خمیازہ

کچھ شخصیات دو رخی ہوتی ہیں۔ ابن انشا بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے میر کے طرز میں درد انگیز شاعری کی۔ دوسری طرف انہوں نے اردو کی آخری کتاب کی صورت میں مزاح کا بہترین نمونہ چھوڑا۔ اعلیٰ پائے کا ادب آفاقی نوعیت کا ہوتا۔ جس کو کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔ ابن انشا کے قلم سے نکلے ہوئے شگوفے تیس سال بعد بھی ہمیں نئے کے نئے محسوس ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب آج کے دور میں لکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جغرافیے کے سبق میں وہ لکھتے ہیں۔


جغرافیہ میں سب سے پہلے بتایا جاتا ہے، کہ دنیا گول ہے۔ ایک زمانے میں بے شک یہ چپٹی ہوتی تھی۔ پھر گول قرار پائی۔ گول ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ مشرق کی طرف جاتے ہیں مغرب کی طرف جا نکلتے ہیں۔ کوئی ان کو پکڑ نہیں سکتا۔ اسمگلروں مجرموں اور سیاست دانوں کے لیے بڑی آسانی ہو گئی ہے۔
ہٹلر نے زمین کو دوبارہ چپٹا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوا۔
پرانے زمانے میں زمین گل محد کی طرح ساکن ہوتی تھی۔ سورج اور آسمان وغیرہ اس کے گرد گھوما کرتے تھے۔ شاعر کہتا ہے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسمان۔ پھر گلیلیو نامی ایک شخص آیا اور اس نے زمین کو سورج کے گرد گھمانا شروع کر دیا۔ پادری بہت ناراض ہوئے کہ یہ ہم کو کس چکر میں ڈال دیا ہے۔ گلیلیو کو تو انھوں نے قرار واقعی سزا دے کر آئندہ اس قسم کی حرکات سے روک دیا۔ زمین کو البتہ نہیں روک سکے۔ برابر حرکت کئے جا رہی ہے۔
شروع میں دنیا میں تھوڑے ملک تھے۔ لوگ خاصی امن چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔ پندرھویں صدی میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ اس کے بارے میں دو نظریے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں یہ ہندوستان کو یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتا تھا۔ غلطی سے امریکہ کو دریافت کر بیٹھا۔ اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے۔
دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں، کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی۔ کولمبس تو مر گیا، اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔
 
Top