خوارج - اولین انکارِ حدیث گروہ

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سر اٹھانے والے فتنوں میں سے ایک فتنہ خوارج کا تھا۔ خوارج نے اپنی مرضی سے قرآن کریم کی تفسیر کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اجتماعی عقیدے سے انحراف کیا۔

امام شوکانی نے اپنی تفسیر "فتح القدیر" کے مقدمہ میں اسی ضمن میں ایک روایت ذکر کی ہے۔

جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خوارج سے مناظرہ کے لیے بھیجا تو ان سے فرمایا :
خوارج کے پاس جاؤ۔ لیکن یاد رکھنا کہ ان سے قرآن کی بنیاد پر مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی پہلوؤں کا حامل ہے۔ بلکہ "سنت" کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرنا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
میں کتاب اللہ کا ان سے زیادہ عالم ہوں۔
(یاد رہے کہ امتِ مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دے رکھا ہے)
حضرت علی (رض) نے ان کی بات سن کر کہا :
تمہاری بات بجا ، لیکن قرآن کئی پہلوؤں کا حامل اور کئی معانی کا متحمل ہے !!
حوالہ : مقدمہ ، تفسیر فتح القدیر للشوکانی۔

پھر "ترجمان القرآن" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج کے سامنے آیت
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 57 )
کی وہ تفسیر بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھی اور ان پر واضح کیا کہ ان کا نظریہ غلط ہے تو خوارج لاجواب ہو گئے۔
حوالہ : سير اعلام النبلاء للامام الذهبی

ویسے تو منکرینِ حدیث کے ردّ میں بیشمار کتب تحریر کی جا چکی ہیں اور جن کا حوالہ بھی وقتاً فوقتاً دیا جاتا ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
منکرینِ حدیث کے سب سے پہلے گروہ یعنی "خوارج" پر امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ واقعی ہر دور کے منکرینِ حدیث پر سو فیصد صادق آ سکتا ہے !!
امام ابن حزم ، خوارج کے بارے میں اپنی کتاب "الفصل فی الملل و النحل" میں فرماتے ہیں :
كانوا أعراباً قرؤا القرآن قبل أن يتفقهوا في السنن
یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا !!
حوالہ : الفصل فی الملل و النحل ، ابو محمد علي بن احمد بن حزم ، ج:4 ؛ ص:168
 
باذوق صاحب مختصر اور عمدہ تحریر۔ویسے کیا آپ اس پر بھی کچھ پیش کر سکتے ہیں کہ احادیث میں اولا تحریف کن گروہوں نے اور کن مقاصد کے تحت کی۔مون لائٹ آفریدی صاحب اردو میں نہ صرف ابن حزم کی الملل و النحل بلکہ شہرستانی کی الملل والنحل ، عبد القادر بغدادی کی الفرق بین الفرق اور ابو زہرہ مصری کی تاریخ مذاہب الاسلامیہ کے بھی اردو تراجم ہو چکے ہیں تاہم غالبا ان میں سے کوئی بھی کتاب کمپیوٹر پر دستیاب نہیں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سر اٹھانے والے فتنوں میں سے ایک فتنہ خوارج کا تھا۔ خوارج نے اپنی مرضی سے قرآن کریم کی تفسیر کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اجتماعی عقیدے سے انحراف کیا۔

امام شوکانی نے اپنی تفسیر "فتح القدیر" کے مقدمہ میں اسی ضمن میں ایک روایت ذکر کی ہے۔

جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خوارج سے مناظرہ کے لیے بھیجا تو ان سے فرمایا :
خوارج کے پاس جاؤ۔ لیکن یاد رکھنا کہ ان سے قرآن کی بنیاد پر مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی پہلوؤں کا حامل ہے۔ بلکہ "سنت" کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرنا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
میں کتاب اللہ کا ان سے زیادہ عالم ہوں۔
(یاد رہے کہ امتِ مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دے رکھا ہے)
حضرت علی (رض) نے ان کی بات سن کر کہا :
تمہاری بات بجا ، لیکن قرآن کئی پہلوؤں کا حامل اور کئی معانی کا متحمل ہے !!
حوالہ : مقدمہ ، تفسیر فتح القدیر للشوکانی۔

پھر "ترجمان القرآن" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج کے سامنے آیت
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 57 )
کی وہ تفسیر بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھی اور ان پر واضح کیا کہ ان کا نظریہ غلط ہے تو خوارج لاجواب ہو گئے۔
حوالہ : سير اعلام النبلاء للامام الذهبی

ویسے تو منکرینِ حدیث کے ردّ میں بیشمار کتب تحریر کی جا چکی ہیں اور جن کا حوالہ بھی وقتاً فوقتاً دیا جاتا ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
منکرینِ حدیث کے سب سے پہلے گروہ یعنی "خوارج" پر امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ واقعی ہر دور کے منکرینِ حدیث پر سو فیصد صادق آ سکتا ہے !!
امام ابن حزم ، خوارج کے بارے میں اپنی کتاب "الفصل فی الملل و النحل" میں فرماتے ہیں :
كانوا أعراباً قرؤا القرآن قبل أن يتفقهوا في السنن
یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا !!
حوالہ : الفصل فی الملل و النحل ، ابو محمد علي بن احمد بن حزم ، ج:4 ؛ ص:168

جہاں تک میں نے خوارج کے متعلق پڑھا ہے، اسکے بعد میں یہ سمجھ سکی ہوں کہ:

1۔ خوارج کوئی الگ سے "فرقہ" نہیں تھا اور نہ ہی انکا کوئی الگ سے فقہ تھا۔

2۔ ان میں اور باقی مسلمانوں میں "صرف اور صرف" ایک فرق تھا اور وہ تھا "سیاسی نظریات" کا فرق۔
یہ لوگ اسلام کی صرف ایک شاخ یعنی سیاست کے میدان میں انتہا پسند ہو گئے تھے اور انہوں نے سیاسی میدان میں اپنا رہنما اصول قران کی اس آیت کو بنا لیا تھا "اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چاہے مشرکوں کو یہ ناگوار نہ کیوں نہ گذرے۔"
[چنانچہ یہ پہلا گروہ تھا جس نے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان دونوں گروہوں کو مشرک قرار دینا شروع کر دیا تھا]

3۔ اور جہاں تک میں پڑھ سکی ہوں تو خوارج مطلقا "منکر حدیث" نہ تھے، بلکہ صرف اس ایک سیاست کے میدان میں انہوں نے "صرف قران" کی روش اپنا لی تھی اور قرانی آیت کی "تفسیر بالرائے" کرنے لگے تھے [جبکہ باقی ماندہ چیزوں میں وہ حدیث سے ہدایت لیتے تھے]

جب علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو نصیحت کی تھی کہ وہ سنت کی بنیاد پر انہیں قائل کریں ۔۔۔۔۔ تو یہ بات دو چیزیں ثابت کر رہی ہے:

1۔ خوارج مطلقا منکر حدیث نہ تھے۔
2۔ مگر صرف اپنے سیاسی مقاصد کو زندہ رکھنے کے لیے وہ اس معاملے میں حدیث سے نظر چرا کر تفسیر بالرائے کا سہارا لینے لگے تھے، اور صرف یہ بات کافی تھی کہ وہ راہ مستقیم سے بھٹک جائیں اور موجب فتنہ بن جائیں۔

چنانچہ، خوارج تو صرف ایک آیت کے متعلق تفسیر بالرائے کرتے ہوئے بھٹکے اور موجب فتنہ بنے۔ مگر آجکل کے "مطلق منکرین حدیث" کے متعلق سوچئیے کہ:

1۔ وہ تو ہر ہر آیت کا اپنی مرضی کے مطابق توڑ مڑوڑ کر مطلب نکال رہے ہوتے ہیں۔
2۔ اور منکرین حدیث حضرات کا حدیث ماننے والوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان میں نماز جیسی چیز پر بھی اختلاف ہے۔ مگر کیا یہ لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ حدیث ماننے والوں میں تو صرف جزئیات پر ہی اختلاف ہے، مگر ان منکرین حدیث کا تو "بنیاد" پر اختلاف ہے۔
مثلا منکرین حدیث کا ایک گروہ 5 وقت کی نماز کا قائل ہے تو دوسرا 3 وقت کی اور تیسرا 2 وقت کی۔۔۔۔۔ اور عرب میں چند ایک ایسے منکرین حدیث بھی گذرے جنہیں اپنی عربی پر ایسا ناز ہوا کہ قران کو اپنی رائے سے سمجھنے نکلے اور انہوں نے "صلوۃ" کا مطلب نماز پڑھنا نہیں بلکہ صرف "دعا" مانگنا کر دیا اور یوں وہ سرے سے ہی نماز کے منکر ہو گئے۔

3۔ اور جو حشر نماز کی بنیاد میں ہوا، وہی حشر حج، روزہ، زکوۃ، خمس، جہاد اور ہر ہر اسلامی شریعت کے قانون کے ساتھ ہوا۔

بات مختصر، خوارج صرف ایک آیت کے متعلق منکر حدیث ہوئے اور فتنہ بنے۔ مگر جب آجکل کے یہ مطلق منکرین حدیث کے گروہ اگر خوارج کے طرح "طاقت" پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو اُس دن امت خوارج سے کہیں بڑھ کر فتنہ و فساد پھیلتا ہوا دیکھی گی۔
 
مہوش بہن ، بہت شکریہ ، ان بہترین معلومات کا۔

--- یقین رکھئے کہ اس پیغام میں اشارہ آپ کی طرف کہیں‌بھی نہیں ہے ---

ایک گروہ منکر الحدیث اور منکرِ صل۔ٰوۃ کا ایسا بھی ہے جو کہ صل۔ٰوۃ‌ کو نماز مانتا ہی نہیں‌ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ صل۔ٰوۃ اصل میں‌اس مشاورتی محفل کا نام ہے جو رسول اکرم منعقد فرماتے تھے اور اس کے آخر میں کچھ دعا وغیرہ ہوجاتی تھی جو آگے بڑھ کر نماز بن گئی - نعوذ باللہ

پھر ایک نئے قسم کے لوگ بھی ہیں‌جو منکر الحدیث ہی نہیں بلکہ منکر القرآن بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ ان روایات کو جو قرآن سے واضح متصادم ہیں، قرآن کے مخالف ہیں اور غیر موافق القرآن ہیں، --- یہ لوگ موضوع قرار نہیں دیتے --- بلکہ ان غیر موافق القرآن روایات کو کسی نہ کسی دوسری قسم کی وحی قرار دیتے ہیں، کہ اللہ تعالی نے اپنے قرآن کی مخالفت خود اپنی خفیہ وحی سے ہی کردی تھی۔ نعوذ‌باللہ --- اس طرح‌قرآن کو باطل قرار دینے میں بہت پیش پیش ہیں۔ یہ خفیہ وحی چھپا کر رکھی گئی ورنہ خلفائے راشدین اس کو ضائع کرا دیتے ۔ اس لئے یہ 200 سال کے لگ بھگ تک منظر عام پر نہیں آئی۔

ان لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا - نعوذ‌باللہ - اور قران کے علاوہ بہت ساری وحی کی تدوین کوئی 200 سال ہو ہی نہیں‌ پائی۔ کہ اللہ تعالی اتنا لاپرواہ تھا ---- نعوذ‌باللہ --- کہ اس نے اپنے دین کو خطبۃ الوداع کے موقع پر ہی مکمل قرار دے دیا۔ یہ تو بہت بعد میں جا کر پتہ چلا کہ اللہ تعالی کچھ غیر موافق القرآن وحی بھول ہی گیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بعد کے --- "انبیاء " نے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر مکمل کی ۔۔۔

ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ --- نعوذ باللہ --- اللہ کا دین خطبۃ الوداع کے دن مکمل نہیں‌ہوا تھا، رسول کی گواہی جھوٹی تھی -- نعوذ باللہ --- اور اتنی وحی بکھری ہونے کا اللہ تعالی کو علم نہیں تھا - لہذا بہت جلدی میں‌ اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ نعوذ باللہ -- یہ لوگ قرآن کو حق و باطل کے لئے الفرقان بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح کم از کم قرآن کی 3 عدد آیات کے اس طرح انکاری ہیں کہ صاف چھپتے بھی نہیں - سامنے آتے بھی نہیں ۔

خدارا یہ نہیں کہئیے گا کہ ایسے لوگوں کا وجود نہیں ہے۔ کہ
محفل پر بھی چند لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں - اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے --- ان لوگوں کے نزدیک انسانوں کی گواہی، اللہ کی کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ نعوذ‌باللہ ۔ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب کو قرآن اور سنت کی مدد سے ہدایت عطا فرمائے۔

منکرینِ حدیث کے سب سے پہلے گروہ یعنی "خوارج" پر امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ واقعی ہر دور کے منکرینِ حدیث پر سو فیصد صادق آ سکتا ہے !!
امام ابن حزم ، خوارج کے بارے میں اپنی کتاب "الفصل فی الملل و النحل" میں فرماتے ہیں :
[arabic]كانوا أعراباً قرؤا القرآن قبل أن يتفقهوا في السنن[/arabic]
یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا !!

اس کے معانی یہ ہوئے کہ ؂؂؂ سنت کو یہ دیہاتی کبھی سمجھے ہی نہیں ---- کہ صاحب القرآن کی کوئی سنت صحیح‌ ، خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی اور اگر غیر موافق القرآن ہے تو سنت ہی نہیں ‌ہے


والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہن ، بہت شکریہ ، ان بہترین معلومات کا۔

--- یقین رکھئے کہ اس پیغام میں اشارہ آپ کی طرف کہیں‌بھی نہیں ہے ---

ایک گروہ منکر الحدیث اور منکرِ صل۔ٰوۃ کا ایسا بھی ہے جو کہ صل۔ٰوۃ‌ کو نماز مانتا ہی نہیں‌ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ صل۔ٰوۃ اصل میں‌اس مشاورتی محفل کا نام ہے جو رسول اکرم منعقد فرماتے تھے اور اس کے آخر میں کچھ دعا وغیرہ ہوجاتی تھی جو آگے بڑھ کر نماز بن گئی - نعوذ باللہ

پھر ایک نئے قسم کے لوگ بھی ہیں‌جو منکر الحدیث ہی نہیں بلکہ منکر القرآن بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ ان روایات کو جو قرآن سے واضح متصادم ہیں، قرآن کے مخالف ہیں اور غیر موافق القرآن ہیں، --- یہ لوگ موضوع قرار نہیں دیتے --- بلکہ ان غیر موافق القرآن روایات کو کسی نہ کسی دوسری قسم کی وحی قرار دیتے ہیں، کہ اللہ تعالی نے اپنے قرآن کی مخالفت خود اپنی خفیہ وحی سے ہی کردی تھی۔ نعوذ‌باللہ --- اس طرح‌قرآن کو باطل قرار دینے میں بہت پیش پیش ہیں۔ یہ خفیہ وحی چھپا کر رکھی گئی ورنہ خلفائے راشدین اس کو ضائع کرا دیتے ۔ اس لئے یہ 200 سال کے لگ بھگ تک منظر عام پر نہیں آئی۔

ان لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا - نعوذ‌باللہ - اور قران کے علاوہ بہت ساری وحی کی تدوین کوئی 200 سال ہو ہی نہیں‌ پائی۔ کہ اللہ تعالی اتنا لاپرواہ تھا ---- نعوذ‌باللہ --- کہ اس نے اپنے دین کو خطبۃ الوداع کے موقع پر ہی مکمل قرار دے دیا۔ یہ تو بہت بعد میں جا کر پتہ چلا کہ اللہ تعالی کچھ غیر موافق القرآن وحی بھول ہی گیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بعد کے --- "انبیاء " نے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر مکمل کی ۔۔۔

ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ --- نعوذ باللہ --- اللہ کا دین خطبۃ الوداع کے دن مکمل نہیں‌ہوا تھا، رسول کی گواہی جھوٹی تھی -- نعوذ باللہ --- اور اتنی وحی بکھری ہونے کا اللہ تعالی کو علم نہیں تھا - لہذا بہت جلدی میں‌ اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ نعوذ باللہ -- یہ لوگ قرآن کو حق و باطل کے لئے الفرقان بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح کم از کم قرآن کی 3 عدد آیات کے اس طرح انکاری ہیں کہ صاف چھپتے بھی نہیں - سامنے آتے بھی نہیں ۔

خدارا یہ نہیں کہئیے گا کہ ایسے لوگوں کا وجود نہیں ہے۔ کہ
محفل پر بھی چند لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں - اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے --- ان لوگوں کے نزدیک انسانوں کی گواہی، اللہ کی کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ نعوذ‌باللہ ۔ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب کو قرآن اور سنت کی مدد سے ہدایت عطا فرمائے۔

منکرینِ حدیث کے سب سے پہلے گروہ یعنی "خوارج" پر امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ واقعی ہر دور کے منکرینِ حدیث پر سو فیصد صادق آ سکتا ہے !!
امام ابن حزم ، خوارج کے بارے میں اپنی کتاب "الفصل فی الملل و النحل" میں فرماتے ہیں :
[arabic]كانوا أعراباً قرؤا القرآن قبل أن يتفقهوا في السنن[/arabic]
یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا !!

اس کے معانی یہ ہوئے کہ ؂؂؂ سنت کو یہ دیہاتی کبھی سمجھے ہی نہیں ---- کہ صاحب القرآن کی کوئی سنت صحیح‌ ، خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی اور اگر غیر موافق القرآن ہے تو سنت ہی نہیں ‌ہے


والسلام

آپ کے جواب میں جو سوالات ہیں وہ تشنہ ہیں اور ان سوالات کو کھل کر بیان فرما دیں تو جواب دینے میں آسانی ہو گی۔ شکریہ۔

//////////////////////////////////
از فاروق صاحب:
ان لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا - نعوذ‌باللہ - اور قران کے علاوہ بہت ساری وحی کی تدوین کوئی 200 سال ہو ہی نہیں‌ پائی۔ کہ اللہ تعالی اتنا لاپرواہ تھا ---- نعوذ‌باللہ ---

حجت الوداع کو اللہ نے اتمام نعمت اور دین مکمل ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اگرچہ کہ اسکے بعد رسول ص کی وفات تک قران کی وحی نازل ہونے اور خود رسول ص کے احکامات جاری کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

بہرحال رسول ص کی وفات پر وحی کا سلسلہ مکمل ہو چکا ہے [دونوں قران اور رسول ص کے اقوال، اعمال اور تقریر کی صورت میں]

مگر جب آپ الزام لگاتے ہیں کہ 200 سال تک صرف قران تھا اور حدیث نہ تھی، تو یہ بالکل غلط الزام ہے۔ قران کی طرح حدیث پہلے دن سے موجود تھی اور کسی چیز کا کتابی شکل میں تدوین نہ ہونا اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں۔

تو یاد رکھئیے حدیث ان 200 سالوں میں مکمل طور پر موجود تھی اور کتابی شکل میں تدوین یہ ہونا اسکے غیر اللہ کی طرف سے ہونے کی نشانی نہیں۔ اس طرح تو قران بھی رسول ص کی وفات پر کتابی شکل میں مدون نہ تھا بلکہ بعد میں کیا گیا۔

//////////////////////////
احادیث میں اختلاف کیوں؟ [سمجھنے کی بہت بنیادی بات]

اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا؟ اور پھر پیدا کر ہی دیا تھا تو شیطان کو کیوں بہکانے کا اختیار دیا؟ ۔۔۔۔۔۔ ایسے تمام سوالات کا جواب اللہ کی وہ سنت ہے کہ جس کے مطابق اللہ انسان کو ہمیشہ "ایک امتحان" میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔
اور اللہ قران میں ایک اور وعدہ کرتا ہے کہ اسکی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

غیر مسلم مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا اللہ اس بات پر قادر نہ تھا [نعوذ باللہ] کہ وہ قران کی طرح پہلے دن ہی ایک صحیفہ نازل کر دیتا اور اسکی حفاظت قران کی طرح ہی کرتا؟ مثلا اگر اللہ نے توریت و انجیل کی بھی قران کی طرح حفاظت کی ہوتی اور ان کتابوں میں محمد ص کا ذکر بالکل صحیح نام، تاریخ پیدائش، قبیلے وغیرہ کے ساتھ محفوظ ہوتا تو لاکھوں یہود و نصاری ان نشانیوں کے موجود ہونے پر آسانی سے ایمان لے آتے۔ مگر چونکہ یہ نشانیاں توریت و انجیل میں موجود نہیں اس لیے لاکھوں یہود و نصاری گمراہ ہو گئے۔

تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ انکا یہ اعتراض بالکل درست ہے کہ اگر توریت و انجیل میں موجود ان نشانیوں کی اللہ قران کی طرح حفاظت کر لیتا تو لاکھوں اہل کتاب گمراہ ہونے کی بجائے راہ ہدایت پا جاتے؟

مگر اللہ نے ان نشانیوں کی حفاظت نہ کی۔ تو وجہ کیا تھی؟ جی ہاں وجہ اللہ کی وہ سنت تھی کہ جس کی بنا پر اللہ انسان کو ہمیشہ امتحان میں متبلا دیکھنا چاہتا ہے۔ [اور اللہ قران میں فرماتا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کبھی تبدیلی نہ پاو گے]

اسی طرح اللہ چاہتا تو نماز کا طریقہ، اور ہر ہر سنت رسول کو بھی قران میں داخل کر دیتا اور اسکی قران کی طرح ہی حفاظت کرتا۔ مگر چونکہ اللہ کی سنت ہے کہ انسان کو امتحان میں مبتلا رکھنا ہے، اس لیے حدیث رسول کی تاریخی طور پر وہی حیثیت ہوئی جو انجیل و زبور کی ہوئی اور اس میں سچ کے ساتھ لوگ جھوٹ شامل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

لیکن ٹہریئے، حدیث رسول سے قبل توریت و انجیل میں بھی تو تحریف ہوئی، تو کیا عیسی و موسی علیھم السلام کے سچے ساتھیوں کو توریت و انجیل کو مکمل طور پر ٹھکرا دینا چاہیے تھا؟ نہیں، بلکہ انکا امتحان یہ پایا کہ وہ اس کتب سے سچ کو جھوٹ سے تمیز کر کے اصل ہدایت پائیں۔

/////////////////////////////

موضوع بہت لمبا ہو گیا ہے اور فاروق صاحب ہمارے اصل ٹاپک سے موضوع کو یہ سوالات کر کے دوسری طرف لے گئے ہیں۔

چنانچہ مختصرا عرض کرتی ہوں کہ:

1۔ حدیث ماننے والے تقریبا تمام فرقوں کا یہ ماننا ہے کہ: " جو روایت بھی قران کے موافق نہیں، وہ قابل قبول نہیں"۔
2۔ خلفائے راشدین کی ابتدا میں حدیث پر پابندی کے متعلق دیگر برادران یہاں پر آپ کو مجھ سے زیادہ اچھا جواب دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ اسکی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ خلفائے راشدین [معاذ اللہ] بھی "منکرین حدیث" تھے تو یہ انتہائی غلط دعوی ہے۔
اپنی ذاتی رائے سے قران کی کتابی تدوین تک قران و حدیث کے خلط ملط ہو جانے کے اندیشے سے عارضی طور پر کیے جانے والے کسی انتظام کی بنیاد پر ایسا دعوی کرنا بالکل غلط ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پہلے دو خلفاء راشدین کے بعد تیسرے اور چوتھے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کبھی ایک حدیث روایت نہ کرتے۔ مگر آپکے "منکر حدیث" کے دعوے کے برعکس تواتر سے یہ ثابت ہے کہ بقیہ تمام صحابہ تا حیات کھل کر حدیث رسول بیان کرتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے۔
3۔ اللہ کے متعلق کچھ بھول جانے کا عقیدہ کسی کا بھی نہیں۔
4۔ اگر کچھ گھڑی ہوئی روایات قران کے مخالف ہیں تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں زیادہ مضبوط روایات خود انکا رد کر رہی ہوتی ہیں اور قران کے موافق ہیں۔
5۔ اور سب سے آخر میں۔۔۔ آپ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ کچھ طبقات ایسے ہیں جو حدیث کو تو مانتے ہیں لیکن قران میں تحریف کے قائل ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے گمراہ ہونا کیا اس بات کے لیے کافی ہے کہ صحیح حدیث کا انکار کر دیا جائے اور منکرین حدیث والے اختلافات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی جائے؟ ان لوگوں نے حدیث کو صحیح طرح نہ سمجھا اور صحیح کو غلط سے تمیز نہ کر سکے اور یہ اللہ کی طرف سے امتحان میں مبتلا ہیں۔

آخر میں، آپ کھل کر اپنے اعتراضات کیجئے۔ اور جن 3 آیات کی طرف آپ نے اشارہ کیا وہ بھی اپنے مکمل موقف کے ساتھ بیان فرمائیے۔
 
آپ نے خود ہی بہت اچھا جواب دے دیا۔ بہت شکریہ، یہ جملہ آپ کے پیغام کی روح ہے ۔
1۔ حدیث ماننے والے تقریبا تمام فرقوں کا یہ ماننا ہے کہ: " جو روایت بھی قران کے موافق نہیں، وہ قابل قبول نہیں"۔

ایسے لوگ موجود ہیں جو
"ان روایات کو جو قرآن سے واضح متصادم ہیں، قرآن کے مخالف ہیں اور غیر موافق القرآن ہیں، --- یہ لوگ موضوع قرار نہیں دیتے --- بلکہ ان غیر موافق القرآن روایات کو کسی نہ کسی دوسری قسم کی وحی قرار دیتے ہیں۔

یہ ہے میرا بنیادی نکتہ جو آپ کے کسی نکتہ پر اعتراض نہیں ہے۔

2۔ خلفائے راشدین کی ابتدا میں حدیث پر پابندی کے متعلق دیگر برادران یہاں پر آپ کو مجھ سے زیادہ اچھا جواب دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ اسکی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ خلفائے راشدین [معاذ اللہ] بھی "منکرین حدیث" تھے تو یہ انتہائی غلط دعوی ہے۔

جی نہیں میں‌ایسا دعوی نہیں کررہا۔
اپنی ذاتی رائے سے قران کی کتابی تدوین تک قران و حدیث کے خلط ملط ہو جانے کے اندیشے سے عارضی طور پر کیے جانے والے کسی انتظام کی بنیاد پر ایسا دعوی کرنا بالکل غلط ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پہلے دو خلفاء راشدین کے بعد تیسرے اور چوتھے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کبھی ایک حدیث روایت نہ کرتے۔ مگر آپکے "منکر حدیث" کے دعوے کے برعکس تواتر سے یہ ثابت ہے کہ بقیہ تمام صحابہ تا حیات کھل کر حدیث رسول بیان کرتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے۔
درست فرمایا آپ نے
3۔ اللہ کے متعلق کچھ بھول جانے کا عقیدہ کسی کا بھی نہیں۔
یہ میرا طنز تھا ان لوگوں‌ کے لئے جن کے پاس ایسی وحی شدی روایات ہیں جو قرآن سے متصادم ہیں۔ (‌اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے)

4۔ اگر کچھ گھڑی ہوئی روایات قران کے مخالف ہیں تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں زیادہ مضبوط روایات خود انکا رد کر رہی ہوتی ہیں اور قران کے موافق ہیں۔
یہ بھی درست فرمایا آپ نے۔
5۔ اور سب سے آخر میں۔۔۔ آپ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ کچھ طبقات ایسے ہیں جو حدیث کو تو مانتے ہیں لیکن قران میں تحریف کے قائل ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے گمراہ ہونا کیا اس بات کے لیے کافی ہے کہ صحیح حدیث کا انکار کر دیا جائے اور منکرین حدیث والے اختلافات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی جائے؟ ان لوگوں نے حدیث کو صحیح طرح نہ سمجھا اور صحیح کو غلط سے تمیز نہ کر سکے اور یہ اللہ کی طرف سے امتحان میں مبتلا ہیں۔

اصل بات یہ کہی تھی کے کچھ لوگ قران سے متصادم روایات کو کسی دوسری قسم کی وحی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کا بہترین جواب آپ نے دے دیا کہ
ان لوگوں نے حدیث کو صحیح طرح نہ سمجھا اور صحیح کو غلط سے تمیز نہ کر سکے اور یہ اللہ کی طرف سے امتحان میں مبتلا ہیں۔
یقیناَصحیح حدیث سے انکار رسالت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار ہے۔

ان فرقوں کا تذکرہ اس لئے ضروری سمجھا کہ جس طرح خوارج قرآن پڑھ کر گمراہ ہوئے تھے اس طرح قرآن سے متصادم روایات کو کسی طرح کی وحی قرآر دے کر اسے صحیح‌ حدیث قرار دینے والے فرقے آپ کے الفاظ میں
ان لوگوں نے حدیث کو صحیح طرح نہ سمجھا اور صحیح کو غلط سے تمیز نہ کر سکے اور یہ اللہ کی طرف سے امتحان میں مبتلا ہیں۔

آپ اپنا موضوع جاری رکھئے۔ آیات کے حوالے کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔
 

دوست

محفلین
اگر آپ کسی روایت کو بطور مثال پیش کریں تو بات واضح ہوسکے۔ میں‌ ذاتی طور پر اس سلسلے میں مزید جاننے کا خواہش مند ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بیوہ عورت کی عدت
انشاء اللہ باتیں آگے چلتی رہیں گیں۔ فاروق صاحب، فی الحال آپ سے درخواست ہے کہ قران سے بیوہ عورت کی عدت کی مدت بیان فرما دیں۔ شکریہ۔
 

زیک

مسافر
[ayah]2:234[/ayah]

اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے

کیا اسی کا پوچھا تھا آپ نے؟
 
دوست سلام اور بہت ہی شکریہ۔
گو کہ پم آپ ، مہدی کے سلسلے میں ، نابالغ لرکی کے نکاح کے سلسلے میں ۔ لڑکیوں کو لکھنا سکھانے کے سلسلے میں ۔ قران اور روایات کا تصادم دیکھ چکے ہیں ۔ مزید مثالوں کے لیے تھوڑا سا صبر فرمائیے۔

والسلام۔
 

دوست

محفلین
مہدی کے سلسلے میں‌ قرآن میں‌ کوئی تردید موجود نہیں‌اس لیے اختلاف کا تو سوال ہی نہیں۔
لڑکیوں کو لکھنا سکھانے کے سلسلے میں احادیث سے زیادہ جاہل ملا کا استدلال کارفرما ہے۔
نابالغ لڑکی کے نکاح کے سلسلے میں بہت سی باتیں تشنہ رہ جاتی ہیں۔ لڑکی کی بلوغت کسی مخصوص عمر پر منحصر نہیں میرا مطلب ہے کہ آپ یہ نہیں‌کہہ سکتے کہ فلاں‌ اتنے سال کی ہے تو اب بالغ ہے۔ حضرت عائشہ رض کے سلسلے میں جو سات اور نو برس کی احادیث پیش کی جاتی ہیں، اسی سلسلے میں 15 برس سے زیادہ والی ایک حدیث بھی پڑھ چکا ہوں۔ قوی امید ہے کہ وہ حدیث اگر مجھے مغالطہ نہیں لگ رہا تو صحیح‌ یا حسن ہوگی۔
خیر بات یہ ہے کہ عمومًا ایسے معاملات میں احادیث میں بھی متضاد روایات موجود ہیں۔ چناچہ قرآن کے مطابق کو اختیار کرلینا کوئی مسئلہ نہیں۔
 
برادر دوست۔ بہت ہی شکریہ آپ کہ فراہم کردہ وجوہات کا۔ شاید میرے اعتراجات آپ کی نظر سے نہیں گذرے جہاں‌ ان روایات کا تصادم قرآنی احکامات سے ہوتا ہے اس کا ایک اختصاریہ یہاں درج ہے۔ تفصیل پہلے ہی ان دھاگوں میں درج ہے۔ آپ کی آسانی کے لئے یہ نکات یہاں‌ فراہم کردیے ہیں ۔ امید ہے کہ یہ مددگار ہوں گے۔

1۔ جناب مہدی
روایت:
جناب مہدی کے بارے میں‌ جو روایات رسول اکرم سے منسوب ہیں وہ پیشین گوئیوں‌ پر مشتمل ہیں۔ مزید یہ بھی منسوب ہے کہ جناب مہدی قیامت کی ایک نشانیوں‌ میں سے ہیں

جن قرانی مندرجات سے یہ روایت ٹکراتی ہے۔
1۔ جیسا آپ نے فرمایا کہ قرآن میں مہدی کے بارے میں‌کوئی آیت نہیں ۔
2۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ماسوائے اس کے جو کہ رسول پاک پر ماشاء اللہ یعنی اللہ کی مرضی سے نازل کیا گیا ، مزید رسول اکرم نہیں‌جانتے۔ لہذا ان پیشنگوئیوں‌کا امکان ہی نہیں ہے۔ تصادم
3۔ اللہ تعالی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اے رسول بتا دیجئے کہ قیامت اچانگ واقع ہوجائیگی اس کا کسی کو بھی معلوم نہیں۔ لہذا رسول اکرم اس کی نشانیاں کیسے بتاسکتے ہیں؟ تصادم
4۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں رسول اکرم سے کہلوایا کہ ان کو بتا دو کہ رسول اکرم خود بھی قیامت کے بارے میں نہیں جانتے ۔ تصادم

نابالغ لڑکی کا نکاح
روایات:
روایات نابالغ لڑکی سے نکاح‌ کی اجازت دیتی ہیں ۔ جبکہ لڑکی کیا لڑکے کا بالخ ہونا کسی نہ کسی معیار پر ہوتا ہے۔

قرآن کے مندرجات جن سے یہ روایات متصادم ہیں:
1۔ شادی کے معاہدہ کو ایک بھاری معاہدہ قرار دینا۔
2 ۔ معاہدہ کے لئے بلوغت کی شرط ،


لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھانا:
خواتین کو لکھنا نہ سکھانے کی روایت پر رضا صاحب نے کئی روایات پیش کیں۔ ان ہی روایات پر جو لوگ سختی سے قائم ہیں وہ خواتین کے اسکول اڑا رہے ہیں۔

قرانی مندرجات سے تصادم:
1۔ قرآن کی ابتدا اقرآء سے
2۔ رسول اللہ صلعم کا علم کے حصول پر زور۔
3۔ اللہ تعالی کا انسان کی تخلیق کا مقصد زمیں میں خلیفہ اور خلیفہ بنانے کے لئے واحد شے صرف تمام اشیاء کا علم عطا کرنا۔ تصادم
4۔ قرآن میں کسی ایسی آیت کا نہ ہونا جو لڑکیوں سے لکھنا نہ سکھانے کے امتیازی سلوک کے لئے حکم دیتی ہو۔ تصادم

ان موضوعات پر دھاگوں میں آپ کو مطلوبہ حوالہ جات مل جائیں گے۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
عموما ً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ احادیث کا ذخیرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تقریباً دو ، ڈھائی سو سال بعد مرتب دیا گیا ۔ اس لیئے اس کی تصدیق میں کئی شہبات ہیں ۔ یہ تاثر اور نظریہ بلکل غلط ہے ۔ کیونکہ جیسے ہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے ۔ آپ کے بارے میں باتیں بیان ہونا شرع ہوگئیں ۔ تحریر اور کتابت میں دیر لگی ۔ یہ ایک الگ چیز ہے ۔ کیونکہ یہ باتیں تواتر سے بیان ہو رہیں تھیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے بیان کر رہے تھے ۔ بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہی صورتحال تھی ۔ یعنی جو لوگ بھی مختلف جگہوں پر جاتے تھے ۔ لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات بتاؤ ۔ بہت سے لوگ تھے جو آپ کے بعد آپ کے اقوال بتا دیتے تھے ۔ آپ کے بعض واقعات بیان کردیتے تھے ۔ یہ سلسلہ جاری تھا ۔ اور اب تو تاریخی طور پر بھی یہ معلوم ہوگیا ہے کہ بہت سے مجموعے بھی مرتب ہوگئے تھے ۔ کہ کسی آدمی نے اپپنے طریقے پر روایت کا مجوعہ مرتب کردیا ۔ جبکہ امام مالک نے بھی اپنی کتاب مرتب کردی تھی ، اور یہ کوئی دو سو سال میں مرتب نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ سو سال کے اندر ہی سامنے آگئی تھی ۔ اس کے بعد بھی بہت سے ایسے مجموعے مرتب ہوتے رہے ۔ جو اب چھپ گئے ہیں اور شائع ہوگئے ہیں ۔ اور یہ مجموعے جو ہمارے پاس موجودہیں ۔ جس میں امام بخاری ، امام مسلم شامل ہیں ۔ یہ یقینا بہت بعد میں مرتب ہوئے ہیں‌۔ لیکن ا سمیں یہی ہونا تھا کہ تنقید کرکے ، تحیقق کرکے اس کو مرتب کیا جاتا ۔ یہ تاریخی ریکارڈ ہے ۔ اس پر اللہ کا شکر کرنا چاہیئے کہ یہ ہمارے پاس موجود ہے ۔ اگر اسمیں کوئی چیز قرآن کے خلاف ہے ۔ سنت کے خلاف ہے ۔ علم و عقل کے مسلم نہیں ہے ۔ تو اس کو قبول کرلینا ہم پر لازم نہیں ہے ۔ لیکن جو اس تنقید سے گذر کر ہمارے پاس پہنچا ہے اس میں بہت حکمت ہے ۔ اس میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات ہیں ۔ ایسی چیزیں موجود ہیں جن سے ہمیں دین کی بڑی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔

اب یہ کہنا کہ یہ بہت بعد میں مرتب ہوئیں ہیں تو یہ ساری دریا برد کرنے کے قابل ہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ اور نہ ہی یہ رویہ اختیار کرنا چاہیئے کہ جو کچھ ان میں بیان ہوگیا ہے وہ حتمی حجت ہے ۔ قرآن و سنت میں ہمارا دین ہے ۔ بلکل محفوظ ہے ۔ اس پر ہم عمل کریں گے ۔ اس ذخیرے سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ جہاں کوئی بات قابلِ اطمینان ہوگی ۔ اس کے سامنے سرِ خم تسلیم کرلیں گے ۔ ضعیف احادیث کو ہمارے محدثین نےاپنی محنت اور اعلی علمی کام سے ایک طرف کردیا ہے ۔ مگر جس طرح قرآن مجید کی آیات کو اس کے سیاق و سباق اور پس منظر سے نکال کر مفہوم بدل کر اسے پیش کردیا جاتا ہے ۔ اسی طرح صحیح احادیث کو بھی لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی کوئی کتاب اٹھا تا ہے ۔اس میں سے کوئی روایت پڑھتا ہے ۔ مگر ا سکو اس کا پس منظر نہیں معلوم ہوتا ۔ کیونکہ اس ذخیرے کی نوعیت چونکہ علمی ذخیرے کی ہے ۔ تو آپ کو کوئی مشکل پیش آرہی تو اہلِ علم سے رجوع کریں ۔

اسی سلسلے میں یہ حدیث ایک بہترین مثال ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کے گھروں‌کو آگ لگا دوں جو مسجدوں میں نماز کو نہیں آتے ۔ " یعنی منافقین کیساتھ جب معاملہ کیا جارہا تھا اور قرآن مجید وہ معاملہ کررہا تھا تو منافقین کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا کام ہورہا تھا ۔ کیونکہ رسولوں کی بعثت کے نتیجے میں جو لوگ ماننے والے ہیں ان کو سرفرازی حاصل ہوتی ہے ۔ جو جھٹلانے والے ہیں یا منافقین ہیں ، ان پر عذاب آتا ہے ۔ اس عذاب سے پہلے ان کو الگ الگ کیا جا رہاتھا ۔ اس موقع پر نماز کو ان کے لیئے ایک علامت بنا دیا گیا ۔ اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص منافقین کے لیئے کہا کہ ' یہ لوگ مسجد میں آنے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ، اگر میرے بس میں ہو تو میں ان کے گھروں کو آگ لگا دون ۔ " یہ خاص موقع و محل کی بات ہے ۔ اس کا اگلے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کو اس کے پس منظر میں سمجھ لینا چاہیئے ۔ اور اہلِ علم نے ا سکو سمجھایا بھی ہے ۔ لہذا بہت ساری روایت صحیح ہیں مگر ا سکا اطلاق غلط کر دیا جاتا ہے ۔
 
Top