خلعتِ رسوائی لے کر جا بجا پھرتا رہا

خلعتِ رسوائی لے کر جا بجا پھرتا رہا

میرے قدموں میں ہوا کا راستہ پھرتا رہا

کونسا چہرہ تھا میرا اور کیا کچھ نقش تھے

میری صورت ڈھونڈنے کو آئنہ پھرتا رہا

عمر بھر میرے تعاقب میں رہی ہیں تہمتیں

اور میرے سامنے سب اَن کہا پھرتا رہا

ہم تری کوئی ملامت سے گزر پائے نہ تھے

پر ہماری کھوج میں ہر قافلہ پھرتا رہا

تیری راہ و رسم میں خود سے شناسائی گئی

جسم اپنے نام کی تختی اُٹھا پھرتا رہا

تم اسی مٹی کے باسی تھے ہمیں کیا تھی خبر

دل تمہاری جستجو میں ماورا پھرتا رہا

نارسا ماہر بنے احسان تیرے سامنے

اور دشتِ زندگی میں تجربہ پھرتا رہا

احسان الٰہی احسان
 

نمرہ

محفلین
تم اسی مٹی کے باسی تھے ہمیں کیا تھی خبر
دل تمھاری جستجو میں ماورا پھرتا رہا
واہ!
 
Top