خواب کچھ شاداب شاخوں کے دکھا کر لے گیا

عنایت

محفلین
خواب کچھ شاداب شاخوں کے دکھا کر لے گیا
زرد پتوں کو ہر اک جھونکا اڑا کر لے گیا

موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا

تھک چکا تھا میں مگر ہو شوقِ منزل کا بھلا
راستے بھر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لے گیا

جس کے پانی کو دعا دیتی رہی پیاسی زمیں
ایک دن فصلیں وہی دریا بہا کر لے گیا

راستے کی چیز تھا میں جس کی نظریں پڑ گئیں
وہ مسافر اپنی مٹھی میں دبا کر لے گیا
 
عنایت بھائی کیا یہ آپ کی غزل ہے؟ آپ نے اسے بزمِ سخن میں ارسال کیا تھا ہم فی الحال اسے آپ کی شاعری کے زمرے میں منتقل کررہے ہیں۔ اگر یہ آپ ہی کی غزل ہے تو یہیں داد سمیٹیے بصورتِ دیگر ہم اسے آپ کی پسندیدہ شاعری کے زمرے میں منتقل کردیں گے۔
 

عنایت

محفلین
جی نہیں سر یہ میری غزل تو نہیں ہے جی اور میں اس فورم نیا ہوں زیادہ اس کے بارے میں نہیں جانتا اور اگر کسی بھائی کے پاس اگر وقت ہو تو مہربانی ہو گی تھوڑی سی مجھے بھی اس کی انفارمیشن دے دیں
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top