خاموش ہوں میں لب پہ شکایت تو نہیں ہے

راحیل اصغر

محفلین
راحیل اصغر

خاموش ہوں میں لب پہ شکایت تو نہیں ہے
فریاد کروں میری یہ عادت تو نہیں ہے
جو موجِ َغم و درد اُٹھی ہے مرے دل میں
ہنگامہ تو بیشک ہے قیامت تو نہیں ہے
شاید مجھے مل جائے مرے درد کا درماں
امّید سہی چین کی حالت تو نہیں ہے
فرصت میں مجھے یاد بھی کر لیجیے اک دن
یہ عرض محبت کی علامت تو نہیں ہے
مل جائے َسرِ راہ کسی موڑ پہ کوئی
اک حادثہ بیشک ہے رفاقت تو نہیں ہے
آباد رہا دل میں وہی ایک راحیل
اب غیر کو آنے کی اجازت تو نہیں ہے
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
الف عین
اصلاح تو اساتذہ ہی کریں گے اپنی کچھ گذارشات پیش کر دیتا ہوں۔
خاموش ہوں میں لب پہ شکایت تو نہیں ہے
فریاد کروں یہ میری عادت تو نہیں ہے
دوسرا مصرعہ یوں کر لیجیے بحر میں آ جائے گا
فریاد کروں میری یہ عادت تو نہیں ہے

جو موجِ َغم و درد اُٹھی ہے میرے دل میں
ہنگامہ تو بیشک ہے قیامت تو نہیں ہے
پہلے مصرعے کو یوں کہیں
جو موجِ غم و درد اٹھی ہے مرے دل میں

شاید مجھے مل جائے میرے درد کا درماں
امّید سہی چین کی حالت تو نہیں ہے
پہلے مصرعے میں تبدیلی کردیں
شاید مجھے مل جائے مرے درد کا درماں

آباد رہا دل میں وہی ایک
اب غیر کو آنے کی اجازت تو نہیں ہے
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے
 

الف عین

لائبریرین
راحیل اصغر صاحب۔شکایت ،عادت ،قیانت ،حالت ، علامت ،رفاقت،اجازت --- یہ الفاظ ہم کافیہ نہیں ہیں ۔
قوافی درست ہیں ۔روی صرف ت ہے اور اس سے ماقبل کے سارے حروف متحرک اور زبر والے ہیں۔
فلسفی کے مشوروں سے راحیل اصغر نے اصل مراسلہ میں ہی ترمیم کر لی ہے وہ تو اقتباسات لینے کی وجہ سے مجھے معلوم ہو گیا کہ اصل صورت کیا تھی۔ جو در اصل صرف میرا، مرا وغیرہ کی غلطیاں ہی تھیں۔ باقی غزل تو درست ہے بس مقطع کا اول مصرع اب بھی بحر سے خارج ہے
 
Top