خطیبوں کی بے احتیاطیاں

Gulmaily

محفلین

میرے پسندیدہ مضمون سےایک اقتباس

خطیبوں کی بے احتیاطیاں​

رمضان المبارک میں سرکاری دفتری اوقات سات سے ایک بجے تک تھے، ہمارے ہاں آٹھ سے دو۔ جمعے کے روز بارہ بجے۔ اس لئے ہمارے لئے اپنے علاقے کی مساجد میں جمعہ پڑھنا ممکن ہوگیا۔ جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں، اس میں جمعہ جلدی ہوجاتا ہے، اس لئے قاری صاحب کی مسجد میں جمعہ پڑھنا ممکن تھا۔ اس میں، سردی ہو یا گرمی، سارا سال ظہر اور جمعے کی نماز ڈیڑھ بجے ادا کی جاتی ہے۔
پہلا جمعہ آیا تو میں جمعہ نکل جانے کے خوف سے دفتر سے گھر نہیں گیا، سیدھا مسجد گیا کیونکہ پانچ منٹ ہی باقی تھے۔ جوتے موزے اتار کر وضو کیا تو ڈیڑھ بج رہے تھے لیکن خطیب صاحب کا بیان جاری تھا۔ اس کا سیدھا سا مطلب مزید دس منٹ تھا کہ سنتیں پڑھنے، دو اذانوں اور دو خطبوں اور اقامت میں کم سے کم اتنا وقت تو لگتا ہے۔ لیکن خطیب صاحب اپنے بیان سے مطمئن ہی نہیں ہو پارہے تھے، بس ایک کے بعد ایک بات ……

FB0P_Namaz_Prayer_Times_Indicator_LED_Displa-scaled.jpg
جمعہ کی نماز ٹھیک ڈیڑھ بجے ادا کی جائے گی​
نماز بیس منٹ دیر سے شروع ہوئی۔ اگلے جمعے پچیس منٹ کی تاخیر ہوئی، میں نے خطیب صاحب کو چپکے سے گھڑی دکھائی، وہ نجانے کیا سمجھے، انہوں نے فوراً ہی بلا تاخیر اپنے لیکچر کا رخ مسلمانوں کی بے حسی کی جانب موڑ دیا۔ تیسرے جمعے آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوئی، گویا فارمولہ جمع پانچ (پلس فائیو) کا تھا۔ میں نے پھر گھڑی دکھائی اور لوگوں سے بلند آواز میں نماز کا وقت پوچھا، کسی نے جواب دیا کہ نماز ڈیڑھ بجے ہوگی۔ (یعنی قاعدے کے مطابق اس جمعے تو نہیں ہوسکے گی کیونکہ وقت تو نکل چکا تھا) خطیب صاحب نے اس جراتِ رندانہ پر ایک اچٹتی ہوئی نظر مجھ گستاخ پر ڈالی اور یوں ہٹالی جیسے عموماً وہ کسی وہابی دیوبندی پر سے ہٹالیتے ہیں کہ یہ بھی کوئی دیکھنے کے لائق ہے۔ ادھر خطیب صاحب اور ادھر ہم کم نصیب صاحب، دونوں ہی بیک وقت کچھ نہ کچھ کہنے میں مصروف تھے۔
میں نے گھڑی کلائی سے اتار کر ہاتھ میں لی اور مولوی صاحب کی طرف اس کا رخ کرکے گھڑی کو ہوا میں بلند کیا۔ لیکن آپ کو ایک بات بتادوں کہ ہر مسجد میں نمازوں کے اوقات کی خوبصورت اور سیکنڈوں تک درستگی والی ڈیجیٹل گھڑیاں لگی ہوتی ہیں، اور وقت ہونے پر بیپ بھی دیتی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ گھڑیاں تو نمازی حضرات کیلئے ہوتی ہیں، خطیبوں کو تو دورانِ خطاب و خطبہ وہ نظر ہی نہیں آتیں کہ ان کی پشت کی طرف لگی ہوتی ہیں۔ خطیوں کا رخ سامعین کی جانب ہوتا ہے اور سامعین کا رخ گھڑیوں کی جانب۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ دونوں میں سے کون خوش نصیب ہے۔ اور بے چاری خوبصورت برقی گھڑیاں اس انتظار میں ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں کہ کبھی تو ان بے چاریوں کی بھی سنی جائے گی اور ان کے مطابق بھی نماز ادا کی جائے گی۔ کوئی تو خطیب شہزادہ ایسا بھی آئے گا جو ان کی جانب توجہ کرے گا اور ان کے برے دنوں کے دلدّر بھی دور ہوں گے۔
نماز کے بعد کمیٹی کے ارکان مسجد کے اکلوتے دروازے پر قابض ہوگئے کہ جونہی کوئی نمازی باہر نکلے، کشکول پھیلا کر اس سے چندہ اچک لیا جائے۔ ایک ایسے ہی رکنِ کمیٹی سے میں نے خطیب صاحب کے بارے میں کہا کہ برائے مہربانی ان کو پابند کیا جائے کہ نماز ٹھیک وقت پر کرایا کریں تو وہ صاحب مجھ پر ہی روزے کی گرمی اتارنے لگے کہ آپ نے چند اضافی منٹ (تیس منٹ) مسجد میں گزارے ہیں تو اللہ رسول کی یاد میں ہی تو وقت گزارا ہے، دین کی باتیں ہی آپ کو سننے کو ملی ہیں۔ میں نے ان صاحب سے صرف اتنا کہا کہ اگر واقعی دین ملتا تو قطعاً کوئی حرج نہیں تھا، لیکن تینوں جمعے مجھے بس چندے کے بیش بہا فضائل کا بیان ہی سننے کو ملا ہے۔ اگر چندے کو آپ دین کہتے ہیں تو آپ کی بات بالکل بجا ہے۔
چھٹی کی وجہ سے آخری جمعہ مجھے اپنی مسجد میں پڑھنے کا موقع ملا۔ مولوی صاحب نے وقت پر جمعہ کرادیا۔ میں ہمیشہ عید کی نماز، عید گاہ موجود ہونے کی وجہ سے، قاری صاحب کی مسجد میں ہی ادا کرتا ہوں۔ لیکن اس بار وہاں بھی نمازِ عید مسجد میں ہی ادا کی گئی۔ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا ہی سنت رسول ﷺ ہے۔ قاری صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز ہمیشہ عید گاہ میں ہی ادا کی تھی۔ خیر سے اب وہ قدیمی عید گاہ بھی مختلف قسم کی گاڑیوں کیلئے ایک بہترین پارکنگ نظر آرہی تھی۔ خطیب صاحب کی مہربانیوں کی وجہ سے مجھے پھر گھڑی دکھانے کا موقع ملا۔ پتا نہیں کیوں خطیبوں کو ایسا لگتا ہے کہ میں انہیں گھڑی کے بجائے آئینہ دکھا رہا ہوں۔​

دوسری بے احتیاطی​

بہرحال، عید کے روز خطیب صاحب فرمانے لگے کہ قرآنِ پاک میں چھے ہزار، چھے سو چھیاسٹھ (6666) آیات ہیں۔ اور اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں سات سو (<700) سے زائد بار نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ خطیبوں کی بدقسمتی سے یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں۔ آیاتِ قرآنیہ کی کل تعداد 6236 ہے۔ یعنی کل 430 آیات کا فرق۔ پتا نہیں وہ 430 آیات کہاں ہیں جن کا خطیب صاحب بڑے شد و مد سے ذکر فرما رہے تھے۔
میں خطیبوں کی ایسی غلطیوں کو عموماً نظر انداز کردیا کرتا ہوں جن کا تعلق محض خطیب حضرات کی یادداشت سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ایسی تھی کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ صرف بات ہی غلط نہ تھی بلکہ اس کا تعلق براہِ راست ذاتِ خداوندی سے جوڑا گیا تھا۔ تو آئیے، خطیب صاحب کی بات کو قرآنِ پاک سے دیکھتے ہیں:

نماز کے حکموں کی تعداد​

نماز، رکوع، قیام، سجدہ وغیرہ سب کو ہی اگر نماز کا حکم سمجھیں تو بھی ان کی کل تعداد صرف 94 ہی بنتی ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
  1. تین جگہوں پر صلو سے صیغۂ امر آیا ہے
  2. بیالیس (42) جگہوں پر نماز قائم کرنے کا حکم ہے
  3. قرآنِ پاک میں 33 جگہوں پر قیام (قوم سے صیغہ امر) کا حکم فرمایا گیا ہے۔
  4. چار جگہوں پر رکوع کا حکم ہے۔
  5. بارہ (12) مقامات پر سجدے کا حکم (سجد سے امر کا صیغہ) آیا ہے۔
یعنی ان سب کو اگر ہم یہ سمجھ کر جمع بھی کرلیں کہ یہ سب نماز ہی کیلئے حکم کا درجہ رکھتے ہیں تب بھی ان احکامات کی کل تعداد 94 بنتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ خطیب صاحب 700 کی تعداد کیسے پوری کریں گے۔ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ انہوں نے اس بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی ہوگی۔

خطیب اختصار سے کام لیں​

خطیبوں کو چاہیئے کہ خطابت میں اختصار کا دامن تھامے رہیں۔ آپ کی گفتگو کوئی انہونی نہیں کہ آپ کے سوا کہیں اور سے کسی سننے والے کو مل ہی نہیں سکتی۔ خود آپ لوگوں نے ہی اپنا سب کچھ انٹرنیٹ پر ڈالا ہے۔ یہ رسائی ہر ایک کو حاصل ہے۔ لوگوں کو دین سے بیزار مت کریں۔ دیئے ہوئے وقت میں ہر صورت میں اپنا بیان مکمل کریں۔ اور پہلے سے مشق کریں تاکہ لوگوں کو اپنے وقت کے ضائع ہونے یا چُر جانے کا احساس نہ ہو۔ مختصر بیان میں کم غلطیاں ہوتی ہیں۔

خطاب میں اپنی بچت کا پہلو سامنے رکھیں​

آپ کوئی فرشتہ نہیں، انسان اور ٖخطا کا پتلا ہیں۔ بھول چوک اور جذباتی اتار چڑھاؤ سے مبرا نہیں۔ جن باتوں کو آپ یقین کے ساتھ اور تازہ علم کے ساتھ نہیں کہہ سکتے انہیں منبرِرسول پر ہرگز بیان نہ کیا کریں۔ اور خاص طور سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے تو ایسی کم یقینی والی باتوں کو ہرگز منسوب مت کیا کریں۔ سبقتِ لسانی کی وجہ سے اگر ایسے کسی موڑ پر پہنچ بھی جائیں تو بھی عقلِ عامّہ (کامن سینس) استعمال کرتے ہوئے اپنی زبان سے ایسے جملے ادا کیا کریں کہ جن کی نسبت آپ اور آپ کی یاد داشت کی طرف ہوجائے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک ایسی بے سر و پا بات نہ جانے پائے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:​
  1. میرے خیال میں اس کی تعداد قرآنِ پاک میں ………
  2. سب سے زیادہ یہی حکم تو ہمیں دیا گیا ہے
  3. جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ………
  4. ہم نے تو آج تک یہی پڑھا ہے کہ ……
  5. وغیرہ وغیرہ

خلاصۂ کلام​

اس پوسٹ میں پیش کی گئی میری تمام معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ
  1. ہر صورت میں اپنا خطاب وقت پر ختم کریں۔
  2. نماز ہمیشہ طے شدہ وقت پر کرائیں، اور نماز کے اوقات کے بارے میں مسجد سے جھوٹ کی تشہیر بند کریں۔
  3. خطاب کو ختم کرنے کے مختلف طریقے سیکھیں۔
  4. لوگوں کی بیزاری کو ٹھیک سے بھانپنا سیکھیں۔
  5. صرف یقینی علم کو بیان کرنا سیکھیں۔
  6. تازہ علم (حالیہ تازہ شدہ: ایک یا دو دن) پر بیان کریں۔
  7. شک یا غیر یقینی والی باتوں کو اللہ رسول سے منسوب مت کریں۔
  8. اگر آپ کی کوئی بات غلط ہوجائے تو غلطی کا اقرار اور اصلاح کئے بنا آپ کو نیند یا چین نہ آئے۔
لمبے چوڑے خطابات کی وجہ سے نماز کو مؤخر کرنے والے خطیبوں سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس بات سے آپ کو ڈر نہیں لگتا جو حضرت عبد اللہ بن مسعود فرما گئے؟
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے رویات ہے کہ آپؓ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ آپ ایک ایسے وقت میں ہیں جب کہ خطیب بہت کم ہیں، اور علماء بہت سے ہیں، وہ نماز کو طول دیتے ہیں اور خطبہ مختصر کرتے ہیں، اور ایک وقت آئے گا جب خطیب تو بہت سے ہوں گے لیکن علماء بہت تھوڑے ہوں گے وہ اپنے خطبے کو طول دیں گے، اور نماز (جمعہ) میں تاخیر کریں گے۔
 
Top