کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
علم اور مذھبی مشاھدات (1)​


[align=justify:04fa974dbd]یہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے اور ترکیب کیا؟ کیا اس کی ساخت میں کوئی دوامی عنصر موجود ہے؟ ہمیں اس سے کیا تعلق ہے اور ہمارا اس میں کیا مقام ہے؟ باعتبار اس مقام کے ھمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے؟ یہ سوالات ہیں جو مذھب ، فلسفہ اور اعلٰیٰ شاعری میں مشترک ہیں۔ لیکن شاعرانہ واردات سے جو علم حاصل ہوتا ہے انفرادی ہوتا ہے یعنی اس شخص سے مختص جس پر یہ واردات طاری ہوں ۔ وہ تمثیلی ہوگا ، مبہم اور غیر قطعی ۔ البتہ مذھب کے مدارجِ عالیہ شاعری سے بلند تر ھیں۔ وہ فرد سے جماعت کی طرف بڑھتا اور حقیقتِ مطلقہ کے بارے میں ایک ایسی روش اختیار کرتا ہے جو حدودِ انسانی سے ٹکراتی اور اس کے دعاوٰی کو وسعت دیتی ہے ۔ وہ ھمیں توقع دلاتا ھے کہ ذاتِ مطلقہ کا بلا واسطہ لقا (2) ممکن ھے لہٰذا سوال پیدا ھوتا ہے کہ فلسفہ کے خالص عقلی منہاج کا اطلاق کیا مذھب پر بھی ہوسکتا ھے ؟ فلسفہ کی روح ھے آزادانہ تحقیق ۔ وہ ہر ایسی بات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ھے جس کی بنا ادّعا اور تحکّم پر ھو ۔ اس کا منصب یہ ھے کہ فکرِ انسانی نے جو مفروضات بلا جرح و تنقید قبول کر رکھے ھیں ان کے مخفی گوشوں کا سراغ لگائے ۔ معلوم نہیں اس جستجو کی انتہا کیا ھو ۔ انکار (3)یا اس امر کا صاف صاف اعتراف کہ عقلِ محض کی رسائی حقیقتِ مطلقہ تک ناممکن ھے ۔ بر عکس اس کے مذھب کا جوھر ھے ایمان [/align:04fa974dbd]

------------------------------------------------------------------------------------

1۔ یا ایک دوسرے لحاظ سے ' علم بالوحی' اور ' علم بالحواس' جیسا کہ حضرت علامہ نے ارشاد فرمایا ۔


2۔ برعایت لغت قرآنی ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top