حسن محمود جماعتی
محفلین
خواب تھا دیدہ ء بیدار تلک آ گیا تھا
دشت بڑھتا ہوا دیوار تلک آ گیا تھا
میں نے مجبوری میں تلوار اُٹھائی تھی میاں
ہاتھ بڑھتا ہوا دستار تلک آ گیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن مِرے کردار تلک آ گیا تھا
دکھ عزاخانوں کی زینت تھے سو اندر ٹھہرے
درد موسم تھا سو بازار تلک آ گیا تھا
اِتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آ گیا تھا
عین اُس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اُس شخص کے معیار تلک آ گیا تھا
میرے اندر کے کسی ہجر نے روکا ہے مجھے
ورنہ میں عشق میں انکار تلک آ گیا تھا
رات آنکھوں سے کوئی اشک بغاوت کر کے
مُسکراتا ہوا رُخسار تلک آ گیا تھا
دشت بڑھتا ہوا دیوار تلک آ گیا تھا
میں نے مجبوری میں تلوار اُٹھائی تھی میاں
ہاتھ بڑھتا ہوا دستار تلک آ گیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن مِرے کردار تلک آ گیا تھا
دکھ عزاخانوں کی زینت تھے سو اندر ٹھہرے
درد موسم تھا سو بازار تلک آ گیا تھا
اِتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آ گیا تھا
عین اُس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اُس شخص کے معیار تلک آ گیا تھا
میرے اندر کے کسی ہجر نے روکا ہے مجھے
ورنہ میں عشق میں انکار تلک آ گیا تھا
رات آنکھوں سے کوئی اشک بغاوت کر کے
مُسکراتا ہوا رُخسار تلک آ گیا تھا
میثم علی آغا