قمر جلالوی خدا کی شان تجھے یوں مری فغاں سے گریز - قمر جلالوی

خدا کی شان تجھے یوں مری فغاں سے گریز
کہ جس طرح کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز

وہ چاہے سجدہ کیا ہو نہ دیر و کعبہ میں
مگر ہوا نہ کبھی تیرے آستاں سے گریز

دلِ شکستہ سے جا رہی ہے ان کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹوٹے ہوئے مکاں سے گریز

جہاں بھی چاہیں وہاں شوق سے شریک ہوں آپ
مگر حضور ذرا بزمِ دشمناں سے گریز

کچھ اس میں سازشِ بادِ خلاف تھی ورنہ
مرے ریاض کے تنکے اور آشیاں سے گریز

خطا معاف وہ دیوانگی کا عالم تھا
جسے حور سمجھتے ہیں آستاں سے گریز

خطا بہار میں کچھ باغباں کی ہو تو کہوں
مرے نصیب میں لکھا تھا گلستاں سے گریز

جہاں وہ چاہیں قمرؔ شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
قمر جلالوی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
شاید اشعار یُوں ہیں :

دِلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہوئے مکاں سے گریز
۔۔
خطا مُعاف ! وہ دیوانگی کا عالم تھا
جسےکہ حُور سمجھتے ہیں آستاں سے گریز


:)
 
شاید اشعار یُوں ہیں :

دِلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہوئے مکاں سے گریز
۔۔
خطا مُعاف ! وہ دیوانگی کا عالم تھا
جسےکہ حُور سمجھتے ہیں آستاں سے گریز


:)
بے حد شکریہ غلظی کی نشاندئی کی آپ نے محمد تابش صدیقی بھیا یہ تدوین کر دیجئے
 
Top