھا جاتا تو شاید مطلب میں مزید نکھار آ سکتا تھا:
آج خائن ہوا ہوں میں‌ یارو
آج تم مجھکو بےوفا سمجھو
 

Imran Niazi

محفلین
اچھی غزل ہے۔ ماشاء اللہ!

ذیل کے شعر میں یوں تو "رویّے" اور "مسائل" دونوں ہی جچتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر "مسائل" زیادہ پسند آ رہا ہے۔ ہاں اس کے مصرع ثانی میں "غیر کو کہا" کی بجائے "غیر سے کہا" کر دیا جائے محاورہ سلیس ہو جاتا ہے:

تم تو سمجھو میرے رویے/مسائل کو
کب کسی غیر کو کہا سمجو

اور ذیل کے شعر میں ایک تو یہ واضح نہیں ہو رہا کہ اپنے تئیں کیونکر "خائن" قرار دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی "یاروں" کو مخاطب کرنے سے یہ رنگ آ رہا ہے کہ تمام دوستوں سے کوئی خیانت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے دوسرے مصرع میں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کہا جا رہا ہو کہ "تم صرف آج ہی مجھے بے وفا سمجھو"، "آج تم" کی بجائے اگر "آج سے" لکھا جاتا تو شاید مطلب میں مزید نکھار آ سکتا تھا:
آج خائن ہوا ہوں میں‌ یارو
آج تم مجھکو بےوفا سمجھو

بہت بہت شکریہ فاتح صاحب

سر اگر دوسرے شعر کو یوں کر دیا جائے تو کیسا رہیگا ؟
آج خائن ہوں میں‌تیرا یا آج خائن ہوں میں‌جاناں !
آج سے مجھکو بے وفا سمجھو
 

Imran Niazi

محفلین
بہت خب، مگر املہ کی غلطیاں اسکے حسن کو بگاڑ رہی ہیں اور ایک جگہ مسائل کا لفظ بھی اضافی معلوم دیتا ہے۔ معافی چاہتی ہوں اگر برا لگے تو۔

برا لگنے والی کوئی بات نہیں بہت شکریہ حوصلہ افزائی کے لیئے
مسائل اور رویے اِس لیئے ایک ساتھ لکھا تھا کہ اِن میں‌سے جو بھی اچھا لگے اور فٹ رہے وہ استعمال ہوگا
اور املا کی مجھے تو کوئی غلطی نظر نہیں‌آرہی اگر کوئی ہے تو نشاندہی فرما دیں میں‌ٹھیک کر دوں گا
خوش رہیں
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ فاتح صاحب

سر اگر دوسرے شعر کو یوں کر دیا جائے تو کیسا رہیگا ؟
آج خائن ہوں میں‌تیرا یا آج خائن ہوں میں‌جاناں !
آج سے مجھکو بے وفا سمجھو
اول تو دونوں طرح مصرع وزن سے گر جاتا ہے لیکن اس کا حل تو یوں کی جا سکتا ہے کہ درمیان میں ایک آدھ لفظ کا اضافہ کر دیا جائے۔ مثلاً آج خائن ہوں میں "صنم" تیرا، وغیرہ
دوسری بات یہ کہ خیانت کی وضاحت تو یوں بھی نہیں ہو رہی ہے مگر یوں تمام یاروں دوستوں کو مخاطب نہیں کیا گیا۔
 
خود سے مجھکو نہ تم جدا سمجھو
جان ! اِس بات کو ذرا سمجھو

خود کو مجھ سے نہ تم جدا سمجھو
جان اِس بات کو ذرا سمجھو

روانی کے اعتبار سے کون سا درست ہے ، احباب بھی رائے دیں
 

الف عین

لائبریرین
فاتح کی اصلاحیں قابلِ غور ہیں۔ ان کے بارے میں سوچیں۔ لیکن ’خائن‘ والے شعر میں مجھے ’صنم‘ کچھ عامیانہ لگتا ہے۔ اس کو سیدھا سادا یوں کہا جا سکتا ہے نا
آج خائن ہوں میں ترا جاناں
 
Top