خساروں بھری تجارت

سیما کرن

محفلین
ہاں دوست میرے میں زندہ ہوں
ہاں اپنا محلہ ویسا ہی ہے
وہ گھر جو چھوٹے چھوٹے تھے
وہ دل جو پہاڑوں جتنے تھے
دکان تھی جو اک چھوٹی سی
وہ اب بھی ہے موجود مگر
وہ بوڑھا چاچا بسکٹ پاپڑ
وہ گولی کھٹی میٹھی سی
سب رہ گئے ہیں ماضی میں
ہم بڑھ گئے کچھ آگے کو
اس چھوٹے سے کھوکھے پہ اب
ریچارج دڑادڑ بکتے ہیں
وہ گھر جس میں اک بیری تھی
اب شیش محل کہلاتا ہے
بس کچھ کچھ بدلا بدلا ہے
کچھ نیا نیا کچھ گدلا ہے۔
اب پتھر کے بدلے بچے
سیلفی کا شغل لگاتے ہیں
گڈے گڑیوں کو چھوڑ اپنی
شادی کا شغل لگاتے ہیں (دعا زھرا کیس)
پھر بارش ہو یا برف پڑے
کوئی پیدا ہو یا کوئی مرے
اب پوسٹ لگائی جاتی ہے
اور اسٹیٹس ڈالے جاتے ہیں
اور آج مٹھائی کے بدلے
ایموجی کھلائے جاتے ہیں
پہلے جو کسی کے غم دکھ میں
صرف ایک محلہ روتا تھا
اب ساری دنیا روتی ہے
رو رو کے دہای دیتی ہے
رو رو کے ایموجی کھاتے ہیں
رو رو کے ایموجی کھلاتے ہیں
وہ گلی کا کونہ ختم ہوا
جہاں روز سیاست ہوتی تھی
اب چھوٹے دل والے انسان
یہ!۔۔ بڑے مکان میں رہتے ہیں
اس محل کے پھر اک کونے میں
دنیا کی سیاست کرتے ہیں
اب رشتے ناطے دور ہوئے
تنہائی پر مجبور ہوئے
اک سکرین پیچھے قید ہوئے
اب خون کے رنگ سفید ہوئے
وہ سکھیاں اب بھی ملتی ہیں
فیسبک پر گپ لگاتیں ہیں
پر اک ہمسائے کے بدلے
انہیں دنیا چھپ کر دیکھتی ہے
اور خط و کتابت کے بدلے
اب میسیج میسیج ہوتا ہے
وہ عید پہ بکروں بیلوں کا
جو گھر گھر میلہ سجتا تھا
وہ اب بھی سجتا ہے لیکن
گلوبل محلوں کے کمروں میں
میں سر اٹھا کر کیا بولوں
خاموشی میں ہی راحت ہے
اب لوٹ کے تو کیا آئے گا
خساروں بھری تجارت ہے
ڈاکٹر سیما شفیع پاکستان
 
Top