باباجی
محفلین
خرد کی انتہا ہے اور میں ہوں
جنوں کی ابتدا ہے اور میں ہوں
عجب روٹھا ہوا ساتھی ملا ہے
دلِ بے مدعا ہے اور میں ہوں
کوئی لغزش نہ ہو جائے اچانک
ترا بندِ قبا ہے اور میں ہوں
زمانہ درمیاں سے ہٹ گیا ہے
جمال آشنا ہے اور میں ہوں
وہاں پہنچی ہے نوبت بے کسی کی
جہاں نامِ خدا ہے اور میں ہوں
کہیں جھولے پڑے ہیں اور وہ ہیں
کہیں محشر بپا ہے اور میں ہوں
"عدم" کشتی کے اندر دو خلل ہیں
سکوت نا خدا ہے اور میں ہوں