خدا کہاں ہے

عباد اللہ

محفلین
یہ کیسی افتاد آ پڑی ہے کہ میں نے جس سمت بھی نظر کی
تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں
مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے
جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے نہ جانے کتنی عظیم نسلوں، کئی زمانوں کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے
سو اب بجز صبر کوئی چارہ نہیں بچا ہے
اگر بچا ہے تو ایک کاسہ بچا ہوا ہے
اب ایسے آشوبِ کم نگاہی میں کون جانے خدا کہاں ہے
مگر وہ منظر کہ جس میں تقسیمِ مال و زر پر اسی کی چپ کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے
 
آخری تدوین:
پہلے کچھ ٹائیپوز:
میراث ہے بن چکا ہے کی جگہ "ہی" بن چکا ہے
اور سب خرامی کو "سبک خرامی" کردیجئے۔

اب کچھ تراکیب:
بھکاری " نظر پڑے ہیں" اور "آفرینش کی ابتدا" " نسلوں کو پاٹتے" ، پر دوبارہ غور کیجیے۔

"آشوبِ کم نگاہی" مذکر ہونا چاہیے جبکہ کم نگاہی مونث ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے کچھ ٹائیپوز:
میراث ہے بن چکا ہے کی جگہ "ہی" بن چکا ہے
اور سب خرامی کو "سبک خرامی" کردیجئے۔

اب کچھ تراکیب:
بھکاری " نظر پڑے ہیں" اور "آفرینش کی ابتدا" " نسلوں کو پاٹتے" ، پر دوبارہ غور کیجیے۔

"آشوبِ کم نگاہی" مذکر ہونا چاہیے جبکہ کم نگاہی مونث ہے۔
میراث بن چکا ہے‘ ہی کافی ہے، ہے کا اضافہ شاید ٹائپو تھا، ’ہی‘ تو بحر میں ہی نہیں آتا۔
نظر پڑے ہیں، نسلوں کو پاٹتے، اور آشوب کے بارے میں متفق ہوں، لیکن ’آفرینش کی ابتدا میں ‘ کوئی غلطی نہیں ہے۔
باقی نظم درست ہے۔
 
میں نے ایک نثری نظم لکھی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بچپن میں ہر طرف بے ایمانی، نا انصافی اور ظلم کو دیکھتا تھا تو سوچتا تھا خدا کہاں ہے لیکن پھر اپنے جوان ہونے کا مقصد سمجھ آیا۔سمجھ آیا کہ خدا نے مجھے بڑا کیوں کیا۔ خدا آسمان سے فرشتے کیوں نہیں بھیجتا تھا۔
 

عباد اللہ

محفلین
پہلے کچھ ٹائیپوز:
میراث ہے بن چکا ہے کی جگہ "ہی" بن چکا ہے
اور سب خرامی کو "سبک خرامی" کردیجئے۔

اب کچھ تراکیب:
بھکاری " نظر پڑے ہیں" اور "آفرینش کی ابتدا" " نسلوں کو پاٹتے" ، پر دوبارہ غور کیجیے۔

"آشوبِ کم نگاہی" مذکر ہونا چاہیے جبکہ کم نگاہی مونث ہے۔
شکریہ سر باقی سب ٹائیپوز تھے ایک نسلو کو پاٹنا رہ گیا ہے اس پر واقعی سوچنے کی ضرورت ہےآپ کیا اصلاح تجویز کرتے ہیں؟
 

عباد اللہ

محفلین
میں نے ایک نثری نظم لکھی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بچپن میں ہر طرف بے ایمانی، نا انصافی اور ظلم کو دیکھتا تھا تو سوچتا تھا خدا کہاں ہے لیکن پھر اپنے جوان ہونے کا مقصد سمجھ آیا۔سمجھ آیا کہ خدا نے مجھے بڑا کیوں کیا۔ خدا آسمان سے فرشتے کیوں نہیں بھیجتا تھا۔
اس نظم کو شریکِ محفل تو کیجئے بھیا
 

عباد اللہ

محفلین
میراث بن چکا ہے‘ ہی کافی ہے، ہے کا اضافہ شاید ٹائپو تھا، ’ہی‘ تو بحر میں ہی نہیں آتا۔
نظر پڑے ہیں، نسلوں کو پاٹتے، اور آشوب کے بارے میں متفق ہوں، لیکن ’آفرینش کی ابتدا میں ‘ کوئی غلطی نہیں ہے۔
باقی نظم درست ہے۔
شکریہ سر نسلوں کو پاٹنا غلطی ہے آپ اس کے متبادل کے طور پر کیا تجویز فرماتے ہیں
 
ملاحظہ فرمائیے ہماری صلاح


یہ کیسی افتاد آ پڑی ہے کہ میں نے جس سمت بھی نظر کی
تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں
مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے
جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے
نہ جانے کتنی عظیم نسلوں ، کئی زمانوں
کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے

سو اب بجز صبر کوئی چارہ نہیں بچا ہے
اگر بچا ہے تو ایک کاسہ بچا ہوا ہے
اب ایسے آشوبِ کم نگاہی میں کون جانے خدا کہاں ہے
مگر وہ منظر کہ جس میں تقسیمِ مال و زر پر اسی کی چپ کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے
 

عباد اللہ

محفلین
یہ کیسی افتاد آ پڑی ہے کہ میں نے جس سمت بھی نظر کی
تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں
مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے
جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے
نہ جانے کتنی عظیم نسلوں ، کئی زمانوں
کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے
سو اب بجز صبر کوئی چارہ نہیں بچا ہے
اگر بچا ہے تو ایک کاسہ بچا ہوا ہے
اب ایسے آشوبِ کم نگاہی میں کون جانے خدا کہاں ہے
مگر وہ منظر کہ جس میں تقسیمِ مال و زر پر اسی کی چپ کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے
بہت شکریہ سر
 

عباد اللہ

محفلین
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ابھی ایک دوست نے عروض ڈاٹ کام کے سہارے بتایا کہ اس نظم کے اوزان سلامت نہیں
میں نے تصدیق کی ہے ، واقعی عروض ڈاٹ کام اسے موزوں نہیں بتاتی اہلِ علم کچھ روشنی ڈالیں
محمد وارث سر
الف عین سر
مزمل شیخ بسمل سر
محمد اسامہ سَرسَری
محمد ریحان قریشی
محمد خلیل الرحمٰن سر
مجھے تو یہ نظم فعول فعلن وزن پر موزوں لگی ہے، فقط ایک جگہ کچھ احسا س ہوا ہےجسے سرخ کر رہا ہوں۔

جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے نہ جانے کتنی عظیم نسلوں، کئی زمانوں کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے

 

ابن رضا

لائبریرین
تصویر کے ایک رخ پر روشنی ڈالتی ہوئی بہت خوب نظم ہے.

چارہ ہونا یا چارہ نہ ہونا تو محاورا ہے البتہ چارہ بچنا یا چارہ نہ بچنا محاورا نہیں. آپ کی وہ سطر چارہ نہیں پر ہی مکمل ہے جبکہ بچا ہے اضافی ہے کہ اس کی شمولیت کے بغیر بھی بات مکمل ہے.
 

ابن رضا

لائبریرین
Top