خرد عبث ہی پریشاں ہے آشیاں نہ ملا - غزل کامران غنی صباؔ

رمان غنی

محفلین
غزل
خرد عبث ہی پریشاں ہے آشیاں نہ ملا
ہم اہلِ جوش و جنوں خوش ہیں سائباں نہ ملا
سنا تھا نقشِ کفِ پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہِ عشق میں نشاں نہ ملا
ہماری فتح یقینی تھی معرکوں میں مگر
جلانے والا ہمیں کوئی کشتیاں،نہ ملا
میں سب کو بھول رہا تھا کہ کوئی یاد آئے
کہیں پہ چاند تو روشن تھا آسماں نہ ملا
مجھے تو اس کی محبت پہ رشک آتا ہے
تمام عمر جسے کوئی امتحاں نہ ملا
تجلیات کا محور صباؔ کا دل ٹھہرا
وہ کہہ رہے ہیں اسے کوئی آستاں نہ ملا
 
Top