رضوان

محفلین
خواجہ میر درد (1720تا 1785

درد دہلی میں پیدا ہوئے ۔ والد محمد ناصر عندلیب کی طرف سے نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی اور والدہ کی طرف سے حضرت غوث اعظم سے ملتا ہے۔ عین عالم شباب یعنی انتیس برس کی عمر میں ترک دنیاکی اور باپ کی وفات پر 39 برس کی عمر میں سجادہ نشین بنے۔ ان امور کا اس لیے تذکرہ کیا گیا کہ دیگرشعراء کے برعکس درد کے لیے تصوف برائے شعر گفتن نہ تھا۔ ان کا کلام جس الفت الہی، توکل ، تسلیم ورضا اورانسان دوستی کی تلقین کرتا ہے ان کی اپنی زندگی ان سب اوصاف سے متصف تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے اور بعد ازاں مرہٹوں کی چیرہ دستیوں کی بنا پر دہلی باکمال لوگوں سے خالی ہو گئی ۔ مگر درد نے اپنا آستانہ نہ چھوڑا۔ قفر کا یہ عالم کہ تمام عمر کسی امیر وزیر حتی کہ بادشاہ کے در پر جانے کی ضرورت نہ سمجھی بلکہ خود شاہ عالم ان کے پاس آتا تھا۔ موسیقی میں بھی استادانہ مہارت تھی۔ چنانچہ ہر چاند کی دوسری اور چوبیس تاریخ کومحفل سماع منعقد کرتے جس میں مشہور موسیقی دان اور فنکار حاضرہوتے۔

تصوف فلسفہ کی صورت میں خاصہ مشکل اور احوال و مقامات کے بیان میں خاصہ پراسرار ہے۔ لیکن یہ درد کا اعجاز ہے کہ انہوں نے کم از کم اصطلاحات استعمال کیے بغیر بڑی سے بڑی حقیقت اور مبہم تر کیفیت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ کیونکہ تخلیقی شعور کا سرچشمہ عملی زندگی بنتی تھی۔ اس لیے کلام درد کے روحانی سفر کی سرگزشت بن جاتا ہے۔ اور یوں نفسانفسی کے اس عصری صحرا میں دیوان درد ایک نخلستان کا روپ دھار لیتا ہے۔

بلحاظ اسلوب درد میر کے زیادہ قریب ہیں۔ چھوٹی بحروں میں کم سے کم الفاظ میں بڑے سے بڑے مسئلہ اور روحانی اہتراز کی گہری سے گہری حالت کے بیان پر قادر ہیں۔ اردو دیوان مختصر ہے جو 1199ھ میں مرتب ہوا۔ لیکن آج بھی زندہ ہے۔ دلی میں وفات پائی۔

ان کی نمائندہ غزلیات پیشِ خدمت ہیں۔


تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس ليے آئے تھے سو ہم وہ کر چلے
زندگي ہے يا کوئي طوفاں ہے
ہم تو اس جينے کے ہاتھوں مر چلے
کيا ہميں کام ان گلوں سے اے صبا
ايک دم آئے ادھر اُدھر چلے
دوستوں ديکھا تماشا ياں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس موت جي جلا تب جانئيے
جب کوئي افسوں ترا اس پر چلے​
 

رضوان

محفلین
روندے ہے نقش پا کي طرح خلق ياں مجھے
اے عمر رفتہ چھوڑ گئي تو کہاں مجھے
اے گل تو رخت باندہ، اٹھا ؤں ميں آشياں
گل چيں تجھے نہ ديکھ سکے باغ بان تجھے
رہتي ہے کوئي بن کيے ميرے تئيں تمام
جوں شمع چھوڑنے کي نہيں يہ زباں مجھے
پتھر تلے کا ہاتھ ہے غفلت کے ہاتھ دل
سنگ گراں ہوئي ہے يہ خواب گراں مجھے
کچھ اور کنج غم کے سوا سوجھتا نہيں
آتا ہے جب کہ ياد وہ کنج وہاں مجھے
جاتا ہوں خوش دماغ جو سن کر اسے کبھو
بدلے ہے دونوں ہي نظريں وہ، ديکھا جہاں مجھے
جاتا ہوں بس کہ دم بہ دم اب خاک ميں ملا مجھے
ہے خضر راہ درد يہ ريگ رواں مجھے
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ ملائکہ

ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے؟

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

"لے خبر" تیغِ یار کہتی ہے
"باقی اس نیم جان میں کچھ ہے"

ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے

اور بھی چاہیے سو کہیے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ پیاسا صحرا

دیکھئے جس کو یاں، اُسے اور ہی کچھ دماغ ہے
کرمکِ شب چراغ بھی گوہرِ شب چراغ ہے

غیر سے کیا معاملہ؟ آپ ہیں اپنے دام میں
قیدِ خودی نہ ہو اگر - پھر تو عجب فراغ ہے

حال مرا نہ پوچھئے - میں جو کہوں - سو کیا کہوں؟
دل ہے سو ریش ریش ہے - سینہ - سو داغ داغ ہے

سنتے ہیں یوں کہ آہ تو ہم ہی میں چھپ رہا کہیں!
اپنی تلاش سے غرض ہم کو ترا سراغ ہے

غفلتِ دل ہوئی مگر - پنبہء گوشِ خلق درد!
بلبلِ داستاں سرا ورنہ ہر ایک زاغ ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ پیاسا صحرا

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے - جو کچھ آرزو کریں

تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں - تو فرشتے وضو کریں

سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال؟ جو کچھ گفتگو کریں

ہر چند آئینہ ہوں - پر اِتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ - جس کے مجھے روبرو کریں

نے گل کو ہے ثبات - نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ! ہوسِ رنگ و بو کریں
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ پیاسا صحرا

سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا

دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا تو نے رحم - پر نہ کیا

آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ! ظاہر میں سفر نہ کیا

کونسا دل ہے وہ؟ کہ جس میں آہ!
خانہ آباد! تو نے گھر نہ کیا

سب کے جوہر نظر میں آئے درد!
بے ہنر! تو نے کچھ ہنر نہ کیا
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ پیاسا صحرا

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب؟ گزر ہووے تعقل کے قدم کا

بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا

ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا

مانندِ حباب آنکھ تو اے درد! کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
 
Top