عنایت
محفلین
خواب کچھ شاداب شاخوں کے دکھا کر لے گیا
زرد پتوں کو ہر اک جھونکا اڑا کر لے گیا
موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا
تھک چکا تھا میں مگر ہو شوقِ منزل کا بھلا
راستے بھر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لے گیا
جس کے پانی کو دعا دیتی رہی پیاسی زمیں
ایک دن فصلیں وہی دریا بہا کر لے گیا
راستے کی چیز تھا میں جس کی نظریں پڑ گئیں
وہ مسافر اپنی مٹھی میں دبا کر لے گیا
زرد پتوں کو ہر اک جھونکا اڑا کر لے گیا
موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا
تھک چکا تھا میں مگر ہو شوقِ منزل کا بھلا
راستے بھر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لے گیا
جس کے پانی کو دعا دیتی رہی پیاسی زمیں
ایک دن فصلیں وہی دریا بہا کر لے گیا
راستے کی چیز تھا میں جس کی نظریں پڑ گئیں
وہ مسافر اپنی مٹھی میں دبا کر لے گیا