خواہشِ دل عجب تماشا ہے۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل:

خواہشِ دل عجب تماشا ہے
سب اسی کے سبب تماشا ہے

ایک شاطر کی چال کی مانند
یہ سیاست غضب تماشا ہے

یہ فغاں میری، یہ مِرے آنسو
تو سمجھتا ہے سب تماشا ہے

چاہتا ہوں کہ ہر سو امن رہے
کیا یہ میری طلب تماشا ہے

بے لباسی بھی ٹھہری نام وری
آہ کیسا عجب تماشا ہے

یہ پریشان یہ سسکتے لوگ
ہیں تماشا تو سب تماشا ہے

ہے مداری کی ڈگڈگی کی طرح
جو بنامِ نسب تماشا ہے

تو تماشا ہو جائے گا غافل
کیوں یہ کہتا ہے، سب تماشا ہے

منحصر ہے یہ مصلحت پہ، کہ سچ
کب حقیقت ہے کب تماشا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بڑی مشکل زمین لی ہے! مگر درست ہے غزل، سوائے اس شعر کے
تو تماشا ہو جائے گا غافل
کیوں یہ کہتا ہے، سب تماشا ہے
.. ہُجائے تقطیع ہو رہا ہے۔ اسے درست کر دو
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بڑی مشکل زمین لی ہے! مگر درست ہے غزل، سوائے اس شعر کے
تو تماشا ہو جائے گا غافل
کیوں یہ کہتا ہے، سب تماشا ہے
.. ہُجائے تقطیع ہو رہا ہے۔ اسے درست کر دو
خود تماشا ہے بن گیا غافل
کہتا پھرتا تھا سب تماشا ہے
 
آخری تدوین:
Top