خدا کے بینک میں

آج سے تقریباً 14سوسال قبل مدینہ میں ایک واقعہ ہوا ۔ اس واقعہ کو ’بالو ‘کا سال کہا جا تا ہے۔ وہاں قحط پڑگیاتھا ۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیاتھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کردیاتھا ۔اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی لوگ دانے دانے کے لئے محتاج ہو گئے تھے ۔
حضرت عثمان غنی بہت بڑے تاجر تھے ۔ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔اس دوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچاتو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی ۔ بچے بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا ۔
اس وفد نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا چاہیں گے؟ حضرت عثمان نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟
ا نھوںنے جواب دیا کہ ہم آپ کو دوگنا نفع دیں گے ۔یعنی ایک دینار کا مال دودینار میں خریدیں گے !حضرت عثمان نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے ۔حضرت عثمان کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا ۔ پھر بھی عثمان نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی عثمان نے یہی کہا کہ اتنا تومجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے!
یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے ۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان ہم اہل مدینہ کو خوب جانتے ہیں ،یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟
حضرت عثمان نے جواب دیا -- اللہ !
جو نفع تم مجھے دے رہے ہو ،میرے رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔حضرت عثمان کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی؛
”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے،وہ فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی“۔(البقرہ261)
حضرت عثمان کے پاس تاجروں کا جو وفد آیا تھا وہ درحقیقت شیطان کا وفد تھا ۔وہ عثمان کو آزمائش میں ڈالنے آیا تھا۔ وہ عثمان کے سامنے اسی طرح آیا تھا جس طرح وہ حضرت ابراہم کے سامنے آیا تھا جبکہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنے جا رہے تھے۔ شیطان حضرت عثمان کے سامنے دنیوی فائدے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا تھا تاکہ عثمان آخرت کے دائمی فائدہ سے محروم ہوجائیں ۔ لیکن چونکہ حضرت عثمان کا ایمان زندہ تھا اس لئے انھوں نے دنیوی فائدے پر آخرت کے فائدے کو ترجیح دی۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کے سامنے شیطانی وفد ہے جو انھیںاخروی نفع سے ہمیشہ کے لئے محروم کرنا چاہتا ہے ۔
حضرت عثمان کے ساتھ جو واقعہ گزرا،وہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا ۔اس قسم کے واقعات خدا کی اس زمین پر تقریباً تمام لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہتے ہیں۔
ایک آدمی یہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ کسی نیک کام میں لگا دے گا۔ لیکن فوراً ہی وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اسے سمجھا رہا ہے کہ اتنا مال تم خدا کی راہ میں برباد کر کے کیا پاﺅ گے ،کیوں نہ اسے کسی اور کام میں لگاتے ہو تاکہ یہ مال اور بڑھ جائے؟
شیطان انسان کے سامنے کبھی اس کی بیوی اور کبھی اس کے بچے کی شکل میں ا ور کبھی دوست اور احباب کی شکل میں اور کبھی ضرورت کی شکل میں آتا ہے اور اسے دنیوی فائدے بتانا شروع کردیتا ہے ۔وہ اسے سمجھا تا ہے کہ جو پیسہ تم غربا اور مساکین میں خرچ کرنا چاہتے ہو اگر اسے بینک میں رکھ دو تو کچھ سال بعدیہ مال دوگنا ہوجائے گا۔یا پھر کسی انڈسٹری میں لگا دو تو بھاری نفع پاﺅ گے ،وغیرہ۔
شیطان انسان کو یہاں تک بہکا تا ہے کہ وہ اپنا ارادہ بدل لیتا ہے اور جو پیسہ وہ اللہ کی انڈسٹری میں لگانے والا تھا اسے وہ دنیوی انڈسٹری میں لگا دیتا ہے۔وہ خدا کے وعدے کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ شیطان کے وعدہ کو اہمیت دیتا ہے ۔ وہ خدا کے بینک میں اپنا مال نہیں رکھتا۔ وہ دنیا کے بینک میں اپنا مال جمع کردیتا ہے، لیکن بہت جلد وہ وقت آتا ہے جب وہ مر کر آخرت کی دنیا میں پہنچتا ہے ۔یہاں اسے اپنی غربت اور مفلسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ سوچتا ہے کاش اس نے اپنی کمائی کا کچھ حصہ آخرت کے بینک میں بھی جمع کیا ہوتا۔کاش اس کے گھر والے اسے گمراہ Mislead ) (کر نے میں کامیاب نہ ہوئے ہوتے۔کاش وہ دنیا کے بجائے آخرت کے نفع کو ترجیح دیتا ۔کاش اس نے اپنی کمائی کا کچھ پیسہ خدا کے بینک میں رکھا ہوتا، جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے اور جہاں کو ئی مددگار بھی نہیں ہے ،اور جہاں اسے کسی سے قرض بھی نہیں مل سکتا۔وہاں انسان روئے گا اور دانت پیسے گا لیکن اس دن اس کا رونا اور دانت پیسنا کس کام کا ہوگا؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا۔اور نہ ہی اس کی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ میں اس کے عوض لیا جائے گا۔اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔( البقرہ 48 )
آدمی کو چاہئے کہ وہ تھوڑا پیسہ اپنے پاس رکھے اور باقی پیسہ آخرت کے بینک میں جمع کردے کہ بہر حال اسے وہیں رہنا ہے۔
حضرت عیسیٰ نے اسی بات کو اس طرح سمجھا یا تھا ”لوگوں تم اپنا مال زمین میں گاڑ کر مت رکھو کہ ایک دن کوئی اسے اٹھا لے جائے گا یا اس کی قیمت ختم ہوجائے گی ۔ سنو ، تم اپنا مال خدا کے پاس رکھو کہ وہاں اس کی قیمت ہمیشہ باقی رہے گی اور کوئی اسے چرا بھی نہیں سکے گا اور سنو،اگر تمہارا مال خدا کے پاس ہوگا تو تمہارا دل بھی وہیں لگا رہے گا “

مضمون بشکریہ
http://www.thesundayindian.com/ur/story/in-the-bank-of-god/640/
 

الشفاء

لائبریرین
واقرضواللہ قرضاً حسناً وما تقدمو لانفسکم من خیر تجدوہ عنداللہ ھو خیراً واعظم اجرا۔۔۔

جزاک اللہ شاہ جی۔۔۔
 
Top