خط میں نے تیرے نام لکھا

سارہ خان

محفلین
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔

آداب
تمہارا خط ملا پڑھتے ہی خیال آیا تمہیں پھول ماروں گملے کے ساتھ
تم کبھی سچّے عاشق نہیں بن سکتے لکھا بھی تھا طبعیت ناساز ہے مگر تم خیریت بھی نہ پوچھ سکے اور گِلے شکوے کر کے سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا۔
اور تم خط پھینک کے یوں غائب نہ ہوا کرو جیسے گنجے کے سر سے بال ،بہت سے کام کروانے ہوتے ہیں، بال پر یاد آیا ذرا اپنی زلفیں کٹوا لو جوگی لگنے لگے ہو پیسے نہیں ہیں تو ادھار لے لو ، اور کچھ کام بھی کیا کرو میرے گھر کی رپورٹ لینے کے علاوہ ، تم میرے ابّا کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو اُن کی عمر کے تو نہیں لگتے کہ ابّا کے راز پتہ ہوں یا خزاب لگاتے ہو ، اب کی بار آؤ تو یاد سے اپنی بتیسی چیک کروانا منہ پر تو آج کل ڈینٹ پینٹ سے عمر چھپا لی جاتی ہے مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری عمر پر۔
کتنا افسوس کروں اُس بھیگی شام کا جب تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنی پرانی سائیکل کے پیڈل پر پاؤں مارتے ہوئے آفر کی تھی کہ بے جا سائیکل تے ، اور میں تمہارے ساتھ جی ٹی روڈ کی سیر کو چل پڑی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ترقی نہیں کرو گے اور سائیکل سے پیدل ہو جاؤ گے عقل سے پیدل تو تم پہلے ہی تھے مگر خیر اُمید کا دیا جلتا رکھو بجھ جائے تو پھر جلا لیا کرو ماچس ساتھ رکھا کرو ۔اور انار اور کلی سے دور رہتے ہو تو اُس میں بھی تمہارا قصور ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی تو کرو گے کیا پہلے اپنے کرتوت تو ٹھیک کر لو وہ تو میں ہوں جو برداشت کرتی ہوں تمہاری دل پھینک عادتوں کو ، میرے جیسا ہیرا مل نہیں سکتا کبھی تم کیا جانو میری قدر کسی جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ، وہ جو میری سہیلی ہے پینو اُس کے سامنے تمہارا ذکر کردوں تو شرمندہ کر دیتی ہے مجھے تمہارے قصّے سنا کر۔تمہارے ان قصّوں نے تو میری سُکھ دیاں نیندراں ہی اُڑا دی ہیں اور ایک تم ہو کہ تم سے خط تک نہیں پھینکا جاتا بابوں کی طرح بس چارپائی پر پڑے رہا کرو قاصد نہیں لگواؤں گی میں ہمت ہے تو خود کُنڈی بجا کے خط دے جایا کرو اور ٹماٹر خط کے ساتھ باندھنے کی بجائے کلو دو کلو ساتھ دے جایا کرو امّاں کو تاکہ ان ٹماٹروں کی چٹنیاں کھا کے کچھ تو اچھا سوچیں میرے گھر والے تمہارے لیئے، اچھا اب مجھے دیر ہو رہی ہے ذرا محلّے سے جاکے آج کی رپورٹ تو لوں جب تک تم چھت پر جاکے کبوتر بازی کے چکر میں تاک جھانک کر لو ۔
والسّلام ۔۔۔۔۔۔ گلابو ۔

وعلیکم آداب ،
خط ملتے ہی حسین خیال آیا نہ ، گملے کا خیال شاید تمہیں پھول کو سجا کر رکھنے کے لیے آیا ہوگا فکر نہ کرو صرف پھول ہی مارنا گملے بہت ہیں میرے پاس۔ اب سچا عاشق بننے کے لیے تم سے تربیت لینے پڑے گی کیا مجھے ، عشق کا کوئی مکتب کھولنے کا ارادہ تو نہیں ؟ ویسے تم نے سنا نہیں شاید کہ عشق آتا ہے آتے آتے اور عاشقوں کے ایک باریک بین تجزیہ نگار کہہ گئے ہیں

کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
اب مجنوں و فرہاد کے لیے کھولیں ہم اسکول کیا

ویسے تم نے عاشقوں کی کوئی فہرست بنا رکھی ہے کیا جس میں سچے ، جھوٹے ، کچے پکے عاشقوں کے زمرے بناتی رہتی ہو۔ میں تو تمہیں معصوم و سادہ سمجھ کر مائل ہو گیا اور تم نے عشق کو بھی جھوٹ سچ کے ترازو میں ناپنا شروع کر دیا ستم گر۔ طبعیت تمہاری ناساز تھی تو پیار سے بتاتی میں حال احوال میں ہی سارا خط لکھ ڈالتا مگر تم نے تو آہ و زاریوں کے ساتھ قیامت کا رونا شروع کر دیا ، لے کر بیٹھ گئی پھر سے اپنی اماں کے رونے اور دن میں تارے۔ میں جو ہفتہ بھر سے دل کے ارمانوں کو خط میں سمو کر تمہیں آنگن تک جان پر کھیل کر پہنچا کر گیا تھا تمہارا جواب پڑھ کر دل کلس کر رہ گیا ، کیا کیا نہ سوچا تھا دلِ خوش امید نے ،

میرے خط کے انتظار میں راہ تکتی ہوگی ، پہروں میرے خیال میں ڈوبی رہتی ہوگی ، رات کو کسی پل نیند نہ آتی ہوگی ، کروٹیں بدل بدل خود ہی تھک جاتی ہوگی۔ ہر صبح میرے خیال سے آنکھ کھلتی ہوگی ، ہر رات میرے ہی سپنے دیکھتی ہوگی ، ہر پہر مجھے ہی سوچتی ہوگی ، سکھیوں سے میری ہی باتیں کرتی ہوگی ، سوچ کر مجھے خود ہی شرما جاتی ہوگی ، گلابی آنچل دانتوں میں دبا کر میرے خیالوں میں کھو جایا کرتی ہوگی۔ پر تم نے سوچا تو گھر کو کاموں کا ،سودا سلف کا اور تحفوں کا ، کتنی خود غرض اور تحفہ پرست ہو تم۔

خط پھینک کر کیا تمہارے گھر کے سامنے برگد کا پیڑ بن کر کھڑا ہو جاتا ، تمہارے ابا کے ہاتھ لگ جاتا تو برگ و گل بھی جھڑ جاتے اور اب تک کے عشق کا ثمر بھی ملتا ، انتہائی میٹھا اور ڈھیر سارا۔

آئے ہائے لگتا ہے اماں اٹھ گئی ہیں ، خط یہیں ختم کر رہا ہوں ورنہ ان کے ہاتھ لگ گیا تو یہ نو عمر عاشق رہے گا نہ عشق (جھوٹ سچ کا تو سوال ہی کیا) فقط عشق کے آثار رہ جائیں گے۔

تمہارا اپنا
فیضو


ہرجائی فیضو ۔۔۔۔۔ جا جا میں تو سے نا ہی بولوں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو تم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھے سُنا ہے پنڈ گئے تھے مامے کے گھر، اور مجھے کہہ گئے تھے کام سے جا رہا ہوں وہ تو بھلا ہو پینو کا اُس کے چاچے کی ماسی تمھارے مامے کے پنڈ کی ہے ساری خبریں مل گئیں مجھے اُس سے ، سوچا تو پہلے یہی تھا کہ تم جو اتنی محنت سے مجھے خط لکھتے ہو تو اب کی بار آؤ گے خط لے کے تو گلاب کا پھول نہ سہی گوبھی کا ہی دے دوں گی تاکہ تمہاری امّاں بھی خوش ہو جائیں کہ بیٹا کچھ لایا تو ، اور یہ تم بہکی بہکی باتیں جو کرنے لگے ہو پنڈ سے واپسی پر سب جانتی ہوں میں یہ خیال میں ڈوبے رہنا سپنے دیکھنے کی باتیں گلابی آنچل کی باتیں ، ہائے افسوس کاش تم پنڈ نہ جاتے برگد کا پیڑ ہی بن جاتے چاہے برگ و گُل جھڑ جاتے محبوب گنجا ہو یہ تو میں گوارہ کر لیتی مگر تم کسی پینڈو ہیر کے رانجھے بن جاؤ یہ مجھے گوارہ نہیں ۔پنڈ میں مامے کی بیٹی سے منگنی کروا لی اور یہاں آکے مجھے پریم پتّر لکھ رہے ہو ، ساری خبریں ہیں مجھے اب محبت کے ڈرامے کی آخری قسط سمجھنا اس خط کو دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے تم بے وفائی کرکے بھی پٹتے پٹتے رہ گئے ( پنڈ میں جو تھے )
کہاں گئیں وہ محبتیں ، قول و قرار ، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں ، مجھے تو پہلے ہی تمہارے تیور ٹھیک نہیں لگتے تھے جب ہی تو تمہاری جاسوسی کرواتی تھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا بس خیال رکھنا رنگ بدلتے بدلتے پھیکا نہ پڑ جائے تمہارا کیونکہ پینڈو ہیر کو شوخ رنگ ہی بھاتے ہیں ۔
یہ آئے ہائے کرنے میں تو تمہارا جواب نہیں ، یہ آئے ہائے اب اُس وقت کرنا جب پینڈو بیوی چمٹا پھینک کر مارے گی چھپتے رہنا پھر امّاں کے پیچھے۔

اب تم ٹھکانے لگ ہی گئے ہو تو لگ پتہ جائے گا جلد ہی آٹے دال کا بھاؤ میری امّاں کے سودا سُلف لانے میں جان جاتی تھی تمہاری اب تم اُس پنساری کی دکان پر دن میں دس بار جاؤگے جس کی شکل تک تم نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی تب یاد کرنا مجھے
رات میں تارے گننے کی عادت تو تمہیں پہلے ہی ہے اب دن میں تارے دیکھا کرنا
ہرجائی فیضو مجھے تم سے یہ اُمید پہلے ہی سے تھی کہ تم جو انارکلی کے چکر لگاتے ہوئے بار بار کبھی اُس کے کبھی اِس کے ساتھ پکڑے جاتے ہو کبھی مجھ سے وفا نہیں کروگے اس لیئے میں نے امّاں کے کہنے پر منگنی کروا لی ہے
ہرجائی فیضو کوئی بھی ٹینشن مت لینا کیونکہ ویسے بھی اب تمہارا سامنا ہائی ٹینشن سے ہونے والا ہے جو تمہیں کسی بھی وقت دھماکے سے اُڑا سکتی ہے اُس وقت اگر میں تم کو یاد آؤں تو مجھے بالکل یاد نہ کرنا اور یہ سوچ کر سب کچھ برداشت کرنا کہ یہ سب تو زندگی کا حصّہ ہے یہ ہے ہماری محبت کا ڈراپ سین۔
اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو
تمہارے لیئے دعا گو
کسی اور کی گلابو
:wink:


بے وفا گلابو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے وفا ہی نکلی نہ

اب مجھ سے کاہے بولو اب بولنے کے لیے کوئی اور جو مل گیا تم کو اور گستاخ لڑکی تمہاری زبان کو کیا ہوا ، میری صحبت کا اثر اور لکھنوی زبان کا ذائقہ اتنی جلدی بدل لیا تم نے ۔ کس گنوار کے پلے پڑ گئی ہو تم ؟ اب تمہیں سارے جہان کے چاچے ، مامے اور ماسیاں یاد آنے لگی ہیں میرے جانے کے بعد اور سارا شہر مل کر میرے نکے پنڈ کی خبریں بھی دے رہا ہے تمہیں اور تم کسی ایف ایم ریڈیو کے ریسیور کی طرح ساری خبریں کیچ بھی کر رہی ہو اور بذریعہ خط نشر بھی ۔ گیا تو میں پنڈ ہی تھا جلدی میں مگر تمہارا خیال اپنے پسندیدہ جانور کے محاورے کی طرف ہی گیا حسب معمول ، کام سے گیا تھا ماموں کی فصلوں کی کٹائی کے لیے ۔ میں تو فصلوں کی کٹائی کے لیے گیا تھا کیا خبر تھی تم پیچھے سے میرا ہی پتا کاٹ دوگی ، وائے افسوس ترے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
پینو سمیت اپنے چاچے ، ماسی ، مامے اور جملہ خاندان کے اول درجے کی پھپھے کٹنی ہے اور اس کی ماسی تو ماسی پھاتاں کے نام سے بچپن سے ہی مشہور ہے ، حیرت ہے تم اتنی انجان اور معصوم ہو تو نہیں مگر اس معاملے میں کیسے ہوگئی۔ خط تمہیں محنت سے نہیں محبت سے لکھتا تھا مگر تمہارے حسابی کتابی ذہن نے میری محبت کو بھی محنت ہی سمجھا اور انعام میں گوبھی کا پھول ، کیا سوچ ہے تمہاری بالکل کسی ہندو بنئے جیسی ، گھر کے آنگن میں کھلے گوبھی کے پھول سے ہی کام چلانے کا سوچ لیا۔ ایک تیر سے کتنے شکار کرنے کا سوچا ہوا تھا تم نے ، گوبھی کے پھول سے مجھے بھی خوش کرنے کا ارادہ تھا اور میری اماں کو بھی ، گوبھی کا پھول نہ ہوا تمناؤں کا پھل ہو گیا جسے پا کر میں اور میرے گھر والے خوشی سے جھوم اٹھتے اور تمہارے وارے نیارے جاتے۔
محبت کی باتیں تمہیں ہمیشہ بہکی بہکی ہی لگیں ، کبھی محبت کی ہوتی تمہیں تو پتہ ہوتا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور محبت کی باتیں کیا ۔ میں ہی نادان تھا جو تمہاری اماں کے سودے سلف لا کر ہفتہ بھر کے کاموں کی فہرست سنتا اور سادہ لوحی کی انتہا تو دیکھو کہ تمہارے کہے کام کو بھی محبت کی ایک ادا سمجھتا مگر تمہیں کن سوئیاں لینے ، چغلیاں کھانے اور پینو کی زبانی محلے بھر کے قصے کہانیوں کی بارہ مصالحے کی چاٹ کے سوا اور کوئی کام کہاں تھا۔ بھول گئیں کیا وہ اصرار جو تمہیں اپنی تعریفیں سننے پر ہوا کرتا تھا اور میں کیسا سعادت مند تھا کہ آنکھیں بند کرکے تواتر سے سفید جھوٹ بولا کرتا تھا۔ تیل میں نچڑے تمہارے بالوں کی کسی ہوئی چٹیا کو میں زلفِ گرہ گیر کہا کرتا تھا ( کوئی حسن پرست شاعر سن لیتا تو مجھے زندہ دفن کر دیتا ) ، گھر بھر کی صفائی کے بعد گرد میں اٹی ہوتی تھی تم مگر میں چاند کو دیکھ کر تمہیں چاندنی کہا کرتا تھا جس کا کبھی تم نے بھولے سے بھی انکار نہیں کیا ، کبھی شرما کر بھی یہ نہیں کہا کہ اب ایسا بھی نہیں بلکہ حق سمجھ کر وصول کیا کرتی تھی ساری تعریفیں ڈھٹائی کے ساتھ ۔ اب سوچتا ہوں کہ محبت میں انسان کتنے جھوٹ بولتا ہے اور کتنے سنتا بھی ہے سچ سمجھ کر۔ خود تو تمہارے بال کبھی زلف کہلا نہ سکے میرے جھوٹ کے سوا ، اس لیے میرے بالوں کے پیچھے پڑی رہتی تھی کہ کٹوا دوں ، بالوں کی جگہ ان کی نشانی ہی رکھ ، اب خود ہی کہہ ڈالا کہ تمہیں محبوب گنجا گواراہ تھا یہ تو میں خوب جانتا تھا کہ تم کس محرومی کے زیر اثر یہ کہہ رہی ہو۔ خود نہیں رکھتی تو میرے بھی مٹانا چاہتی ہو خوبصورت بال

اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ

کہاں کی منگی اور کس مامے کی بیٹی سے ، دو ہی بیٹیاں ہیں اور دونوں خیر سے اپنے گھر کی ہو چکی ہیں۔ یہ خبریں ہیں تمہیں ، صاف کیوں نہیں کہتی کہ تمہارا اپنا دل بے ایمان تھا کب سے اور بے وفائی کے بہانے تلاش کر رہی تھی۔ میں گاؤں کیا سدھارا تم پیا گھر سدھار گئیں ، آنا فانا منگنی کرلی جیسے اس گھڑی نہ ہوئی تو پھر کبھی نہ ہوگی۔ ابھی تو عید پر میری دی ہوئی مہندی کا رنگ بھی نہیں اترا ہو گا کہ تم نے پھر سے اپنے ہاتھ رنگ لیے کسی اور کے نام سے۔ جس طرح اور جتنی جلدی تم نے خط کے ذریعے مجھے محبوب کے عہدے سے معزول کیا ہے اتنی جلدی تو ہمارے ہاں حکومت بھی نہیں بدلتی ۔ ستم بالائے ستم تم نے بغیر عبوری دور کا اعلان کیے اور جذبات کے سرد ہونے کا انتظار کیے بغیر محبوب بھی ڈھونڈ لیا اور منگنی بھی کر لی اس سے تمہاری وفا کی ساکھ سخت مجروح ہوئی (پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان تھا)، اتنی جلدی تو ہماری حکومت وزیر بھی نہیں بدلتی۔ فیکے نے کئی بار مجھے سمجھایا کہ گلابو کے تیور مجھے بدلے بدلے لگتے ہیں مگر میری آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی ، تمہیں وفا کی مورت سمجھتا رہا اور تمہارے دل کے چور کو نہ سمجھ سکا۔ باتیں مجھ سے اور دل میں کسی اور بسائے رکھا ، یہ کس طرح تو نے مجھے الجھائے رکھا۔

سانوں پتا تیرے دل وچ چور نی
گلاں ساڈے نال دل وچ کوئی ہور نی

جب تمہارا یہ پتر بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت بن کر مجھ تک پہنچا ، نہ پوچھ کیا میرے دل پر بیتی اور کس طرح شب ہجر بن کر عذاب گزری۔ تمام رات کبھی ایک فلم لگا کر گزاری کبھی دوسری ، ‘کچھ کچھ ہوتا ہے‘ پوری دیکھی مگر کچھ نہ ہوا پھر ‘کبھی کبھی ‘ لگا کر دیکھی مگر میرے دل میں کوئی خیال نہ آیا۔ کسی اور کے ساجن کی سہیلی دیکھی تو جا کر صبح نیند آئی۔ اگلے دن فیکے نے میرے غم کی رات کو دیکھتے ہوئے دوپہر چڑھتے ہی گانے لگا دیے

رہا گردشوں میں ہر دم میرے عشق کا ستارہ تو مستقل لگا دیا بڑی مشکل سے بدلوایا تو ظالم نے لگا دیا

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
تیرا وجود تو ہے بس اک داستاں کے لیے
پلٹ کر سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے


اس پر میں تڑپ کر اٹھا مگر میرے غصہ کرنے پر اس نے بدلا بھی تو کیا بدلا

میرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا
سنا ہے کہ تو بے وفا ہو گیا ہے

گزرے ہیں آج عشق میں اس امتحان سے
نفرت سے ہوگئی ہے محبت کے نام سے

غرض کونسا دکھی اور بے وفائی سے بھرا گانا تھا جو اس نے اس دن مجھے نہ سنایا ہو اور مجھے بھی یہ یقین دلا دیا کہ غرض پرست زمانے میں وفا ڈھونڈنے سے کیا حاصل ، یہ شے تو بنی ہے کسی دوسرے جہاں کے لیے۔ مجھے کب یہ گمان تھا کہ راہ وفا میں بہک جائیں گے تیرے قدم ، تم بھی ہو جاؤ گی کسی اور کے سنگ

تیری بے وفائیوں پر تیری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کر روئے کبھی منہ چھپا کر روئے

او بے وفا تیرا بھی یونہی ٹوٹ جائے دل تو بھی تڑپ تڑپ کر پکارے کہ ہائےےےےےےےے دل تیرا بھی سامنا ہو کبھی غم کی شام سے تو بھی واقف ہو رنج کے جام سے

میری دکھ اور ٹینشن کو چھوڑو تم تو خوش ہو نہ منگنی کروا کر۔ پینو کے بھائی نے تمہاری اماں کو کب سے بہلانا پھسلانا شروع کیا ہوا تھا اور اب تم بھی مان گئی ہو یہ سوچ کر اس کی اپنی کریانے کی دوکان ہے گھر کے سودے سلف گھر میں ہی مل جایا کریں گے۔تم نے کہا کہ مجھے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا تو وہ تو مجھے اب بھی معلوم ہے

آٹا ہے 110 روپے کلو
دال ماش 88, دال چنا 40 ، دال مسور 56، دال مونگ 56 اور سبزیوں کا بھاؤ بھی معلوم کرنا تو بلا جھجھک پوچھ لینا تمہارے کافی کام آئے گا عنقریب۔ ویسے تمہیں مارکیٹ سے بھی کہیں زیادہ کم بھاؤ کا جلد پتہ چل جائے گا جب روز تمہیں اتوار بازار یا منڈی سے یہ چیزیں منگوانا پڑیں گی۔ تم نے محاوروں میں سنا ہوگا لفظ کفایت شعاری، کنجوسی اب شادی کے بعد جب تمہارے نصیب پھوٹیں گے پینو شیخنی کے شیخ بھائی سے تو تمہیں لگ پتہ جائے گا۔ چیزیں گھر ضرور آیا کریں گی مگر تمہیں ملیں گی ترس ترس کر ، اس پر فضول خرچی کے طعنے الگ ہوا کریں گے پھر تمہیں قدر ہوگی میری اور میرے بغیر حساب لائے سودا سلف کی ، کوسوں گی اپنے کچے کانوں کو جو پینو کی باتوں میں آجاتے تھے۔ سانسیں بھی گن کر لینے کی اجازت ہوگی تمہیں باقی چیزوں کا حساب خود ہی لگا لینا۔ پینو ویسے تو تمہاری دوست ہے مگر اب نند بننے کے بعد اس کے رنگ ڈھنگ دیکھنا۔ اماں کے پاس اس کی دونوں بڑی بھابھیاں آ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑا کرتی ہیں ، پینو کی لگائی بجھائی اور گز بھر کی زبان کا رونا روتی ہیں۔ پینو خود بھی آ کر اماں کو فخر سے بتا کرتی ہے کہ وہ بھابھیوں کے مزاج ٹھکانے پر رکھنے کے لیے بھائیوں کے کان بھر کر آئے دن انہیں دو تین کرارے ہاتھ لگوا دیا کرتی ہے اور جس دن زیادہ جلی بیٹھی ہو تو خود بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کی چٹیا کھینچ کر عقل ٹھکانے پر لے آتی ہے۔

خدا تمہارے حال پر رحم کرے مگر جب تمہیں خود نہ اپنے آپ پر رحم آیا تو خدا کیسے کرے گا۔ تمہاری تمام تر بے وفائیوں کے باوجود دل تمہاری حالت کا سوچ سوچ کر لرزتا ہے ، چلو اگر ہمارے ستارے نہیں ملے تو تمہارے نصیب تو کھل جاتے کہیں ۔

ایک خبر تو سنائی ہی نہیں تمہیں ، دل تھام کر ، گرے گی قیامت بن کر تم پر مگر اب تو تم عادی ہو جاؤ کہ زندگی اب اسی طور بسر ہوگی تمہاری۔ پینو نے میری اماں کی خدمتیں کرکے ، تمہارے کان بھر کر تمہیں اپنے بھائی کے پلے بندھوا کر میدان صاف کر لیا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ چھوڑ دے ساری دنیا کسی گلابو کے لیے یہ مناسب ہے فیضو کے لیے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں پینو کی بات مان تو لوں مگر پھر

تیرا کیا ہوگا کسی اور کی گلابو؟


زبردست فیضو ۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے خوب سوچ سمجھ کر لکھا ہے ۔۔ جب ہی اتنے سارے دن لگا دئیے جواب لکھنے میں ۔۔۔۔۔۔ :wink: :p
گلابو پھر آ رہی ہو میدان میں واپس۔۔۔۔؟؟؟ :p
 

سارہ خان

محفلین
بنام صدر پاکستان

حجاب نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
راہبر نے کہا:
صدر پاکستان
جنرل پرویز مشرف صاحب
عالی جناب!
سلام کے بعد عرض ہے کہ میں آپ کے شہر کراچی کا ایک چھوٹا سا، اچھا سا بچہ ہوں۔ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔۔۔ (آپ کو ائیرکنڈیشنر سے بھی زیادہ ہوا دیتا ہوں، محسوس ہوتی ہے میرے فین کی ہوا؟)۔۔۔ انکل! مجھے آپ کے کام بھی بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ (جب آپ ان کا خمیازہ بھگتیں گے تو مجھے اور بھی اچھا لگے گا۔۔۔) لیکن چچا پرویز! مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اپنی آستین میں سانپ پالے ہوئے ہیں (حالآنکہ ان کو پالنے کے لیے آپ کا گھر بھی کافی بڑا ہے، آپ کو ڈستے نہیں ہیں یہ سانپ؟) پتا ہے انکل! یہ آپ کے، کے۔ای۔ایس۔سی والے بہت گندے ہیں۔ جب یہ آپ کو ملیں نا، تو آپ ان کو بہت سارے جوتے ماریئے گا۔۔۔ مجھے بہت تنگ کرتے ہیں۔۔۔ گرمی سے برا حال ہوجاتا ہے۔ یہ خط لکھتے ہوئے بھی دو بار بجلی لے کر گئے۔۔۔ اس لئے خط لکھنے میں بھی دیر ہوگئی۔ پاپا کہتے ہیں کہ یہ سب حرام کھانے والے ہیں۔۔۔ حرام کیا ہوتا ہے؟ میں نے تو آج تک دیکھا بھی نہیں، بہت مزے کی چیز ہوتی ہے؟ آپ نے تو کھایا ہوگا؟؟؟ انکل! کل میرے گھر والے آپ کے خلاف احتجاج کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ ان کے تین پوسٹرز میں نے چرا لئے ہیں۔ وہ بھی خط کے ساتھ آپ کو بھیج رہا ہوں۔۔۔ پلیز پلیز پلیزززززززز ہماری مشکل حل کردیں۔
فقط
ایک پیارا سا، چھوٹا سا بچہ۔۔۔


ehtejaaj01nm8.gif


ehtejaaj02fl1.gif


ehtejaaj03ga1.gif

ننھے منے میاں راہبر
آپ کا یہ خط آپ کے انکل صدر صاحب کے چمچوں نے ان تک پہنچائے بغیر ہی یہ کہہ کر واپس کر دیا ہے کہ ہمارے صدر کو آجکل صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔۔ اور ان چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ عوام کی اس ہی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ہی تو صدر صاحب کے ای ایس سی اور دیگر ادارے انٹرنیشنل کمپنیوں کو بیچ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں ۔۔۔اس لئے اب اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ہمارے پریشان صدر کو مزید پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
ننھے میاں میرا خیال ہے کہ آپ اپنا یہ معصوم سا احتجاج کے ای ایس سی کے نئے مالکان کے خلاف کریں ۔۔ کیا پتا کہ آپ کا ننھا دل رکھنے کے لئے وہ اپنے ہی ملک کی بجلی سے ہی کچھ خیرات کر دیں ۔۔ کہ یہاں تو ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا ۔۔
آپ کی طرح ہی بجلی کا ستایا ہوا
آپ کے غم میں برابر کا شریک
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل

بہت خوب سارہ :)

شکریہ۔۔۔ :)
 

ماوراء

محفلین
بنام صدر پاکستان

سارہ خان نے کہا:
ننھے منے میاں راہبر
آپ کا یہ خط آپ کے انکل صدر صاحب کے چمچوں نے ان تک پہنچائے بغیر ہی یہ کہہ کر واپس کر دیا ہے کہ ہمارے صدر کو آجکل صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔۔ اور ان چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ عوام کی اس ہی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ہی تو صدر صاحب کے ای ایس سی اور دیگر ادارے انٹرنیشنل کمپنیوں کو بیچ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں ۔۔۔اس لئے اب اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ہمارے پریشان صدر کو مزید پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
ننھے میاں میرا خیال ہے کہ آپ اپنا یہ معصوم سا احتجاج کے ای ایس سی کے نئے مالکان کے خلاف کریں ۔۔ کیا پتا کہ آپ کا ننھا دل رکھنے کے لئے وہ اپنے ہی ملک کی بجلی سے ہی کچھ خیرات کر دیں ۔۔ کہ یہاں تو ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا ۔۔
آپ کی طرح ہی بجلی کا ستایا ہوا
آپ کے غم میں برابر کا شریک
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل
اچھا لکھا ہے سارہ۔ :D
 

سارہ خان

محفلین
بنام صدر پاکستان

ماوراء نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
:D

ننھے منے میاں راہبر
آپ کا یہ خط آپ کے انکل صدر صاحب کے چمچوں نے ان تک پہنچائے بغیر ہی یہ کہہ کر واپس کر دیا ہے کہ ہمارے صدر کو آجکل صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔۔ اور ان چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ عوام کی اس ہی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ہی تو صدر صاحب کے ای ایس سی اور دیگر ادارے انٹرنیشنل کمپنیوں کو بیچ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں ۔۔۔اس لئے اب اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ہمارے پریشان صدر کو مزید پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
ننھے میاں میرا خیال ہے کہ آپ اپنا یہ معصوم سا احتجاج کے ای ایس سی کے نئے مالکان کے خلاف کریں ۔۔ کیا پتا کہ آپ کا ننھا دل رکھنے کے لئے وہ اپنے ہی ملک کی بجلی سے ہی کچھ خیرات کر دیں ۔۔ کہ یہاں تو ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا ۔۔
آپ کی طرح ہی بجلی کا ستایا ہوا
آپ کے غم میں برابر کا شریک
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل
اچھا لکھا ہے سارہ۔
شکریہ ۔۔۔ لیکن یہ شتونگڑہ خط میں کہاں سے آ گیا ۔۔ یہ تو نہیں لگایا تھا میں نے ۔۔۔ :roll: :)
 

ماوراء

محفلین
بنام صدر پاکستان

سارہ خان نے کہا:
ماوراء نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
ننھے منے میاں راہبر
آپ کا یہ خط آپ کے انکل صدر صاحب کے چمچوں نے ان تک پہنچائے بغیر ہی یہ کہہ کر واپس کر دیا ہے کہ ہمارے صدر کو آجکل صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔۔ اور ان چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ عوام کی اس ہی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ہی تو صدر صاحب کے ای ایس سی اور دیگر ادارے انٹرنیشنل کمپنیوں کو بیچ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں ۔۔۔اس لئے اب اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ہمارے پریشان صدر کو مزید پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
ننھے میاں میرا خیال ہے کہ آپ اپنا یہ معصوم سا احتجاج کے ای ایس سی کے نئے مالکان کے خلاف کریں ۔۔ کیا پتا کہ آپ کا ننھا دل رکھنے کے لئے وہ اپنے ہی ملک کی بجلی سے ہی کچھ خیرات کر دیں ۔۔ کہ یہاں تو ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا ۔۔
آپ کی طرح ہی بجلی کا ستایا ہوا
آپ کے غم میں برابر کا شریک
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل
اچھا لکھا ہے سارہ۔ :D
شکریہ ۔۔۔ لیکن یہ شتونگڑہ خط میں کہاں سے آ گیا ۔۔ یہ تو نہیں لگایا تھا میں نے ۔۔۔ :roll: :)
وہ میرا غلطی سے اوپر چلا گیا تھا۔ اب ٹھیک کر دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عمار بھائی آپ گھبرانا نہیں، کوئی اور طریقہ ڈھونڈتے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں احتجاج جاری ہی رکھنا پڑے گا۔
 
بنام پوسٹ ماسٹر صاحب

سارہ خان نے کہا:
ننھے منے میاں راہبر
آپ کا یہ خط آپ کے انکل صدر صاحب کے چمچوں نے ان تک پہنچائے بغیر ہی یہ کہہ کر واپس کر دیا ہے کہ ہمارے صدر کو آجکل صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے ۔۔ اور ان چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ عوام کی اس ہی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ہی تو صدر صاحب کے ای ایس سی اور دیگر ادارے انٹرنیشنل کمپنیوں کو بیچ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں ۔۔۔اس لئے اب اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ہمارے پریشان صدر کو مزید پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
ننھے میاں میرا خیال ہے کہ آپ اپنا یہ معصوم سا احتجاج کے ای ایس سی کے نئے مالکان کے خلاف کریں ۔۔ کیا پتا کہ آپ کا ننھا دل رکھنے کے لئے وہ اپنے ہی ملک کی بجلی سے ہی کچھ خیرات کر دیں ۔۔ کہ یہاں تو ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا ۔۔
آپ کی طرح ہی بجلی کا ستایا ہوا
آپ کے غم میں برابر کا شریک
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل
بخدمت جناب پوسٹ ماسٹر صاحب!
ڈاکخانہ، اردو محفل۔
یہ خط اس چھوٹے سے بچے کے بڑے سے بھائی کی طرف سے ہے۔ بیچارے ‌ نے اتنی مشکل سے خط لکھا اور آپ سے اتنا نہ ہوسکا کہ اس چھوٹے سے بچے کی خواہش پوری کرنے کے لئے وہ خط کسی طرح صدر صاحب تک پہنچا دیتے۔ آپ کو صدر صاحب کے چمچوں نے ٹوپی کرادی۔ صدر صاحب کو جو پریشانی ہے، وہ انہی چمچوں کی تو لائی ہوئی ہے۔ اب وہ چھوٹا سا بچہ ناراض ہوا بیٹھا ہے، انکل پرویز سے نہیں بلکہ آپ سے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ اس کا کام نہیں کرسکے۔ اگر آپ جیکی چن کی فلمیں دیکھتے ہوتے تو بندروں کی طرح پھدکتے، چھلانگیں لگاتے، کسی نہ کسی طرح آپ صدر صاحب کے پاس تک پہنچ جاتے لیکن آپ نے اپنے کاہلی دکھائی۔۔۔۔ اللہ آپ کو سمجھے :wink:
آج کل کے ڈاکیے بہت سست اور کاہل ہوگئے ہیں۔ بہانہ ڈھونڈتے ہیں فرار کا۔ پتا نہیں یہ خط صدر صاحب کے چمچوں نے واپس کیا یا یوں ہوا کہ آپ خط دینے جارہے تھے تو رستے میں آپ کو کوئی ماہتاب چہرہ نظر آگیا اور آپ اپنی راہ بھول کر اس کے پیچھے ہولئے یہاں تک کہ وقت بیت گیا اور آپ یہ ٹوپی چمچوں کے سر رکھ اپنے گھر کو چل پڑے۔
کے۔ای۔ایس۔سی والوں کو خط لکھنے کا مشورہ دینے سے بہتر ہے کہ آپ خود ہی انہیں خط لکھ ڈالیں کیونکہ انکل پرویز کے نام خط میں تو پھر کچھ ادب و احترام جیسے تیسے ملحوظ خاطر رہ گیا تھا۔ اگر کے۔ای۔ایس۔سی کو خط لکھا تو وہ ملغظات تحریر میں آئیں گی کہ سارا خط سنسر کرنا پڑے گا۔۔۔
والسلام
چھوٹے سے بچے کا بڑا سا بھائی
 

سارہ خان

محفلین
جناب بڑے بھیا صاحب ۔۔
لگتا ہے گرمی نے آپ کے دماغ پر کافی اثر ڈالا ہے جو آپ ایک معزز اور با وقار عہدے پر فائز پوسٹ ماسٹر کو ایک ڈاکیہ سمجھ کر خط لکھ رہے ہیں ۔ :roll: ۔اور بجلی کا غصہ خوامخواہ توپوں کا رخ ہماری طرف کر کے اتار رہے ہیں ۔۔۔۔ میرے معصوم سے ڈاکیے کی مخلصی اور بہادری پر کیا شک ہے آپ کو جو اسے جیکی چن کی فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔۔ آپ کا جیکی چن اس سڑی گرمی میں ہمارے میرو(ڈاکیے) کی طرح سارا دن سائیکل پر در در بھٹکتا پھرے تو اپنی ساری بہادری بھول جائے ۔۔ یہ میرو کا ہی دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے گن پوائنٹ پر بیچارے کو ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔ اور وہ بیچارہ جان بچی سو لاکھوں پائے کا شکرانہ پڑھتا ہوا واپس آیا ۔۔۔ بجائے اس کے کہ آپ اس کی بہادری کو خراج تحسین پیش کریں ۔۔ الٹا اس کے کردار پر شک کر رہے ہیں اس کو بھلا کیا ضرورت ہے رستے میں کسی ماہتاب آفتاب کے پیچھے پڑنے کی ۔۔۔ کتنے ہی چنسے آفتاب چندے ماہتاب چہرے تو روز کسی کے خطوط کے انتظار کے بہانے نظریں بچھائے اس کی راہ تک رہے ہوتے ہیں اپنے دروازوں پر۔۔۔۔ :wink: :p
جناب بڑے بھیا جب آپ خود ہی اپنے ننھے بھائی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تو دوسروں سے بھلا کیا امید کرتے ہیں ۔۔۔۔ مجھے کیا ضرورت ہے اس سڑی گرمی میں کے ای ایس سی والوں کو خط لکھ کر اپنا خون مزید خشک کروں ۔۔۔ویسے بھی میں نے تو ڈاکخانے کے لئے آئے ہوئے سرکاری فنڈ سے بڑا سا یو پی ایس لگوا کر اپنے غم کا کچھ نہ کچھ مداوا کر لیا ہے ۔۔ اب آپ جانیں اور آپ کا بھائی ۔۔۔۔
آپ کا اللہ ہی حافظ ۔۔۔ :wink:
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل۔۔۔
 

فہیم

لائبریرین
سارہ خان نے کہا:
جناب بڑے بھیا صاحب ۔۔
لگتا ہے گرمی نے آپ کے دماغ پر کافی اثر ڈالا ہے جو آپ ایک معزز اور با وقار عہدے پر فائز پوسٹ ماسٹر کو ایک ڈاکیہ سمجھ کر خط لکھ رہے ہیں ۔ :roll: ۔اور بجلی کا غصہ خوامخواہ توپوں کا رخ ہماری طرف کر کے اتار رہے ہیں ۔۔۔۔ میرے معصوم سے ڈاکیے کی مخلصی اور بہادری پر کیا شک ہے آپ کو جو اسے جیکی چن کی فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔۔ آپ کا جیکی چن اس سڑی گرمی میں ہمارے میرو(ڈاکیے) کی طرح سارا دن سائیکل پر در در بھٹکتا پھرے تو اپنی ساری بہادری بھول جائے ۔۔ یہ میرو کا ہی دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے گن پوائنٹ پر بیچارے کو ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔ اور وہ بیچارہ جان بچی سو لاکھوں پائے کا شکرانہ پڑھتا ہوا واپس آیا ۔۔۔ بجائے اس کے کہ آپ اس کی بہادری کو خراج تحسین پیش کریں ۔۔ الٹا اس کے کردار پر شک کر رہے ہیں اس کو بھلا کیا ضرورت ہے رستے میں کسی ماہتاب آفتاب کے پیچھے پڑنے کی ۔۔۔ کتنے ہی چنسے آفتاب چندے ماہتاب چہرے تو روز کسی کے خطوط کے انتظار کے بہانے نظریں بچھائے اس کی راہ تک رہے ہوتے ہیں اپنے دروازوں پر۔۔۔۔ :wink: :p
جناب بڑے بھیا جب آپ خود ہی اپنے ننھے بھائی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تو دوسروں سے بھلا کیا امید کرتے ہیں ۔۔۔۔ مجھے کیا ضرورت ہے اس سڑی گرمی میں کے ای ایس سی والوں کو خط لکھ کر اپنا خون مزید خشک کروں ۔۔۔ویسے بھی میں نے تو ڈاکخانے کے لئے آئے ہوئے سرکاری فنڈ سے بڑا سا یو پی ایس لگوا کر اپنے غم کا کچھ نہ کچھ مداوا کر لیا ہے ۔۔ اب آپ جانیں اور آپ کا بھائی ۔۔۔۔
آپ کا اللہ ہی حافظ ۔۔۔ :wink:
پوسٹ ماسٹر
ڈاکخانہ اردو محفل۔۔۔

ہمممممممممم
بہت خوب :)
 
بنام پوسٹ ماسٹر۔

جناب پوسٹ ماسٹر صاحب!
بعد از سلام مسنون، جناب کا والا نامہ شرف قبولیت سے سرفراز ہوا۔ مابدولت نے پسند کیا اور آپ کے آخری جملے کو ایک قابل قبول تجویز سمجھتے ہوئے بندہ ناچیز نے یو۔پی۔ایس کا استعمال کرنا لازم خیال کیا اور کے۔ای۔ایس۔سی کے نئی انتظامیہ کو دل نامراد میں ہزار مغلظات بکتے ہوئے اپنے دفتر کے پنکھے کی تار کو یو۔پی۔ایس کے ساتھ منسلک کرکے ٹھنڈے ماحول میں یہ جوابی خط لکھنا پسند کیا۔ خدا غرق کرے ان بے حیاؤں کو جو پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے بجلی غائب کیے بیٹھے تھے۔ شاید ابھی ہماری اتنی جھاڑ پلانے پر تھوڑی سی شرم نصیب ہوئی تو بھاگم بھاگ بجلی عنایت کی۔
آپ کے میرو پر تو ہمیں آج سے نہیں، کافی عرصہ سے شبہ ہے۔ تین مہینے کی ڈاک مسلسل غائب ہورہی ہے۔ اللہ جانے بے چارے میرو کا قصور ہے یا میرو سے اونچے درجے والوں کا۔۔۔ خدا آپ لوگوں کو بھی ہدایت کرے۔۔۔
ویسے اپنے میرو پر بھی ذرا رحم کھائیں۔ خود یو۔پی۔ایس کی بدولت آرام کررہے ہیں تو اس کو کم سے کم دس روپے کی برف دلادیں تاکہ راستے بھر بدن پر ملتا رہے اور ڈاک بحفاظت پہنچادیا کرے۔۔۔ (کاہلی، سستی کئے بنا۔۔۔۔۔)
اور یہ جملہ آپ نے خوب لکھا کہ:
یہ میرو کا ہی دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے گن پوائنٹ پر بیچارے کو ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔
اس جملہ میں جناب والا نے لفظ “خطرناک“ کا استعمال اس کھلے دل سے کیا کہ مزا آگیا۔ یہ بے دریغ استعمال اگر تھوڑا سا مزید بڑھتا تو یہ جملہ کافی خطرناک ہوجاتا جیسا کہ۔۔۔۔
یہ خطرناک میرو کا ہی خطرناک دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط “خ خ خ خ۔۔۔۔۔ (لکھ دوں؟؟؟)“ صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے خطرناک گن پوائنٹ پر بیچارے کو خطرناک ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خطرناک خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔
آخر میں بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ (شکریہ پتا نہیں کس چیز کا، رسمی ہی سمجھ لیں۔۔۔)
اور ذرا احتجاج کرنا سیکھیں۔۔۔ اس سہل پسندی نے ہی ہمارے حکمرانوں کو اس طرح کے خطرناک کام کرنے پر دلیر کیا ہے۔
والسلام
فقط
 

فہیم

لائبریرین
میں بڑی حیرت کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں
کے آج کے دن ابھی تک ایک مرتبہ بھی لائٹ نہیں گئی

اس لیے ان(بجلی والے) خطوط کا سلسسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے :)
 
fahim نے کہا:
میں بڑی حیرت کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں
کے آج کے دن ابھی تک ایک مرتبہ بھی لائٹ نہیں گئی

اس لیے ان(بجلی والے) خطوط کا سلسسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے :)
یار! یہ احتجاج ایک دن کی حرکت پر نہیں ہے۔۔۔ اگر کوئی مسلسل ایک ہفتہ تک غلط کام کرے اور صرف ایک دن رک جائے تو آپ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ باز آگیا۔۔۔ بلکہ “خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔“ :wink:
اور یہ بجلی آپ کی طرف بھلے نہ گئی ہو صبح سے لیکن میرے ہاں تو ابھی ڈیڑھ گھنٹے غائب رہ کر آئی ہے۔ آپ اتنا شریف نہ سمجھیں انتظامیہ کو۔۔۔ ابھی تو مہینوں رلائے گی یہ۔ ترقی کی طرف گامزن ہونے کے نتائج نظر تو آنے ہی ہیں۔۔۔
 

فہیم

لائبریرین
راہبر نے کہا:
fahim نے کہا:
میں بڑی حیرت کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں
کے آج کے دن ابھی تک ایک مرتبہ بھی لائٹ نہیں گئی

اس لیے ان(بجلی والے) خطوط کا سلسسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے :)
یار! یہ احتجاج ایک دن کی حرکت پر نہیں ہے۔۔۔ اگر کوئی مسلسل ایک ہفتہ تک غلط کام کرے اور صرف ایک دن رک جائے تو آپ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ باز آگیا۔۔۔ بلکہ “خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔“ :wink:
اور یہ بجلی آپ کی طرف بھلے نہ گئی ہو صبح سے لیکن میرے ہاں تو ابھی ڈیڑھ گھنٹے غائب رہ کر آئی ہے۔ آپ اتنا شریف نہ سمجھیں انتظامیہ کو۔۔۔ ابھی تو مہینوں رلائے گی یہ۔ ترقی کی طرف گامزن ہونے کے نتائج نظر تو آنے ہی ہیں۔۔۔

میں فلحال خاموش ہوں
 

سارہ خان

محفلین
بنام پوسٹ ماسٹر۔

راہبر نے کہا:
جناب پوسٹ ماسٹر صاحب!
بعد از سلام مسنون، جناب کا والا نامہ شرف قبولیت سے سرفراز ہوا۔ مابدولت نے پسند کیا اور آپ کے آخری جملے کو ایک قابل قبول تجویز سمجھتے ہوئے بندہ ناچیز نے یو۔پی۔ایس کا استعمال کرنا لازم خیال کیا اور کے۔ای۔ایس۔سی کے نئی انتظامیہ کو دل نامراد میں ہزار مغلظات بکتے ہوئے اپنے دفتر کے پنکھے کی تار کو یو۔پی۔ایس کے ساتھ منسلک کرکے ٹھنڈے ماحول میں یہ جوابی خط لکھنا پسند کیا۔ خدا غرق کرے ان بے حیاؤں کو جو پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے بجلی غائب کیے بیٹھے تھے۔ شاید ابھی ہماری اتنی جھاڑ پلانے پر تھوڑی سی شرم نصیب ہوئی تو بھاگم بھاگ بجلی عنایت کی۔
آپ کے میرو پر تو ہمیں آج سے نہیں، کافی عرصہ سے شبہ ہے۔ تین مہینے کی ڈاک مسلسل غائب ہورہی ہے۔ اللہ جانے بے چارے میرو کا قصور ہے یا میرو سے اونچے درجے والوں کا۔۔۔ خدا آپ لوگوں کو بھی ہدایت کرے۔۔۔
ویسے اپنے میرو پر بھی ذرا رحم کھائیں۔ خود یو۔پی۔ایس کی بدولت آرام کررہے ہیں تو اس کو کم سے کم دس روپے کی برف دلادیں تاکہ راستے بھر بدن پر ملتا رہے اور ڈاک بحفاظت پہنچادیا کرے۔۔۔ (کاہلی، سستی کئے بنا۔۔۔۔۔)
اور یہ جملہ آپ نے خوب لکھا کہ:
یہ میرو کا ہی دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے گن پوائنٹ پر بیچارے کو ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔
اس جملہ میں جناب والا نے لفظ “خطرناک“ کا استعمال اس کھلے دل سے کیا کہ مزا آگیا۔ یہ بے دریغ استعمال اگر تھوڑا سا مزید بڑھتا تو یہ جملہ کافی خطرناک ہوجاتا جیسا کہ۔۔۔۔
یہ خطرناک میرو کا ہی خطرناک دل گردہ تھا جو وہ آپ کا خطرناک خط “خ خ خ خ۔۔۔۔۔ (لکھ دوں؟؟؟)“ صدر صاحب کے ان خطرناک چمچوں تک لے گیا۔۔۔۔ جنہوں نے خطرناک گن پوائنٹ پر بیچارے کو خطرناک ڈرا دھمکا کر اور آئندہ اس طرح کے خطرناک خط پھر لانے پر خطرناک دھمکیاں دے کر چھوڑا ۔۔
آخر میں بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ (شکریہ پتا نہیں کس چیز کا، رسمی ہی سمجھ لیں۔۔۔)
اور ذرا احتجاج کرنا سیکھیں۔۔۔ اس سہل پسندی نے ہی ہمارے حکمرانوں کو اس طرح کے خطرناک کام کرنے پر دلیر کیا ہے۔
والسلام
فقط
شکریہ کہ شرف قبولیت بخش کر(اتنی باتیں سننے کے باوجود۔بھی۔۔ :wink:) آپ نے پسند فرمایا ۔۔۔ :)
یہ آپ کا بھی دل گردہ ہے کہ گرمی اور بجلی کی اتنی مہربانی کے باوجود یہ بڑے بڑے خط آپ کو سوجھ رہے ہیں ۔۔۔ :roll: :p ۔۔ میں تو بور ہو گئی اب ۔۔۔ :?
 
بنام پوسٹ ماسٹر۔

سارہ خان نے کہا:
یہ آپ کا بھی دل گردہ ہے کہ گرمی اور بجلی کی اتنی مہربانی کے باوجود یہ بڑے بڑے خط آپ کو سوجھ رہے ہیں ۔۔۔ :roll: :p ۔۔ میں تو بور ہو گئی اب ۔۔۔ :?
:haha:
چلیں، بس اب ختم کردیتے ہیں۔۔۔ میں تو بس جواب در جواب لکھے جارہا تھا۔۔۔۔۔:wink:
 
سارہ خان نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔

آداب
تمہارا خط ملا پڑھتے ہی خیال آیا تمہیں پھول ماروں گملے کے ساتھ
تم کبھی سچّے عاشق نہیں بن سکتے لکھا بھی تھا طبعیت ناساز ہے مگر تم خیریت بھی نہ پوچھ سکے اور گِلے شکوے کر کے سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا۔
اور تم خط پھینک کے یوں غائب نہ ہوا کرو جیسے گنجے کے سر سے بال ،بہت سے کام کروانے ہوتے ہیں، بال پر یاد آیا ذرا اپنی زلفیں کٹوا لو جوگی لگنے لگے ہو پیسے نہیں ہیں تو ادھار لے لو ، اور کچھ کام بھی کیا کرو میرے گھر کی رپورٹ لینے کے علاوہ ، تم میرے ابّا کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو اُن کی عمر کے تو نہیں لگتے کہ ابّا کے راز پتہ ہوں یا خزاب لگاتے ہو ، اب کی بار آؤ تو یاد سے اپنی بتیسی چیک کروانا منہ پر تو آج کل ڈینٹ پینٹ سے عمر چھپا لی جاتی ہے مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری عمر پر۔
کتنا افسوس کروں اُس بھیگی شام کا جب تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنی پرانی سائیکل کے پیڈل پر پاؤں مارتے ہوئے آفر کی تھی کہ بے جا سائیکل تے ، اور میں تمہارے ساتھ جی ٹی روڈ کی سیر کو چل پڑی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ترقی نہیں کرو گے اور سائیکل سے پیدل ہو جاؤ گے عقل سے پیدل تو تم پہلے ہی تھے مگر خیر اُمید کا دیا جلتا رکھو بجھ جائے تو پھر جلا لیا کرو ماچس ساتھ رکھا کرو ۔اور انار اور کلی سے دور رہتے ہو تو اُس میں بھی تمہارا قصور ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی تو کرو گے کیا پہلے اپنے کرتوت تو ٹھیک کر لو وہ تو میں ہوں جو برداشت کرتی ہوں تمہاری دل پھینک عادتوں کو ، میرے جیسا ہیرا مل نہیں سکتا کبھی تم کیا جانو میری قدر کسی جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ، وہ جو میری سہیلی ہے پینو اُس کے سامنے تمہارا ذکر کردوں تو شرمندہ کر دیتی ہے مجھے تمہارے قصّے سنا کر۔تمہارے ان قصّوں نے تو میری سُکھ دیاں نیندراں ہی اُڑا دی ہیں اور ایک تم ہو کہ تم سے خط تک نہیں پھینکا جاتا بابوں کی طرح بس چارپائی پر پڑے رہا کرو قاصد نہیں لگواؤں گی میں ہمت ہے تو خود کُنڈی بجا کے خط دے جایا کرو اور ٹماٹر خط کے ساتھ باندھنے کی بجائے کلو دو کلو ساتھ دے جایا کرو امّاں کو تاکہ ان ٹماٹروں کی چٹنیاں کھا کے کچھ تو اچھا سوچیں میرے گھر والے تمہارے لیئے، اچھا اب مجھے دیر ہو رہی ہے ذرا محلّے سے جاکے آج کی رپورٹ تو لوں جب تک تم چھت پر جاکے کبوتر بازی کے چکر میں تاک جھانک کر لو ۔
والسّلام ۔۔۔۔۔۔ گلابو ۔

وعلیکم آداب ،
خط ملتے ہی حسین خیال آیا نہ ، گملے کا خیال شاید تمہیں پھول کو سجا کر رکھنے کے لیے آیا ہوگا فکر نہ کرو صرف پھول ہی مارنا گملے بہت ہیں میرے پاس۔ اب سچا عاشق بننے کے لیے تم سے تربیت لینے پڑے گی کیا مجھے ، عشق کا کوئی مکتب کھولنے کا ارادہ تو نہیں ؟ ویسے تم نے سنا نہیں شاید کہ عشق آتا ہے آتے آتے اور عاشقوں کے ایک باریک بین تجزیہ نگار کہہ گئے ہیں

کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
اب مجنوں و فرہاد کے لیے کھولیں ہم اسکول کیا

ویسے تم نے عاشقوں کی کوئی فہرست بنا رکھی ہے کیا جس میں سچے ، جھوٹے ، کچے پکے عاشقوں کے زمرے بناتی رہتی ہو۔ میں تو تمہیں معصوم و سادہ سمجھ کر مائل ہو گیا اور تم نے عشق کو بھی جھوٹ سچ کے ترازو میں ناپنا شروع کر دیا ستم گر۔ طبعیت تمہاری ناساز تھی تو پیار سے بتاتی میں حال احوال میں ہی سارا خط لکھ ڈالتا مگر تم نے تو آہ و زاریوں کے ساتھ قیامت کا رونا شروع کر دیا ، لے کر بیٹھ گئی پھر سے اپنی اماں کے رونے اور دن میں تارے۔ میں جو ہفتہ بھر سے دل کے ارمانوں کو خط میں سمو کر تمہیں آنگن تک جان پر کھیل کر پہنچا کر گیا تھا تمہارا جواب پڑھ کر دل کلس کر رہ گیا ، کیا کیا نہ سوچا تھا دلِ خوش امید نے ،

میرے خط کے انتظار میں راہ تکتی ہوگی ، پہروں میرے خیال میں ڈوبی رہتی ہوگی ، رات کو کسی پل نیند نہ آتی ہوگی ، کروٹیں بدل بدل خود ہی تھک جاتی ہوگی۔ ہر صبح میرے خیال سے آنکھ کھلتی ہوگی ، ہر رات میرے ہی سپنے دیکھتی ہوگی ، ہر پہر مجھے ہی سوچتی ہوگی ، سکھیوں سے میری ہی باتیں کرتی ہوگی ، سوچ کر مجھے خود ہی شرما جاتی ہوگی ، گلابی آنچل دانتوں میں دبا کر میرے خیالوں میں کھو جایا کرتی ہوگی۔ پر تم نے سوچا تو گھر کو کاموں کا ،سودا سلف کا اور تحفوں کا ، کتنی خود غرض اور تحفہ پرست ہو تم۔

خط پھینک کر کیا تمہارے گھر کے سامنے برگد کا پیڑ بن کر کھڑا ہو جاتا ، تمہارے ابا کے ہاتھ لگ جاتا تو برگ و گل بھی جھڑ جاتے اور اب تک کے عشق کا ثمر بھی ملتا ، انتہائی میٹھا اور ڈھیر سارا۔

آئے ہائے لگتا ہے اماں اٹھ گئی ہیں ، خط یہیں ختم کر رہا ہوں ورنہ ان کے ہاتھ لگ گیا تو یہ نو عمر عاشق رہے گا نہ عشق (جھوٹ سچ کا تو سوال ہی کیا) فقط عشق کے آثار رہ جائیں گے۔

تمہارا اپنا
فیضو


ہرجائی فیضو ۔۔۔۔۔ جا جا میں تو سے نا ہی بولوں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو تم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھے سُنا ہے پنڈ گئے تھے مامے کے گھر، اور مجھے کہہ گئے تھے کام سے جا رہا ہوں وہ تو بھلا ہو پینو کا اُس کے چاچے کی ماسی تمھارے مامے کے پنڈ کی ہے ساری خبریں مل گئیں مجھے اُس سے ، سوچا تو پہلے یہی تھا کہ تم جو اتنی محنت سے مجھے خط لکھتے ہو تو اب کی بار آؤ گے خط لے کے تو گلاب کا پھول نہ سہی گوبھی کا ہی دے دوں گی تاکہ تمہاری امّاں بھی خوش ہو جائیں کہ بیٹا کچھ لایا تو ، اور یہ تم بہکی بہکی باتیں جو کرنے لگے ہو پنڈ سے واپسی پر سب جانتی ہوں میں یہ خیال میں ڈوبے رہنا سپنے دیکھنے کی باتیں گلابی آنچل کی باتیں ، ہائے افسوس کاش تم پنڈ نہ جاتے برگد کا پیڑ ہی بن جاتے چاہے برگ و گُل جھڑ جاتے محبوب گنجا ہو یہ تو میں گوارہ کر لیتی مگر تم کسی پینڈو ہیر کے رانجھے بن جاؤ یہ مجھے گوارہ نہیں ۔پنڈ میں مامے کی بیٹی سے منگنی کروا لی اور یہاں آکے مجھے پریم پتّر لکھ رہے ہو ، ساری خبریں ہیں مجھے اب محبت کے ڈرامے کی آخری قسط سمجھنا اس خط کو دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے تم بے وفائی کرکے بھی پٹتے پٹتے رہ گئے ( پنڈ میں جو تھے )
کہاں گئیں وہ محبتیں ، قول و قرار ، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں ، مجھے تو پہلے ہی تمہارے تیور ٹھیک نہیں لگتے تھے جب ہی تو تمہاری جاسوسی کرواتی تھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا بس خیال رکھنا رنگ بدلتے بدلتے پھیکا نہ پڑ جائے تمہارا کیونکہ پینڈو ہیر کو شوخ رنگ ہی بھاتے ہیں ۔
یہ آئے ہائے کرنے میں تو تمہارا جواب نہیں ، یہ آئے ہائے اب اُس وقت کرنا جب پینڈو بیوی چمٹا پھینک کر مارے گی چھپتے رہنا پھر امّاں کے پیچھے۔

اب تم ٹھکانے لگ ہی گئے ہو تو لگ پتہ جائے گا جلد ہی آٹے دال کا بھاؤ میری امّاں کے سودا سُلف لانے میں جان جاتی تھی تمہاری اب تم اُس پنساری کی دکان پر دن میں دس بار جاؤگے جس کی شکل تک تم نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی تب یاد کرنا مجھے
رات میں تارے گننے کی عادت تو تمہیں پہلے ہی ہے اب دن میں تارے دیکھا کرنا
ہرجائی فیضو مجھے تم سے یہ اُمید پہلے ہی سے تھی کہ تم جو انارکلی کے چکر لگاتے ہوئے بار بار کبھی اُس کے کبھی اِس کے ساتھ پکڑے جاتے ہو کبھی مجھ سے وفا نہیں کروگے اس لیئے میں نے امّاں کے کہنے پر منگنی کروا لی ہے
ہرجائی فیضو کوئی بھی ٹینشن مت لینا کیونکہ ویسے بھی اب تمہارا سامنا ہائی ٹینشن سے ہونے والا ہے جو تمہیں کسی بھی وقت دھماکے سے اُڑا سکتی ہے اُس وقت اگر میں تم کو یاد آؤں تو مجھے بالکل یاد نہ کرنا اور یہ سوچ کر سب کچھ برداشت کرنا کہ یہ سب تو زندگی کا حصّہ ہے یہ ہے ہماری محبت کا ڈراپ سین۔
اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو
تمہارے لیئے دعا گو
کسی اور کی گلابو
:wink:


بے وفا گلابو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے وفا ہی نکلی نہ

اب مجھ سے کاہے بولو اب بولنے کے لیے کوئی اور جو مل گیا تم کو اور گستاخ لڑکی تمہاری زبان کو کیا ہوا ، میری صحبت کا اثر اور لکھنوی زبان کا ذائقہ اتنی جلدی بدل لیا تم نے ۔ کس گنوار کے پلے پڑ گئی ہو تم ؟ اب تمہیں سارے جہان کے چاچے ، مامے اور ماسیاں یاد آنے لگی ہیں میرے جانے کے بعد اور سارا شہر مل کر میرے نکے پنڈ کی خبریں بھی دے رہا ہے تمہیں اور تم کسی ایف ایم ریڈیو کے ریسیور کی طرح ساری خبریں کیچ بھی کر رہی ہو اور بذریعہ خط نشر بھی ۔ گیا تو میں پنڈ ہی تھا جلدی میں مگر تمہارا خیال اپنے پسندیدہ جانور کے محاورے کی طرف ہی گیا حسب معمول ، کام سے گیا تھا ماموں کی فصلوں کی کٹائی کے لیے ۔ میں تو فصلوں کی کٹائی کے لیے گیا تھا کیا خبر تھی تم پیچھے سے میرا ہی پتا کاٹ دوگی ، وائے افسوس ترے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
پینو سمیت اپنے چاچے ، ماسی ، مامے اور جملہ خاندان کے اول درجے کی پھپھے کٹنی ہے اور اس کی ماسی تو ماسی پھاتاں کے نام سے بچپن سے ہی مشہور ہے ، حیرت ہے تم اتنی انجان اور معصوم ہو تو نہیں مگر اس معاملے میں کیسے ہوگئی۔ خط تمہیں محنت سے نہیں محبت سے لکھتا تھا مگر تمہارے حسابی کتابی ذہن نے میری محبت کو بھی محنت ہی سمجھا اور انعام میں گوبھی کا پھول ، کیا سوچ ہے تمہاری بالکل کسی ہندو بنئے جیسی ، گھر کے آنگن میں کھلے گوبھی کے پھول سے ہی کام چلانے کا سوچ لیا۔ ایک تیر سے کتنے شکار کرنے کا سوچا ہوا تھا تم نے ، گوبھی کے پھول سے مجھے بھی خوش کرنے کا ارادہ تھا اور میری اماں کو بھی ، گوبھی کا پھول نہ ہوا تمناؤں کا پھل ہو گیا جسے پا کر میں اور میرے گھر والے خوشی سے جھوم اٹھتے اور تمہارے وارے نیارے جاتے۔
محبت کی باتیں تمہیں ہمیشہ بہکی بہکی ہی لگیں ، کبھی محبت کی ہوتی تمہیں تو پتہ ہوتا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور محبت کی باتیں کیا ۔ میں ہی نادان تھا جو تمہاری اماں کے سودے سلف لا کر ہفتہ بھر کے کاموں کی فہرست سنتا اور سادہ لوحی کی انتہا تو دیکھو کہ تمہارے کہے کام کو بھی محبت کی ایک ادا سمجھتا مگر تمہیں کن سوئیاں لینے ، چغلیاں کھانے اور پینو کی زبانی محلے بھر کے قصے کہانیوں کی بارہ مصالحے کی چاٹ کے سوا اور کوئی کام کہاں تھا۔ بھول گئیں کیا وہ اصرار جو تمہیں اپنی تعریفیں سننے پر ہوا کرتا تھا اور میں کیسا سعادت مند تھا کہ آنکھیں بند کرکے تواتر سے سفید جھوٹ بولا کرتا تھا۔ تیل میں نچڑے تمہارے بالوں کی کسی ہوئی چٹیا کو میں زلفِ گرہ گیر کہا کرتا تھا ( کوئی حسن پرست شاعر سن لیتا تو مجھے زندہ دفن کر دیتا ) ، گھر بھر کی صفائی کے بعد گرد میں اٹی ہوتی تھی تم مگر میں چاند کو دیکھ کر تمہیں چاندنی کہا کرتا تھا جس کا کبھی تم نے بھولے سے بھی انکار نہیں کیا ، کبھی شرما کر بھی یہ نہیں کہا کہ اب ایسا بھی نہیں بلکہ حق سمجھ کر وصول کیا کرتی تھی ساری تعریفیں ڈھٹائی کے ساتھ ۔ اب سوچتا ہوں کہ محبت میں انسان کتنے جھوٹ بولتا ہے اور کتنے سنتا بھی ہے سچ سمجھ کر۔ خود تو تمہارے بال کبھی زلف کہلا نہ سکے میرے جھوٹ کے سوا ، اس لیے میرے بالوں کے پیچھے پڑی رہتی تھی کہ کٹوا دوں ، بالوں کی جگہ ان کی نشانی ہی رکھ ، اب خود ہی کہہ ڈالا کہ تمہیں محبوب گنجا گواراہ تھا یہ تو میں خوب جانتا تھا کہ تم کس محرومی کے زیر اثر یہ کہہ رہی ہو۔ خود نہیں رکھتی تو میرے بھی مٹانا چاہتی ہو خوبصورت بال

اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ

کہاں کی منگی اور کس مامے کی بیٹی سے ، دو ہی بیٹیاں ہیں اور دونوں خیر سے اپنے گھر کی ہو چکی ہیں۔ یہ خبریں ہیں تمہیں ، صاف کیوں نہیں کہتی کہ تمہارا اپنا دل بے ایمان تھا کب سے اور بے وفائی کے بہانے تلاش کر رہی تھی۔ میں گاؤں کیا سدھارا تم پیا گھر سدھار گئیں ، آنا فانا منگنی کرلی جیسے اس گھڑی نہ ہوئی تو پھر کبھی نہ ہوگی۔ ابھی تو عید پر میری دی ہوئی مہندی کا رنگ بھی نہیں اترا ہو گا کہ تم نے پھر سے اپنے ہاتھ رنگ لیے کسی اور کے نام سے۔ جس طرح اور جتنی جلدی تم نے خط کے ذریعے مجھے محبوب کے عہدے سے معزول کیا ہے اتنی جلدی تو ہمارے ہاں حکومت بھی نہیں بدلتی ۔ ستم بالائے ستم تم نے بغیر عبوری دور کا اعلان کیے اور جذبات کے سرد ہونے کا انتظار کیے بغیر محبوب بھی ڈھونڈ لیا اور منگنی بھی کر لی اس سے تمہاری وفا کی ساکھ سخت مجروح ہوئی (پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان تھا)، اتنی جلدی تو ہماری حکومت وزیر بھی نہیں بدلتی۔ فیکے نے کئی بار مجھے سمجھایا کہ گلابو کے تیور مجھے بدلے بدلے لگتے ہیں مگر میری آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی ، تمہیں وفا کی مورت سمجھتا رہا اور تمہارے دل کے چور کو نہ سمجھ سکا۔ باتیں مجھ سے اور دل میں کسی اور بسائے رکھا ، یہ کس طرح تو نے مجھے الجھائے رکھا۔

سانوں پتا تیرے دل وچ چور نی
گلاں ساڈے نال دل وچ کوئی ہور نی

جب تمہارا یہ پتر بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت بن کر مجھ تک پہنچا ، نہ پوچھ کیا میرے دل پر بیتی اور کس طرح شب ہجر بن کر عذاب گزری۔ تمام رات کبھی ایک فلم لگا کر گزاری کبھی دوسری ، ‘کچھ کچھ ہوتا ہے‘ پوری دیکھی مگر کچھ نہ ہوا پھر ‘کبھی کبھی ‘ لگا کر دیکھی مگر میرے دل میں کوئی خیال نہ آیا۔ کسی اور کے ساجن کی سہیلی دیکھی تو جا کر صبح نیند آئی۔ اگلے دن فیکے نے میرے غم کی رات کو دیکھتے ہوئے دوپہر چڑھتے ہی گانے لگا دیے

رہا گردشوں میں ہر دم میرے عشق کا ستارہ تو مستقل لگا دیا بڑی مشکل سے بدلوایا تو ظالم نے لگا دیا

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
تیرا وجود تو ہے بس اک داستاں کے لیے
پلٹ کر سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے


اس پر میں تڑپ کر اٹھا مگر میرے غصہ کرنے پر اس نے بدلا بھی تو کیا بدلا

میرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا
سنا ہے کہ تو بے وفا ہو گیا ہے

گزرے ہیں آج عشق میں اس امتحان سے
نفرت سے ہوگئی ہے محبت کے نام سے

غرض کونسا دکھی اور بے وفائی سے بھرا گانا تھا جو اس نے اس دن مجھے نہ سنایا ہو اور مجھے بھی یہ یقین دلا دیا کہ غرض پرست زمانے میں وفا ڈھونڈنے سے کیا حاصل ، یہ شے تو بنی ہے کسی دوسرے جہاں کے لیے۔ مجھے کب یہ گمان تھا کہ راہ وفا میں بہک جائیں گے تیرے قدم ، تم بھی ہو جاؤ گی کسی اور کے سنگ

تیری بے وفائیوں پر تیری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کر روئے کبھی منہ چھپا کر روئے

او بے وفا تیرا بھی یونہی ٹوٹ جائے دل تو بھی تڑپ تڑپ کر پکارے کہ ہائےےےےےےےے دل تیرا بھی سامنا ہو کبھی غم کی شام سے تو بھی واقف ہو رنج کے جام سے

میری دکھ اور ٹینشن کو چھوڑو تم تو خوش ہو نہ منگنی کروا کر۔ پینو کے بھائی نے تمہاری اماں کو کب سے بہلانا پھسلانا شروع کیا ہوا تھا اور اب تم بھی مان گئی ہو یہ سوچ کر اس کی اپنی کریانے کی دوکان ہے گھر کے سودے سلف گھر میں ہی مل جایا کریں گے۔تم نے کہا کہ مجھے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا تو وہ تو مجھے اب بھی معلوم ہے

آٹا ہے 110 روپے کلو
دال ماش 88, دال چنا 40 ، دال مسور 56، دال مونگ 56 اور سبزیوں کا بھاؤ بھی معلوم کرنا تو بلا جھجھک پوچھ لینا تمہارے کافی کام آئے گا عنقریب۔ ویسے تمہیں مارکیٹ سے بھی کہیں زیادہ کم بھاؤ کا جلد پتہ چل جائے گا جب روز تمہیں اتوار بازار یا منڈی سے یہ چیزیں منگوانا پڑیں گی۔ تم نے محاوروں میں سنا ہوگا لفظ کفایت شعاری، کنجوسی اب شادی کے بعد جب تمہارے نصیب پھوٹیں گے پینو شیخنی کے شیخ بھائی سے تو تمہیں لگ پتہ جائے گا۔ چیزیں گھر ضرور آیا کریں گی مگر تمہیں ملیں گی ترس ترس کر ، اس پر فضول خرچی کے طعنے الگ ہوا کریں گے پھر تمہیں قدر ہوگی میری اور میرے بغیر حساب لائے سودا سلف کی ، کوسوں گی اپنے کچے کانوں کو جو پینو کی باتوں میں آجاتے تھے۔ سانسیں بھی گن کر لینے کی اجازت ہوگی تمہیں باقی چیزوں کا حساب خود ہی لگا لینا۔ پینو ویسے تو تمہاری دوست ہے مگر اب نند بننے کے بعد اس کے رنگ ڈھنگ دیکھنا۔ اماں کے پاس اس کی دونوں بڑی بھابھیاں آ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑا کرتی ہیں ، پینو کی لگائی بجھائی اور گز بھر کی زبان کا رونا روتی ہیں۔ پینو خود بھی آ کر اماں کو فخر سے بتا کرتی ہے کہ وہ بھابھیوں کے مزاج ٹھکانے پر رکھنے کے لیے بھائیوں کے کان بھر کر آئے دن انہیں دو تین کرارے ہاتھ لگوا دیا کرتی ہے اور جس دن زیادہ جلی بیٹھی ہو تو خود بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کی چٹیا کھینچ کر عقل ٹھکانے پر لے آتی ہے۔

خدا تمہارے حال پر رحم کرے مگر جب تمہیں خود نہ اپنے آپ پر رحم آیا تو خدا کیسے کرے گا۔ تمہاری تمام تر بے وفائیوں کے باوجود دل تمہاری حالت کا سوچ سوچ کر لرزتا ہے ، چلو اگر ہمارے ستارے نہیں ملے تو تمہارے نصیب تو کھل جاتے کہیں ۔

ایک خبر تو سنائی ہی نہیں تمہیں ، دل تھام کر ، گرے گی قیامت بن کر تم پر مگر اب تو تم عادی ہو جاؤ کہ زندگی اب اسی طور بسر ہوگی تمہاری۔ پینو نے میری اماں کی خدمتیں کرکے ، تمہارے کان بھر کر تمہیں اپنے بھائی کے پلے بندھوا کر میدان صاف کر لیا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ چھوڑ دے ساری دنیا کسی گلابو کے لیے یہ مناسب ہے فیضو کے لیے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں پینو کی بات مان تو لوں مگر پھر

تیرا کیا ہوگا کسی اور کی گلابو؟


زبردست فیضو ۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے خوب سوچ سمجھ کر لکھا ہے ۔۔ جب ہی اتنے سارے دن لگا دئیے جواب لکھنے میں ۔۔۔۔۔۔ :wink: :p
گلابو پھر آ رہی ہو میدان میں واپس۔۔۔۔؟؟؟ :p

شکریہ سارہ ، ویسے شاید واحد تعریفی کلماتے ہیں میرے اب تک کے لکھے ہوئے خطوط پر :lol: پڑھ کر واقعی بڑا اچھا لگا کہ اتنا لمبا خط ایسے ہی نہیں چلا گیا۔ راز کی بات ہے کہ حجاب نے اس دفعہ واقعی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور جواب دینے میں وقت لگا اور دوسرا لڑائیوں والے خطوط پڑھ کرذہن اس طرف لگ گیا تھا۔

گلابو رہ تو نہیں سکے گی اتنا کچھ پڑھ کر :wink:
 
Top